عراق و شام کا ہمارے تاریخی اور روحانی شعور پر بہت گہرا اثر ہے۔ صاحبانِ سلک و تصوف، صدیوں سے اپنے سینوں کو بغداد کیے ہوئے ہیں۔ رندوں کی محفل میں آبگینوں کی نازکی اور حلب کے میخانے لازم و ملزوم ہیں اور عزاخانوں میں کربلا اور نجف کی مٹی کو آنکھوں کا سرمہ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کی مٹی کرخت اور کنڈیاری ہے۔ حکایتوں میں آتا ہے کہ پہلے زمانے میں پیغمبروں کو صبر کی آزمائش کے لیے نینوا کے دشت سے گزارا جاتا تھا۔ یہاں کی مٹی نے ابھی تک اپنا مزاج نہیں بدلا ہے۔
قدیم ایزدی مذہب کے پیروکار کئی دن سے سوالِ بیعت پر مسلسل انکار کی وجہ سے بھوکے پیاسے محصور تھے۔ وہاں سے تازہ اطلاع ہے کہ ان کے سروں کی فصل کاٹے جانے کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔
پیغمبروں کو آزمانے والا عراق کئی سالوں سے خود آزمائش میں ہے، اور اس کے لیے تازہ آزمائش خلافت والے ہیں۔ موصل کا شہر مسیحیوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ دِروز، زرتشتی، علوی، مفتوحہ علاقوں کے کسی مختلف عقیدے کے فرد کے لیے چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رکھی گئی۔ قدیم ایزدی مذہب کے پیروکار کئی دن سے سوالِ بیعت پر مسلسل انکار کی وجہ سے بھوکے پیاسے محصور تھے۔ وہاں سے تازہ اطلاع ہے کہ ان کے سروں کی فصل کاٹے جانے کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ پانی کی بندش سے ایک اصغرِ معصوم نہیں، چالیس بچے پیاس سے مرے۔ لیکن اب کے کسی حرمل کے ہاتھ سے کمان نہیں گری کہ پہلے کی طرح زمین کانپ اٹھی ہو۔ چھ ہزار سال سے معبودیت کی مسند پر بیٹھا ملک الطاؤس اپنے عبادت گزاروں کے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے بوڑھا نہ ہو گیا ہوتا تو شاید ان کے خون ناحق کے زمین پر گرتے وقت بھی زمین کبھی سبزہ نہ اگانے کی دھمکی دیتی، یا آسمان کبھی بارش نہ برسانے کا ڈراوا دیتا۔ کون نوحہ خواں بتائے گا کہ محاصرے کی آخری رات ان کے سرخیل نے مور دیوتا کو آخری صبوحی سجدہ کیسے دیا ہو گا۔ کسی آٹھ ماہ کی حاملہ ناری نے دوپہر تک سوختنی ہو جانے والے خیمے کے باہر لٹکی زیتون کی شاخ کو کس یاس سے دیکھا ہو گا۔ کون جانے کتنے جوان رن میں اپنے مشکیزے، اپنے بازؤوں اور عَلم سمیت بچوں کی سیرابی پر وار آئے ہوں گے۔ سات ہزار شمر و زیاد کے نہتے پُور کی طرف مارچ کرتے ہوئے کتنے بالک زمین کی دھمک پر گہواروں سے زمین پر آ رہے ہوں گے۔ دجلہ و فرات کے ہم عمر خداوں کے معبد میں صبح کا آخری ناقوس بجتے ہی حریموں میں کیا کہرام مچا ہو گا۔ آگے سروں سے اتاری گئی چادریں، کنیز منڈیاں اور نیزوں پر مصحفِ ریشہ کی تلاوت کرتے ہوئے ایزدی سر۔ ہماری خبر گیری صرف اعداد و شمار کریں گے۔ بلوے میں بیعت خواہوں نے ۵۰۰ سے اوپر ایزدی مار دیے اور سیکڑوں ایزدی عورتوں کو لونڈیاں بنا کر لے گئے۔ ایزدی تھے ہی کتنے۔ میسوپوٹیمیا کے آنچل پر بابلی اور سریانی رنگوں کے کتنے بیل بوٹے تھے جو بچ گئے تھے۔ کیا عراق و شام کی تاریخ بھی ہماری تاریخ کی طرح اصل اسلامیوں کی آمد کے آگے سے شروع کی جائے گی۔ یونس نبی کا مقبرہ، الحصن کا قلعہ، حلب کا پرانا محرابی بازار۔ یہ کسے یاد رہیں گے۔ تب تک تو ان کا ملبہ بھی سمیٹا جا چکا ہو گا۔ وہاں بھی نیا ملی تشخص تعمیر ہو گا، تہذیب کے طرّۂ دستار کے بل پر نہیں بلکہ جھوٹی اناؤں کا اینٹ گارا لے کر۔
دور سے بیٹھ دیکھنے میں سب کچھ چھوٹا نظر آتا ہے لیکن نظارہ اور اس کا افق سب نظر میں آتے ہیں۔ خلافت کے وہ داعی اور موصل کی جامع مسجد بھی، جب ساڑھے بارہ سو سال پہلے یحییٰ عباسی نے گیارہ ہزار اہل موصل کو مسجد کے صحن میں امان دے کر نہتے تہ تیغ کیا تھا۔ خلافت کے یہ داعی بھی، اور آج کا موصل بھی۔ تب صدیوں پہلے جامع مسجد دمشق کا گھوڑوں کا اصطبل بنے رہنا بھی اور آج نشانے بازی کی مشقوں میں کھنڈر بننے والے مسجدِ حلب کے مینار بھی۔ پونے چودہ صدیاں پیچھے نیزوں پہ اٹھا شام لے جائے گئے سر، اور آج چوک پر لگے جنگلوں کے آہنی نیزوں پر تا حد نظر نمائش میں لگی تازہ کھوپڑیاں بھی۔
عراق و شام کو یہاں سے بہت دور نہ سمجھا جائے۔ جوزف کالونی کی آگ اور سوات کے خونی چوک پر آویزاں سر کٹے دھڑ، یہ ہماری قوم کے حالیہ تجربے ہیں۔ گوجرانوالہ میں اپنے مکانوں سمیت جل مرنے والی معصوم حرا اور کائنات، اسی عید سے ایک دن پہلے کی بات ہیں۔ پشاور میں جلنے والے کلیسا اور بازار، سندھ سے جوق در جوق ملک چھوڑتے ہندو۔ یہ موصل یا غزہ کے مناظر نہیں ہیں۔ بربریت کسی ایک وطن میں اگنے والا خار نہیں ہے۔ ہراسانی کے اس طوفان میں پھر ہم ایسے مسجدوں عزاخانوں سے بھاگے ہؤوں کو بھی کربلا یاد آ ہی جاتی ہے۔ دہشت کے اس زمانے میں کوئی نوحہ پرانا نہیں ہے، کوئی مرثیہ خارج از بحث نہیں ہے۔ کربلا ہر زمانے اور ہر تہذیب کے کلیجے کا زخم ہے۔
دور سے بیٹھ دیکھنے میں سب کچھ چھوٹا نظر آتا ہے لیکن نظارہ اور اس کا افق سب نظر میں آتے ہیں۔ خلافت کے وہ داعی اور موصل کی جامع مسجد بھی، جب ساڑھے بارہ سو سال پہلے یحییٰ عباسی نے گیارہ ہزار اہل موصل کو مسجد کے صحن میں امان دے کر نہتے تہ تیغ کیا تھا۔ خلافت کے یہ داعی بھی، اور آج کا موصل بھی۔ تب صدیوں پہلے جامع مسجد دمشق کا گھوڑوں کا اصطبل بنے رہنا بھی اور آج نشانے بازی کی مشقوں میں کھنڈر بننے والے مسجدِ حلب کے مینار بھی۔ پونے چودہ صدیاں پیچھے نیزوں پہ اٹھا شام لے جائے گئے سر، اور آج چوک پر لگے جنگلوں کے آہنی نیزوں پر تا حد نظر نمائش میں لگی تازہ کھوپڑیاں بھی۔
عراق و شام کو یہاں سے بہت دور نہ سمجھا جائے۔ جوزف کالونی کی آگ اور سوات کے خونی چوک پر آویزاں سر کٹے دھڑ، یہ ہماری قوم کے حالیہ تجربے ہیں۔ گوجرانوالہ میں اپنے مکانوں سمیت جل مرنے والی معصوم حرا اور کائنات، اسی عید سے ایک دن پہلے کی بات ہیں۔ پشاور میں جلنے والے کلیسا اور بازار، سندھ سے جوق در جوق ملک چھوڑتے ہندو۔ یہ موصل یا غزہ کے مناظر نہیں ہیں۔ بربریت کسی ایک وطن میں اگنے والا خار نہیں ہے۔ ہراسانی کے اس طوفان میں پھر ہم ایسے مسجدوں عزاخانوں سے بھاگے ہؤوں کو بھی کربلا یاد آ ہی جاتی ہے۔ دہشت کے اس زمانے میں کوئی نوحہ پرانا نہیں ہے، کوئی مرثیہ خارج از بحث نہیں ہے۔ کربلا ہر زمانے اور ہر تہذیب کے کلیجے کا زخم ہے۔