ہمیں قدم قدم پر ایک ہی درس دیا جاتا ہے اور وہ ہے اپنے عورت ہونے کی نفی کرنے کا۔ آپ پاوں پاوں چلنا سیکھیں، یا جھولا جھولیں، سیپارہ پڑھیں یا سکول جائیں آپ کے ساتھ آپ خود نہیں ہیں، آپ کے گھر کے تمام مرد، تہذیب کے ہزاروں برس، روایات اور غیرت ساتھ ہوتے ہیں۔ آپ کے ہنسنے، اچھلنے، تیز بھاگنے، کھیلنے کودنے، گنگنانے حتیٰ کہ سانس لینے سے بھی آپ کی غیرت مجروح ہو جاتی ہے۔ معاشرہ ہمیں ایک آزاد، خودمختار، بے باک، یا متنازع ہونا تو دور کی بات محض عورت ہونے کا حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ مردسمجھتے ہیں کہ عورتوں کو ہونا ہی نہیں چاہیئے، اور اگر ہم ہیں تو ہمیں ان کی ماں، بہن یا بیٹی نہیں ہونا چاہیئے اور اگر ہم ان کی ماں بہن بیٹی ہیں تو پھر پھر ہمیں ایک جیتی جاگتی سانس لیتی، چلتی پھرتی عورت نہیں لگنا چاہیے، اور اگر بدقسمتی سے آپ کی ماں بہن بیٹی چلتی پھرتی جیتی جاگتی عورت دکھائی دیتی ہے تو اسے خوب صورت نہیں لگنا چاہیئے اور اگر وہ خوبصورت ہے تو اسے اپنی خوب صورتی کو نمایاں نہیں کرنا چاہیئے اور اگر اس کی خوبصورتی نمایاں ہے تو کسی کو اس سے متعلق بات نہیں کرنی چاہیئے، اور اگر کوئی اس کے متعلق بات کرتا ہے تو پھر ایسی عورت کو مار دیا جانا چاہیئے۔
اگر شاید مرد ایک عورت تخلیق کرتے تو عین ممکن تھا ان کی بہنیں، مائیں اور بیٹیاں محض مٹی کاایک تودہ ہوتیں، اور ان کی لونڈیاں کنیزیں اور بیویاں محض سینہ یا محض کولہے یا محض سرین یا محض فرج یا محض ہونٹ ہوتیں۔
ہماری ماوں، بزرگوں اور ہمارے گھر کے مردوں کی ایک ہی کوشش ہوتی ہے کہ ہم سے متعلق کہیں کوئی بات نہ کی جائے، ہم کسی کی نگاہ میں نہ ہوں، ہم کسی بھی اچھے یا برے معنوں میں یاد نہ کی جائیں۔ یہ امر کہ آپ کے گھر کی عورت سے متعلق بات کی جا رہی ہے، اسے موضوع بحث بنایا جا رہا ہے یا وہ کسی بھی وجہ سے متنازع ہو چکی ہے ہماری عورتوں اور مردوں کے لیے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں۔ ہمیں دوپٹے سے برقعے تک، بچپن سے بڑھاپے تک اپنے ہونے کی نفی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ ہمارے بارے میں کوئی بھی ایسی بات سامنے نہ آئے جو روایت سے مختلف ہو، ہم سے متعلق کوئی سکینڈل جھوٹا سچا نہ بن جائے۔ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ کے گھر کی عورتوں کی قمیصوں کی لمبائی مختلف ہے، ان کے برقعوں کی سلائی الگ ہے، ان کے چلنے پھرنے کی آواز آتی ہے، ان کی ہنسی سنائی دیتی ہے یا وہ خوب صورت دکھائی دیتی ہیں، کسی کو ہمارے سینوں کے ابھار اور جسم کی گولائیوں سے کا اندازہ نہ ہو سکے۔ ہماری خوب صورتی یا ہماری ہنسی یا ہماری آواز یا ہمارے بازو یا ہمارے کولہے یا ہمارے سینے سبھی کے ہونے پر پابندی ہے۔ اگر شاید مرد ایک عورت تخلیق کرتے تو عین ممکن تھا ان کی بہنیں، مائیں اور بیٹیاں محض مٹی کاایک تودہ ہوتیں، اور ان کی لونڈیاں کنیزیں اور بیویاں محض سینہ یا محض کولہے یا محض سرین یا محض فرج یا محض ہونٹ ہوتیں۔
مجھے لگتا ہے کہ ایک عورت کو ہمیشہ ایک مجبوری سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے گھروں کی عورتوں کی جنسیت کی نفی کرتے ہیں۔ اگر قندیل بلوچ یا متھیرا غلط ہیں یا بلوچ فاحشہ ہیں یا اخلاق باختہ عورتیں ہیں تو یہ آپ کا خیال ہے، قندیل بلوچ محض ایک عورت تھی اور مردوں کی نظر میں اپنی حیثیت سے واقف تھی ، یہ مرد ہیں جنہوں نے قندیل بلوچ کو وہ عورت بنایا ہے جسے ایک اور مرد جو اس کا بھائی ہے یا باپ ہے یا بیٹا ہے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ قندیل بلوچ کا مختصر لباس پہننا، یا فحش اشارے کرنا یا خود کو خبروں میں رکھنا وہی سب کچھ ہے جو عوتوں کو محض جنسی وجود سمجھنے والے اپنے گھر کی عورتوں کے سوا ہر عورت سے طلب کرتے ہیں۔ یہ صرف قندیل بلوچ نہیں، ہم نے فلمی اداکاراوں سے لے کر سٹیج کی رقاصاوں تک سبھی کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ مردوں کی ہوس کو اپنی طاقت بنائیں۔
درحقیقت ایک عورت اپنی پیدائش سے ہی متنازع ہوتی ہے، وہ اپنے پیدا ہونے سے پہلے ہی متنازع ہوجاتی ہے کیوں کہ اس کا اپنے جسم پر حق تسلیم نہیں کیا جاتا
سوال یہ ہے کہ ایک عورت کو متنازع ہونے یا وہ سب کچھ کرنے کا حق کیوں نہیں جس سے معاشرہ اسے منع کرتا ہے؟ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، اس پر تنقید کر سکتے ہیں، اس سے قطع تعلق کر سکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپ اس کی آزادی اور حق کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیں، آپ اس کی زندگی ہی اس سے چھین لیں۔
درحقیقت ایک عورت اپنی پیدائش سے ہی متنازع ہوتی ہے، وہ اپنے پیدا ہونے سے پہلے ہی متنازع ہوجاتی ہے کیوں کہ اس کا اپنے جسم پر حق تسلیم نہیں کیا جاتا، وہ اپنے جسم کی مالک خیال نہیں کی جاتی، اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنے جسم کو اپنی مرضی سے کسی کے حولے کرے یا نہ کرے، وہ اپنے وجود کو کسی کے سامنے لانے نہ لانے کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرے اسی لیے اسے قتل کرنا اس قدر آسان اور پسندیدہ ہے۔