[blockquote style=”3″]
یہ تحریر بہت سے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے پیش نظر لکھی گئی ہے۔
[/blockquote]
وہ ہمیں گھر کرائے پر نہیں دیتے، بعض اوقات تو مجھے کچھ بیچنے سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ وہ مجھے اپنی آبادیوں سے دھکیل دینا چاہتے ہیں کیوں کہ میرے عقیدے اور میری کتابوں میں “ملاوٹ “کر دی گئی ہے۔لیکن یہ بھی بہت ہے کہ وہ ہمیں اپنی سڑکوں، پلوں اور چوراہوں سے گزرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ہم ان کے خدا کو ان کی طرح نہیں مانتے تو وہ ہم سے ہماری زمینیں چھین لیتے ہیں حالانکہ زمین خدا کی ہے اور اس زمین پر امان بھی سب کی ہے۔ وہ ہمارے برتن استعمال نہیں کرتے، ہم سے ہاتھ نہیں ملاتے، کیوں کہ انہیں کہا گیا ہے کہ ہم ناپاک ہیں یہ ایک طرح سے ٹھیک بھی ہے کیوں کہ بنانے والی اور پیدا کرنے والی ذات بھلے ایک ہی ہو لیکن مخلوق ایک سی نہیں ہو سکتی۔ وہ ہمیں اپنے ساتھ کھانے اور پینے کی اجازت نہیں دیتے کیوں کہ ایسا کرنے سے ان کے عقیدے اور ایمان کو نقصان کا اندیشہ ہے، بے برکتی بھی ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہر کھانے اور پینے والی چیز ایک ہی زمین سے اگتی ہے ، موسم اور ذائقے ہم پر ایک ہی طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں،پرندے مجھے بھی بھلے لگتے ہیں لیکن میرے لئے اس سب پر سب کے ساتھ مل کر خوش ہونا منع ہے۔
وہ ہمیں گھر کرائے پر نہیں دیتے، بعض اوقات تو مجھے کچھ بیچنے سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ وہ مجھے اپنی آبادیوں سے دھکیل دینا چاہتے ہیں کیوں کہ میرے عقیدے اور میری کتابوں میں “ملاوٹ “کر دی گئی ہے
وہ ہمارے تہوار نہیں مناتے، ہمارے گھر ملنے نہیں آتے انہیں شبہ ہے کہ ہمارے تہواروں کی مبارک باد دینا، مٹھائی کھانا یاان پر خوش ہونا ان کے لئے منع ہے۔ ان کے بچے میرے بچوں کے ساتھ سکول میں اکٹھے نہیں بیٹھ سکتے، اکٹھے کھیل نہیں سکتے۔ وہ اپنے بچوں کو منع کرتے ہیں کہ میرے بچوں سے بہت زیادہ رسم و راہ نہ رکھیں، اس کے باوجود کہ کرکٹ کے اصول یا گلی ڈنڈے کے ضوابط سب کے لئے ایک سے ہیں۔ برف پانی اور اونچ نیچ کےکھیلنے کے لئے دو ٹانگیں میرے بچوں کی بھی ہیں مگر انہیں شامل کرنے سےان کی گم راہی کا اندیشہ ہے۔ میرے بچے ان کے لئے تبھی تک معصوم اور خوبصورت ہیں جب تک انہیں پتہ نہ چلے کہ ان کے ماں باپ کا عقیدہ کیا ہے۔میرا بیٹا بھی تیز گیند کر سکتا ہے اور میری بیٹی کے پاس بھی ایک خوبصورت گڑیا ہے ، میرا بیٹا بھی تیز بھاگ سکتاہے اور میری بیٹی بھی سائیکل چلا سکتی ہے، آئس کریم بھی دونوں کو اچھی لگتی ہے مگر شاید ان کے لئے اس دنیا کے عذابوں میں سے ایک عذاب یہ بھی ہے کہ انہیں باقی بچوں سے دوستی کرنے اور گھلنے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ مجھے نیچ سمجھتے ہیں، شہریت میں، قومیت میں، معاشرت میں ؛ وہ میرے شناختی کارڈ پر یہ واضح کر کے لکھتے ہیں کہ میں ان جیسا نہیں ہوں اس لئے مجھے اس دنیا پر برابری کی سطح پر جینے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ وہ مجھے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میرے خمیر میں غداری ہے اور میں ان کے پاکیزہ عزائم میں روکاوٹ ہوں۔ وہ مجھے جھاڑو دیتا، کوڑااٹھاتا یا نالیاں صاف کرتا دیکھنا چاہتے ہیں اور مجھے سراٹھا کر چلنے سے منع کرتے ہیں۔
وہ ہم سے اچھے طریقے سے صرف تبھی بات کرتے ہیں جب وہ ہمیں اپنے عقیدے پر لانا چاہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم گمراہ ہیں اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں، وہ میرے عقیدے کو اپنے ایمان سے کم تر سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میری عبادت اور دعائیں میری نجات کا باعث نہیں بنیں گی۔ انہیں ان کے علماء نے بتایا ہے کہ ہم اور ہم جیسے سب لوگ جنت میں جانے کے لائق نہیں کیوں کہ میرے بزرگوں نے مجھے نیکی کا ایک مختلف چلن سمجھایا اور سکھایا ہے۔ وہ مجھے اپنے قانون اور آئین میں مختلف قرار دے چکے ہیں، وہ میری قابلیت نہیں عقیدہ دیکھ کر مجھے مسترد یا منتخب کرتے ہیں۔ وہ مجھے اپنے مذہب کی باتیں پڑھاتے اور سناتے ہیں اور یہ جتاتے ہیں کہ ان کا مذہب امن کا مذہب ہے۔ وہ کتابوں میں یہ لکھتے ہیں کہ ہم ناپاک ہیں، باطل ہیں ،ہم سے دوستی ممکن نہیں اور میرے بچوں کو یہ پڑھنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ وہ میری عبادت گاہوں پر حملہ کرتے ہیں کیوں کہ پاک لوگوں کی دھرتی پر “ناپاک خداوں”کا نام لینا ٹھیک نہیں۔ وہ اس دنیا میں میری عبادت گاہوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور مجھے یرغمال بنائے ہوئے ہیں، مجھے اپنی آبادیوں سے بے دخل کررہے ہیں اور بہت ممکن ہے وہ اپنی جنت کی طرح اپنے جہنم سے بھی مجھے بے دخل کردیں؟
وہ میری بیٹی کو اس کے جوان ہوتے ہی اٹھا لے جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کا عقیدہ قبول کر کے ان کی اولادیں پیدا کر سکے، پھر وہ اسے مجھ سے ہم میں سے کسی سے بھی ملنے سے منع کر دیتے ہیں۔ وہ میرے بولنے، ہنسنے یا زندہ رہنے پر کسی بھی وقت مشتعل ہو کر مجھے مار سکتے ہیں، یا میرے گھر جلا سکتے ہیں۔ وہ مجھے کسی بھی شبے میں مار سکتے ہیں، کسی بھی الزام کے تحت، کسی بھی بہتان کے بعد بنا تصدیق کئے چند روپوں، تھوڑی سی زمین ۔مجھے کیا وہ میری حمایت کرنے والوں کو بھی مار سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میں آسمانی صحیفوں میں غیبی امداد کے وعدوں کے باوجود اپنی پیدائش کے بعد سے اچھوت ہوں، بے گھر ہوں اور جلاوطن ہوں۔
وہ مجھے نیچ سمجھتے ہیں، شہریت میں، قومیت میں، معاشرت میں ؛ وہ میرے شناختی کارڈ پر یہ واضح کر کے لکھتے ہیں کہ میں ان جیسا نہیں ہوں اس لئے مجھے اس دنیا پر برابری کی سطح پر جینے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ وہ مجھے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میرے خمیر میں غداری ہے اور میں ان کے پاکیزہ عزائم میں روکاوٹ ہوں۔ وہ مجھے جھاڑو دیتا، کوڑااٹھاتا یا نالیاں صاف کرتا دیکھنا چاہتے ہیں اور مجھے سراٹھا کر چلنے سے منع کرتے ہیں۔
وہ ہم سے اچھے طریقے سے صرف تبھی بات کرتے ہیں جب وہ ہمیں اپنے عقیدے پر لانا چاہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم گمراہ ہیں اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں، وہ میرے عقیدے کو اپنے ایمان سے کم تر سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میری عبادت اور دعائیں میری نجات کا باعث نہیں بنیں گی۔ انہیں ان کے علماء نے بتایا ہے کہ ہم اور ہم جیسے سب لوگ جنت میں جانے کے لائق نہیں کیوں کہ میرے بزرگوں نے مجھے نیکی کا ایک مختلف چلن سمجھایا اور سکھایا ہے۔ وہ مجھے اپنے قانون اور آئین میں مختلف قرار دے چکے ہیں، وہ میری قابلیت نہیں عقیدہ دیکھ کر مجھے مسترد یا منتخب کرتے ہیں۔ وہ مجھے اپنے مذہب کی باتیں پڑھاتے اور سناتے ہیں اور یہ جتاتے ہیں کہ ان کا مذہب امن کا مذہب ہے۔ وہ کتابوں میں یہ لکھتے ہیں کہ ہم ناپاک ہیں، باطل ہیں ،ہم سے دوستی ممکن نہیں اور میرے بچوں کو یہ پڑھنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ وہ میری عبادت گاہوں پر حملہ کرتے ہیں کیوں کہ پاک لوگوں کی دھرتی پر “ناپاک خداوں”کا نام لینا ٹھیک نہیں۔ وہ اس دنیا میں میری عبادت گاہوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور مجھے یرغمال بنائے ہوئے ہیں، مجھے اپنی آبادیوں سے بے دخل کررہے ہیں اور بہت ممکن ہے وہ اپنی جنت کی طرح اپنے جہنم سے بھی مجھے بے دخل کردیں؟
وہ میری بیٹی کو اس کے جوان ہوتے ہی اٹھا لے جاتے ہیں، تاکہ وہ ان کا عقیدہ قبول کر کے ان کی اولادیں پیدا کر سکے، پھر وہ اسے مجھ سے ہم میں سے کسی سے بھی ملنے سے منع کر دیتے ہیں۔ وہ میرے بولنے، ہنسنے یا زندہ رہنے پر کسی بھی وقت مشتعل ہو کر مجھے مار سکتے ہیں، یا میرے گھر جلا سکتے ہیں۔ وہ مجھے کسی بھی شبے میں مار سکتے ہیں، کسی بھی الزام کے تحت، کسی بھی بہتان کے بعد بنا تصدیق کئے چند روپوں، تھوڑی سی زمین ۔مجھے کیا وہ میری حمایت کرنے والوں کو بھی مار سکتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میں آسمانی صحیفوں میں غیبی امداد کے وعدوں کے باوجود اپنی پیدائش کے بعد سے اچھوت ہوں، بے گھر ہوں اور جلاوطن ہوں۔
4 Responses
Wonderful article
Buhut aala tehreer hai jis main 100% sach hai ye batain tu main ne apne ghar se b suni aur seekhi hain.
Great baat hai aap ki
میرےخیال میں یہ سب کیا درا ریاست کا ہے جب ریاست کا مزہب ہو گا تو عیر مسلم کیسے محفوظ ہوں گے
پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ناروا سلوک میں برصغیر کی ثقافت کا گہرا عمل دخل ہے۔ اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم بھی ہمارے ذہنوں میں سے ذات پات اور اچھوت کا تصور نکالنے سے قاصر رہی ہے۔ تاہم، یہ صورتِ حال اکثر و بیشتر نچلی سطح پر دیکھنے میں آتی ہے، جہاں غیر مسلم ہونے کے ساتھ ساتھ غریب ہونا بھی جرم ٹھہرتا ہے۔ کاروباری سطح پر، قدرے بہتر صورتِ حال ہے اور مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ مل جل کر کام کرتے اور کھانا کھاتے بھی نظر آتے ہیں۔
وقاص گھمن کے تبصرے سے مجھے قطعی اختلاف ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد ریاست نہیں ہے جس کا کوئی مذہب ہے۔ بڑی بڑی مہذب اور ترقی یافتہ ریاستوں کے بھی مذاہب ہیں، مثلاً برطانیہ، ڈنمارک، ناروے، اسپین، اسکاٹ لینڈ، ارجنٹائن، اسرائیل۔ لہٰذا یہ ریاست کا مذہب نہیں ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب ہے، بلکہ یہ ہمارے رویے ہیں جنھیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔