Laaltain

ایک کمزور دِل باپ اور سانحۂ پشاور

16 جنوری، 2015
Picture of نوید نسیم

نوید نسیم

آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے ہولناک حملے کی خبر جب نیوز چینلز پر دیکھی تو شروع میں یہ حملہ بھی کراچی ایئر پورٹ، جی ایچ کیو اور وانا پولیس اکیڈمی پر ہونے والے دہشتگردوں کے حملے جیسا لگا اور چونکہ ہم ایسے حملوں اور بم دھماکوں کی خبریں سُن سُن کر ان کے عادی ہوچکے ہیں اس لیے پشاور کے سکول پر ہونے والا حملہ بھی معمول کا ایک اور واقعہ ہی لگا۔مگر جوں جوں حملے کی تفصیلات سامنے آتی گئیں، دل گھبرانے لگا، آنکھیں نم ہونے لگیں،پورا جسم کپکپانے لگا اور سکول کے باہر کھڑے مظلوم والدین میں مجھے اپنا آپ دکھائی دینے لگا۔
آرمی پبلک سکول کے باہر معصوم بچوں کے والدین کو دیکھ کر مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں خود اپنی بیٹی عیشال کے سکول کے باہر کھڑا ہوں اور میں بھی اُن بیچارے والدین کی طرح بے بس ہوں۔مجھے نطر آرہا تھا کہ سیکیورٹی ادارے پہنچ گئے ہیں مگر مجھے ساتھ ساتھ سکول کے اندر سے گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مجھے اپنے کانوں میں اپنی بیٹی چیختی سنائی دے رہی تھی کہ بابا مجھے بچا لو،میری سہیلیوں کو ان درندوں نے گولیاں مار دی ہیں۔ مجھے روتا دیکھ کر آپ تو ماما سے لڑ پڑتے تھے، آج آپ مجھے روتا دیکھ کر کیوں کچھ نہیں کر رہے۔
وہاں پر موجود والدین کو دلاسہ دیتے لوگوں کو دیکھ کر مجھے بالکل ایسا لگا کہ جیسے کوئی مجھے یہ کہہ رہا ہو کہ حوصلہ کرو سیکیورٹی والے پہنچ گئے ہیں اور میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ اگر یہ کچھ کر سکتے تو یہ واقعہ ہی کیوں ہوتا۔مجھے گولیوں کی آواز سُن کر خیال آرہا تھا کہ میری ڈرپوک بیٹی تو ٹی وی پر کسی کو اگر چیختا یا گولیاں چلاتا دیکھتی تو فوراً چیختی کہ بابا، یہ اچھا نہیں ہے اسے بدل دو۔ میں اگر چینل تبدیل نہیں کرتا تھا تو وہ بھاگ کر میرے یا اپنی ماں کی ٹانگوں سے چمٹ جاتی اور اپنی آنکھیں بند کر لیتی۔
مجھے اپنے کانوں میں اپنی بیٹی چیختی سنائی دے رہی تھی کہ بابا مجھے بچا لو،میری سہیلیوں کو ان درندوں نے گولیاں مار دی ہیں۔ مجھے روتا دیکھ کر آپ تو ماما سے لڑ پڑتے تھے، آج آپ مجھے روتا دیکھ کر کیوں کچھ نہیں کر رہے۔
مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں ہٹا کٹا ہوتے ہوئے بھی اپنی معصوم بیٹی کو ظالم دہشتگردوں سے بچا نہیں سکتا۔ مجھے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں بھی ہر طرف اپنی بیٹی روتے ہوئی دکھائی دے رہی تھی جو اتنی ڈر پوک تھی کہ جوائے لینڈ میں مسخرے کو دور سے دیکھ کر ہی چیخنے لگتی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیسے اِن درندوں کے سامنے کھڑی ہوگی؟کیسے وہ روتے ہوئے سکول کے اندر بابا پکارتی رہی ہوگی؟مگر میں بے بس لاچار ڈرپوک بابا سکول سے باہر کھڑا اپنی بیٹی کی لاش لینے کے لیے کھڑا ہوں۔
میری بیوی بھی استاد ہے اور مجھ سے بھی کمزور دل۔ جب اسے پشاور سکول میں ہونے والے اس واقعے کا پتہ چلا تو اس نے اپنی جماعت کے دوران روتے ہوئے مجھے فون کیا اور کہا کہ عیشال کو گود میں اٹھا لو اور میری طرف سےبہت ساپیار کرو۔اپنی اہلیہ کی حالت دیکھ کر مجھے لگا کے مجھے اپنے جذبات قابو میں رکھنے چاہیں اور اپنےاحساسات اپنی بیوی کو نہیں بتانے چاہیں۔ میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ خُدا کا شکر کرو کے ہماری بیٹی اس سکول میں نہیں ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے بلکہ شاید وہ تمام ماں باپ جن کے بچے سلامت ہیں اور سکولوں سے زندہ گھر لوٹ آئے ہیں وہ خوش قسمت ہیں۔
جب میری اہلیہ سکول سےلوٹی تو اس کی آنکھیں نم تھیں اور اس نے آتے ہی سوئی ہوئی بیٹی کو زبردستی اٹھایا اور اپنے بازووں میں لے کر زاروقطار رونے لگی۔
کچھ دیر بعد جب اسے کچھ حوصلہ ہوا اور اسے اپنی خوش قسمتی کا اندازہ ہوا تو اس نے مجھ سے سوال کیا،
” نوید اگر کبھی ہماری بیٹی کے سکول پر ایسا حملہ ہوا تو ہم کیا کریں گے؟”
اپنی بیوی کا یہ سوال سن کر میں بھی اپنے جذبات پر قابو نا رکھ سکا اور میری آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
کوئی جواب نہ ہونے کی وجہ سے میں نے عیشال کو اپنی بیوی کی گود سے لیا اور پیار کرنے لگا۔
موسمِ سرما کی طویل چھٹیوں کے بعد جب سکول دوبارہ کھلے اورمیری بیوی پہلے روز سکول گئی تو اس نے واپس آکر پوچھا، اگر کسی روز ہمارے سکول پر بھی پشاور جیسا حملہ ہوگیا تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب مجھ جیسے نام نہاد صحافی کے پاس نہیں تھا اور میں نے بھی پکے مسلمانوں کی طرح مذہب کا سہارا لیا اور جواب دیا ، “اگر کبھی کچھ ایسا ہو تو آیت الکرسی پڑھنا اللہ تمہاری حفاظت کریگا۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *