گزشتہ دنوں ایک کشمیری فورم "عوامی مفاہمتی کمیٹی برائے گلگت بلتستان و جموں کشمیر” پر مباحثے کے دوران اس وقت خوش گوار حیرت ہوئی جب میں نے گلگت بلتستان کے مسائل کی ذمہ داری پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے حکمرانوں پر عائد کرنے اور گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ قرار دینے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس تنقید کے جواب میں ایک صاحب کہنے لگے کہ آپ بالکل حق بجانب ہیں اور ہم کشمیری عوام آپ کے مجرم ہیں اور ہم معذرت خواہ ہیں۔ میں بے یقینی کے عالم میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کہوں، کہ ایک اور صاحب میرے موقف کی تائید کرتے ہوئے بولے کہ واقعی گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ مظفرآباد کے حکمرانوں نے بہت زیادتی کی ہے جس کا ہم دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کو احساس ہے اور ہم اس کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مظفر آباد کے حکمران ہی متحدہ کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہی لوگ سیاسی طاقت کی بنیاد پر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر میں ضم کر کے گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن شکر ہے کہ کشمیر کے عوام میں بھی یہ سوچ موجود ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر سے جداگانہ حیثیر کا حامل علاقہ ہے۔

کشمیر کی ایک قابل ذکر آبادی گلگت بلتستان کے مسائل کا یہاں کے عوام کی اُمنگوں اور عالمی قوانین کی روشنی میں حل چاہتی ہے۔
وفاق پاکستان نے جس انداز میں بڑی بے رخی کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خارجہ پالیسی میں ایسے رد و بدل کو تیار نہیں جس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے، یعنی حکومت پاکستان گلگت بلتستان کے مستقبل کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک رکھتے ہوئے یہاں کے لوگوں کو ان کی آئنی حیثیت سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ چودہ نومبر انیس سو سینتالیس سے لے کر آج تک گلگت بلتستان کے عوام اس آس پر جی رہے تھے کہ وہ دن دور نہیں جب گلگت بلتستان کے عوام بھی قانونی اور آئینی طور پر پاکستانی کہلائیں گے لیکن پاکستان کی جانب سے ہمیشہ گلگت بلتستان کو کشمیر کے مسئلے کا ایک حصہ قرار دے کر آئینی حقوق اور شناخت سے محروم رکھا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اقتصادی راہداری سے لے کر ریاستی حقوق اور دیگر تمام معاملات میں گلگت بلتستان کو بالکل نظرانداز کیے رکھا ہے اور مقامی آبادی کی امنگوں سے متصادم فیصلے کیے ہیں، یہاں تک کہ گلگت بلتستان کے موجودہ جعرافیے کو تبدیل کرنے جیسی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ عام طور پر گلگت بلتستان میں ہماری محرومیوں کا اصل ذمہ دار آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو سمجھا جاتا ہے جنہوں نے ہمیں معاہدہ کراچی میں باندھ کر کبھی پلٹ کر پوچھا بھی نہیں اور جب کبھی وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کی بات آئی تو مظفر آباد کے حکمرانوں کا جارحانہ رویہ ہم سب کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ رہا ہے۔

لیکن گلگت بلتستان کے معاملے پر اب کشمیر کے لوگوں کا نقطہ نظر بھی تبدیل ہوا ہے۔ کشمیر کی ایک قابل ذکر آبادی گلگت بلتستان کے مسائل کا یہاں کے عوام کی اُمنگوں اور عالمی قوانین کی روشنی میں حل چاہتی ہے۔ کشمیر کے لوگ اب عالمی سطح پر گلگت بلتستان، لداخ اور جموں و کشمیر کے حقوق کے لئے مشترکہ آواز بلند کرنے پر بھی آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں متنازع ریاست کی تمام اکائیوں کے لیے قابل قبول مطالبات پر مبنی ایک اعلامیہ بھی پیش کیا گیا ہے، جس کے مندرجات کچھ اس طرح سے ہیں:

1۔ مسئلہ کشمیر کے متاثرہ فریقوں (گلگت بلتستان، پاکستانی اور ہندوستانی زیر انتظام کشمیر) کے لوگوں کو قریب لانا اور ان کے درمیان مفاہمت پیدا کرنا تاکہ غلط فہمیوں اور دوریوں کا خاتمہ کر کے باہمی محبت اور تعاون کی فضا کو فروغ دیا جا سکے۔

مسئلہ کشمیر کے متاثرہ و متنازعہ علاقوں بالخصوص گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے کوششیں کرنا اور انہیں حق حکمرانی دلانے کے لئے جدو جہد کرنا
2۔ مسئلہ کشمیر کے متاثرہ و متنازعہ علاقوں بالخصوص گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے کوششیں کرنا اور انہیں حق حکمرانی دلانے کے لئے جدو جہد کرنا تاکہ مسئلہ کشمیر کو متاثر کئے بغیر گلگت بلتستان کی قومی محرومیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

3۔ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان کے لوگوں کے درمیان بہتر تعلقات عاملہ کا قیام تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک متاثرہ عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کاجائز مقام اور حق دلایا جا سکے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عوامی سطح پر جدو جہد کی جا سکے۔

4۔ پاکستان اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے بہتر معیار زندگی کے لئے متعلقہ حکومتوں کو سفارشات پیش کرنا اور ان شفارشات پر عملدرآمد کے لئے کوششیں کرنا نیز مسئلہ کشمیر سے متعلق تمام فریقوں کو عوامی رائے اور مطالبات سے با خبر رکھنا تاکہ کسی بھی ممکنہ فیصلہ سازی میں عوامی رائے اور عوامی مفادات کا خیال رکھا جا سکے۔

5۔ سی پیک، دیامر بھاشا ڈیم سمیت دیگر بڑے منصوبوں میں گلگت بلتستان کے حقوق کے تحفظ اور گلگت بلتستان کے عوام کو مکمل حصہ دار بنانے کے لئے مشترکہ جد و جہد کرنا۔

6۔ تینوں منقسم خطوں میں پرامن عوامی اور جمہوری جدوجہد کرنے والے سیاسی قائدین اور کارکنوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت اور متعلقہ حکومتوں کی طرف سے ان پر بلاجواز اور سیاسی بنیاد پر قائم کئے جانے والے مقدمات کی حوصلہ شکنی کرنا تاکہ سیاسی قائدین اور کارکن اپنے حقوق کے لئے آزادانہ جمہوری جدوجہد کر سکیں اور جمہوری اقدار کو فروغٖ ملے۔

تینوں منقسم خطوں کے دریاوں، ڈیموں اور معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل پر متعلقہ خطے کا پہلا حق تسلیم کرانا، مکمل رائلٹی کے حصول کے لئے متعلقہ خطے کے عوام کی اخلاقی و سیاسی مدد کرنا۔
7۔ تینوں منقسم خطوں کے دریاوں، ڈیموں اور معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل پر متعلقہ خطے کا پہلا حق تسلیم کرانا، مکمل رائلٹی کے حصول کے لئے متعلقہ خطے کے عوام کی اخلاقی و سیاسی مدد کرنا۔

8۔ گلگت بلتستان سے متعلق معاہدہ کراچی کی منسوخی اور گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنا۔

9۔ عالمی جمہوری اصولوں کے مطابق تینوں متنازع خطے پاکستان اور ہندوستان کے لئے متنازع ہیں یہاں کے عوام کے لئے حق حکمرانی اور حق ملکیت ہر گز متنازع نہیں لہذا اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق تینوں منقسم خطوں میں آزاد خود مختار عوامی اسمبلی کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ جد وجہد کرنا۔

10۔مسئلہ کشمیر کے تینوں منقسم خطوں سے ہندوستانی اور پاکستانی افواج کا انخلاء اور آزادانہ رائے شماری کے ذریعے تینوں خطوں کے عوام کو آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دلانے کے لئے جدوجہد کرنا۔

11۔ گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں اکتوبر، نومبر 1947 میں قائم شدہ خود مختار مقامی حکومتیں بحال کرنے کے لئے جدوجہد کرنا۔

12۔ سی پیک منصوبے کو گلگت بلتستان میں ایک آئین ساز اسمبلی کی منظوری سے مشروط کرنے کے لئے جدوجہد کرنا۔

اس مسودے کی روشنی میں "عوامی مفاہمتی کمیٹی برائے گلگت بلتستان و جموں کشمیر” نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے 25 اپریل کو یوم یکجہتی گلگت بلتستان منایا جائے گا اور اس چارٹر کی روشنی میں حقوق گلگت بلتستان کے حوالے سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرائی جائے گی تاکہ گلگت بلتستان کا مسئلہ عالمی سطح پر اُجاگر کیا جا سکے۔

Leave a Reply