Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

باجے والے گلی – قسط 9 (راجکمار کیسوانی)

test-ghori

test-ghori

04 اپریل, 2019

[blockquote style=”3″]

راجکمار کیسوانی تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کرنے والے ایک خاندان میں 26 نومبر 1950 کو پیدا ہوے۔ ان کی بنیادی پہچان صحافی کی ہے۔ 1968 میں کالج پہنچتے ہی یہ سفر ’’سپورٹس ٹائمز‘‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر شروع ہوا۔ ان کے لفظوں میں ’’پچھلے چالیس سال کے دوران اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوششوں کے باوجود، جہاز کا یہ پنچھی دور دور تک اڑ کر صحیح جگہ لوٹتا رہا ہے۔‘‘ اس عرصے میں چھوٹے مقامی اخباروں سے لے کر بھارت کے قومی ہندی اور انگریزی اخباروں دِنمان، السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا، سنڈے، سنڈے آبزرور، انڈیا ٹوڈے، جَن ستّا، نوبھارت ٹائمز، ٹربیون، ایشین ایج وغیرہ اور پھر بین الاقوامی اخباروں (مثلاً نیویارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ) سے مختلف حیثیتوں میں وابستہ رہے۔
2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو بھوپال میں دنیا کی تاریخ کا ہولناک ترین صنعتی حادثہ پیش آیا۔ کیڑےمار کیمیائی مادّے تیار کرنے والی یونین کاربائیڈ کمپنی کے پلانٹ سے لیک ہونے والی میتھائل آئسوسائنیٹ (MIC) نامی زہریلی گیس نے کم سے کم 3,787 افراد کو ہلاک اور اس سے کئی گنا بڑی تعداد میں لوگوں کو اندھا اور عمربھر کے لیے بیمار کر دیا۔ اس حادثے سے ڈھائی سال پہلے یہ گیس تھوڑی مقدار میں لیک ہوئی تھی جس میں دو افراد ہلاک ہوے تھے۔ راجکمار کیسوانی نے تب ہی تحقیق کر کے پتا لگایا کہ مذکورہ گیس نہایت زہریلی اور کمیت کے اعتبار سے ہوا سے بھاری ہے، اور کارخانے کے ناقص حفاظتی نظام کے پیش نظر اگر کبھی یہ گیس بڑی مقدار میں لیک ہوئی تو پورا بھوپال شہر بہت بڑی ابتلا کا شکار ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنی اخباری رپورٹوں میں متواتر اس طرف توجہ دلانا جاری رکھا لیکن کمپنی کی سنگدلی اور حکام کی بےحسی کے نتیجے میں یہ بھیانک سانحہ ہو کر رہا۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی طبی، قانونی اور انسانی امداد کے کام میں بھی کیسوانی نے سرگرم حصہ لیا جسے کئی بین الاقوامی ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ اور دستاویزی فلموں میں بھی سراہا گیا۔ 1998 سے 2003 تک راجکمار کیسوانی این ڈی ٹی وی کے مدھیہ پردیش چھتیس گڑھ بیورو کے سربراہ رہے اور 2003 کے بعد سے دینِک (روزنامہ) بھاسکر سے متعلق رہے۔ اب وہ اس اخبار میں ایک نہایت مقبول کالم لکھتے ہیں۔ انھیں بھارت کے سب سے بڑے صحافتی اعزاز بی ڈی گوئنکا ایوارڈ سمیت بہت سے اعزاز مل چکے ہیں۔
راجکمار کیسوانی ہندی کے ممتاز ادبی رسالے ’’پہل‘‘ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں جو ہندی کے معروف ادیب گیان رنجن کی ادارت میں پچھلے چالیس برس سے زیادہ عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ 2006 میں کیسوانی کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’باقی بچے جو‘‘ اور اس کے اگلے سال دوسرا مجموعہ ’’ساتواں دروازہ‘‘ شائع ہوے۔ انھوں نے ’’جہانِ رومی‘‘ کے عنوان سے رومی کی منتخب شاعری کا ہندی ترجمہ بھی کیا ہے۔ کئی کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ’’باجے والی گلی‘‘ ان کا پہلا ناول ہے جو ’’پہل‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہا ہے۔
اس ناول کو اردو میں مصنف کی اجازت سے ’’لالٹین‘‘ پر ہفتہ وار قسطوں میں پیش کیا جائے گا۔ اس کا اردو روپ تیار کرنے کےعمل کو ترجمہ کہنا میرے لیے دشوار ہے، اس لیے کہ کہیں کہیں اکّادکّا لفظ بدلنے کے سوا اسے اردو رسم الخط میں جوں کا توں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات آپ کی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ اسے ہندی میں پڑھنے والوں میں سے بعض نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ دراصل ناگری رسم الخط میں اردو ہی کی تحریر ہے۔
تعارف اور پیشکش: اجمل کمال

[/blockquote]

جس وقت غیاث الدین یہاں پہنچا تو اس وقت گھر کا داخل دروازہ اندر سے بند تھا۔ پٹھان کے ہاتھ کنڈی کھٹکھٹانے کی غرض سے یکایک اٹھے اور ویسے ہی یکایک پیچھے کی طرف بھی کھنچ گئے۔ اس نے حویلی کے بند دروازے کو نِہارنا شروع کر دیا۔ تقریباً بارہ فٹ اونچے، بےجان سلیٹی رنگ سے پُتے، بھرپور چوڑے محراب دار دروازے کے جسم پر اسے جگہ جگہ باریک لکیریں اُبھری ہوئی دکھائی دینے لگیں۔ غیاث الدین کو حیرت ہو رہی تھی که آخر یہ لکیریں اسے تب کیوں نہیں دکھائی دی تھیں جب وہ یہاں رہتا تھا؟ یا پھر ایسا ہوا ہے که یہ لکیریں اس کے گھر چھوڑ جانے کے بعد ابھری ہیں؟ اپنے جواب کی تلاش میں اس نے دروازے پر ہاتھ پھیرکر دیکھا۔ پھر وہ دروازے کی لکیروں پر نظر گڑا کر انھیں اس طرح گھورنے لگا مانو وہ کسی ہاتھ کی لکیریں پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔

اچانک اسے اپنی ہی اس کوشش پر ہنسی آئی اور اس نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ہنستے ہوے ہی کنڈی کھٹکھٹا دی۔ لوہے کی مضبوط اور موٹی چولوں پر گھومتا بھاری بھرکم دروازہ، اپنی دیونما گونج کے ساتھ اتنی تیزی کے ساتھ کھلا مانو دروازے کے اُس طرف کوئی کھڑا کھڑا اس حویلی کے مالک کی اس عجیب حالت کو شیشے میں نہار رہا ہو۔

’’کہیے؟‘‘ دروازہ کھولنے والے نے پوچھا۔
’’جی آداب۔‘‘
’’آداب۔‘‘
’’معاف کیجیے، آپ شاید ہمیں نہیں جانتے۔ ہمارا نام غیاث الدین ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک اس حویلی میں ہم ہی رہتے تھے۔‘‘ اتنا کہہ کر غیاث الدین نے آخر میں دروازہ کھولنے والے سے اس کا تعارف پوچھ لیا۔ ’’معاف کیجیے، آپ کا اسم شریف جان سکتا ہوں؟‘‘

دروازہ کھولنے والے منجھلے سے قد کے، سانولے سے آدمی کے چہرے پر دروازے پر کھڑے چھ فٹ سے اوپر نکلتے قد والے اس لحیم شحیم پٹھان کا نام سنتے ہی مسکراہٹ سی پھیل گئی۔ اسے سب کچھ پتا تھا اور اسے اس گھڑی وہ سب کچھ یاد آ بھی گیا تھا۔ اس نے بےحد گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھا کر اپنے سے سوائے قد والے انسان کا ہاتھ تھام لیا اور ’’ارے آئیے آئیے، پہلوان صاحب‘‘ کہتے ہوئے خوشی سے بھرے کسی بچے کی طرح لگ بھگ کھینچتے ہوے اندر کی طرف لے چلے۔

خوشی سے لبریز یہ ’بچہ‘ کوئی اور نہیں میرے پتا تھے۔ پچھلے تین چار سال میں اس گھر کے مالک کے بارے میں پوچھ تاچھ کرتے کرتے وہ غیاث الدین پٹھان اور اس حویلی کا پورا شجرہ اکٹھا کر چکے تھے۔ عادت کے مطابق وہ ایسی تمام جانکاریوں اور اپنے جذبات کو ایک کاپی میں لکھ لیتے تھے۔ یہ ان کا لگ بھگ روز کا کام تھا۔

لہٰذا ان کی اسی کاپی کے مطابق یہ حویلی غیاث الدین کے پتا میجر انجام الدین نے بنوائی تھی۔ اکلوتا بیٹا ہونے کے ناتے میجر صاحب کے بعد یہ غیاث الدین کو وراثت میں ملی۔ غیاث الدین شہر کے معروف انسان تھے۔ ان کی پہچان ایک دلاور اور دلآویز شخص کے طور پر تھی۔ شہر سے کچھ فاصلے پر آباد ایک گاؤں لسانیہ خورد میں کئی ایکڑ زمین تھی۔ لگ بھگ آدھے رقبے میں خاص بھوپالی دئیڑ آم کا باغ تھا۔ باقی حصے میں گیہوں کی پیداوار تھی، جس کے لیے اسی حویلی میں انھوں نے ایک بڑا سا ہال رکھ چھوڑا تھا۔

لیکن غیاث الدین کا دل کھیتی باڑی سے زیادہ پہلوانی میں رَمتا تھا۔ سو گھر سے کچھ دور ہی کوتوالی کے پاس گپّو استاد کے اکھاڑے میں خوب ڈنڈ پیلتے تھے اور کشتیاں لڑتے تھے۔

دادا کو یہ پہلوانی والی بات خوب بھا گئی تھی۔ انھوں نے اپنے ذہن میں اس پہلوان کی ایک بڑی رومانی سی تصویر بنا لی تھی۔ اسی وجہ سے وہ شہر میں جب بھی اپنا پریچے دیتے تو یہ بتانا نہ بھولتے که وہ ’غیاث الدین پہلوان‘ کی حویلی میں رہتے ہیں۔

غیاث الدین کو لے کر دادا گھر اور آنگن کے بیچ برابری سے پھیلے فرشی والے اوٹلے پر بچھی کھٹیا پر بیٹھ گئے۔ دادا اس حویلی کے بارے میں لگاتار باتیں کیے جا رہے تھے لیکن پٹھان کی نظریں لگاتار چاروں اور گھوم گھوم کر حویلی کا جائزہ لے رہی تھیں۔ اس وقت نہ جانے اس کے ذہن میں کیا کیا باتیں چل رہی ہوں گی، لیکن اتنا طے تھا که وہ اس وقت اپنی حویلی کی کسی بھی چیز کو ان دیکھا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

دادا اس بات کو تاڑ گئے۔ انھوں نے پٹھان سے سوال کیا، ’’حویلی کو دیکھ رہے ہیں؟‘‘
جواب میں پٹھان مسکرا کر رہ گیا۔
دادا نے پھر سوال کیا، ’’یہاں کی یاد آتی ہوگی۔ نہیں؟‘‘
اس بار پٹھان کے چہرے کا رنگ بدلا۔ مسکراہٹ کی جگہ درد کی ایک عجب سی لکیر آنکھوں کی کوروں کے آس پاس دکھائی دینے لگی۔

’’گھر کی یاد کسے نہیں آتی؟ ۔۔۔ اس بات کو تو آپ بھی خوب سمجھتے ہوں گے۔‘‘ اتنا کہہ کر پٹھان نے اپنا چہرہ حویلی کے کویلو کی چھت والے حصے کی طرف گھما لیا، جہاں کہیں سے کٹ کر آئی ہوئی پتنگ پڑی ہوئی تھی۔ پٹھان کھڑا ہو گیا اور اس کٹی پتنگ کو غور سے دیکھتے ہوے کہنے لگا، ’’بڑی لمبی ڈوروں کے ساتھ ہے۔ کہیں دور سے کٹ کر آئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

اب تک دادا بھی اٹھ کر کھڑے ہو چکے تھے اور اسی طرف دیکھ رہے تھے جدھر پٹھان دیکھ رہا تھا۔ پٹھان کی بات سنی تو دادا کے منھ سے ہنسی ہنسی میں ازخود ایک ایسی بات نکل گئی جس نے پورے ماحول کو بدل ڈالا۔
’’شاید یہ بھی کہیں سندھ سے کٹ کر آئی ہے اور اسے بھی پہلوان صاحب کی حویلی ہی پسند آئی۔‘‘

پٹھان پر اس بات کا جادو سا اثر ہوا۔ اس نے دادا کو بانہوں میں بھر لیا اور واپس کھٹیا پر بیٹھتے ہوے کہا، ’’ہم بھی تو یہاں سے کٹ کر ہی وہاں پہنچے ہیں۔‘‘
اب اس بات چیت میں ایک فلسفیانہ گمبھیرتا آ گئی تھی۔ دادا نے بھی اسی طرح کا جواب دیتے ہوے کہا، ’’پہلوان صاحب، ہمارے لیڈروں کو پینچ لڑانے کا بہت شوق ہے نا۔ اب ان کے پینچ لڑیں گے تو کٹیں گے تو ہم آپ ہی نا۔‘‘

پٹھان نے اس بھاری سے ہوتے ماحول کو بدلنے کی غرض سے ایک سوال کر لیا، ’’آپ کے علاوہ اور کون کون ہے یہاں پر؟ کیا میں ان سے مل سکتا ہوں؟‘‘
اس سوال کے ساتھ ہی دادا کے بھیتر بیٹھا نیتا فوراً متحرک ہو گیا۔ فوراً جواب دیا، ’’ارے پہلوان صاحب بالکل۔ آپ یہیں بیٹھیے اور ناشتہ کیجیے، میں سب کو یہیں بلا لیتا ہوں۔’’

لیکن غیاث الدین تو پوری حویلی میں چاروں طرف گھوم کر سب کچھ اپنی نظروں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ سو انھوں نے سجھاؤ والے انداز میں کہا، ’’ارے نہیں۔ کیوں سب کو زحمت دینا۔ ہم لوگ چل کر ہی سب سے مل لیتے ہیں نا۔‘‘

اگلے ایک گھنٹے تک غیاث الدین چہرے پر ایک مستقل مسکراہٹ لیے حویلی کے کونے کونے میں گھومتا، لوگوں سے ملتا اور درودیوار کو چھو کر دیکھتا، کچھ کہتا اور کچھ نہ کہتا، چلتا رہا۔ ایک کونے میں بنی چھوٹی سی کُٹھریا خالی پڑی تھی اور اس سے لگی دیوار کا ایک حصہ گر چکا تھا، جس کی وجہ سے اس پار کوتوالی والی گلی پر بنے مکان کا پچھواڑا دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ پر آ کر غیاث الدین کے چہرے کی وہ مستقل مسکان والے ہونٹ کچھ اور کھلے۔ بولے، ’’گر گئی آخر۔‘‘

دادا نے اس پہیلی کو سمجھنے کی غرض سے سوال کیا، ’’کیا پہلے سے ہی گرنے والی تھی؟‘‘
’’ہاں، گرنی تو چاہیے تھی۔ مگر ہمارے رہتے نہیں گری۔‘‘
اس سے پہلے که دادا کوئی اور سوال پوچھتے، غیاث الدین نے ہی ایک سوال پوچھ لیا، ’’آپ کو معلوم ہے وہ اُس طرف کس کا گھر ہے؟‘‘
دادا نے انکار میں سر ہلا دیا۔
’’وہ افتخار میاں کی حویلی کا پچھواڑا ہے۔‘‘
پھر ایک لمحے کی خاموشی کے بعد انھوں نے جوڑا، ’’کبھی ہمارے دوست ہوتے تھے۔‘‘

اتنا کہہ کر وہ بڑی تیزی سے مڑا اور باہر جانے کے لیے قدم بڑھا دیے۔ دادا نے بہت اصرار کیا که وہ چائے ناشتے کے بنا نہیں جا سکتے، لیکن اسے جانے کی بہت جلدی سی ہو چلی تھی۔ سو بس ایک پاپڑ کھا کر اور ایک گلاس پانی پی کر باہر کی طرف مڑ گیا۔

دادا اس تیزقدم چال کے ساتھ برابری سے چلنے کی کوشش کرتے ہوے دروازے تک پہنچ گئے۔ غیاث الدین نے دادا کو گلے لگا کر ’’خدا حافظ‘‘ کہا اور پھر پوری رفتار سے آگے بڑھ گیا۔

٭٭٭

دادا جب اندر واپس پہنچے تو حویلی کے گھروں سے لوگ نکل کر آنگن میں کھڑے کھسرپسر میں لگے تھے۔ سب کے چہروں کی ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔ حویلی میں رہنے والے سب سے آسودہ اور سب سے بزرگ ماسٹر امبومل نے اپنے گھر کے باہر نکلے ہوے کونے میں لگی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اور ہاتھ میں اخبار تھامے تھامے دادا سے سوال کیا، ’’کیا کہتا ہے یہ میاں؟‘‘

’’کچھ نہیں۔ وہ تو بس دیکھنے آیا تھا اپنی حویلی،‘‘ دادا نے جواب دیا۔

”ارے بھائی ہمت رام، تم تو نیتا آدمی ہو، اخبارنویس ہو۔ تم کو معلوم نہیں ہے که یہ مسلمان واپس لوٹ رہے ہیں اور اپنے گھر واپس لینے کے لیے تلواروں سے ہندوؤں کو کاٹ رہے ہیں۔‘‘

غیاث الدین سے ملنے کی خوشی میں ڈوبے دادا کے ذہن میں اس لمحے تک یہ خیال آیا ہی نہیں تھا۔ ماسٹرجی نے چیتایا تو ان کی چیتنا لوٹی۔ پھر بھی ان کا جواب تھا، ’’ماسٹر صاحب، وہ بڑا شریف آدمی ہے۔ وہ کوئی تلوار لے کر آیا تھا کیا؟ اور سارے مسلمان ایک جیسے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہ بات تم کہہ رہے ہو؟ تم تو سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتے ہو!‘‘ ماسٹرجی نے ایک طنزیہ ہنسی ہنستے ہوے کہا۔

دادا کو یہ بات بڑی ناگوار گزری۔ انھوں نے پلٹ کر جواب دیا، ’’جو کہتا ہوں، سچ کہتا ہوں۔ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں۔ کوئی تلوار لے کر آئے گا تو ہم بھی اس سے تلوار سے بات کریں گے۔ لیکن کوئی شریف آدمی گھر آئے تو کیا اسے پتھر مارنا شروع کر دیں؟‘‘

کرودھ سے بھرے اس جواب سے ایک سنّاکا سا کھنچ گیا۔ ماسٹرجی اپنی اعلیٰ حیثیت اور اپنی عمر کی بڑی پروا کرتے تھے۔ سو انھوں نے اپنے سے بہت چھوٹے ’لڑکے‘ سے الجھنے کے بجاے ہاتھ میں تھامے اخبار کو پڑھنے کی غرض سے اپنے منھ کی طرف اٹھانے کی کوشش کی ہی تھی که دادا نے ایک آخری جملہ جڑ دیا:
’’آخر وہ اس حویلی کا پرانا مالک ہے جس میں ہم سب رہ رہے ہیں۔ اتنی شرافت تو ہم میں بھی ہونی چاہیے ۔۔۔‘‘
یہ کہتے کہتے دادا اپنے گھر کی طرف جانے کو مڑ گئے۔ ٹھیک اسی وقت ماسٹرجی کے گھر سے حویلی کے اکلوتے گھڑیال کے گجر کی آواز گونجنا شروع ہو گئی۔

ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔ پانچ۔۔۔ چھ۔۔۔ سات۔۔۔ آٹھ۔۔۔ نو۔۔۔ دس۔۔۔

٭٭٭

شہر میں سندھی شرنارتھیوں کی موجودگی کو ابھی مقامی لوگ ٹھیک سے سویکار بھی نہیں کر پائے تھے که ایک گھٹنا اور گھٹ گئی، جس کے نتیجے میں تناؤ بڑھنا طے تھا۔ بھارت سرکار کے پُنرواس وبھاگ نے اچانک ہی یہ فیصلہ لے لیا که راجستھان میں اجمیر کے پاس دیولی کیمپ میں رہنے والے بےگھر سندھی پریواروں کا تبادلہ شہر بھوپال سے کوئی 4-5 میل کے فاصلے پر آباد بیراگڑھ کیمپ میں کر دیا جائے۔

ایک بار پھر اُکھڑنے سے ناخوش لوگوں کی ناخوشی کی آواز کسی کان تک نہ پہنچی اور چند برس پہلے سندھ سے بےدخل ہوے ان پریواروں کو دوبارہ بےگھر ہو کر باہر نکلنا پڑا۔ اجمیر سے روانہ ہونے والی اس پہلی ’ریفیوجی سپیشل‘ گاڑی میں تقریباً 2300 پریواروں کو ٹھونس ٹھونس کر بھرا گیا۔ بیراگڑھ کیمپ تک چلنے والی اس میٹر گیج والی ٹرین کو بول چال میں ’چھوٹی لائن‘ والی گاڑی کہا جاتا تھا۔

اجمیر کی نصیرآباد چھاؤنی والے سٹیشن پر اس دن کچھ زیادہ ہی بھیڑ تھی۔ اجمیر میں بس چکے دیولی کیمپ کے رہواسیوں کے رشتےدار ناتےدار ان بچھڑ کر دور جانے والے اپنوں کو وِداع کرنے آ پہنچے تھے۔ ایک نئے انجانے شہر اور غیریقینی مستقبل کے سفر پر نکلنے کو مجبور لوگ اپنوں سے گلے مل اس طرح روتے تھے که مانو اب تو شاید ہی کبھی ملنا ہو۔ آہ و زاری کی گونج سے بھرے، سسکتے سے ماحول کے بیچ ٹرین کا ڈرائیور اور کنڈکٹر ایک دوسرے کو بےبس نگاہوں سے دیکھتے خاموش کھڑے تھے۔ ٹرین کا مقررہ وقت گزر چکا تھا لیکن ٹرین آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی، که پسنجر تو ابھی تک پلیٹ فارم پر کھڑے تھے۔ آخر کنڈکٹر ڈینِس بنجامن نے آ کر بڑے نرم لہجے میں آخری چیتاونی دینے کے بعد سیٹی بجا کر ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا دی۔
اس بار مجبور ہو کر سب لوگ اپنے اپنے آنسوؤں کو ساتھ لے کر ٹرین کے ان چھوٹے چھوٹے، سکڑے سے ڈبوں میں سوار ہو گئے۔ ٹرین دھیرے دھیرے، لگ بھگ قدم تال والی سپیڈ سے کھسکتی، چل پڑی۔ کوئی 400 میل دور بسے بیراگڑھ کیمپ کی طرف۔

ٹرین کی روانگی کے ساتھ ہی پلیٹ فارم والا منظر ان ٹھساٹھس بھرے ڈبوں میں سوار ہو گیا تھا۔ اپریل مہینے کی گرمی سے تپے ہوے ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں چھت کے پنکھے کم اور ہاتھ کے پںکھوں سے زیادہ راحت پانے کی ناکام کوشش ہو رہی تھی۔ اس پر چھوٹے چھوٹے بچوں کا رونا ماحول کو اور بھی رنجیدہ بنا رہا تھا۔

چھک چھک کرتی اور اسی گتی سے چلتی ٹرین کے انجن سے نکلتا دھواں اور ہوا میں اڑتی کوئلے کی ٹکڑیاں لگاتار سارے ڈبوں کے یاتریوں کے ماتم زدہ چہروں کو اور بھی ماتم زدہ بنا رہی تھیں۔ اس ٹرین میں سوار ڈیلارام ممتانی کا پریوار بھی سوار تھا۔ 70 برس کے ڈیلارام کے پریوار میں اس کے دو بیٹے، دو بہویں، ایک وِدھوا بیٹی، چار پوتے اور دو ناتنیں بھی شامل تھے۔ اداس چہروں کی اس بھیڑ کے بیچ جہاں لگ بھگ سارے چہرے ایک جیسے دکھائی دے رہے تھے، اسی جمگھٹے میں کھڑکی سے لگے بیٹھے ڈیلارام باہر کی طرف جھانکتے، آسمان کو نہارتے نہارتے بیچ بیچ میں بےوجہ ہی ہنسنے لگتے تھے۔ اس ہنسی کی وجہ سے اداس چہروں کے بیچ ایک عجب سی ہلچل مچ جاتی تھی۔ بچے حیرت سے ایک بار ڈیلارام کی طرف اور دوسری بار اداس چہروں کی طرف دیکھ کر آنکھوں کے اشارے سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہوے سے معلوم ہوتے تھے که ماجرا کیا ہے؟

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس ناول کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں۔