کہانی:
یہ فلم ایک ایسے نوجوان کے خوابوں کو بیان کرتی ہے، جسے اداکار بننے کا شوق کچہری کی راہداریوں اور بنچ کے سامنے لے جاتا ہے۔ چونکہ اس کا باپ ایک وکیل ہے لہٰذا کورٹ کچہری کے کلچر سے تو یہ نوجوان آشنا ہے۔ جہاں کہیں دقت درپیش ہوتی ہے، اس کا انکل مدد کو آتا ہے۔ اس اداکار کا کورٹ کچہری میں جتنا وقت گزرتا ہے وہ عوام الناس کے گوناگوں مسائل کو نمایاں کرتے گزرتا ہے۔ میڈیا اس کی معاونت کرتا ہے اور یوں عدالتوں میں لوڈشیڈنگ، چائلڈ لیبر، ہراسانی، اقلیتوں کے حقوق، جعلی پیر، دیواروں پر لکھے نعروں سے پھیلی بصری آلودگی اور سیاسی جماعتوں کی منافقتیں جن کا شکار ہر پاکستانی ہے، نمایاں مسائل کے طور پر بلکہ مقدموں کی صورت جگہ پاتے ہیں۔ یہ مقدمات عوام الناس کے دکھ درد کا ماؤتھ پِیس بنتے ہیں۔ یہ فلم حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم "جاناں” کی طرح بے رَس اور غیر متاثر کُن روم-کام نہیں بلکہ نبیل قریشی کی پچھلی فلم "نامعلوم افراد” کی طرح ایک عُمدہ اور بھرپور سوشل کامیڈی ہے۔
کردار:
نوجوان اداکار/وکیل یعنی ایکٹر ان لاء کا کردار فہد مصطفیٰ نے نبھایا ہے۔ فہد یعنی ہیرو کے وکیل والد کا کردار اوم پوری نے. ہیروئن جو ٹی وی رپورٹر ہے، کا کردار مہوش حیات نے نبھایا ہے۔ ولن کا کردار علی خان نے ادا کیا ہے۔ یہ کردار دراصل معروف ٹی وی اینکر مبشر لقمان کی صحافتی زندگی کی، "مدثر سلطان” کی شکل میں نمائندگی کر رہا ہے۔
مکالمے:
یکٹر ان لاء کے مکالمے بہت پاورفُل ہیں۔ اگر ایک مقام پر ایسا لگتا ہے کہ ایک کردار کا موقف درست ہے تو اگلے ہی لمحے دوسرا کردار، مخالف کردار فلم بینوں کو اپنی دلیل سے قائل کر لیتا ہے۔
ایکٹر ان لاء کے مکالمے بہت پاورفُل ہیں۔ اگر ایک مقام پر ایسا لگتا ہے کہ ایک کردار کا موقف درست ہے تو اگلے ہی لمحے دوسرا کردار، مخالف کردار فلم بینوں کو اپنی دلیل سے قائل کر لیتا ہے۔ یہ جادو ہے اچھے مکالموں کا۔
مثال کے طور پر جب دسترخوان پر سارا خاندانبیٹھا شان مرزا یعنی فہد کے شوقِ اداکاری پر بات کر رہا ہے، تو فہد کہتا ہے کہ قائدِ اعظم بھی اداکار بننا چاہتے تھے۔ یہ بات شان مرزا نے اپنے اداکاری کے استاد سے سُنی تھی۔ اور اس بات سے نہ صرف شان مرزا کی آتشِ شوق مزید بھڑک اُٹھی تھی بلکہ اسے ایک دلیل بھی مل گئی تھی اپنے محب وطن باپ کو قائل کرنے کے لیے۔
مثال کے طور پر جب دسترخوان پر سارا خاندانبیٹھا شان مرزا یعنی فہد کے شوقِ اداکاری پر بات کر رہا ہے، تو فہد کہتا ہے کہ قائدِ اعظم بھی اداکار بننا چاہتے تھے۔ یہ بات شان مرزا نے اپنے اداکاری کے استاد سے سُنی تھی۔ اور اس بات سے نہ صرف شان مرزا کی آتشِ شوق مزید بھڑک اُٹھی تھی بلکہ اسے ایک دلیل بھی مل گئی تھی اپنے محب وطن باپ کو قائل کرنے کے لیے۔
اس دلیل پر ہنستے ہوئے ہی صحیح، سینما بین قائل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر اگلے ہی لمحے شان مرزا کے والد ڈانٹنے کے سے انداز میں جب قائدِ اعظم کی عظمت پر چند باتیں کرتے ہیں، تو سینما ہال میں احترام آمیز خاموشی چھا جاتی ہے۔
ایک سین میں شان مرزا اپنی ماں کو جواب دیتا ہے، "پاؤں پر تو وہ کھڑے ہوتے ہیں، جن کے پَر نہیں ہوتے۔ اور میں تو اُڑنا چاہتا ہوں۔”
ایک سین میں شان مرزا اپنی ماں کو جواب دیتا ہے، "پاؤں پر تو وہ کھڑے ہوتے ہیں، جن کے پَر نہیں ہوتے۔ اور میں تو اُڑنا چاہتا ہوں۔”
اسی طرح ایک مقام پر شیکسپئیر کے مشہورِ زمانہ فقرے To be or Not to Be کو بھی فلم کا حصہ بنایا گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کس قدر ہمہ گیر سوال ہے انسان کے سامنے؛ جسے شیکسپیئر نے ہیملٹ کی خوکلامی کے ذریعے الفاظ کا جامہ پہنایا۔
ایک منظر میں سلیم معراج نے فہد کو ہمایوں سعید کے مقابل ایک فلم کے صرف ایک سِین میں کاسٹ کرنے کے لیے قائل کرتے ہوئے کہا؛ "جب تین سو لوگ اندھیرے میں بیٹھے تُجھے دیکھ رہے ہوں گے۔ ابے سانس بھی لے گا نا سانس، تو وہ بھی رجسٹر ہوگی”۔ یہ مکالمہ سینما کے تناظر ميں کس قدر مکمل اور جامع ہے؛ سینما کے طلبا و طالبات اسے جانتے ہیں۔ سینما کے لیے بنائی گئی کسی بھی پروڈکشن کے اندر ٹیلنٹ اور پراپس واقعی خوب رجسٹر ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سینما اندھیرے، بڑی اسکرین اور سراؤنڈنگ سٹیریو ساؤنڈ کی بدولت Hypnotic ماحول طاری کیے رکھتا ہے۔ اور ناظر پوری یکسوئی کے ساتھ اس سے لُطف اندوز ہوتا ہے۔ لہٰذا، وہاں کرداروں کا ایک ایک سانس رجسٹر ہوتا ہے۔ ٹی وی کے مقابلے میں سینما کرنے کے خبط اور جنون کے موضوع پر ایکٹر ان لاء کے ساتھ ریلیز ہونے والی فلم "زندگی کتنی حسین ہے” ایک خوبصورت کاوش ہے۔ سینما کے طلباءوطالبات کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہئے۔
ایک منظر میں سلیم معراج نے فہد کو ہمایوں سعید کے مقابل ایک فلم کے صرف ایک سِین میں کاسٹ کرنے کے لیے قائل کرتے ہوئے کہا؛ "جب تین سو لوگ اندھیرے میں بیٹھے تُجھے دیکھ رہے ہوں گے۔ ابے سانس بھی لے گا نا سانس، تو وہ بھی رجسٹر ہوگی”۔ یہ مکالمہ سینما کے تناظر ميں کس قدر مکمل اور جامع ہے؛ سینما کے طلبا و طالبات اسے جانتے ہیں۔ سینما کے لیے بنائی گئی کسی بھی پروڈکشن کے اندر ٹیلنٹ اور پراپس واقعی خوب رجسٹر ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سینما اندھیرے، بڑی اسکرین اور سراؤنڈنگ سٹیریو ساؤنڈ کی بدولت Hypnotic ماحول طاری کیے رکھتا ہے۔ اور ناظر پوری یکسوئی کے ساتھ اس سے لُطف اندوز ہوتا ہے۔ لہٰذا، وہاں کرداروں کا ایک ایک سانس رجسٹر ہوتا ہے۔ ٹی وی کے مقابلے میں سینما کرنے کے خبط اور جنون کے موضوع پر ایکٹر ان لاء کے ساتھ ریلیز ہونے والی فلم "زندگی کتنی حسین ہے” ایک خوبصورت کاوش ہے۔ سینما کے طلباءوطالبات کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہئے۔
قصہ کوتاہ، نبیل قریشی نے اہتمام کیا کہ ایکٹر ان لاء کے مکالمے بھی عُمدہ ہوں؛ اور وہ اپنی اس کوشش میں بہت کامیاب رہے۔ مکالموں کے ذریعے ناظرین کو ہنسایا بھی، اداس بھی کیا اور سوچنے پر مجبور بھی کیا۔
کریڈٹس:
ایکٹر ان لاء کے انٹروڈکٹری کریڈٹس تخلیقی انداز میں دکھائے گئے ہیں۔ جو فوری توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ایکٹر ان لاء کے انٹروڈکٹری کریڈٹس تخلیقی انداز میں دکھائے گئے ہیں۔ جو فوری توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ مگر جونہی توجہ حاصل کرتے ہیں، دل چاہتا ہے کہ ایک بار انہیں بھی دوبارہ دیکھا جائے جو فوری توجہ حاصل نہ کر پائے، اور اور وہ بھی دوبارہ دیکھے جائیں جنہیں دیکھ چُکے۔
اس لحاظ سے کریڈٹس کے اس اندازِ پیشکش کی یہ کامیابی ہے کہ ناظر انہیں دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ بعض کریڈٹس میں ویژیول آرٹس/گرافکس کے بنیادی اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ جس کی وجہ سے پیش منظر، پس منظر سے الگ نظر نہیں آتا۔
علامتوں/استعاروں کا استعمال:
فلم تھیوری میں SEMIOTICS ایک اہم موضوع ہے۔ علامتیں/استعارے اگر ذہانت کے ساتھ اور معقول انداز میں استعمال کیے جائیں تو ان کی مدد سے معانی کی ترسیل آسان ہوتی ہے بلکہ اس کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایکٹر ان لاء میں علامتوں اور استعاروں کا استعمال بہت کامیابی سے کیا گیا ہے۔
پہلے ایک استعارے کی بات کرلیتے ہیں، بعدازاں علامت کی طرف آئیں گے۔
ایکٹر ان لاء میں علامتوں اور استعاروں کا استعمال بہت کامیابی سے کیا گیا ہے۔
پہلے ایک استعارے کی بات کرلیتے ہیں، بعدازاں علامت کی طرف آئیں گے۔
استعارہ:
ہدایتکار نبیل نے فہد (شان مرزا) کے کردار کو واضح کرنے کے لیے ایک دلچسپ استعارے کا استعمال کیا جو فی الاصل ساری فلم کا مرکزی نکتہ ہے۔ وہ نکتہ ہے نیا بھیس بنا کر عوام کی خدمت کرنا۔
اس نکتے کو استعارے کے ذریعے پیش کرنے کے لیے فہد کی اُس گانے پر مجبوری کے عالم میں پرفارمنس دکھائی گئی جسے بھارتی فلم "شہنشاہ” سے مستعار لیا گیا، یعنی اس کا ٹائٹل سانگ:
‘اندھیری راتوں میں۔۔۔ سنسان راہوں پر۔۔۔۔۔ ہر ظلم مٹانے کو۔۔۔۔۔ ایک مسیحا نکلتا ہے۔
فلم "شہنشاہ” میں امیتابھ بھی پولیس انسپکٹر کے روپ میں عوام کی خدمت کرنے کے بجائے شہنشاہ کا بھیس بنا کر نکلتا ہے اور انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ فلم "ایکٹر ان لاء” میں اُس گانے کے بول اور شہنشاہ میں امیتابھ کے کردار کو فہد کے کردار کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ یعنی یہ جو فلم میں اس گانے کا انتخاب اور اس پر فہد کی خواب بھری آنکھوں اور نسبتاً سپاٹ چہرے کے ساتھ عمدہ پرفارمنس ہے، یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ بلکہ ایک استعارہ ہے فہد کے کردار کا۔ یہ پرفارمنس فلم کے آغاز ہی میں دکھا دی جاتی ہے۔ جس سے فلم میں فہد کے کردار کی جانب بلیغ اشارہ ملتا ہے۔
علامت: کئی علامتوں کو اس فلم میں استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی مدد سے معانی کی ترسیل کی گئی ہے؛ جیسے کہ بے روزگاری کے دنوں میں گھڑی میں پریشان فہد کا عکس دکھا کر یہ بتایا گیا کہ ہیرو پر کڑا وقت چل رہا ہے۔ فہد کے گھر لٹکتی بجھی لالٹین بیک وقت پرانی تہذیب پر نوحہ کُناں جدید تہذیب کی علامت بھی ہے۔ اور خود جدید تہذیب کے اندھیروں کی نمائندہ بھی۔۔۔۔
علامت: کئی علامتوں کو اس فلم میں استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی مدد سے معانی کی ترسیل کی گئی ہے؛ جیسے کہ بے روزگاری کے دنوں میں گھڑی میں پریشان فہد کا عکس دکھا کر یہ بتایا گیا کہ ہیرو پر کڑا وقت چل رہا ہے۔ فہد کے گھر لٹکتی بجھی لالٹین بیک وقت پرانی تہذیب پر نوحہ کُناں جدید تہذیب کی علامت بھی ہے۔ اور خود جدید تہذیب کے اندھیروں کی نمائندہ بھی۔۔۔۔
ایک کردار جب عدالت میں بند پنکھا لے کر جا رہا ہوتا ہے تو سڑک پر تیز دھوپ میں اس پنکھے کا سایہ حرکت کرتا دکھایا جاتا ہے؛ اس منظر سے یہ اسٹیبلش کرنا مقصود ہے کہ گرمی میں لوڈشیڈنگ کی نحوست کے سائے عوام پر کتنے گہرے ہیں۔
اسی طرح کئی ایک علامتیں ہیں۔ مگر ایک اہم علامت جو نہایت لطیف انداز میں منظر کے معانی کے اثر کو بڑھاتی ہے وہ چائلڈ لیبر کے سیکوئنس میں ایک بھٹہ مزدور بچے کا Low Angle شاٹ ہے، جس کے پس منظر میں بھٹے سے نکلتا دھواں ایک موٹی سی لہراتی لکیر کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس منظر کا بیگ گراؤنڈ میوزک غم کا الاپ ہے۔ گویا سمعی الاپ اگر بی جی ایم ہے تو بصری الاپ آسمان کی طرف اُٹھتے بل کھاتے دھویں کی لکیر۔ جس کے پیش منظر میں وہی مزدور بچہ ہچکیاں لیتے ہوئے اپنی بپتا سُنا رہا ہے۔ اس کے چہرے پر کالک بھی جابجا نظر آتی ہے۔ یہ کالک؛ ہچکیاں، الاپ اور اُٹھتا دُھواں۔۔۔ سینما میں Low Angle سے شوٹ کر کے پیش کیے گئے ہیں۔ جو ناظر پر غم کا بھرپُور اثر چھوڑتے ہیں۔ لو اینگل سے مُراد یہ ہچکیاں اور آنسو، دھواں اور کالک اس بچے پر راج کر رہے ہیں۔
لائٹنگ:
لائٹنگ مجموعی طور پر عُمدہ ہے۔ مگر عدالت کے مناظر میں اگر لائٹ کو مزید کنٹرول کر لیا جاتا تو بہتر ہوتا. علاوہ ازیں، پریکٹیکل لائٹس کا استعمال بھی خوب رہا۔ سیلوہٹ (Silhouette) کا استعمال اور اس سے کہانی میں معنویت پیدا کرنے کی کوششیں بھی عُمدہ رہیں۔ البتہ ایک بات جو بہت اہم ہے لائٹ کی ضمن میں، وہ یہ ہے کہ آؤٹ ڈور میں برستی بارش میں گانا بھی شُوٹ کیا گیا اور اس سے پہلے نورالحسن اور فہد کے مکالمے بھی۔ نُورالحسن مزدوروں کے حقوق لینے کے لیے سائل بن کر آتے ہیں۔ اور فہد کو، جو کہ اداکار ہے، وکالت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہی فیصلہ فلم کا پہلا پلاٹ پوائنٹ ثابت ہوتا ہے۔ یہیں سے کہانی پروگریشن کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔ اب ایسے اہم سِین میں لائٹ کے بلنڈرز بھلے تو نہیں لگتے، بلنڈر یہ کہ ایک جانب تو بارش شُوٹ کی جارہی ہے اور دوسری جانب تیز دھوپ کی وجہ سے بننے والے واضح سائے کرداروں کے کاندھوں اور زمین پر پڑ رہے ہیں۔ یہ کیسی بارش ہوئی بھلا؟ ہم جانتے ہیں کہ دھوپ میں بارش ہو بھی جاتی ہے۔ مگر وہ برسات میں جبکہ نُور نے سویٹر پہن رکھا ہے۔ اب بتائیے کہ کراچی کے سرما کی دوپہر یا صبح میں تیز دھوپ میں تیز بارش کب ہوتی ہے؟ یہی غلطی آشوتوش گواریکر کی فلم "موئن جوداڑو” کے بارش والے لمبے سیکوئینسز میں کی گئی۔ اوپر کالے سیاہ بادل دکھا کے خوب بارش برسائی، اور نیچے کرداروں کے بھیگتے چہروں پر تیز دھوپ۔ یہ بلنڈر لائٹ کے حوالے سے کمزور پروڈکشن کی چغلی کھاتا ہے۔ نبیل کو اس پہ دھیان دینا چاہیے تھا۔
ایڈیٹنگ:
فلم کی ایڈیٹنگ بھی مجموعی طور پہ عُمدہ ہے۔ سلو موشنز، جمپ کٹس، کٹ اویز وغیرہ کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ سلوموشن میں جمپ کٹ کو تب عُمدگی سے استعمال کیا گیا جب فہد کے منہ پر کالک ملی گئی۔ کٹ اوے استعمال کر کے فہد کا خواب دکھایا گیا کہ جب وہ عدالت سے باہر آئے تو ہیرو بن چُکے تھے؛ اور سین تھا بجلی کی ناہموار ترسیل سے جلی اشیاء والے مقدمے کا؛ پیرالل کٹنگ کا تب استعمال کیا گیا جب ایک طرف عدالتی کارروائی دکھائی جا رہی تھی اور اسی دوران میں دوسری طرف لوگوں کے گھروں کی مصروفیات دکھائی گئیں کہ چیزیں کیونکر خراب ہو رہی ہیں۔
کلائمیکس کے سِین پہ البتہ جاندار ایڈیٹنگ نہ ہونے کے باعث سینما میں تالی نہ بج سکی۔ کلائمیکس کا سین یہ تھا کہ جب ساری بار فہد کا مقدمہ لڑنے سے انکار کر دیتی ہے اور فہد مجرم بنا اسی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا وکیل کا بھیس بنانے کے جُرم پہ سر جھکائے بنچ کا سامنا کر رہا ہوتا ہے؛ عدالت میں فہد کے وکیل کو پیش ہونے کے لیے بار بار اعلان کیا جاتا ہے۔ مخالف خوش ہیں کہ مقدمہ جیت چُکے، اور موافق شدید کرب کا شکار کہ لوگوں کا ہیرو جو لوگوں کے مقدمے بغیر فِیس کے لڑا کرتا تھا آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا؛ یہ Conflict شدید ہوتا چلا جاتا ہے کہ اچانک عدالت کا صدر دروازہ کھلتا ہے اور فہد کا وکیل والد اوم پوری عدالت میں فہد کا مقدمہ لڑنے کے لیے پیش ہو جاتا ہے۔ اس کے داخل ہونے کے منظر کو ایڈیٹنگ کی مدد سے بہت بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ کیونکہ اچھائی اور بُرائی کانفلکٹ اس مقام پہ شدید ٹینشن کی سطح پہ پہنچ چُکا ہوتا ہے جو ایک پاورفُل ریزولیوشن کا تقاضا کرتا ہے۔ کہانی میں یہی مقام دوسرا پلاٹ پوائنٹ ہے۔ یہاں کلائمیکس اپنے عروج پر اور ریزولوشن اپنے نقطہ آغاز پہ ہوتا ہے۔ اسے بصری طور پر اور Cinematically بھی پاورفُل ہونا چاہیے تھا۔ اور یہ کام اگر پروڈکشن یا پری پروڈکشن میں نہیں کیا گیا تو اس کمی کو پوسٹ میں پورا کیا جا سکتا تھا۔ مگر اس میں ٹاپ شاٹ دکھا کر فلم آگے بڑھا دی. یہاں تو چاہئے تھا کہ لوگ اوم پوری کے آ جانے پر کھڑے ہو کر تالی بجاتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس سین کو ایک آنچ کی کسر نے یادگار سین نہیں بننے دیا۔
سینماٹوگرافی:
جُزئیات دکھا کر صورتِ حال واضح کرنے کی تکنیک کو اس فلم میں بھی برتا گیا۔ انہی جزئیات سے بعض مقامات پر اسٹیبلشنگ شاٹس بنائے گئے۔
کامیڈی فلم میں زیادہ تر لائیٹ براڈ اور شاٹس لانگ رکھے جاتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب سیچوایشنل کامیڈی زیادہ ہو۔ اس فلم میں بھی یہی طریقِ کار اختیار کیا گیا ہے۔ عدالت میں بھی جہاں جہاں کامیڈی پیدا کرنا مقصود تھی وہاں وہاں لانگ شاٹس دکھائے گئے اور Low Key کے بجائے لائٹ بہت کُھلی اور زیادہ رکھی گئی اگرچہ اسے کنٹرول کیا جانا چاہیے تھا۔ کیونکہ بعض جگہوں پہ تو باقاعدہ یہ اوور ہونے کے قریب تھی۔
آئزن سٹائین جس طرح جُزئیات دکھا کر صورتِ حال واضح کرتا تھا، یہ طریق کار بعد میں آنے والے فلم میکرز کے لیے گویا مسلمہ اصول بن گیا۔ جُزئیات دکھا کر صورتِ حال واضح کرنے کی تکنیک کو اس فلم میں بھی برتا گیا۔ انہی جزئیات سے بعض مقامات پر اسٹیبلشنگ شاٹس بنائے گئے۔ جیسے کہ جب فہد کو تیار ہوتا دکھاتے ہیں تو جزئیات کی مدد سے بتاتے ہیں کہ اس کی تیاری کے مراحل کیا ہیں اور اس میں کون سے چیزیں شامل ہیں۔
فریمنگ اور کمپوزیشن:
فریمنگ کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا۔ جہاں سپانسر دکھانا مقصود تھا، وہاں اسے فریم میں شامل کیا گیا۔ مگر عدالت کے محرابی دروازہ مکمل نہ دکھایا گیا۔ یہ اوپر سے کٹا ہوا تھا۔ عامر خان کی معروف فلم PK میں فریمنگ سے زیادہ سٹوری دکھانے پر توجہ مرکوز رکھی گئی؛ جبکہ سنجے لِیلا بھنسالی کی "باجی راؤ مستانی” میں سٹوری ٹَیلنگ(Story telling) کے ساتھ ساتھ آرٹ ڈائریکشن، فریمنگ اور کمپوزیشن کا بھی خوب خیال رکھا گیا. سینما سے محبت کرنے والے لوگ ایسی ہی فریمنگ اور کمپوزیشن کی توقع رکھتے ہیں ہر فلم میکر سے۔ نبیل بھی ایک سُپر ہِٹ فلم میں اس بات کا خیال رکھتے تو اچھا لگتا۔
ساؤنڈ: ڈیزائن:
کہانی کو آگے بڑھنے میں اس ساؤنڈ ڈیزائن نے خاصی مدد کی. اور سینما میں بیٹھے ناظرین پر مختلف سیکوئینسز کا مکمل موڈ طاری کرنے میں مدد دی۔ فولی کا مناسب استعمال؛ موقعے کی مناسبت سے کامک بی جی ایم، ویژولز کو کمپلیمنٹ کرتا ہوا، موڈ اور ماحول بناتا ہوا؛ جیسے کہ فہد جب عدالت میں کنفیوز ہوتا ہے تو بی جی ایم سپورٹ کرتا ہے۔
ٹریکس اور ڈانسز:
کمرشل فلم کی ضروریات کے پیشِ نظر نبیل نے ایکٹر ان لاء میں عمدہ گانے شامل کیے۔
عاطف اسلم کا گایا ہوا گانا (دل یہ ڈانسر ہو گیا۔)، راحت فتح کا گایا ہوا (او خدایا)، اور ٹائٹل سانگ ایکٹر اِن لاء تینوں بہترین گانے ہیں۔ سینما میں بیٹھے لوگ ان گانوں پر جھومتے ہیں۔ ساتھ گاتے ہیں۔ اور باقاعدہ ناچتے دیکھے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں، "دل یہ ڈانسر ہو گیا” پہ فہد کا ہلکا پھلکا ڈانس خوشگوار لگتا ہے۔
عاطف اسلم کا گایا ہوا گانا (دل یہ ڈانسر ہو گیا۔)، راحت فتح کا گایا ہوا (او خدایا)، اور ٹائٹل سانگ ایکٹر اِن لاء تینوں بہترین گانے ہیں۔ سینما میں بیٹھے لوگ ان گانوں پر جھومتے ہیں۔ ساتھ گاتے ہیں۔ اور باقاعدہ ناچتے دیکھے گئے ہیں۔
علاوہ ازیں، "دل یہ ڈانسر ہو گیا” پہ فہد کا ہلکا پھلکا ڈانس خوشگوار لگتا ہے۔
کیمرہ موومنٹس/شاٹ ٹائپس:
ایکٹر ان لاء میں کاپٹر شاٹس؛ ڈولی شاٹس؛ پَین/ٹِلٹ؛ غرض جہاں جس شاٹ کی ضرورت پڑی، لیا گیا۔ کیمرہ موومنٹس بھی ضرورت کے پیشِ نظر عمل میں لائی گئیں۔
ایکٹر ان لاء میں کاپٹر شاٹس؛ ڈولی شاٹس؛ پَین/ٹِلٹ؛ غرض جہاں جس شاٹ کی ضرورت پڑی، لیا گیا۔ کیمرہ موومنٹس بھی ضرورت کے پیشِ نظر عمل میں لائی گئیں۔ بعض جگہ پَین ٹُو ریویل (Pan to Reveal) کی تکنیک استعمال کی گئی اور اس سے کامیڈی بھی پیدا کی گئی۔ جیسے کہ ایک سین میں کٹہرے میں بجلی کی اشیاء رکھی تو پہلے سے تھیں مگر دکھائی لانگ شاٹ میں نہیں گئیں۔ بلکہ کیمرہ پَین کرتے ہوئے، عدالت کو دکھاتے سسپنس پیدا کیا گیا اور سسپنس توڑنے کے لیے ان چیزوں پر آ کر موومنٹ روک دی گئی۔ اس موومنٹ سے یہی ریوِیل کرنا مقصود تھا کہ کٹہرے میں ملزم کے طور انسان نہیں کھڑا، بلکہ اشیاء رکھی گئی ہیں۔ جب ناظرین پر یہ انکشاف ہوا کہ کٹہرے میں انسان نہیں اشیاء ہیں؛ تو ان کی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے کہ کیا ان چیزوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے ہیرو اتنا سیریس دکھائی دیتا ہے؟
میک اپ:
میک اپ اور گیٹ اپ مناسب ہیں۔ اگرچہ مرد کرداروں کے چہروں پر مَلی گئی Base بعض جگہ صاف دکھائی دیتی ہے۔ اوم پوری کے دانت پِیلے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں پوسٹ میں بہتر کیا جا سکتا تھا اگر پہلے چُوک ہو گئی تھی۔
اداکاری:
فہد، اوم پوری، نیر اعجاز، خالد انعم، ریحان شیخ، مہوش حیات، نُورالحسن، علی خان، طلعت حُسین، ہمایوں سعید، سلیم معراج، لبنیٰ، سلیم خواجہ اور کئی ایک معروف اداکاروں نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ مگر سب سے زیادہ مواقع جن کے پاس تھے وہ فہد اور مہوش تھے۔ اور فہد سب پہ بازی لے گیا۔۔۔ کامیڈی فلم میں اوور ایکٹنگ کا خطرہ رہتا ہے۔ Subtle اور Natural ایکٹنگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ریحان، علی خان اور خالد انعم کی گرفت ڈھیلی پڑتی محسوس ہوئی بعض مقامات پر؛ مگر سلیم معراج، اوم پوری اور فہد کا کنٹرول اپنی ایکٹنگ پر زیادہ مضبوطی سے قائم رہا۔
موضوع:
میڈیا، لوڈشیڈنگ، مبشر لقمان جیسے اینکروں کے کردار، طاقت کے اشتہارات؛ سیاسی نعرے؛ ہراسمنٹ، اقلیتوں کے حقوق اور چائلڈ لیبر ایسے مسائل کی آڑ میں شعبہ وکالت کی حقیقت اور اخلاقی حیثیت پر سوال اُٹھایا گیا۔ یعنی Ontological and Axiological Questions کہ وکالت دراصل کہتے کسے ہیں۔ اگر عوامی مسائل کو عدالت میں لانا اور حل کی کوشش کرنا وکالت کا وظیفہ نہیں تو پھر اس کا کیا مقصد ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
میڈیا، لوڈشیڈنگ، مبشر لقمان جیسے اینکروں کے کردار، طاقت کے اشتہارات؛ سیاسی نعرے؛ ہراسمنٹ، اقلیتوں کے حقوق اور چائلڈ لیبر ایسے مسائل کی آڑ میں شعبہ وکالت کی حقیقت اور اخلاقی حیثیت پر سوال اُٹھایا گیا۔ یعنی Ontological and Axiological Questions کہ وکالت دراصل کہتے کسے ہیں۔ اگر عوامی مسائل کو عدالت میں لانا اور حل کی کوشش کرنا وکالت کا وظیفہ نہیں تو پھر اس کا کیا مقصد ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
میڈیا، لوڈشیڈنگ، مبشر لقمان جیسے اینکروں کے کردار، طاقت کے اشتہارات؛ سیاسی نعرے؛ ہراسمنٹ، اقلیتوں کے حقوق اور چائلڈ لیبر ایسے مسائل کی آڑ میں شعبہ وکالت کی حقیقت اور اخلاقی حیثیت پر سوال اُٹھایا گیا۔
اس کے علاوہ، کسی بھی شعبے میں ڈگری کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔ ہمارا موقف بھی یہی ہے۔ بلکہ ہم تو کہتے رہے ہیں کہ پیشہ کوئی بھی، انسان کو کوالیفائیڈ ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ڈگری تو میڈیسن میں کر رکھی ہو، بن بیٹھے ہوں ٹی وی اینکر۔۔۔ و علیٰ ہذالقیاس
موضوع کی ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جہاں عوامی مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے، وہاں اپنے سُپر سٹارز کی عظمت کے گُن بھی گائے گئے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ ہمایوں سعید کا ذکر جس انداز میں کیا گیا؛ اور فلمسٹار شان کا ذکر جس کنائے سے کیا گیا، یہ ان کی محنت کے بل پر حاصل کی گئی عظمت کو عمدہ خراجِ تحسین ہے۔ پاکستانی فلموں میں پاکستانی ہیروز کو خراج پیش کرنے کا چلن پاکستانیت اُجاگر کرنے میں مدد دے گا۔ جیسے روس، بھارت اور امریکہ میں ہوتا ہے، اُسی طرح۔۔۔
ایک ضمنی پہلو یہ ہے کہ ٹی وی کے مقابلے میں فلم کا کریز دکھایا گیا ہے۔ یہ بھی قابل تحسین بات ہے۔ پوری دُنیا میں سینما کو ٹی وی سے کہیں زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ بس وطنِ عزیز میں ہی ہو رہا ہے کہ سینما نہ ہونے کے برابر جبکہ کرنٹ افئیرز کے شوز رائے عامہ ہموار کرنے کا بِیڑہ اُٹھائے ہوئے؛ عوام کے تصوراتِ زندگی کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے۔۔۔
پروڈکشن خامیاں:
سینما سینسیشن فلم کے دوسرے ہاف بالخصوص آخری سینز میں برقرار نہیں رہی۔ جو کہ فلم کی بڑی خامی ہے۔ بارش میں تیز دھوپ کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ ایسے بلنڈرز سے بچنا چاہئے۔ آرٹ ڈائریکشن کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا۔ کلائمیکس پر اوم پُوری کے عدالت میں داخلے کو مزید Cinematic بنایا جا سکتا تھا۔ اور، کمرشل سینما ناظرین کی عقل کے بجائے جذبات کو Engage کرتا ہے۔ سو، عدالت کا آخری فیصلہ مختلف ہو سکتا تھا۔ فہد کو سزا مختلف دی جا سکتی تھی۔ سینما کے میجک کو برقرار رکھنے کے لیے۔۔۔
بھارتی فلم Akira کے اختتامی مناظر بھی اتنے ہی غیر جذباتی تھے جتنے ایکٹر ان لاء کے؛ جس سے فلم کے مجموعی تاثر کو نقصان پہنچا۔ حالانکہ Akira اپنے کرافٹ کے اعتبار سے حالیہ دنوں میں ریلیز ہونے والی تمام فلموں میں سے بہتر فلم تھی۔
مہوش جو کہ پارسی مذہب کی پیرو دکھائی گئیں، ان کا تلفظ ہندی کیوں تھا؟ خراب کو کھراب، غلط کو گلط۔۔۔۔۔ پارسی تو قدیم ایرانی تھے جو ہندوپاک میں بھی آئے۔ پھر مہوش کا تلفظ ایسا کیوں؟
مہوش جو کہ پارسی مذہب کی پیرو دکھائی گئیں، ان کا تلفظ ہندی کیوں تھا؟ خراب کو کھراب، غلط کو گلط۔۔۔۔۔ پارسی تو قدیم ایرانی تھے جو ہندوپاک میں بھی آئے۔ پھر مہوش کا تلفظ ایسا کیوں؟ اگر کہا جائے کہ رپورٹر ہونے کی وجہ سے تو ہمارے ہاں رپورٹرز ایسی نہیں ہوتیں۔ اگرچہ بھارتی فلموں اور ڈراموں کا اثر موجود ہے مگر اچھے چینلز تربیت کر دیتے ہیں کہ ایسی فاش غلطیاں نہ کی جائیں۔
کاسٹنگ:
مہوش حیات مِس کاسٹ کی مثال بنے فلم میں چلتی پھرتی رہیں۔ ان کی جگہ عظمٰی خان کو لے لیا جاتا تو بہتر تھا۔ اسکرین پر کم از کم فہد کی ہم عمر تو لگتیں۔ اوم پُوری کو کیوں کاسٹ کیا گیا، جبکہ یہی کام طلعت حسین بخوبی کر سکتے تھے۔
آخری بات:
"ایکٹر اِن لاء” سُپر ہِٹ فلم ہے۔ اس کی کامیابی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ آغاز سے اختتام تک لوگ مسکراتے، قہقہے لگاتے، جذباتی ہوتے، تالیاں بجاتے رہتے ہیں۔ اور بعض فلم بین تو باقاعدہ رقص کرتے سینما ہال سے باہر نکلتے دکھائی دیتے ہیں۔ مختلف سینما ہالز میں اس فلم پر لوگوں کے رسپانس کو دیکھا۔ اس فلم کو دیکھنے لوئر مڈل، مڈل اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے فلم بین اپنی فیملیز کے ساتھ آتے ہیں۔ اور خوش خوش واپس جاتے ہیں۔
"نامعلوم افراد” کے بعد "ایکٹر ان لاء” کی شکل میں سینما کے لیے ایک اور عُمدہ فن پارہ تخلیق کرنے پر، بلکہ پاکستانی سینما کے لیے ایک ہائی پوٹینسی اور صحت بخش انجکشن تیار کرنے پر نبیل قریشی، فضہ مِرزا اور ٹیم مبارک کے مستحق ہیں۔
Leave a Reply