عشق کی مٹی سے گندھے بدن
پیاسے دشت وصحرا میں
سانسوں کے ناپسندیدہ تصادم میں
کرب میں ملفوف
درد کے بوجھ سےدھری
نیند سے آزاد آنکھیں
جگراتے کا میلہ لگاتی ہیں
میٹھے درد کی کسک حوصلےتوڑ دے
تو۔۔۔
سماعت و بصیرت
روشنی و تیرگی، دھوپ و سایہ
ایک ہونے لگتے ہیں
جذبے عشق کے سامنے
خاک سر پہ اوڑھے
گرد آلود، مسجود، نابود ہو جاتے ہیں
ہونٹوں سے حرف دعا گرتے
خالی دل کی خالی رات کو
نامراد لوٹا دیتے ہیں۔
طلب کا سانپ پھنکارتا سر پٹختا
وجود کو ڈستے ڈستے
صبح کی ہنگامہ خیزی تک مر جاتا ہے
اور ہمیں ایک بھی
گناہ کی اجازت مل نہیں پاتی
اک کندھے کی چاہ میں
جئے بغیر ہی
اگلے جہاز میں سوار ہو جاتے ہیں
Image: Henn Kim