تم تو کہتے تھے
دنیا بدلنے کو ھے
چھوٹے چھوٹے تھے ہم
فلسفی کہہ کے سب چھیڑتے تھے تمہیں
فلاں نے کہا ھے!
فلاں نے لکھا ھے!
کتابوں سے دیتے تھے اکثر حوالے
سویرے سویرے
مجھے روز لے جاتے تھے
ساتھ اسٹال پر
مفت اخبار پڑھنے
یہ دھن تھی
کہ بس ھو نہ ھو
آج دنیا بدلنے کی اچھی خبر
چھپ گئی ھو
زمانے کی آندھی میں اڑتے ھوئے
ٹکڑے اخبار کے
ہم جدا ھو گئے
پھر ملے ہی نہیں
افتخار!
اب مرے شیشہء عمر میں
آخری ریت ھے
چند آئندہ اخبار باقی ہیں شاید
ترے نقش دھندلا چکے ہیں
مری یاد میں
پر ترا نام میں بھول سکتا نہیں
میرے بچپن کے اے دوست
ہم دونوں ہم نام تھے نا!
نہیں جانتا
تم کہاں ھو
یا شاید نہیں ھو ابھی تک
مری طرح دنیا میں
دنیا جو بدلی نہیں
ہاں ! وہ جو اسٹال تھا، نا
وہ اخبار کا
ریلوے روڈ پر
اس جگہ ایک جوتوں کی دکان ھے
اس زمانے کے ہاکر سبھی مر چکے ہیں
Image: Harry Kent