[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
بارہ سال کی ماں
[/vc_column_text][vc_column_text]
دنیا میں دو لوگ ہیں
ہندسے
اور
نظمیں
ہندسے
اور
نظمیں
آج گلی میں کچھ منٹ کے پھندے سے
جھولتی لاش کو تالیاں بجاتے دیکھا ہے
ایک طمانیت اتری ہے غلط جگہ پر
موبائل فون کے ٹاور پر چڑھ کر نوعِ انساں
اناالحق کے نعرے لگاتی ہے
تمام آوازیں ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں
وقت اپنے بچے کھا کر اتنا بڑا ہوا ہے
میرا عضوِ تناسل، میرا بچہ
وقت کو للکارتا ہے
جھولتی لاش کو تالیاں بجاتے دیکھا ہے
ایک طمانیت اتری ہے غلط جگہ پر
موبائل فون کے ٹاور پر چڑھ کر نوعِ انساں
اناالحق کے نعرے لگاتی ہے
تمام آوازیں ٹکرا کر واپس آجاتی ہیں
وقت اپنے بچے کھا کر اتنا بڑا ہوا ہے
میرا عضوِ تناسل، میرا بچہ
وقت کو للکارتا ہے
زمین چپٹی ہے
اس پر بسنے والے تمام ہنسنے والے چپٹے ہیں
خدا ایک بھوت ہے
اور جو ہے وہ بھوت بنگلہ ہے
جس میں تمام شخصی سچائیاں جھوٹی پرچھائیں پہن کر
چھپن چھپائی کھیل رہی ہیں
خدا بارہ سال کی لڑکی ہے
میں بھی بارہ سال کی لڑکی ہوں
میں نے مرد کا خون پیا ہے
میں نے اپنا باپ کھا کر خود کو جنا ہے
میں جاپانی جنسیات کی وحشت پر کھلتا ہوا پھول ہوں
میں ندامت ہوں زانیوں کی، حرامیوں کی
شرابیوں کی، دیواروں کی
اور ان دیواروں میں چنی ہوئی عورتوں کے تھوک کی گلابی خوشبو کی
میری روح میرے بدن سے چھوٹی ہے
میرا عیش گرتی عمارتوں کی چیخیں ہیں
میں نے چائنا کے خداؤں کی چڈھیوں میں دیکھا ہے
کالا دھواں، دھرتی ماں کا غصہ
اس پر بسنے والے تمام ہنسنے والے چپٹے ہیں
خدا ایک بھوت ہے
اور جو ہے وہ بھوت بنگلہ ہے
جس میں تمام شخصی سچائیاں جھوٹی پرچھائیں پہن کر
چھپن چھپائی کھیل رہی ہیں
خدا بارہ سال کی لڑکی ہے
میں بھی بارہ سال کی لڑکی ہوں
میں نے مرد کا خون پیا ہے
میں نے اپنا باپ کھا کر خود کو جنا ہے
میں جاپانی جنسیات کی وحشت پر کھلتا ہوا پھول ہوں
میں ندامت ہوں زانیوں کی، حرامیوں کی
شرابیوں کی، دیواروں کی
اور ان دیواروں میں چنی ہوئی عورتوں کے تھوک کی گلابی خوشبو کی
میری روح میرے بدن سے چھوٹی ہے
میرا عیش گرتی عمارتوں کی چیخیں ہیں
میں نے چائنا کے خداؤں کی چڈھیوں میں دیکھا ہے
کالا دھواں، دھرتی ماں کا غصہ
دنیا میں دو لوگ ہیں
ہندسے
اور
نظمیں
ہندسے
اور
نظمیں
خدا کرے میری پستان میں وہ کشادگی پیدا ہو
کہ میں ہر ایک نظم کو اپنے ابلتے جسم میں چھپا لوں
خدا کرے میرے ہاتھ فولاد کی چیخیں بن جائیں
میرے دانت جوہری دھماکوں سے پرورش پائیں
اور میں ایک ایک ہندسہ چبا کر تھوک دوں
میں ہندسوں کی بھوک جس سے بلکتی ہے نظموں کی چھوٹی روح
میں انکا گلا گھونٹ دوں
کاش میں ایسی ماں بن سکوں
جس نے کہکشاں پھٹنے سے جنم لیا ہو
جو کبھی ایک کو دو نہ ہونے دے
کہ میں ہر ایک نظم کو اپنے ابلتے جسم میں چھپا لوں
خدا کرے میرے ہاتھ فولاد کی چیخیں بن جائیں
میرے دانت جوہری دھماکوں سے پرورش پائیں
اور میں ایک ایک ہندسہ چبا کر تھوک دوں
میں ہندسوں کی بھوک جس سے بلکتی ہے نظموں کی چھوٹی روح
میں انکا گلا گھونٹ دوں
کاش میں ایسی ماں بن سکوں
جس نے کہکشاں پھٹنے سے جنم لیا ہو
جو کبھی ایک کو دو نہ ہونے دے
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]