Laaltain

ایک ٹیڑھی لکیرکی سیدھی کہانی

6 مارچ، 2016
Picture of اشرف اقبال

اشرف اقبال

1966- مسلم ہائی سکول میں ایک روشن دن،ابھی ابھی اسمبلی۔ جس میں تمام سکول کے بچے شرکت کرتے تھے۔ ختم ہوئی تھی۔ آج کی اسمبلی میں ہمارے ہی دوستوں نے ایک بہت دلچسپ نظم پڑھ کر سنائی تھی۔ اب تمام سیکشن ایک سیدھی لکیر میں اپنے اپنے کلاس روم میں جانے کے لئے روانہ ہو گئے تھے۔ یہ ہمارا روز کا دستور تھا۔ اور ایک سیدھی لکیرایک دم سے بنا لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ ٹیڑھی لکیر پر چلنے کا مطلب سب کو معلوم تھا۔ ہماری کلاس میں تمام بچے سوائے بلّو کے سیدھی لکیر میں چلنے کوایک عبادت کی طرح عظیم سمجھتے تھے۔ جیسے ہی سیٹی بجی سب بچے، صاف ستھری یونفارم میں ایک سیدھی لکیر میں اپنی اپنی کلاس کی طرف چل پڑے تھے۔ سیدھی لکیر کہیں موجود نہیں تھی۔ لیکن ہمارے دیماغ میں بیٹھ گئی تھی۔ بلّو کو یہ سیدھی لکیر کبھی نظر نہیں آئی تھی۔ شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں۔ ماسڑ صاحب نے کئی دفعہ اس کے والد صاحب کو اس کی آنکھوں کا علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر بلّو کا علاج آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس کہاں تھا۔ اس کو تو ٹیڑھی میڑھی لکیروں پر چلنے کی۔ بلکہ کودنے کی عادت تھی۔ استاد جی صحیح کہتے تھے۔ اس کے دماغ کی کوئی چول ڈھیلی تھی۔

 

ہم سب کلاس میں اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے تھے۔ اتنے میں استاد جی کلاس روم میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کلاس روم پر ایک گہری نظر ڈالی۔ وہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ آج صفائی کی کیا صورت حال ہے۔
آج بہار کا بہت خوبصورت دن تھا۔ ہمارے سکول میں بہار وقت سے پہلے ہی آ جاتی تھی۔ اسمبلی ہال سے کلاس روم تک جاتے جاتے سینکڑوں رنگ برنگے پھول۔ جو ایک خاص ترتیب سے سجائے جاتے تھے۔ دل کو طرح طرح کی خوشبووں اور رنگوں سے منور کر دیتے تھے۔ مگر بلّو ضرور کسی نہ کسی گملے سے ٹکرا کر یا تو خود گر پڑتا تھا یا گملا گرا دیتا تھا۔ ہم سب کلاس میں اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے تھے۔ اتنے میں استاد جی کلاس روم میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کلاس روم پر ایک گہری نظر ڈالی۔ وہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ آج صفائی کی کیا صورت حال ہے۔ باری باری تمام بچے کلاس روم کو اسمبلی کے وقت میں صاف کیا کرتے تھے۔ جھاڑو کے بعد اگر ٹاکی نہ لگائی جائے تو فرش پر وہ چمک کبھی نہیں آتی یہ سب بچوں کو معلوم تھا۔ یہ استاد جی کا روز کا دستور تھا۔ آج بھی ہمارا کلاس روم ایک نئی نویلی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ کھڑکیوں کے شیشے بھی بلیک بورڈ پہ استعمال ہونے والے چاک اور پانی سے اتنے صاف کئے گئے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ کھڑکی کی چوکھٹ میں شیشہ غائب ہے۔ استاد جی آج موسم کے حساب سے کافی خوش مزاج تھے۔ کلف لگے ہوئے سفید براق کپڑے اور مرغے کی کلغی کی طرح کھڑی ہوئی پگڑی کا پلو ان کی آن اور شان میں اضافہ کر رہا تھا۔ حاضری لینے کے بعد اور جن بچوں نے آج کلاس روم کو سجایا تھا ان کو شاباشی دینے کے بعد روز کے معمول کے مطابق کلاس شروع ہو گئی۔ سب بچے خاموشی اور انہماک کے ساتھ ان کی باتیں سن رہے تھے اور کبھی کبھی کچھ اپنی رف کاپی پر نوٹ بھی کر لیتے تھے۔ مکمل خاموشی کا عالم تھا۔ پڑھائی لکھائی کا، سمجھنے سجھانے کا کیسا خوبصورت ماحول تھا۔ استاد جی بڑی سُشتہ زبان میں ایک عالمانہ تقریر کر رہے تھے۔ اور تمام بچےاپنی صاف ستھری یوینفارم پہنے، ان کی گفتگو سے اتنے مرعوب تھے کہ کسی کو سر کھجانے کی فر صت بھی نہیں تھی۔ اچانک بلو نے غالباً کوئی سوال پوچھنے کی غرض سے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ اور استاد جی کی اجازت لئے بغیر ایک ایسا الٹا سیدھا، ٹیرھا میڑھا سوال پوچھا کہ سیدھی لکیر میں رواں دواں ان کا لیکچر درہم برہم ہو گیا کلاس روم کا سناٹا ایکا ایکی ٹوٹ گیا۔ ایک شور برپا ہوا۔ کہ بہت خاموش طبعیت بچے جو ہمیشہ ایک سیدھی لکیر میں چلنے کے عادی تھی۔ ان کے چہرے پر بھی ایک ٹیڑھی مسکراہٹ آ گئی ۔استاد جی کی پگڑی کا پلو یک دم ڈھیلا ہوکر لٹک گیا۔
ایک دن استاد جی نے صبح صبح بلّو سے پوچھا کہ تُو کلاس کے شروع میں ہی کیوں ایسی حرکت کر دیتا ہے کہ میں تجھے مارنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ میراباقی سارادن خراب گزرتا ہے۔ اور کلاس روم کا سیدھا ماحول چکنا چور ہو جاتا ہے۔ کم از کم اپنے ان دوستوں پر ہی رحم کر جو اتنی دور سے پیدل تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں اور کبھی کوئی ٹیڑھا سوال نہیں پو چھتے۔ آخر تیرے دماغ میں کیا خرابی ہے جو ان کے دماغ میں نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی ایک بھی سیدھی لکیر تیرے دماغ میں نہیں۔ جب ہی تو تیری ساری کا پیاں الٹی سیدھی ٹیرھی میڑھی لکیروں سے بھری پڑی ہیں۔

 

استاد جی بھی آج کچھ مایوس مایوس سے لگ ہے تھے۔ ان کو اپنی بیوی کی یہ با ت بار بار یاد آرہی تھی کہ اس روز روز کی مار دھاڑ کی بجائے کوئی قصائی کی دوکان ہی کھول لو۔
آج خزاں کا ایک اداس دن تھا۔ صبح سے ہی سورج کی ایک کرن بھی نمودار نہیں ہوئی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش رات سے ہو رہی تھی۔ سکول کے سٹاف روم میں آج روزمرہ کی طرح وہ چہل پہل نہیں تھی۔ سب کی زبان پر صرف ایک ہی سوال تھا۔ آج ایک نئے انسپکٹر آف سکولز ہمارے سکول کا دورہ کرنے آ رہے تھے۔ شاہ جی کا اس ڈویژن میں پہلا دورہ تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا سوال جواب لے کر آ رہے ہیں ۔ تمام اساتذہ چہ میگوئیوں میں مصروف تھے۔ آج ان کی نوکری داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ شاہ جی کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور تھیں۔ وہ بہت سخت انسان تھے۔ غالباً آنکھوں سے محروم تھے جب ہی ایک لکڑی کا سہارا لے کر چلتے تھے۔ لکڑی کی ٹک ٹک کی آواز دور سے ان کے آنے کا پتہ دیتی تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جان بوجھ کر اندھے بنے ہوئے ہیں۔ جہاں بھی جاتے تھے کوئی نہ کوئی ڈرامہ ضرور کرتے تھے، کسی نہ کسی کی نوکری ضرور چلی جاتی تھی۔ کالے شیشوں کی موٹی عینک لگاتے تھے۔ اور عام طور پر آسمان کی طرف تکتے رہتے تھے۔ نابینا ہونے کی وجہ سے یا نابینا بننے کی وجہ سے ان کو وہ چیزیں بھی نظر آ جاتی تھیں جو عام صاحب نظر نہیں دیکھ سکتا۔ آج اسکول کی اسمبلی منسوخ کر دی گئی اور کچھ ہی دیر میں تمام بچے اپنی اپنی کلاس کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ استاد جی بھی آج کچھ مایوس مایوس سے لگ ہے تھے۔ ان کو اپنی بیوی کی یہ با ت بار بار یاد آرہی تھی کہ اس روز روز کی مار دھاڑ کی بجائے کوئی قصائی کی دوکان ہی کھول لو۔ کچھ آمدنی میں اضافہ بھی ہو جائے گا اور روز روز کا شاہ جی کا ڈر بھی ختم ہو گا مگر وہ اپنے آبا واجداد کا یہ پاکیزہ کام کیسے چھوڑ سکتے تھے۔ کتنے بچوں کو انہوں نے راہ راست پر چلنا سکھایا تھا۔ یقیناً استاد کا پیشہ اللہ کے خاص بندوں کو ہی زیب دیتا ہے۔ شاہ جی کی آمد کے سلسلے میں آج ہماری کلاس میں خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ کئی دن سے اس روز کی تیاری ہو رہی تھی۔ تمام بچوں کو خصوصی ہدایات دی گئی تھیں۔ بلّو سے کہا گیا تھا کہ یا تو وہ سکول نہ آئے اور یا پھر دو بچے اس کے اردگرد اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی عادت سے مجبور کوئی الٹا سیدھا سوال نہ پوچھ لے۔

 

سکول کی گھنٹی بجی۔ چپڑاسی بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا اور اُستاد جی کو خبردار کر دیا کہ شاہ جی آ چکے ہیں۔ شاہ جی کے لیے کافی پُر تکلف چائے کا بندو بست کیا گیا تھا۔ کو شش یہی تھی کہ وہ کھانے پینے میں اتنا وقت صرف کر دیں کہ پھر کلاس رُومز میں جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مگر شاہ جی تو اندھے تھے اور آج شاید بہرے بھی بن گئے تھے۔ انہوں نے اپنے تمام میزبانوں کو نظر انداز کر کے اپنی لکڑی کی ٹھک ٹھک کے ساتھ سیدھا ہماری کلاس کا رُخ کیا ۔ اُن کی اس بد تمیزی پر تمام اساتذہ کی، جو اُن کی خدمت پر مامور تھے ایک دفعہ تو دل کی دھڑکن غالباً بند ہو گئی شاہ جی نے تو پانی کا ایک گھُونٹ پینا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

 

یہاں پر تو قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ کوئی بولتا کیوں نہیں؟ کیا یہ جُمعہ کا خطبہ ہو رہا ہے یا نیوٹن کا قانونِ ثقل؟
آج اُستاد جی نے اپنی پگڑی کے پلُّو کو مزید کھڑا کر لیا تھا۔ دو بچے جو بلُّو کے ساتھ بٹھائے گئے تھے۔ وہ چوکس ہو گئے تھے۔ باقی تمام بچوں کو ہدایت تھی کہ وہ کتاب سے نظر نہ اُٹھائیں کہ کہیں شاہ جی کن انکھیوں سے کچھ دیکھ نہ لیں۔ لکڑی کی ٹھک کی آواز بہت دُور سے آنی شروع ہو گئی، کبھی یہ ہلکی ہو جاتی تو کبھی تیز۔ وقت گُزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ہر ٹھک ٹھک منوں بھر وزن کی طرح ہر کسی کے اوسان خطا کر رہی تھی۔ کلاس کے دروازے میں پہلے اُن کی چھڑی داخل ہوئی اور پھر شاہ جی۔ اُستاد جی بوکھلاہٹ میں سلام دُعا کرنا ہی بھُول گئے اور فوری طور اپنا عالمانہ لیکچر شروع کر دیا۔ جو کلاس کے بچے اتنی بار سُن چکے تھے کہ اُن کو اس کا ایک ایک لفظ یا د ہو گیا تھا۔

 

شاہ جی آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور شاید مُسکرا بھی رہے تھے۔ اُستاد جی اپنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ نیوٹن کے قوانینِ ثقل پڑھا رہے تھے۔ تمام بچے بالکُل خاموشی کے ساتھ سر جھُکائے بیٹھے تھے اور وہ کرتے بھی کیا؟ وقت کی سوئیاں چلنی بند ہو گئی تھیں۔ ایک دم شاہ جی کی لکڑی میں جُنبش ہوئی۔ اُنہوں نے اس کو کئی دفعہ زمین پر پٹخا اُستاد جی خاموش ہو گئے۔ اور اِنتظار کرنے لگے کہ لکڑی کے پٹخنے کے بعد شاہ جی کُچھ مُنہ سے بھی بولیں گے۔ شاہ جی نے پھر لکڑی کو زمین پر پٹخا اور ایک شدید کرب کی حالت میں بولے۔ کیا کوئی زندہ بچے یہاں موجود ہیں؟؟؟ یہاں پر تو قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ کوئی بولتا کیوں نہیں؟ کیا یہ جُمعہ کا خطبہ ہو رہا ہے یا نیوٹن کا قانونِ ثقل؟ اُستاد جی کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا۔ وہ یہ بھُول گئے تھے کہ ایسے بُرے وقت کے لیے ہی اُنہوں نے سوال و جواب کا ایک ڈرامہ کچھ بچوں کو رٹایا ہُوا تھا۔ اُستاد جی کے اِشارے کا اِنتظار کیے بغیر ایک بچے نے بڑے ادب سے دو تین سوال بڑی سُشتہ اُردُو میں پوچھ ڈالے۔ ابھی اس کے سوال ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور بچے نے بڑی ترتیب کے ساتھ، رُک رُک کر، آرام آرام سے اُن کے صحیح جوابات کی گِردان شروع کر دی۔

 

اس پر تو شاہ جی کا پارا آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ وہ چنگھاڑے، میں نے بچوں کو اِمتحان میں سوالات کے جواب نقل کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن سوالات نقل کرتے ہوئے آج دیکھ رہا ہوں۔ یہ سارے سوالات تو کتاب کے سبق کے آخرمیں موجود ہیں کیا آپ میں سے کسی کے پاس بھی کوئی اپنا سوال نہیں ہے؟ نیوٹن کا قانونِ ثقل سمجھنا اور سمجھانا بہت مُشکل کام ہے۔ آج یہ اتنا آسان کیسے ہو گیا؟ یہ کیسا کلاس رُوم ہے جہاں خاموشی ہی خاموشی ہے، ادب ہی ادب ہے۔ مگر کوئی سوال نہیں ہے۔

 

اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے بلُّو نے اپنی ٹُوٹی پھُوٹی زبان میں پوچھا۔ شاہ جی میں آپ کی اس چھڑی کو اپنی سِیٹ سے کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا، نیوٹن کی کششِ ثقل کے مُطابق ۔ مگر اس پر ذرا برابر بھی اثر نہیں ہو رہا تھا
اُستاد جی کا آخری سہارا بھی بُری طرح فیل ہو چکا تھا۔ اُنہیں دن کے وقت قصائی کی دُکان کے خواب آ رہے تھے۔ بچوں پر سکتے کا عالم تھا۔ چپراسی جو شاہ جی کے لیے پانی گلاس لے کرآیا تھا۔ گلاس رکھے بغیر دُم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک قیامت کا سماں تھا ہر کسی کا دل اس قدر زور سے دھک دھک کر رہا تھا کہ شاہ جی کی لکڑی کی ٹھک ٹھک بھی ماند پڑ گئی تھی۔

 

اِتنے میں کلاس کے پیچھے سے ایک کانپتی ہوئی آواز نے اس قیامت کی خاموشی کا بھرم توڑ دیا۔ بلُّو کچھ کہنا چاہتا تھا، کچھ پوچھنا چا ہتا تھا۔ مگر اس کے دونوں طرف بیٹھے ہوئے ہٹے کٹے دوست اس کا مُنہ بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شاہ جی نے اس سمت کا تعین کرنے کی کوشش کی جہاں سے دبی دبی آوازیں آ رہی تھیں۔ شاہ جی کے خوف نے بلُّو کے ساتھ بیٹھے ہوئے بچوں کو خوف زدہ کر دیا اور جیسے ہی بلُّو آزاد ہوا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا شاہ جی کے پاس آیا اور اُن کی لکڑی کو پکڑ کر کھینچنا شروع کر دیا۔ شاہ جی اس اچانک حملے سے گھبرا گئے ۔ آج تک کسی نے یہ جُرات نہیں کی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتے بلُّو نے اپنی ٹُوٹی پھُوٹی زبان میں پوچھا۔ شاہ جی میں آپ کی اس چھڑی کو اپنی سِیٹ سے کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا، نیوٹن کی کششِ ثقل کے مُطابق ۔ مگر اس پر ذرا برابر بھی اثر نہیں ہو رہا تھا، اب مُجھے آپ کے پاس چل کرآنا پڑا تا کہ اس چھڑی کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ سکوں۔ سورج یا زمین کے آخر وہ ہاتھ کہاں ہیں جن کے ذریعے وہ کششِ ثقل کے مُطابق مُختلف چھوٹی چیزوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ شاہ جی ایک دم اچنبھے میں آ گئے۔ وہ جھکے تا کہ بلُّو کا ہاتھ تھام لیں۔ جھکنے کی وجہ سے ان کی کالے موٹے شیشوں کی عینک نیچے گر پڑی۔ اور سب بچوں کو اُن کی بے نُور آنکھیں صاف نظر آنے لگیں ۔ انہوں نے بلُّو کو اپنے پاس بلایااور گلے لگا لیا۔ ایک آنسو ان کی ایک بے نُور آنکھ سے گر کر ان کی داڑھی میں جذب ہو گیا۔

 

اُستاد جی نے سکون کا سانس لیا۔ آج ایک ٹیڑھی لکیر نے اُن کی نوکری بچا لی تھی۔

3 Responses

  1. غالباً لکیرسے مصنف کی مراد قطار ہے — سیدھی اور ٹیڑھی قطار— لیکن مسلہ یہ ہے کہ قطارکہنے سے ٹیڑھی لکیر کا لطف نہیں آنے گا

  2. جناب عالی۔ بہت ہی عمدہ تحریر لکھی ہے ۔ آخر تک پڑھنے کا جو لطف محسوس ہوا اُس کو بیان کرنا اس ناچُستہ کے لئیے مشکل ہورہا ہے ِتاہم کششِ تحریر تعریفی کلمات کو اپنے جانب کھنچنے میں کامیاب رہی ۔ ڈھیروں دعائیں از طرف : محمد حامد ۔ کراچی یونیورسٹی ، شعبہ اردو ، سال اول

  3. ایک معلم ہونے کے ناطے مجھے اس تحریر میں کردار نگاری، واقعاتی سچا یی، طنز اورچھپا سبق بہت اچھا لگا۔
    زبردست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب اشرف اقبال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

3 Responses

  1. غالباً لکیرسے مصنف کی مراد قطار ہے — سیدھی اور ٹیڑھی قطار— لیکن مسلہ یہ ہے کہ قطارکہنے سے ٹیڑھی لکیر کا لطف نہیں آنے گا

  2. جناب عالی۔ بہت ہی عمدہ تحریر لکھی ہے ۔ آخر تک پڑھنے کا جو لطف محسوس ہوا اُس کو بیان کرنا اس ناچُستہ کے لئیے مشکل ہورہا ہے ِتاہم کششِ تحریر تعریفی کلمات کو اپنے جانب کھنچنے میں کامیاب رہی ۔ ڈھیروں دعائیں از طرف : محمد حامد ۔ کراچی یونیورسٹی ، شعبہ اردو ، سال اول

  3. ایک معلم ہونے کے ناطے مجھے اس تحریر میں کردار نگاری، واقعاتی سچا یی، طنز اورچھپا سبق بہت اچھا لگا۔
    زبردست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب اشرف اقبال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *