مارچ کے آخری دن چل رہے تھے.ایسے دن جب گرمی اور سردی میں رسہ کشی چل رہی ہوتی ہے۔صبح اگر رسی کا پلڑا سورج کے ہاتھ کھنچ جاتا ہے تو اندھیرے کی قوتیں شام ہوتے ہی چاند کی مدد کو پہنچ جاتی ہیں۔کسان فصل کی کٹائی سے فارغ ہو کر اگلی فصل کی بوائی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے تو بھینس بھی دودھ زیادہ دینے لگتی ہے۔ ایسی ہی ایک رات کو شاہد کے موبائل کی گھنٹی اچانک بج اٹھی، جسے اس نے کاٹ دیا۔ دوسری طرف اس کا بڑا بھائی تھا جو مسلسل فون پہ فون کیے جا رہا تھا، تنگ آکر اس نے فون اٹھا لیا۔ "بےغیرت انسان فون کیوں نئیں سی چکدا پیا” (بے غیرت انسان فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے)

فون اٹھاتے ہی چند عدد گالیوں میں ملبوس یہ الفاظ اس کے پردہ سماعت سے ٹکرائے۔

"بھائی موبائل چارجنگ پہ لگا تھا”۔

شاہد نے کسی لمحہ کا انتظار کئے بغیر جھوٹ بولا۔

"اچھا ایک بات سنو، بستر لے کر ڈیرے پر پہنچو ایک مہمان آرہا ہے، اور کھانا رہنے دینا کھانا میں اسے راستے میں کھلا دوں گا”

ڈاکٹر شعیب نے تحکمانہ لہجہ میں کہا۔ ڈاکٹر شعیب کو کچھ عرصہ قبل بطور ایک ویٹرنری ڈاکٹر مظفرگڑھ میں تعینات کر دیا گیا تھا۔ کسی سیکرٹری کے ساتھ تلخی کی پاداش میں وسطی سے جنوبی پنجاب کے دوردراز علاقہ میں بھیج دیا گیا تھا۔ ایک سادہ اور ایماندار شخص جو رشوت لینے سے اتنا ہی خوفزدہ تھا جتنا کوئی نیا سگریٹ نوش نوجوان محلے کی دوکان سے سگریٹ لیتے وقت ہوتا ہے۔ اپنی سادگی کی وجہ سے اکثر تضحیک کا نشانہ ٹھہرتا تھا۔ اس کے آباؤ اجداد جن کو لوگ آج بھی اس وجہ سے یاد کرتے ہیں کہ جب پورے گاؤں میں گوشت ختم ہو جاتا تھا تب صرف انہی سے ملتا تھا۔ آباؤ اجداد کی اسی سخاوت نے ایک طرف تو مہمان نوازی ان کی سرشت میں ڈال دی تھی مگر اگلی نسل کے لئے کچھ چھوڑا نہیں تھا اور ان کے پاس سنانے کو اگلوں کے قصے ہی بچے تھے۔

مہمان اور ڈیرہ کا نام سنتے ہی شاہد حیرت اور پریشانی کے عالم میں ڈوب گیا۔ یہ پریشانی اسی بات کا تسلسل تھی کہ گنجا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا۔ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی مہمان کو ڈیرہ پر ٹھہرایا جانا تھا۔
اس نے کلیم اور بلال کو فون کر کے بلا لیا۔ دونوں یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور سارا دن ادھر سے ادھر آوارہ پھرا کرتے تھے۔ دونوں گاؤں سے باہر ہی کہیں بیٹھے ہوئے تھے۔

کلیم نفسیات کا طالبعلم,سگمنڈ فرائیڈ کا پرجوش قاری، جس نے گرتے ہوئے بالوں کی پریشانی سے نجات حاصل کرنے کیلئے وجاہت سعید کا روپ دھار لیا تھا نے بلال کو ساتھ لیا جس کے والد نے اپنا علاقہ چھوڑ کر سوات سے الیکشن لڑا اور فقط اس دوست کے جس کے پاس وہ سوات میں قیام کرتا تھا دوسرا ووٹ حاصل نہ کر سکا اور دوبارہ سوات نہ جانے کی قسم کھا لی تھی شاہد کی طرف روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد تینوں دوست ڈیرے پہ بیٹھے مہمان کا انتظار کر رہے تھے۔ ڈیرہ کیا تھا ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کو جوڑ کر ایک چار دیواری بنا دی گئی تھی جس میں ایک لوہے نصب تھا۔.ندر چند کمزور بھینسیں بندھی ہوئی تھیں جو سڑک پہ چلتی تو لگتا کہ کپڑے سوکھنے ڈالے ہوئے ہیں۔

اتنی دیر میں قریب آتی ہوئی ایک ایکس ایل آئی کی ہیڈ لائٹس نے ان کی توجہ اپنی طرف موڑ دی۔ ڈرائیور گاؤں کا ہی ایک شخص تھا جو سرگودھا گیا ہوا تھا اور اس کے ساتھ مہمان کو بٹھا دیا گیا تھا کہ اسے ٹاہلی والا اتار دینا۔
"اپنے بندے کو اتار لیں جناب، چیک کر لیں کہ ٹھیک ہی ہے بعد میں اعتراض نہ کیجیے گا”۔
اسلم ڈرائیور نے ہنستے ہوئے کہا۔

درایں اثنا مہمان باہر نکلا۔ میلے کچیلے کپڑے، پھٹے پرانے جوتے اور سر پر سرمئی عمامہ پہنے جو کبھی سفید رہا ہو گا، جب اس سے آگے بڑھ کر ملنے کی کوشش کی گئی تو اس نے کمال بے نیازی سے تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سلام کا جواب دئیے بغیر اپنے بستر کا پوچھا اور جاتے ہی پاؤں پسار کر بیٹھ گیا۔
کسی انجانی بات سے خفگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ایسی خفگی جو تب طاری ہوتی ہے جب انسان کو اپنے خواب ٹوٹتے محسوس ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شعیب کی تمام باتیں، اس کا ڈیرہ ریت کا محل اور فصلیں سبز باغ کی شکل میں اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھیں۔

اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بوسیدہ سے شاپر میں ملبوس اخبار نکالا اور اس کے اندر لپٹی ہوئی دو عدد روٹیاں اور سالن نکالا۔ سالن اتنا کم تھا کہ اس سے آدھی روٹی بھی نہیں کھائی جا سکتی تھی۔ ایک دو نوالے لینے کے بعد اس نے ایک آہ بھری اور کھانا ایک طرف رکھ کے لیٹ گیا۔

کھانا کھائیے نا، بلال نے استفسار کیا۔

راستے میں ڈاکٹر نے پتہ نہیں کتنے دن پرانا دودھ کا ملک شیک بنا کے پلا دیا ہے، پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔
غرض اس سے جو بھی پوچھا گیا اس نے نہایت بد تہذیبی و لا پرواہی سے جواب دیا، جیسے اپنا کتھارسس کر رہا ہو۔
میں اپنی جیب سے پیسے بھر کر اس کو اس کے گاؤں پہنچاؤں گا۔ شاہد نے کہا اور داد بھری نظروں سے باقیوں کو دیکھا کہ جیسے اس کو اس کے گھر پہنچانا کوئی مورچہ فتح کرنے کے مترادف تھا۔

نصیر بطور مزارع یہاں آیا تھا پہلی دفعہ گھر سے باہر نکلا تھا,یہ سوچ کر کہ ڈاکٹر شعیب کوئی چوہدری ہو گا، اس کا عالی شان ڈیرہ ہو گا جس میں وہ نوابوں کی طرح رہے گا۔ یہ صورتحال اس کے اوسان خطا کر رہی تھی کہ اگر سب ویسا ہی ہوا جیسا پہلے دن ہوا ہے تو یہ تو ماضی سے بھی بدتر ہے۔ اس نے بہت برے دن گزارے تھے اچھے دنوں کی آس نے اسے گھر چھوڑنے پہ مجبور کیا تھا۔

میں گاؤں سے کچھ لے کر آتا ہوں۔ شاہد نے کہا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔

جے پیسے نئیں نے تے ایہہ میرے کولوں لے لو” (اگر پیسے نہیں ہیں تو مجھ سے لے لیں) نصیر نے جیب سے پیسے نکالتے ہوئے کہا۔”

مہمان نوازی کے شاندار ماضی کے وارثوں کے لیے یہ باعث شرم صورتحال تھی کہ ان کا مزارع انہیں ہی پیسوں کا طعنہ دے رہا تھا۔ نصیر نے ایسا اس انداز سے کہا جیسے کوئی فاتح کسی مفتوح کی جان بخشی کر رہا ہو۔
شاہد نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور چل دیا۔

واپسی پر اس کے ہاتھ میں بسکٹ، سگریٹ اور سوڈے کی ایک بوتل تھی۔

بوتل دیکھتے ہی نصیر کی آنکھیں چمک اٹھیں، ایسے جیسے قارون کا خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔

شاہد نے گلاس پکڑا جسے اسی سوڈے سے دھویا گیا تھا، اس کے اندر بوتل ڈالی اور اسے نصیر کو تھما دیا۔
گھونٹ بھرتے ہی نصیر نے جیب سے موبائل نکالا اس پہ مجرا چلایا اور آواز بلند کر دی۔ جھومتے ہوئے اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل رہے تھے:

"اجے تساں میرے رنگ ای نئیں ویکھے”
(ابھی اپ نے میرے رنگ ڈھنگ نہیں دیکھے)۔

Leave a Reply