وقت اس کی رفتار کا ساتھ دینے کی کوشش میں ہانپ چکا تھا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کے اپنی زندگی کے لیے بھاگ رہا ہے یا آزادی کے لیے، وجہ کچھ بھی سہی مگر وہ رک نہیں سکتا تھا۔ اس کے پیچھے آنے والے پُر شور آواز میں گھیرا تنگ کرتے قریب آ رہے تھے۔ اس کی ٹانگیں اس کے عزم سے پیچھے رہ جاتیں اور پیر زمین پر پڑنے سے پہلے اگلے قدم کے لیے اٹھ جاتے تھے۔ ہر سانس اتنی گرم ہو کے نتھنوں سے باہر آتی کہ لگتا اگلی سانس میں وہ آگ اُگلے گا۔
آوازیں قریب آتی گئیں اور وہ سرپٹ دوڑتا رہا۔ تھکن سے شل جسم اس کے بس سے باہر ہو چکا تھا اور زمین اس کے قدموں کے نیچے سے اپنا آپ خود کھینچ رہی تھی۔ کند ہوتے حواس ضرور راہ کی رکاوٹ بنتے اگر وہ اس قدر زندہ اور باہوش جبلت کا مالک نہ ہوتا۔ وہ چند ہی لمحوں میں جنگل سے باہر ایک کھلی چراگاہ میں نکل آیا۔ وہاں بھی کچھ لوگ اس کی آمد کے منتظر، گھات لگائے بیٹھے تھے۔ اس ہنگامے اور قسمت کی خرابی کی بدولت وہ جان نہ پایا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے اور اس سے ٹکرانے والے نئے لوگ بھی اسے من چاہی سمت میں دھکیل رہے ہیں۔ وہ سوچے سمجھے بغیر بھاگتا رہا کہ یہی اس کا ہتھیار تھا۔۔۔
آوازیں قریب آتی گئیں اور وہ سرپٹ دوڑتا رہا۔ تھکن سے شل جسم اس کے بس سے باہر ہو چکا تھا اور زمین اس کے قدموں کے نیچے سے اپنا آپ خود کھینچ رہی تھی۔ کند ہوتے حواس ضرور راہ کی رکاوٹ بنتے اگر وہ اس قدر زندہ اور باہوش جبلت کا مالک نہ ہوتا۔ وہ چند ہی لمحوں میں جنگل سے باہر ایک کھلی چراگاہ میں نکل آیا۔ وہاں بھی کچھ لوگ اس کی آمد کے منتظر، گھات لگائے بیٹھے تھے۔ اس ہنگامے اور قسمت کی خرابی کی بدولت وہ جان نہ پایا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے اور اس سے ٹکرانے والے نئے لوگ بھی اسے من چاہی سمت میں دھکیل رہے ہیں۔ وہ سوچے سمجھے بغیر بھاگتا رہا کہ یہی اس کا ہتھیار تھا۔۔۔
اس کے تھکن سے اٹے ہوئے جسم نے درد کو راستہ دینے سے انکار کر دیا “میں نے اپنی سی پوری کوشش کی ، میں آزاد پیدا ہوا تھا، آزاد جیا اور آزاد مرا ہوں” گھوڑے نے سر اٹھا کر جنگل کو جاتے راستے کی جانب آخری بار دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔
دوڑنا ۔ ۔ ۔ اس کا زندگی کرنے کا ڈھنگ تھا، دشمن کے ہر وار کو روکنے کا ایک یہی گُر اسے آتا تھا (جو آج سے پہلے ہمیشہ کارگر رہا تھا) آزاد، بے فکر، پروں کے بغیر اڑنے کی تقریبا ً کامیاب کوشش اور اس کی واحد خوشی ، اور آج جان بچانے کا وسیلہ ۔
وہ دوڑتا رہاحتیٰ کہ نوکیلی لکڑیوں سے حد دیے ایک بڑے دائرے نے اسے قید میں لے لیا۔ وہ واپس پلٹا مگر مقسوم راستہ بند کر چکا تھا۔وہ تھک کر ڈھے جانے کی حالت میں آچُکا تھا مگر اس نئی صورتِ حال نے اسے غصے سے بے قابو کر دیا، وہ جنگلے کے اندر بے تحاشا دوڑا۔ اس کی سانس اب بے ربط ہو چلی تھی۔ پسینہ دھاروں کی صورت میں اس کے بالوں کی جڑوں سے پھوٹتا اور ہر قدم پر یوں جھٹک دیا جاتا جیسے وہ پگھل رہا ہو۔ یہی پسینہ آنکھوں تک آ کے اسے اندھا کیے دے رہا تھا مگر اس کے پاس رک کے کسی مسئلے کو سلجھانے کا وقت نہ تھا۔
بے سمت دائرے میں کہیں راستہ نہ پا کر وہ آہستہ ہوا، رُکا اور لکڑیوں کی نوکیلی باڑ کو نظروں سے تول کر دیکھا۔ اُس نے اس خطرناک جنگلے کو پھلانگ کے پار کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا”میں کر لوں گا اور مجھے کرنا ہی ہے۔” اُس نے سوچا آزادی یا موت، دونوں صورتیں قید سے بہرحال بہتر ہیں۔ وہ پھر سے دوڑا اور اور ایک بڑا چکر کاٹ کے اپنی نشان زد جگہ کی جانب لپکا، اتنی تیز رفتاری سے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے۔ کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر یہ رفتار اُس کے بارے میں مدتوں کہانیاں سنانے کو کافی تھی۔ اس کے قدم زمین پر پڑتے دکھائی نہیں دے رہے تھے،جنگلے کے قریب پُہنچ کر وہ جبلت کے زور سے ہوا میں بلند ہوا اور حواسوں کی غداری سے نوکیلے سرے والی لکڑی پر پیٹ کے بل گرا۔
وہ گرا اور سیاہ پتھر سے ترشا ایسا مجسمہ ہو گیا جس کو بارش نے چند لمحے پہلے دھو کر دھوپ میں آنکھیں خیرہ کرنے کو رکھا ہو اور جس کی پشت پر کسی سورما کے ناپاک عزائم نے زین نہ کسی ہو۔ اس نوکیلی لکڑی میں پرویا ہوا وہ اس قدر مکمل، حسین اور ترو تازہ لگ رہا تھا جیسے فطرت نے اُسے ابھی اور یہیں پیدا کیا ہے۔اس کے تھکن سے اٹے ہوئے جسم نے درد کو راستہ دینے سے انکار کر دیا “میں نے اپنی سی پوری کوشش کی ، میں آزاد پیدا ہوا تھا، آزاد جیا اور آزاد مرا ہوں” گھوڑے نے سر اٹھا کر جنگل کو جاتے راستے کی جانب آخری بار دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔
وہ دوڑتا رہاحتیٰ کہ نوکیلی لکڑیوں سے حد دیے ایک بڑے دائرے نے اسے قید میں لے لیا۔ وہ واپس پلٹا مگر مقسوم راستہ بند کر چکا تھا۔وہ تھک کر ڈھے جانے کی حالت میں آچُکا تھا مگر اس نئی صورتِ حال نے اسے غصے سے بے قابو کر دیا، وہ جنگلے کے اندر بے تحاشا دوڑا۔ اس کی سانس اب بے ربط ہو چلی تھی۔ پسینہ دھاروں کی صورت میں اس کے بالوں کی جڑوں سے پھوٹتا اور ہر قدم پر یوں جھٹک دیا جاتا جیسے وہ پگھل رہا ہو۔ یہی پسینہ آنکھوں تک آ کے اسے اندھا کیے دے رہا تھا مگر اس کے پاس رک کے کسی مسئلے کو سلجھانے کا وقت نہ تھا۔
بے سمت دائرے میں کہیں راستہ نہ پا کر وہ آہستہ ہوا، رُکا اور لکڑیوں کی نوکیلی باڑ کو نظروں سے تول کر دیکھا۔ اُس نے اس خطرناک جنگلے کو پھلانگ کے پار کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا”میں کر لوں گا اور مجھے کرنا ہی ہے۔” اُس نے سوچا آزادی یا موت، دونوں صورتیں قید سے بہرحال بہتر ہیں۔ وہ پھر سے دوڑا اور اور ایک بڑا چکر کاٹ کے اپنی نشان زد جگہ کی جانب لپکا، اتنی تیز رفتاری سے کہ دیکھنے والے دم بخود رہ گئے۔ کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر یہ رفتار اُس کے بارے میں مدتوں کہانیاں سنانے کو کافی تھی۔ اس کے قدم زمین پر پڑتے دکھائی نہیں دے رہے تھے،جنگلے کے قریب پُہنچ کر وہ جبلت کے زور سے ہوا میں بلند ہوا اور حواسوں کی غداری سے نوکیلے سرے والی لکڑی پر پیٹ کے بل گرا۔
وہ گرا اور سیاہ پتھر سے ترشا ایسا مجسمہ ہو گیا جس کو بارش نے چند لمحے پہلے دھو کر دھوپ میں آنکھیں خیرہ کرنے کو رکھا ہو اور جس کی پشت پر کسی سورما کے ناپاک عزائم نے زین نہ کسی ہو۔ اس نوکیلی لکڑی میں پرویا ہوا وہ اس قدر مکمل، حسین اور ترو تازہ لگ رہا تھا جیسے فطرت نے اُسے ابھی اور یہیں پیدا کیا ہے۔اس کے تھکن سے اٹے ہوئے جسم نے درد کو راستہ دینے سے انکار کر دیا “میں نے اپنی سی پوری کوشش کی ، میں آزاد پیدا ہوا تھا، آزاد جیا اور آزاد مرا ہوں” گھوڑے نے سر اٹھا کر جنگل کو جاتے راستے کی جانب آخری بار دیکھا اور آنکھیں موند لیں۔