گزشتہ دنوں”اکیسویں آئینی ترمیم اور دینی و سیاسی جماعتوں کے تحفظات” کے نام سے لاہور میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ درحقیقت یہ ایک سیمینار سے زیادہ ایک نئے محاذ کا پیش خیمہ تھا۔ یہ محاذ کھولنے میں جہاں انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کا ہاتھ ہے وہیں حکومتی تذبذب بھی ذمہ دار ہے۔ 21ویں آئینی ترمیم کے لیے جب پہلی کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی تو اس وقت دینی جماعتوں کی طرف سے اختلافات اور اعتراضات سامنے نہیں آئے یا فوجی دباو اور عوامی ردعمل کے پیش نظرتحفظات کے باوجود اختلافات ظاہر نہیں کیے گئے۔ اختلافات کھل کر بیان نہ کرنے سے عام آدمی کو یہ تاثر ملا کہ شاید اس وقت مسلح افواج کے خوف کی وجہ سے اختلافات کو ظاہر نہیں کیا گیا۔
اکیسویں (1 2 ) آئینی ترمیم کے لیے جب پہلی کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی تو اس وقت دینی جماعتوں کی طرف سے اختلافات اور اعتراضات سامنے نہیں آئے یا فوجی دباو اور عوامی ردعمل کے پیش نظرتحفظات کے باوجود اختلافات ظاہر نہیں کیے گئے۔
اس وقت سیاسی قیادت فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہی ہےلہذا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان اپنے اختلافات کا کھل کر اظہار کرتے اور اپنا نقطہ نظر اس انداز سے پیش کرتے کہ مسائل پیدا نہ ہوں۔اکیسویں(1 2)آئینی ترمیم آئین کے بعد 22ویں آئینی ترمیم کی باتیں شروع ہو چکی ہیں اور رائے عامہ کی تقسیم کا عمل شروع ہو چکا ہے۔سانحہ پشاور کے بعد فوری اقدامات کی یقیناًضرورت تھی لیکن یہ فوری اقدامات مستقبل میں اختلافات کا پیش خیمہ بن جائیں یہ نہ تو ملکی مفاد میں ہے نہ ہی مثبت سیاسی سوچ کے، کیوں کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا حصہ بن چکا ہے (چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے)اس میں فتح یاب ہونا ہی پاکستان کی بقاء کی ضمانت ہے۔
فوجی عدالتوں کےقیام کے لیے آئینی ترمیم پر جب صلاح مشورے شروع کیے گئے تو تمام سیاسی قیادت اس بات پر متفق تھی کہ یہ مستقل حل نہیں ہےاور وقتی ضرورت کے تحت فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔تاہم سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے دہشت گردی کے تدارک کے لیے سول عدالتی نظام کی خامیاں دور کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی جو فوجی عدالتوں کے قیام سے کہیں اہم ہے ۔ بلاشبہ فوجی عدالتوں سے دہشت پسند عناصر اور دیگر جرائم پیشہ لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی لیکن اس سے انصاف کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانے کے وعدے پر کیسے عمل ہو سکے گا۔ یہ تاثر بھی اب عام ہورہا ہے کہ پاکستانی سیاسی نظام شاید اس حد تک مخدوش ہو چکا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے ہنگامی معاملات سے نمٹنے کا اہل نہیں رہا۔ لیکن اگر اس تاثر میں سچائی ہے بھی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ متوازی نظام قائم کر دیا جائے بلکہ خراب نظام کی درستگی کے اقدامات کرنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی طرح فوجی عدالتیں وقتی حل ہیں ، عدلیہ کے آزاد اور موثر ہونے تک دہشت گردی کا تدارک ممکن نہیں۔
اب جب کہ فوجی عدالتیں آئین کا حصہ بن چکی ہیں تو اختلافات کو ہوا دینا ان کی افادیت کو کم کر دے گااور اس اختلاف کو مذہبی یا فقہی رنگ دینا آگ بڑھکانے کے مترادف ہو گا۔ فوجی عدالتوں کے سر پہ جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے اس سے بری الذمہ ہونے کے لیے بہت سے قانونی پہلوؤں کو یقیناًمد نظر رکھا جائے گا۔یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ فوجی عدالتیں کسی نہ کسی سطح پر سول عدالتوں کی کارکردگی پر اس طرح سے اثر انداز ہوں گی کہ عدالتیں انصاف کی فراہمی میں سست روی کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے لائحہ عمل اختیار کریں گی جس سے عوام کا سول عدالتوں پر اعتماد بحال ہو گا اورحکومت پر بھی سول عدالتوں کو مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گا۔
اب جب کہ فوجی عدالتیں آئین کا حصہ بن چکی ہیں تو اختلافات کو ہوا دینا ان کی افادیت کو کم کر دے گااور اس اختلاف کو مذہبی یا فقہی رنگ دینا آگ بڑھکانے کے مترادف ہو گا۔
21ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں سیاستدانوں کی اہلیت سے زیادہ شاید فوج کے دباو کا اثر زیادہ تھا جس کے سامنے حکومت، حزب اختلاف اور مذہبی جماعتوں کو جھکنا پڑا۔ لاہور میں ہونے والی کانفرنس جسے بظاہر مذہبی و سیاسی کانفرنس کا نام دیا گیا تھا اصل میں دینی جماعتوں کا اجتماع تھا۔ اس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمٰن کی بھرپور شرکت معنی خیز ہے۔ مولانا صاحب حکومت کے اتحادی ہیں لیکن موجودہ صورت حال میں وہ حکومت کے سب سے بڑے ناقد کے طور پہ سامنے آئے ہیں۔ مولانا نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جیسے 21ویں ترمیم کے ذریعے دہشت گردی کا تعلق مذہب،مسلک اور دینی مدارس سے جوڑا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ کے بقول 90فیصد مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں لیکن انہوں نے 10فیصد مدارس کی نشاندہی بھی نہیں کی جو اس ناسور میں ملوث ہو سکتے ہیں۔حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے فروغ میں ملوث مدارس کے خلاف کارروائی کی صورت میں مذہبی جماعتوں کا ردعمل یقینی ہے۔مولانا صاحب نے مدارس کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی کو اپنے خلاف کاروائی سے تعبیر کر لیا ہے۔ مدارس کی سرکاری نگرانی ہمیشہ سے ایک حساس معاملہ رہا ہے لیکن اب ضروری ہے کہ امن پسند مدارس حکومت سے تعاون کریں تاکہ دہشت گردی کی ترویج میں ملوث مدارس اور علماء کے خلاف موثر کارروائی کی جا سکے اس مقصد کے لیے حکومتی ادارو ں اور مدارس کے درمیان اعتماد کی فضا قائم رکھنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان محاذآرائی کے بعد اگر دینی جماعتوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا تو یہ ایک اور محاذ کھولنے کے مترادف ہوگااور اس محاذ پر کامیابی کے لیے سیاسی حکومت کو اپنی سوجھ بوجھ استعمال کرنا ہو گی ۔ حکومت کو غیر ضروری لچک دکھائے بغیر دہشت گردی کی روک تھام کرنا ہو گی ۔ مولانا صاحب کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ اگر ان کے تحفظات کے پیش نظر 22ویں ترمیم کی گئی تو پھر دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی ممکن نہیں ہو گی۔اس لیے جہاں حکومت وقت کو سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا ہو گا وہاں مولانا صاحب کو بھی ملکی سلامتی کے لیے کڑوی گولی نگلنی ہو گی اور اگر مدارس اپنے طور پرشدت پسند عناصر کی حوصلہ شکنی کریں تو شاید حکومت کوکارروائی کی ضرورت ہی نہ پڑے، نفاق و نفرت کے بجائے اتفاق و اتحاد پہ عمل پیرا ہو کر ہی یہ جنگ جیتی جا سکتی ہے۔

Leave a Reply