کیا دیکھتا ہوں کہ اک نیا تحریر سکوائر آباد ہے، جم غفیر ہے۔ میلے کا سا سماں معلوم ہوتا ہے۔ جا بجا خوبصورت اور پر جوش نوجوان ہاتھوں میں پلپی جوس اور برگر تھامے نعرے بازی میں مصروف ہیں۔ سٹیج کے قریب نظر پڑی تو اعلیٰ قیادت صلاح مشورے کے لیے سر جوڑے دکھائی دی۔ مزید قریب ہوا تو کرشماتی شخصیت دو چار خواص کے ہمراہ کسی الٹے مشورےپر ناگواری کے ساتھ یکسر سر جھٹکتی ہوئی پائی۔ اچانک نیوز روم تک رسائی ہوئی ۔ ٹی وی سکرینیں بریکنگ نیوز سے ٹوٹی پڑی ہیں۔ رپورٹرز قریب قریب حالت غیر میں ہیں۔ اینکرز تھکاوٹ کے نمایاں اثرات چہروں سے چھپانے کی کوشش میں زچ دکھائی دے رہے ہیں۔ فون کے غیر معمولی استعمال کے کارن نیوز منیجرز کے کانوں سے دھواں اٹھتا دِکھ رہا ہے۔ نیوز روم کا عملہ غصے سے لال پیلا ہو ہو کر بالآخر زرد پڑ چکا ہے۔ کہ اچانک خواب کا دوسرا حصہ شروع ہو جاتا ہے۔۔ روزن دیوار سے کیا دیکھتا ہوں کہ میاں صاحب سعودی شہزادوں سے ترلا منت کرتے ہوئے مسکینوں کی سی شکل میں کسی محل نما عمارت میں نظر آتے ہیں۔ خوابی موکلات کے ذریعے اگلے ہی لمحے معلوم ہوا کہ نہیں بھئی نہیں۔ شیخ حضرات لیگی حکومت کے حق میں کوئی بھی بیان جاری کرنے سے انکار ی ہیں۔ دوران خواب ہی تبصرہ بھی کر ڈالا، اور وہ بھی مختصر ترین۔۔ یعنی؛ “لو جی، عمرہ اپنی جگہ، لیکن دورہ ناکام ٹھہرا، آم البتہ لذیذ تھے” دور جدہ کے قرب و جوار سے کہیں قبلہ حجازی دکھائی دیے، فرما رہے تھے؛ “ہور چُوپو۔۔۔”
وہاں ایک کمبخت کو یہ کہتے بھی سنا کہ اصل میں امریکہ یاترا کا مقصد بدلتی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے کردار کا تعین کرنا ہے۔پھر سنا کہ جمہوریت کے تسلسل کی بات ہوئی اور اس کے لیے امریکی گارنٹی کا اعادہ کیا گیا کہ کم از کم تین حکومتوں سے پہلے بوٹوں والے ہرگز نہیں آویں گے ۔
دوران خواب ہی سگریٹ سلگایا، اور اگلے منظر نامے میں جناب زرداری کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھتا ہوں۔ آپ امریکہ میں دکھائی دیے۔ متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کرتے پائے گئے۔ وہاں ایک کمبخت کو یہ کہتے بھی سنا کہ اصل میں امریکہ یاترا کا مقصد بدلتی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے کردار کا تعین کرنا ہے۔پھر سنا کہ جمہوریت کے تسلسل کی بات ہوئی اور اس کے لیے امریکی گارنٹی کا اعادہ کیا گیا کہ کم از کم تین حکومتوں سے پہلے بوٹوں والے ہرگز نہیں آویں گے ۔ دل کو قدرے تسلی سی ہوئی، لیکن نوبت پھر تبصرے تک آن پہنچی۔ جس کا حاصل یہی نکلا کہ نہیں میاں، نہیں! بات بگڑ چکی۔گو کہ پیپلز پارٹی نے آزادی مارچ یا انقلابی مارچ کا حصہ بننے سے انکار کر رکھا ہے، لیکن آپ دیکھیں گے کہ اب اسی تناظر میں جیالے لیڈرز بھی حکومت کو لتاڑیں گے۔
اسی اثنا میں دوران خواب ہی ساونڈ کلاوڈ پر ملنگی پلے لسٹ کیو ہو گئی۔ استاد نصرت راگ الاپتے مستی سے جھومتے ہیں۔ اور نا چیز ‘مست نظروں سے اللہ بچائے، مہ جمالوں سے اللہ بچائے” سنتے ہوئے عالم ارواح میں جا پہنچتا ہے۔ وہاں قبلہ کے نورانی چہرے کی زیارت نصیب ہوتی ہے، آجو باجو میں چوہدری برادران اور شیخ جی پنڈی والے کالے چشموں میں سگار تھامے زیر لب مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ وجدانی کیفیت کے باوجود انقلابی رہنماوں کی گفتگو سینے میں اتر جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ انقلاب مارچ کا آغاز آزادی مارچ سے پہلے ہو جائے گا۔ آزادی مارچ کے ہنگام انقلابی مارچ کی منطق سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ قبلہ اور ہمنوا آزادی مارچ کے آخری مرحلے کے فیوض و برکات سمیٹنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یقین جانیں، ایک بار پھر دو سو پیٹیاں آم نظر آئے، او ر اب کی بار ولایت بیٹھے جناب ثقلین امام صاحب بھی کافی پیتے دکھائی دیئے، موصوف نے بھی قبلہ حجازی کا جملہ دہرایا،فرمایا؛ “ہور چُوپو” اور یہا ں خواب کا یہ حصہ بھی انقلاب سے تر ہو گیا۔
اس قدر معلوماتی خواب کے باوجود نیند کا سلسلہ جڑا رہا، لیکن بے چینی کا عالم ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا، فون ٹٹولتا ہوں، کامیابی سے ان لاک کرکے چند با خبر دوستوں کو فون گھمایا، اس سے پہلے کہ دوسری جانب سے ہیلو ہائے کی آواز آتی، نا چیز نے فوراً سیاسی منظر نامے سے جڑے دو چار اہم سوال داغ ڈالے سوال یہ تھے؛ “سر! بوریا بستر گول ہو رہا ہے کیا؟ ہُو اِز نیکسٹ؟ احتساب کا عالم کیا ہوگا؟ بے چینی سے جواب کا انتظار کرتا ہوں کہ جواب میں انگریزی سلینگز سے بھر پورنسوانی آواز میں محبت نامہ سننے کو ملا۔ تمام تر حواس پر قابو پانے کے بعد صرف ایک جملہ سنائی دیا؛ “یو ٹولڈ می یو آر سلیپنگ۔ اینڈ یو آر ٹاکنگ آباوٹ سیاست۔ یو آلویز لائے” سینہ بھاری ہوا اور شدید صدمے کی حالت میں آنکھ کھل گئی۔ معلوم ہوا کہ؛
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
سائی آف ریلیف۔ اور پھر سے نیند کی وادیوںمیں جا پہنچا۔
شاید یہ زندگی کا پہلا موقع تھا کہ نیند ٹوٹنے کے بعد جب دوبارہ نیند آئی تو خواب کا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ پیالہ کٹنگ والے چند چست حضرات محو گفتگو دکھائی دئیے۔ غالباً ایک سینئر صحافی ان سے اندر کی بات اگلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔ فقط یہی سمجھ پایا کہ ‘اصل سرکار’ فی الحال ایڈوانچر کے موڈ میں نہیں۔ اگر کوئی تحریر سکوائر بنتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے۔ جہاں پلڑا بھاری ہوا وہیں اپنا وزن رکھ دیا جاوے گا۔ کسی بھی نئے سیٹ اپ میں بالواسطہ کی بجائے بی ہائینڈ دی سین رہا جائے گا۔ تمام تر شعبہ ہائے زندگی کے نمایاں اور نیک شہرت کے حامل افراد پر مشتمل سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا جو قریبا ًتین سال تک بنیادی اصلاحات کے نام پر خدمات سر انجام دے گا۔ اس دوران سن پچاسی سے لے کر اب تک کا احتساب کیا جا ئے گا۔ ایسا احتساب کہ اب کی بارشاید جدہ جانے کا موقع بھی نہ مل پائے۔ بچپن میں ماں جی سرکار سے سن رکھا تھا کہ جب بھی برا خواب دیکھو، لاحول ولا قوۃ کا ورد کرو اور آیت الکرسی پڑھو، معلوم ہوا کہ ناچیز دوران خواب یہی وظیفہ پڑھ رہا تھا۔
اسی اثنا میں دوران خواب ہی ساونڈ کلاوڈ پر ملنگی پلے لسٹ کیو ہو گئی۔ استاد نصرت راگ الاپتے مستی سے جھومتے ہیں۔ اور نا چیز ‘مست نظروں سے اللہ بچائے، مہ جمالوں سے اللہ بچائے” سنتے ہوئے عالم ارواح میں جا پہنچتا ہے۔ وہاں قبلہ کے نورانی چہرے کی زیارت نصیب ہوتی ہے، آجو باجو میں چوہدری برادران اور شیخ جی پنڈی والے کالے چشموں میں سگار تھامے زیر لب مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ وجدانی کیفیت کے باوجود انقلابی رہنماوں کی گفتگو سینے میں اتر جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ انقلاب مارچ کا آغاز آزادی مارچ سے پہلے ہو جائے گا۔ آزادی مارچ کے ہنگام انقلابی مارچ کی منطق سمجھنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ قبلہ اور ہمنوا آزادی مارچ کے آخری مرحلے کے فیوض و برکات سمیٹنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یقین جانیں، ایک بار پھر دو سو پیٹیاں آم نظر آئے، او ر اب کی بار ولایت بیٹھے جناب ثقلین امام صاحب بھی کافی پیتے دکھائی دیئے، موصوف نے بھی قبلہ حجازی کا جملہ دہرایا،فرمایا؛ “ہور چُوپو” اور یہا ں خواب کا یہ حصہ بھی انقلاب سے تر ہو گیا۔
اس قدر معلوماتی خواب کے باوجود نیند کا سلسلہ جڑا رہا، لیکن بے چینی کا عالم ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا، فون ٹٹولتا ہوں، کامیابی سے ان لاک کرکے چند با خبر دوستوں کو فون گھمایا، اس سے پہلے کہ دوسری جانب سے ہیلو ہائے کی آواز آتی، نا چیز نے فوراً سیاسی منظر نامے سے جڑے دو چار اہم سوال داغ ڈالے سوال یہ تھے؛ “سر! بوریا بستر گول ہو رہا ہے کیا؟ ہُو اِز نیکسٹ؟ احتساب کا عالم کیا ہوگا؟ بے چینی سے جواب کا انتظار کرتا ہوں کہ جواب میں انگریزی سلینگز سے بھر پورنسوانی آواز میں محبت نامہ سننے کو ملا۔ تمام تر حواس پر قابو پانے کے بعد صرف ایک جملہ سنائی دیا؛ “یو ٹولڈ می یو آر سلیپنگ۔ اینڈ یو آر ٹاکنگ آباوٹ سیاست۔ یو آلویز لائے” سینہ بھاری ہوا اور شدید صدمے کی حالت میں آنکھ کھل گئی۔ معلوم ہوا کہ؛
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
سائی آف ریلیف۔ اور پھر سے نیند کی وادیوںمیں جا پہنچا۔
شاید یہ زندگی کا پہلا موقع تھا کہ نیند ٹوٹنے کے بعد جب دوبارہ نیند آئی تو خواب کا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے ٹوٹا تھا۔ پیالہ کٹنگ والے چند چست حضرات محو گفتگو دکھائی دئیے۔ غالباً ایک سینئر صحافی ان سے اندر کی بات اگلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔ فقط یہی سمجھ پایا کہ ‘اصل سرکار’ فی الحال ایڈوانچر کے موڈ میں نہیں۔ اگر کوئی تحریر سکوائر بنتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے۔ جہاں پلڑا بھاری ہوا وہیں اپنا وزن رکھ دیا جاوے گا۔ کسی بھی نئے سیٹ اپ میں بالواسطہ کی بجائے بی ہائینڈ دی سین رہا جائے گا۔ تمام تر شعبہ ہائے زندگی کے نمایاں اور نیک شہرت کے حامل افراد پر مشتمل سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا جو قریبا ًتین سال تک بنیادی اصلاحات کے نام پر خدمات سر انجام دے گا۔ اس دوران سن پچاسی سے لے کر اب تک کا احتساب کیا جا ئے گا۔ ایسا احتساب کہ اب کی بارشاید جدہ جانے کا موقع بھی نہ مل پائے۔ بچپن میں ماں جی سرکار سے سن رکھا تھا کہ جب بھی برا خواب دیکھو، لاحول ولا قوۃ کا ورد کرو اور آیت الکرسی پڑھو، معلوم ہوا کہ ناچیز دوران خواب یہی وظیفہ پڑھ رہا تھا۔
تمام تر شعبہ ہائے زندگی کے نمایاں اور نیک شہرت کے حامل افراد پر مشتمل سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا جو قریبا ًتین سال تک بنیادی اصلاحات کے نام پر خدمات سر انجام دے گا۔ اس دوران سن پچاسی سے لے کر اب تک کا احتساب کیا جا ئے گا۔ ایسا احتساب کہ اب کی بارشاید جدہ جانے کا موقع بھی نہ مل پائے۔
اگلے مرحلے میں ملنگ اسلام آباد کے حکومتی ایوانوں اور لاہور کے شاہی محلات میں پایا گیا۔۔ یہاں سے خبر ملی کہ اب تو عالم یہ ہے کہ بقول شخصے، سیٹ اپ بچانے کی خاطر چھوٹے میاں صاحب کی قربانی دینے جیسے آپشن بھی قابل قبول ہو چکے ہیں۔ اگر دشمن اس تکلیف دہ قربانی کو قبول کرتے ہوئے ہتھ ہولا رکھ لیں تو ایسا کرنے سے گریز نہ کیا جائے۔ قریب ایک دہائی کے بعد چوہدری شجاعت حسین سے روابط بھی استوار کیے جارہے ہیں اور ساتھ ساتھ چند ایک قابل اعتماد ساتھیوں کو انقلابیوں سے مذاکرات کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ خاکی والے بظاہر غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے دکھائی دیں گے۔ ٹی وی مالکان سے میل جول کے لیے بھی چند جید حکما کو روانہ کر دیا گیا ہے۔ تشویش کا عالم یہ ہے کہ من پسند ترک مچھلی کا سینڈوچ حتی کہ نہاری اور پائے بھی بد ذائقہ محسوس ہورہے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر وہی جملہ سننے کو ملا جسکا ذکر خیر اسی تحریر میں دو بار ہو چکا ہے۔ اب کی بار یہ آواز ایک انتہائی دبنگ خاتون کی تھی۔ جو دو نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں؛ “ہور چُوپو”
باعث افتخار صاحبزادے ہاتھوں میں چند اوراق لیے خوشی سے نہال پائے گئے، کہا؛ بے فکر رہیں، کپتان کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کر لیے، ایسے میں خلیفہ جی راقم تحریر پائے گئے، لکھ رہے تھے”تحقیق۔ حکومت کا جانا ٹھہر چکا، کامیابی و کامرانی کپتان کا مقدر تھا، عارف نے طویل خامشی کے بعد سر اٹھایا اور گویا ہوئے، کامیابی کی کنجی خان کو تھما دی گئی ہے، لیکن یاد رہے! اب وہ راندہ درگاہ نہ ہونے پائے۔ باقاعدگی سے آستانے پر حاضری اور تمہاری مشاورت کو شب و روز کا حصہ بنا لے” خلیفہ جی کہ یہ تحریر نظر سے اوجھل ہوئی تو کروٹ بدل کر باقی ماندہ حروف پڑھنے کی کوشش میں نیند چکنا چور ہو چکی تھی۔ آنکھ کھلی تو جسم پسینے سے شرابور تھا۔ شاید کسی حصے میں انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ تصدیق ہوئی تو فقط یہی کہہ پایا “ہور چُوپو”
باعث افتخار صاحبزادے ہاتھوں میں چند اوراق لیے خوشی سے نہال پائے گئے، کہا؛ بے فکر رہیں، کپتان کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کر لیے، ایسے میں خلیفہ جی راقم تحریر پائے گئے، لکھ رہے تھے”تحقیق۔ حکومت کا جانا ٹھہر چکا، کامیابی و کامرانی کپتان کا مقدر تھا، عارف نے طویل خامشی کے بعد سر اٹھایا اور گویا ہوئے، کامیابی کی کنجی خان کو تھما دی گئی ہے، لیکن یاد رہے! اب وہ راندہ درگاہ نہ ہونے پائے۔ باقاعدگی سے آستانے پر حاضری اور تمہاری مشاورت کو شب و روز کا حصہ بنا لے” خلیفہ جی کہ یہ تحریر نظر سے اوجھل ہوئی تو کروٹ بدل کر باقی ماندہ حروف پڑھنے کی کوشش میں نیند چکنا چور ہو چکی تھی۔ آنکھ کھلی تو جسم پسینے سے شرابور تھا۔ شاید کسی حصے میں انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ تصدیق ہوئی تو فقط یہی کہہ پایا “ہور چُوپو”