Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

ایک سیاسی جماعت کیسی ہو

test-ghori

test-ghori

03 مارچ, 2015
دل چاہتا ہے کہ دو ڈیڑھ سو ٹی-وی چینلز ہوں، اِدھر اُدھر ڈرون کیمرے اڑ رہے ہوں، اخبارات کے نمائندے ہوں، صحافی ہوں، میں اسٹیج پر جلوہ افروزہوں اور گرج گرج کر اپنا موقف سب کے گوش گذار کروں۔خیر میں اتنا اہم تو نہیں ہوں، جو اتنا تام جھام میرے لیے کیا جائے۔ یاسیت طاری ہونے کو تھی کہ یاد آیا کہ میں ایک بلاگر ہوں، نام نہاد ہی صحیح، لیکن ہوں تو ،میرے کالموں پر بھی اکا دُکاتبصرے ہو ہی جاتے ہیں، توبس میں نے تہیہ کر لیا کہ اپنی اُس تقریر کو جو میڈیا کے سامنے کرنی تھی کالم کی شکل میں لکھ ڈالتا ہوں۔
اگرچہ ہر سیاسی جماعت نظریاتی ہونے کی دعویدار ہے اورسیاسی جماعت کوئی مراعات بانٹنے والا کلب یا جم خانہ نہیں ہے لیکن ہمیں اکثر سیاسی جماعتوں میں اقربا پروری کی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔
ایک مثالی سیاسی جماعت کیسی ہونی چاہیے،سیاسیات کے طالب علم سے پوچھیں تو غالباً وہ کہے گا کہ اسے نظریاتی ہونا چاہیے، اس کی قیادت بدعنوانی سے پاک ہو، جمہوری ہو وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بر عکس اگر کسی سیاسی جماعت کے کارکن سے پوچھا جائے کہ سیاسی جماعت کیسی ہونی چاہیےتو اس کا جواب کچھ یوں ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعت کو پارٹی کارکنان کا غم خوار ہونا چاہیے، اقتدار میں آتے ہی تمام کارکنوں کے لیے نوکری کا انتظام کرنا چاہیے، پارٹی عہدیداران کے لیے ترجیحی بنیادوں پر صحت، تعلیم اور رہائش کی سہولیات کا بندوبست کرنا چاہیے۔ ہرکارکن کو پولیس اور قانون سے استثنیٰ مل جانا چاہیے، سڑکیں اور عمارتیں بنانے کے ٹھیکے پارٹی وفاداران میں ہی بٹنے چاہیئں وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ ہر سیاسی جماعت نظریاتی ہونے کی دعویدار ہے اورسیاسی جماعت کوئی مراعات بانٹنے والا کلب یا جم خانہ نہیں ہے لیکن ہمیں اکثر سیاسی جماعتوں میں اقربا پروری کی سوچ کارفرما نظر آتی ہے۔
میرے خیال میں دورِ حاضر میں سیاستدانوں کو ان کی تعلیمی و پیشہ ورانہ قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر چننا چاہیے، ایک بہترین سیاسی منظر کچھ یوں ہوگا کہ سیاستدان نظم عامہ،فلاح عامہ، سیاسیات اور ترقیاتی علوم میں ماسٹرز بلکہ ایک آدھ پی-ایچ-ڈی کھڑکانے کے بھی موڈ میں ہوں۔ لیکن ایسا کرنے سے کیا سماج کا حقیقی آبادیاتی رخ سامنے آسکے گا؟ ویسے کچھ ماہرین ڈگریوں کی قدغن کو بھی جمہوریت کی صحت کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں کیونکہ کئی دفعہ سندیافتہ افراداشرافیہ کے رشتہ دار نکلتے ہیں اورپرولتاریہ کے مسائل سے انہیں کوئی خاص سروکار نہیں ہوتا۔
بقول ایک سیاستدان ’ان پڑھ لوگوں کے نمائندے بھی ان میں ہی سے ہونے چاہئیں‘ کاش کہ ان کا مقصد ہاری کا نمائندہ ہاری، کسان کا نمائندہ کسان اور مزدور کا نمائندہ مزدور منتخب کرنے کا ہوتا لیکن دراصل ان کے کہنے کا مطلب، ایک ان پڑھ مزدور کا نمائندہ ایک ان پڑھ سردار، ایک ان پڑھ ہاری کا نمائندہ ایک ان پڑھ چوہدری اور اسی طرح دیگر ان پڑھ مخدوم، جاگیردار، ملک، خان زادہ، لغاری، مزاری، زرداری نامزد اور منتخب کرنا تھا۔
آسان الفاظ میں بات کچھ یوں ہوگی کہ جنوبی پنجاب کے ایک مفلوک الحال علاقے کو جمشید دستی ہی سمجھ اور اپنا سکتا ہے اور لمز یا بیکن ہاوس سے تعلیم یافتہ بابو ان افراد کی نمائندگی صحیح طرح نہیں کرسکتا ۔ لیکن آخر جمشید دستی میں ایسا کیا ہے جو بڑے بڑے ڈگری یافتہ افراد کے پاس نہیں ہے؟ جمشید دستی کے پاس جذبہ انسانیت ہے، میرے ایک صحافی دوست نے اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ ایک دفعہ مجھے سنایا تھا، بقول اس کےجمشید دستی اپنے علاقے میں ’ون فائیو‘ کے نام سے مشہور ہے، مطلب یہ کہ اس کے علاقے میں اگر کوئی بھی اس سے کوئی شکایت کرے تو وہ فوراً اس جگہ پہنچ کر مسئلہ حل کرواتا ہے، علاوہ ازیں وہ اپنے علاقے میں اپنے ذاتی خرچہ پر ایک عدد بس خود ڈرائیو کرتا ہےتاکہ علاقہ کے لوگ اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔
اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک سیاسی جماعت کو ایک انتہائی فعال اور کم خرچ بالا نشیں غیر سرکاری تنظیم کی طرح ہونا چاہیے،جتنے بھی دعوے اور وعدے کوئی جماعت اپنے منشور میں کرے ان کا تجربہ بطور پائلٹ پروجیکٹ کر کے دکھائے۔
اگر ہم خالصتاً کتابی تشریحات کی نظر سے دیکھیں تو وہ غلط کر رہا ہے، ممبر قومی اسمبلی کا کام تو قانون سازی اور دیگر محکمہ جات و افسران سے کام کروانا ہوتا ہے، اسے کیا پڑی ہے خود ہی کام میں جت جانے کی، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کے جو شخص رضاکارانہ طور عوام کا بھلا نہیں کرسکتا اس سے قانون سازی کی توقع کرنا بھی عبث ہے۔آپ کہیں گے کہ اس کا کام قانون سازی ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کس بات پر قانون سازی کرے گا، کن اعداد و شمار اور تحقیقات کو اپنا محور بنائے گا؟ اگر افسر شاہی کی مانے گا تو افسر شاہی ہی مضبوط ہوگی، اگر پارٹی پالیسی مانے گا تو فوائد و ثمرات صرف پارٹی کارکنان اور ہمدردان تک ہی محدود ہوجائیں گے۔ اور اگر کسی این-جی-او کی دی ہوئی تجویز پر عمل کرے گا توعطیہ کنندگان تو ضرور خوش ہوں گےعوام کا پتہ نہیں لیکن اگر وہ خود عوام الناس کے درمیان موجود رہے گا تو اسے ہر مسئلہ کا حل ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک سیاسی جماعت کو ایک انتہائی فعال اور کم خرچ بالا نشیں غیر سرکاری تنظیم کی طرح ہونا چاہیے،جتنے بھی دعوے اور وعدے کوئی جماعت اپنے منشور میں کرے ان کا تجربہ بطور پائلٹ پروجیکٹ کر کے دکھائے۔ بجائے اس کے کہ اقتدار میں آکر اپنے منشور کے تحت عوام کو تجربات کی زد پر رکھیں اقتدار میں آنے سے قبل لوگوں کو اپنی کارکردگی کا نمونہ پیش کریں۔ انہیں جو کرنا ہے پہلے پارٹی فنڈ کے بل بوتے پر کریں عوام کے ٹیکس سے نہ کھیلیں۔ عوام بے وقوف نہیں ہیں، کہ لاکھوں، کروڑوں کے جلسے، جلوس اور اشتہاری مہمات دیکھ کر سیاسی جماعتوں کے فنڈز کا اندازہ نہ لگائیں۔
ایم-این-اے، ایم-پی-اے اور یو-سی کونسلر کے امیدوار کے پاس ڈگری ہو نہ ہو، رضا کارانہ کاوشوں کا تجربہ ضرور ہونا چاہیے۔ ان کی مہم؛ ’میں یہ کروں گا! ہم وہ کریں گے!‘ پر نہیں، ’بلکہ ہم یہ کر چکے ہیں! آپ ہمیں یہ سب کرتے ہوئے دیکھ چکے ہیں!‘ پر مبنی ہونی چاہیےاور عوام کو جس کا پائلٹ پروجیکٹ اچھا لگے اسے ووٹ دے دینا چاہیے۔ٹینڈر بانٹنے اور آزاد معیشت کے طریق مسابقت کے تحت سیاسی جماعتوں کا انتخاب کوئی برا حل نہیں۔