بلوچستان کا کوئی بھی ضلع، تحصیل یا سب تحصیل حتیٰ کہ کوئی بھی گاؤں یا قصبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں ماضی قدیم کی یادگار یں اور مزاروں کے خستہ حال آثار نہ ملتے ہوں۔
بارکھان اب ژوب ڈویژن کا ایک ضلع ہے اور بلوچستان کا انتہائی مشرقی ضلع کہلاتا ہے۔ ضلع بارکھان کل تین ہزار چارسو گیارہ کلومیٹر رقبے پر محیط ہے جبکہ آبادی تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار ہے۔ بارکھان کے شمال میں موسیٰ خیل اورلورالائی، جنوب میں ضلع کوہلو اور ڈیر بگٹی، اور مشرق میں صوبہ پنجاب کا شہر ڈیرہ غازی خان ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت کھیتران بلوچ قبیلے پر مشتمل ہے۔ کھیتران قوم اپنی مخصوص بولی کھیترانی بولتے ہیں۔ ضلع بارکھان کا زیادہ تر علاقہ زرعی ہے اور ستر فیصد آبادی زراعت سے ہی منسلک ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش مالداری اور زراعت ہی ہے۔ ضلع بارکھان بارہ یونین کونسل اور ایک تحصیل پر مشتمل ہے۔ بارکھان تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ علاقہ کبھی وسطی ایشیا سے ہندوستان کو ملانے کا آسان ترین راستہ ہوا کرتا تھا۔ بارکھان بھی قدیم ثقافتی ورثے کا گہوارہ ہے، یہاں کے طول و عرض میں قدیم ٹیلوں، کاریزات، قبرستان اور دیگر آثار ابھی تک موجود ہیں۔

باروخان سے بارکھان تک

بعض روایات کے مطابق بارکھان کا نام ماضی میں باروخان تھا، اس کی توجیہہ یہ ہے کہ مغل دور میں یہ علاقہ سبی کے زیر اثر تھا۔ سبی کے مغل حکمرانوں کا نامزد باروزئی گورنر بارو خان اس علاقہ سے مالیہ وصول کیا کرتا تھا۔ بارو خان باروزئی کی ہی وجہ سے اس علاقے کا نام باروخان مشہور ہوا جو بعد ازاں بارکھان کہلانے لگا۔

موسم:

یہاں کی آب و ہوا خوشگوار ہے اور مئی جون کے گرم مہینوں میں جنوبی پنجاب سے لوگ گرمی سے تنگ آ کر ضلع بارکھا ن کا رخ کرتے ہیں یہاں مون سون کی بارشوں کا تناسب 514.6 ملی لیٹر ہے۔ یہاں گرمیوں میں درجہ حرارت کم اور سردیوں میں کبھی کبھار نقطہ انجماد تک جا پہنچتا ہے۔ سردیوں میں پہاڑوں پر اور یونین کونسل بغاو میں کبھی کبھار برف باری بھی ہو جاتی ہے۔ موسم سرما میں کوئٹہ کی طرف سے آنے والی سرد اور خشک ہوائیں ضلع بارکھان کی سردی میں اضافہ کرتی ہیں اور یہی ہوائیں خشک موسم سرما کا باعث بھی بنتی ہیں۔

بارکھان کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ

بارکھان تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے جو وسطی ایشیا سے ہندوسستان کو ملانے کا آسان اور سہل زمینی راستہ تھا۔
بلوچستان کو ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین "قدیم تہذیبوں کا امام” کہتے ہیں۔ بلاشبہ زمانہ قبل از تاریخ کے آثار کے حوالے سے خطہ بلوچستان اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہاں قدم قدم پر قدیم تہذیب کے آثار ملتے ہیں۔ مہر گڑھ کی قدیم ترین انسانی بستی بھی اسی خطہ زیبا کی امانت گراں ما یہ ہے جسے اولین زرعی انسانی تہذیب کا درجہ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں بلوچستان کا کوئی بھی ضلع، تحصیل یا سب تحصیل حتیٰ کہ کوئی بھی گاؤں یا قصبہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں ماضی قدیم کی یادگار یں اور مزاروں کے خستہ حال آثار نہ ملتے ہوں۔ بلاشبہ جس طرح بلوچستان معدنی دولت، جغرافیائی اہمیت، سیاسی تاریخ اور قومی ثقافت کے حوالے سے عالمی سطح پر انفرادیت کا حامل ہے اسی طرح قدیم تہذیبی ورثہ کے حوالے سے بھی کسی عجوبے سے کم نہیں۔ ضلع بارکھان میں بھی ٹیلوں اور آبادیوں کے آس پاس کاریزات، قبرستان، کتبے اور دیگر آثار پھیلے ہوئے ہیں۔ چونکہ اس اہم قومی اور ثقافتی ورثہ کی جانب سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی توجہ نہیں رہی اس لیے ان آثار میں سے اکثر یا تو دریافت نہیں کیے جا سکے یا پھر نوادر چور مافیا یعنی تہذیب کے چوروں یا تہذیبی دہشت گردوں کی زد میں آ چکا ہے۔ اس خطرناک مافیا کے ہاتھوں ان آثار کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور یہ قیمتی سرمایہ بس خاک کا ایک ڈھیر بن چکا ہے۔

بارکھان تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے جو وسطی ایشیا سے ہندوسستان کو ملانے کا آسان اور سہل زمینی راستہ تھا۔ اس راستے سے نہ صرف تجار لکہ فاتحین و جنگجوبھی گزرتے رہے ہیں جو دوران سفر یہاں قیام بھی کرتے تھے۔ لہذا یہاں انسانی آبادی کے آثار زمانہ قدیم سے ملتے ہیں۔ یقیناً یہاں ماضی میں بھی اچھی خاصی آبادی رہی ہوگی کہ جو آنے جانے والے مسافروں کے قیام وطعام کا بندوبست کرنے کی سکت رکھتی ہو گی۔

بلوچستان کے دیگر تاریخی مقامات کی طرح بارکھان کے حوالےسے بھی تحریری مواد نہیں ملتا۔ اس علاقے کا تاریخی کردار قومی سرمایے کے طور پر تحریر کرنے اور محفوظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنی تاریخ کی تلاش میں ہماری طرح بھٹکنا نہ پڑے۔ ان آثار اور اس ثقافتی ورثے کی تفصیلات ضبط تحریرمیں لانے سے قبل یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ تفصیلات تاریخ کی کسی بھی کتاب میں مذکور نہیں بلکہ مقامی لوگوں کی روایات میں زندہ ہیں۔

سوران ایک مقبرہ

ایک کتبہ خضدار کی یونین کونسل باغبانہ کے قریب لونڈو کے ٹیلے کے پاس ا یک پہاڑی پر کندہ ہے جبکہ دوسرا کتبہ یونین کونسل درہ، مولہ کے گاؤں پیر لاکھا میں تھا جسے وہاں سے غائب کر دیا گیا۔
سوران یونین کونسل ناہڑکوٹ میں واقع ایک مشہور و معروف مقام ہے اور اس کی وجہ شہرت اس کی قدیم تاریخ ہے جو مغل دور سےشروع ہوتی ہے۔ اس مقبرے کے بارے میں بعض مورخین نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ عہد جہانگیری یا اس سے بھی قبل اکبر کے دور حکومت میں مغل فوج کا ایک دستہ یا لشکر ہندوستان سے شہزادہ خسرو کی سالاری میں نکلا۔ انہوں نے سفر کے لیے بارکھان کے راستے کا نتخاب کیا۔ ڈیرہ غازی خان سے گزرنے کہ بعد ان کا ایک پڑاو موجودہ بارکھان میں ہوا جسے آئین اکبری کا مصنف جنجاہ یا جانجاہ تحریر کرتا ہے۔ یہاں قیام کے دوران شہزادہ خسرو کہ ایک معتمد خاص کی وفات ہوئی توشہزادہ موصوف نے انہیں وہیں دفنا دیا اور ان کا مقبرہ بھی تعمیر کروایا اور ساتھ ہی ایک مسجد بھی تعمیر کروائی۔ مورخین کے خیال کے مطابق بارکھان میں موجود سوران ہی وہ مقبرہ ہے جو شہزادہ خسرو نے اپنے معتمد خاص کی وفات پر تیار کرایا تھا۔

بعض روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ اس مقبرے میں ایک پتھر پرچند اشعار کندہ تھے جن کے مطالعے کے بعد ہی یہ بات واضع ہوئی کہ یہ مقبرہ واقعی شہزادہ خسرو کے کسی معتمد خاص کا تھا۔ اب وہ پتھر تو دستیاب نہیں ہے مگر جس لکھائی کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے بالکل اس سے ملتی جلتی دو تحریریں ضلع خضدار میں ملتی ہیں جو اکبر اعظم کے معتمد خاص اور بکھر اور سندھ میر معصوم البکھری سے منسوب ہیں۔ ان میں سے ایک کتبہ خضدار کی یونین کونسل باغبانہ کے قریب لونڈو کے ٹیلے کے پاس ا یک پہاڑی پر کندہ ہے جبکہ دوسرا کتبہ یونین کونسل درہ، مولہ کے گاؤں پیر لاکھا میں تھا جسے وہاں سے غائب کر دیا گیا۔ پیر لاکھا میں بھی ایک قدیم مقبرہ ہے جو میر معصوم کے کسی معتمد خاص سے منسوب ہے۔ یہاں میر مصوم نے پتھر پر کچھ اشعار کندہ کروا کے نصب کرا دئیے تھے۔ ان دونوں کتبوں کا تذکرہ راقم الحروف اپنی کتاب "بلوچستان کے تہذیبی نقوش” میں تفصیل سے کر چکا ہے۔ سوران کی ظاہری صورت تو بالکل تباہ ہو چکی ہے البتہ اندرونی جانب بنائے گئے نقش و نگار کی باقیات موجود ہیں۔

محل وقوع:

ناہڑکوٹ سے کچھ ہی فاصلے پر موجود اس مقبرے کی تعمیر ایک ٹیلہ پر کی گئی تھی جو دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ کسی زمانے میں سوران اس قدر خوبصورت اور دیدہ زیب ہوا کرتا تھا کہ سورج کی پڑنے والی ہر کرن اس کو اس قدر چمچما دیتی تھی کے لوگ اپنی آنکھوں کو اس کی چکا چوند سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور ہو جاتے تھے مگر حکومتی اداروں کی لاپرواہی کی وجہ سے ایک کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کو اس طرز پر تعمیر کیا گیا ہے کہ ٹھنڈی اور تازہ ہوا کا گزر اس میں ہر طرف سے ہو۔ اندرونی جانب مقبرہ کی دیواریں اب بھی اس وقت کے ہنر کی گواہی دے رہی ہیں۔ اس مقبرے کی موجودہ حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے، اس کی یہ حالت سرکاری اداروں کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی کے ساتھ مقامی عوام کی نا سمجھی کی بھی مظہر ہے کہ کس طرح نا سمجھ لوگوں نے اس کی ایک ایک اینٹ اکھاڑ کر اپنی کم عقلی کا ثبوت دیا ہے۔ مگر اب بھی انسانی دست برد سے محفوظ بعض دیواروں پر قدیم طرز تعمیر اور گل کاری کے اعلیٰ نمونے محفوظ ہیں۔ اس مقبرے کی خستہ حالی کسی بھی باشعور اور پڑھے لکھے معاشرے کے افراد کے لیے ناقابل برداشت ہو گی کیونکہ تاریخ و تہذیب کے نمونوں سے ہی اس معاشرے کی ثقافت کی عکاسی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اپنی تہذیب کا گلا خود کاٹ رہا ہے۔

Leave a Reply