زندگی بھائی
ایک ہی لمحہ ہے
جسے ہم نے سو سو کر گزارا ہے
یہ دن، سال اور صدیاں
یہ تو وقت کو ہم نے ایسے ہی توڑا ہے
ذرا سا اطمینان ہو جاتا ہے
اور تم میرے بھی بھائی ہو پتھر
ہم دونوں ایک ہی عمیق دھماکے سے
پھوٹ رہے ہیں
جیسے جڑواں بچے
ہم سب کچھ جڑواں بچے ہیں
خدا کی گود میں کلکاریاں مارتے ہوئے

 

یہ کائنات ایک کمبل ہے
جسے خدا اوڑھ کر بیٹھا ہے
اور عالمی ہُو میں
تقدیر کی کافی پھینٹ رہا ہے

 

میرا اور تمہارا دل
مریخ کا بچھونا ہیں
اس پر وہ ویرانہ انگڑائیاں لیتا ہے
جہاں ‘میں’ کا بدرنگ پھول کھلتا ہے
لیکن مجھے نہیں معلوم کہ تم میں
کوئی ‘میں’ ہے کہ نہیں
تم بولنے والے بچے نہیں ہو

 

میں کوئی چودہ ارب اور انتیس سال کا ہوں
میری بینائی ابھی سوج کر آنکھوں ہی میں پڑی ہے
میری سماعت پر اور بھی بچوں کے شور کا ورم ہے
میں سورج کا ناشتہ کرتا ہوں
چاند پی کر ہلڑ بازی کرتا ہوں
میں ایٹم کی خلوت میں
بےحیائی مچاتا ہوں

 

ہم سب ایک گہری خاموشی کا نتیجہ ہیں
دیوانہ وار سفینہ ہیں
ہم اپنے اختتام کی سازش ہیں
ایک جناتی خارش ہیں

 

آج رات میں ملاوٹ ہوگئی ہے
یہ مصنوئی روشنی کی جاگ
اور اس میں جاگتا ہوا آدمی
اور اسکی وحشت
کیا فرق پڑتا ہے؟
یہ ایک ہی تو لمحہ ہے

 

تمھیں نہیں لگتا کہ ایک دیوار ہے
ہمارے اپنے اندر
ایک خود احتسابی کی روایت
میرا آدمی اور تمہارا پتھر
کچھ ایسی تہوں میں دبا ہوا ہے
جیسے کوئی امر مردہ
شناخت کے مقبرے میں
مگر کیا فرق پڑتا ہے؟
یہ ایک ہی تو لمحہ ہے

 

محبتوں اور نفرتوں سے مانجھا ہوا میں
اور سختیوں کے سینچے ہوئے تم
اور ہم دونوں بھائی
بیوہ بیٹیوں کی طرح
کن فیکن کے آخری ‘ن’ میں
اپنے آپ کو چھوڑتے چلے جارہے ہیں
مگر کیا فرق پڑتا ہے؟
یہ ایک ہی تو لمحہ ہے
چھوڑو جانے دو

Leave a Reply