جی آپ نے ٹھیک پڑھا، ایک پاکستانی ویجیٹیرین۔۔۔۔
جی میں واقعی کسی قسم کا گوشت نہیں کھاتا۔
نہ بڑا نہ چھوٹا نہ درمیانہ کسی قسم کا بھی نہیں۔
الحمد للہ میں مسلمان ہوں اور میر فی الحال کوئی بھی اور مذہب اختیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
نہیں مجھے ایسی کوئی بیماری نہیں۔
نہیں مجھے ڈاکٹر نے منع نہیں کیا گوشت کھانے سے۔
کسی قسم کا پرہیز بھی نہیں
نہیں جناب یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ بھی نہیں۔

۔ آپ سمجھ نہیں سکتے کہ پاکستان میں ایک ویجیٹیرین ہونا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہونے سے زیادہ عجوبے کی بات ہے۔
پچھلے پندرہ برس سے میں اسی قسم کے جوابات اپنے سبھی ملنے ملانے والوں کو دے رہا ہوں اور یقین جانیے کہ ہر جگہ کوئی نہ کوئی یہی سوال بار بار دہراتا ہے۔ آپ سمجھ نہیں سکتے کہ پاکستان میں ایک ویجیٹیرین ہونا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہونے سے زیادہ عجوبے کی بات ہے۔ ظاہر ہے ایک ایسا ملک جو محض اس لیے بنایا گیا ہو کہ ہندوستان میں گائے کھانے کی اجازت نہیں تھی، مسلمانوں کا وہاں گوشت سے انکار آرٹیکل 6 کے زمرے میں آنے کا پورا پورا امکان ہے۔ عین ممکن ہے ہر بقر عید پر کھالیں اکٹھی کرنے والے مل ملا کر کوئی ایسی ترمیم بھی کرا لیں جس کے تحت ختم بنوت کے ساتھ ساتھ گوشت کھانے کی شرط بھی لازم کر دی جائے۔

پاکستان میں ویجیٹیرین ہونا آسان نہیں۔ آپ کسی شادی پر نہیں جا سکتے، ولیمہ تو چھوڑیں آج کل تو آپ کسی کے قلوں میں بھی شریک نہیں ہو سکتے۔ آپ جہاں جائیں گے وہاں گھی کی جھیلوں میں مرغیاں اور بکرے تیرتے ملیں گے۔ آپ کسی ریسٹورنٹ بھی نہیں جا سکتے۔ وہاں ‘الف’ سے لے کر ‘ے’ تک سبھی کھانوں کی کہیں نہ کہیں سے گوشت سے کوئی نہ کوئی رشتے داری نکل آئے گی۔ آپ کسی عزیز یا دوست کے ہاں کھانے پر نہیں جا سکتے کہ وہاں اہل خانہ اپنی طرف سے مہمان نوازی کا بہترین اظہار قورمے اور کباب سے لبالب قابیں آپ کے سامنے دھر کر کریں گے۔ شکر ہے ہمارے ہاں کھانوں پر سلاد اور رائتے کی روایت موجود ہے ورنہ فاقہ کشی کی نوبت آ چکی ہوتی۔

ہماری دادی تو جب تک حیات تھیں ہمیں مولوی صاحب سے دم کیا پانی منگا کر پلاتی رہیں۔ ہم نے تو گوشت کھانا شروع نہ کیا البتہ اس دم درود کے چکر میں مولوی صاحب یقیناً کئی درجن مرغ اڑا چکے ہوں گے۔
لیکن یہ سب تو ثانوی معاملہ ہے اصل مسئلہ تو تب شروع ہوتا ہے جب آپ کسی دعوت میں یا کسی خاندانی تقریب میں شریک ہوں۔ روز کے ملنے جلنے والوں کی تو خیر کیا کہیے، ہر تقریب میں آپ کو کوئی نہ کوئی ایسے صاحب ضرور مل جائیں گے جو آپ کے ویجیٹیرین ہونے سے ناواقف ہوں گے۔ اور جیسے ہی انہیں آپ کے سبزی خور ہونے کا علم ہو گا سب سے پہلے تو صدمے کے جھٹکے سے ان کی اپنی پلیٹ میں دھری بوٹیاں گرتے گرتے بچیں گی۔ پھر وہ پہلے حیرت سے، پھر ہمدردی سے اور پھر افسوس سے آپ کو سر سے پیر تلک دیکھیں گے۔ پھر سوالات کا وہی دور شروع ہوگا جن کے جواب میں شروع میں دے چکا ہوں۔

یہاں تک تو چلو خیر ہی ہے مگر خاندان کے بزرگوں کو کون سمجھائے۔ ہر تقریب میں کوئی نہ کوئی ایسے وضع دار، پابند شرع بزرگ ضرور موجود ہوتے ہیں جو نوجوان نسل کی اصلاح کو اپنی آخرت سنوارنے کا واحدذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایسے کئی بزرگ ہم نے ہر تقریب میں اپنے آس پاس منڈلاتے دیکھے ہیں اور انہیں اپنی جانب اشارے کرتے افسوس کا اظہار کرتے دیکھا ہے۔ ماقبل داڑھی مونچھ تو ان میں سے بہت سے حضرات کو ہمارے جنسی رحجانات پر بھی کچھ شبہ تھا اور وہ ایک دو بار ہمارے والد بزرگوار سے ہمارے مرد ہونے کی تصدیق بھی کر چکے ہیں۔ بعض نے ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ کامیاب ازدواجی زندگی سے لے کر دفاع وطن تک کے لیے گوشت خوری کس قدر ضروری ہے۔ آج کل یہ بزرگ ہمارے ویجیٹیرین ہونے کو بھی قرب قیامت کے آثار میں سے خیال کر کے قوم اور امت کی حالت پر افسوس کرتے پائے جاتے ہیں۔ (ان حضرات کی پریشانی اس وقت دیدنی تھی جب میری اپنی شادی کی تقریبات برپا تھیں اس موقع پر اپنے بے تکلف دوستوں سے کچھ ‘نان ویج’ لطیفے بھی کئی ہزارویں مرتبہ سنے)۔ خاندانی بزرگوں سے بھی زیادہ ناک میں دم کر دینے والا طرزعمل بے تکلف احباب کا ہے، شروع شروع میں تو میں اپنے دوستوں کے نان ویج لطیفوں اور جگتوں پر کافی چڑتا بھی تھا مگر اب ہنسی آتی ہے۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے، امتحان دیتے ہوئے، کسی حسینہ سے عشق لڑاتے ہوئے، کپڑے خریدتے ہوئے۔۔۔ غرض ہر وہ موقع جب دوست آپ کے شانہ بشانہ ہوں میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ اپنی سبزی خوری پر ‘خصوصی’ محبت ملی۔

میرے ویجیٹرین ہونے سے متعلق کئی دلچسپ مفروضے خاندان بھر میں رائج ہیں اور ہر نسل اور ہر قبیل کے بزرگ اس حوالے سے اب تک اتنے نظریات پیش کر چکے ہیں کہ شاید پاکستان بننے کے جواز پر اتنی تحقیق نہ ہوئی ہو گی۔
خاندان کے مرد بزرگوں کے ساتھ ساتھ بزرگ خواتین کا طرزعمل بھی قابل ذکر ہے۔ ہماری والدہ کو اوائل بچپن میں ہمارے گوشت نہ کھانے کے پیچھے ہماری پھوپھیوں اور دادی کا ہاتھ نظر آتا تھا اور ددھیالی رشتے داروں کے نزدیک یہ کوئی ایسا موروثی مسئلہ تھا جس کا تعلق ہماری ننھیال کے بعض رشتے داروں کے ہندوستان میں ہونے سے ہے۔ ہماری دادی تو جب تک حیات تھیں ہمیں مولوی صاحب سے دم کیا پانی منگا کر پلاتی رہیں۔ ہم نے تو گوشت کھانا شروع نہ کیا البتہ اس دم درود کے چکر میں مولوی صاحب یقیناً کئی درجن مرغ اڑا چکے ہوں گے۔ مگر سب سے مشکل وقت بقر عید کا ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سوائے میرے اپنے گھر کے جہاں میری والدہ اور اب میری زوجہ میرے لیے کچھ دال سبزی بنا دیتی ہیں کہیں بھی جانا آنا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ بچپن میں تو دادی اور دیگر بزرگ خواتین زبردستی گوشت کھلاتی رہیں کہ قربانی کا گوشت کھانا بھی ثواب کا باعث ہے۔ مگر میری والدہ (اللہ انہیں لمبی زندگی دے) جلد ہی میری اس عادت کو سمجھ گئیں اور انہوں نے میرے لیے علیحدہ سے سبزی اور دال بنانا شروع کر دی۔ (بیشتر پاکستانی گھرانوں کی طرح ہمارے ہاں بھی سبزی اور دال بھی گوشت کھانے کا ہی ایک بہانہ ہیں)۔ انہیں میرے ہاسٹل جاتے وقت بھی یہی فکر تھی کہ وہاں میں کھاوں گا، انہوں نے مجھے ہفتے بھر کے لیے دال اور سبزی بنا بنا کر دینے کی بھی کوشش کی اور ہر مرتبہ فون پر پہلا سوال یہی ہوتا تھا "کھانا ٹھیک سے کھا رہے ہو نا؟”

میرے ویجیٹرین ہونے سے متعلق کئی دلچسپ مفروضے خاندان بھر میں رائج ہیں اور ہر نسل اور ہر قبیل کے بزرگ اس حوالے سے اب تک اتنے نظریات پیش کر چکے ہیں کہ شاید پاکستان بننے کے جواز پر اتنی تحقیق نہ ہوئی ہو گی۔ کچھ کے خیال میں یہ موروثی مسئلہ ہے (جی جناب واقعی بعض لوگوں کا یہ خیال ہے)، کچھ اسے نفسیاتی الجھن قرار دیتے ہیں، کچھ کے نزدیک یہ ایمان کی کمزوری اور بعض کے خیال میں فیشن کے طور پر اپنایا گیا وقتی چونچلا ہے، میرے ویجیٹیرین ہونے کا علاج بھی کئی طرح ہوا، کچھ نے مجھے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی وہ تقریر سننے کو کہا جس یں وہ ثابت کرتے ہیں کہ گوشت کھانا کیوں ضروری ہے، بعض نے نفسیاتی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ نے روحانی علاج کو ترجیح دی۔ مگر سچ پوچھیے تو میرے گوشت نہ کھانے کا آغاز تو بڑا سادہ سا تھا۔ مجھے گوشت کا ذائقہ پسند نہیں تھا اور مجھے کچے گوشت کی بو سے خاصی الجھن ہوتی تھی۔ شروع شروع میں تو مجھے واقعی لگتا تھا کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے مجھے گوشت پسند نہیں مگر پھر آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ یہ بھی کھانے کی پسند اور نا پسند والا مسئلہ ہے۔ کچھ کو ٹینڈے، توریاں اور بینگن نہیں پسند تو مجھے قورمہ، کباب اور چانپیں نہیں پسند۔ پھر کچھ جانوروں کے حقوق کا معاملہ بھی سمجھ میں آیا کہ انسانوں کو لذت فراہم کرنے کے لیے گوشت کھانے کا کوئی جواز ممکن نہیں۔ میں جانوروں کے حقوق کا کوئی بہت بڑا دعویدار تو نہیں لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ انسانوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی تفریح یا اپنے آرام کے لیے کسی جانور کو تکلیف دیں۔ ہمیں گوشت خوری کو مردانگی اور اسلام کالازمی جزو خیال کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

Leave a Reply