مصنف بہت دیر تک خود کو اندھیرے میں گم کیے بیٹھا رہا۔ اتھاہ اندھیرا اور ہوا سے بھی ہلکی چپ تب ٹوٹی جب اس کے خیالات نے جگنو بن کر اندھیرے میں جگمگانا شر وع کیا، جن کے پروں کی تھرتھراہٹ سے چپ کی نازک پرت میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ جگنو بڑھتے گئے اور ہر طرف چنگاریاں سی چھوٹ گئیں، مصنف دم بخود بیٹھا انہیں دیکھتا رہا۔ اسے آج سے پہلے اپنے فنِ تخلیق کے اتنے کارگر اور حسین ہونے کا اندازہ نہیں ہو پایا تھا۔ وہ بیٹھا رہا، سوچتا رہا اور سوچتا چلا گیا، حتیٰ کہ جگنووں کے اڑنے کو جگہ اور سانس لینے کو ہوا کم پڑگئی۔
آخر کار مصنف نے کاغذ قلم سنبھالا، نروان مل جانے کے بعد کی مسکراہٹ نور بن کر اس کے چہرے پر برسنے لگی۔ آس پاس کی ہر شے شانتی اور سکھ کی نرمی سے موم ہو جانے کو تھی،اس نے گہرا سانس لیا اور دنیا پر اس کے اسرار کھولنے لگا۔ کم ذہن اور بے سمت انسان پر موت اور زندگی کے راز آشکار کرنے کا فرض اب مصنف کے علم کے بوجھ سے جھکتے کندھوں پر آپڑا تھا۔ وہ اس مقدس فرض کے احساسِ ذمہ داری اور تفاخر میں غلطاں شفقت سے مسکرایا اور ان جگنوؤں کو ایک قابل فہم تحریر میں منتقل کرنے لگا۔ چھوٹے بڑے جگنو کاغذ پر قطاروں کی صورت میں جڑ دیے گئے جو کبھی جلتے بجھتے انگارے لگتے اور کبھی جواہرات۔ اور وہ ایسے ہی تھے؛ آگ ،حسن، نایاب اور بیش بہا مگر حقیقت۔
مصنف وقت کی گزران پر کان دھرے بغیر آج کو کل اور پھر اگلے کل پر ٹالتا لکھتا چلا گیا، حتیٰ کہ جگنو ختم ہو گئے اور اندھیرا بھی۔ اس نے اندھیرے اور کتاب کا ایک ساتھ ختم ہونا اچھا شگون گردانا۔ “میں اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوچکا ہوں۔” اس نے سکون کی لہروں کو اپنے ارد گرد جامد ہوتے محسوس کیا، تازہ سیاہی کی خوشبو میں لپٹی کتاب احتیاط سے بغل میں دبائی اوراسے دوسرے لکھنے والوں کے پاس لے گیا جواس سے کمتر ہی سہی مگر لکھنا توجانتے تھے۔ مصنف نے اپنی دھیمی، پراسرارمگر راز کھولتی آواز میں خود پر گزرنے والے معجزہ کا احوال انہیں سنایا۔ وہ سب حیران آنکھیں لیے سنتے رہے، دنیا کی سب سے بڑی کتاب کا ظہور ہو چکا تھا۔
بالآخر رونمائی کا وقت آن پہنچا، مصنف نے منبر پر چڑھ کر ان سب پر مشفقانہ سرپرستی سے نگاہ کی۔ لکھنے والوں کا مختصر مجمع بے چین، فکر مند اور انتظار کے کرب میں مبتلا خاموشی سے پہلو بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔ مصنف کو ان کی کم مائیگی پر ترس آیا اور اس نے تمام تر ممکنہ عاجزی سے کتاب کھول لی۔ پھر علم دنیا کے رازوں کے پردے چیرنے لگا، عبادتوں کی لمبایاں فیصل کی گئیں، حیات بعد ازممات کے تکنیکی مسائل کا ذکر ہوا، ادق فلسفہ مزید گاڑھا کیا گیا، منطق کی رو سےروح کے اندھیرے ماپے گئے، ریاضی کی گنجلک گتھیاں سلجھائی گئیں، قدیم رہن سہن کا رد پیش ہوا، نئے اطوار سے جینے کی تجاویز بُنی گئیں، قربان گاہوں کو تازہ لہو سے تر رکھنے کی ضرورت قلم تلے ڈکرائی، نئی جنگوں کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کے منصوبے زیرِ بحث آئے۔ غرض زندگی اور موت کے ہر پہلو کا نفیس ترین الفاظ میں احاطہ کیا گیا۔ ۔۔
اورجب کتاب ختم ہوئی توعلم کے اس عظیم عجوبے کے رعب سے مجمع پر لرزہ طاری تھا۔ پھر بہت دیر تک خاموشی رہی جس میں احسان مندی کی چند سسکیوں کے سوا کچھ سنائی نہ دے سکا۔ مصنف فاتحانہ عاجزی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔ سوال کیے جانے کے گزند سے بالا تر اپنی عظمت کے لاریب اعتماد سے پُر وقت کے سرد و گرم سہے اس مجسمے کی طرح جس کے سائے میں نسلیں بنتی اور ملیامیٹ ہوتی رہی ہوں اور اب صرف وہی ہے جو جو ماضی اور حال کے ہر راز سے واقف ہے اور مستقبل کو اپنی پیش بینی سے گرفت میں لے سکتا ہے۔ اچانک ایک جانب سے ڈری سہمی اور کم عمر آواز نے اس الوُہی خاموشی کو توڑا اور مصنف سے مخا طب ہونے کی گستاخی کی۔ مصنف نے اس جسارت کو ہمدردی کی نظر سے دیکھا اور مجمع نے یہ آواز ذرا ناگواری سے سنی۔
” اے عظیم مصنف! تیری ہر بات بجا، ہر لفظ درست۔۔ تمام سچ مگراس عظیم تصنیف کا زندگی کرنے کے طریقوں سے جو بھی تعلق ہو، انسان کے دکھوں سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔” لڑکےنے ہمت کر کے کہا۔
مصنف نے اس سچ سے گھبرا کتاب پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ جگنوؤں کی لاشیں اُس کے قدموں پہ گر رہی ہیں اور ورق کورے ہوتے چلے جارہے ہیں۔
آخر کار مصنف نے کاغذ قلم سنبھالا، نروان مل جانے کے بعد کی مسکراہٹ نور بن کر اس کے چہرے پر برسنے لگی۔ آس پاس کی ہر شے شانتی اور سکھ کی نرمی سے موم ہو جانے کو تھی،اس نے گہرا سانس لیا اور دنیا پر اس کے اسرار کھولنے لگا۔ کم ذہن اور بے سمت انسان پر موت اور زندگی کے راز آشکار کرنے کا فرض اب مصنف کے علم کے بوجھ سے جھکتے کندھوں پر آپڑا تھا۔ وہ اس مقدس فرض کے احساسِ ذمہ داری اور تفاخر میں غلطاں شفقت سے مسکرایا اور ان جگنوؤں کو ایک قابل فہم تحریر میں منتقل کرنے لگا۔ چھوٹے بڑے جگنو کاغذ پر قطاروں کی صورت میں جڑ دیے گئے جو کبھی جلتے بجھتے انگارے لگتے اور کبھی جواہرات۔ اور وہ ایسے ہی تھے؛ آگ ،حسن، نایاب اور بیش بہا مگر حقیقت۔
مصنف وقت کی گزران پر کان دھرے بغیر آج کو کل اور پھر اگلے کل پر ٹالتا لکھتا چلا گیا، حتیٰ کہ جگنو ختم ہو گئے اور اندھیرا بھی۔ اس نے اندھیرے اور کتاب کا ایک ساتھ ختم ہونا اچھا شگون گردانا۔ “میں اپنی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوچکا ہوں۔” اس نے سکون کی لہروں کو اپنے ارد گرد جامد ہوتے محسوس کیا، تازہ سیاہی کی خوشبو میں لپٹی کتاب احتیاط سے بغل میں دبائی اوراسے دوسرے لکھنے والوں کے پاس لے گیا جواس سے کمتر ہی سہی مگر لکھنا توجانتے تھے۔ مصنف نے اپنی دھیمی، پراسرارمگر راز کھولتی آواز میں خود پر گزرنے والے معجزہ کا احوال انہیں سنایا۔ وہ سب حیران آنکھیں لیے سنتے رہے، دنیا کی سب سے بڑی کتاب کا ظہور ہو چکا تھا۔
بالآخر رونمائی کا وقت آن پہنچا، مصنف نے منبر پر چڑھ کر ان سب پر مشفقانہ سرپرستی سے نگاہ کی۔ لکھنے والوں کا مختصر مجمع بے چین، فکر مند اور انتظار کے کرب میں مبتلا خاموشی سے پہلو بدلتا محسوس ہو رہا تھا۔ مصنف کو ان کی کم مائیگی پر ترس آیا اور اس نے تمام تر ممکنہ عاجزی سے کتاب کھول لی۔ پھر علم دنیا کے رازوں کے پردے چیرنے لگا، عبادتوں کی لمبایاں فیصل کی گئیں، حیات بعد ازممات کے تکنیکی مسائل کا ذکر ہوا، ادق فلسفہ مزید گاڑھا کیا گیا، منطق کی رو سےروح کے اندھیرے ماپے گئے، ریاضی کی گنجلک گتھیاں سلجھائی گئیں، قدیم رہن سہن کا رد پیش ہوا، نئے اطوار سے جینے کی تجاویز بُنی گئیں، قربان گاہوں کو تازہ لہو سے تر رکھنے کی ضرورت قلم تلے ڈکرائی، نئی جنگوں کے لیے نئی تدابیر اختیار کرنے کے منصوبے زیرِ بحث آئے۔ غرض زندگی اور موت کے ہر پہلو کا نفیس ترین الفاظ میں احاطہ کیا گیا۔ ۔۔
اورجب کتاب ختم ہوئی توعلم کے اس عظیم عجوبے کے رعب سے مجمع پر لرزہ طاری تھا۔ پھر بہت دیر تک خاموشی رہی جس میں احسان مندی کی چند سسکیوں کے سوا کچھ سنائی نہ دے سکا۔ مصنف فاتحانہ عاجزی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔ سوال کیے جانے کے گزند سے بالا تر اپنی عظمت کے لاریب اعتماد سے پُر وقت کے سرد و گرم سہے اس مجسمے کی طرح جس کے سائے میں نسلیں بنتی اور ملیامیٹ ہوتی رہی ہوں اور اب صرف وہی ہے جو جو ماضی اور حال کے ہر راز سے واقف ہے اور مستقبل کو اپنی پیش بینی سے گرفت میں لے سکتا ہے۔ اچانک ایک جانب سے ڈری سہمی اور کم عمر آواز نے اس الوُہی خاموشی کو توڑا اور مصنف سے مخا طب ہونے کی گستاخی کی۔ مصنف نے اس جسارت کو ہمدردی کی نظر سے دیکھا اور مجمع نے یہ آواز ذرا ناگواری سے سنی۔
” اے عظیم مصنف! تیری ہر بات بجا، ہر لفظ درست۔۔ تمام سچ مگراس عظیم تصنیف کا زندگی کرنے کے طریقوں سے جو بھی تعلق ہو، انسان کے دکھوں سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔” لڑکےنے ہمت کر کے کہا۔
مصنف نے اس سچ سے گھبرا کتاب پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ جگنوؤں کی لاشیں اُس کے قدموں پہ گر رہی ہیں اور ورق کورے ہوتے چلے جارہے ہیں۔