ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی جانب سے سال 2011 کے 63 دوران عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر اساتذہ کو "بہترین استاد” کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ 2011کے لئے ایچ ای سی کو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی 153نامزدگیاں موصول ہوئیں جن میں سے معیار پر پورا اترنے والے 63اساتذہ کو تعریفی سند اور انعامی رقم سے نوازا گیا ہے۔2004 میں شروع کیے جانے والے ان ایوارڈز کا مقصد تدریسی معیار کو بہتر بنانا اور مختلف شعبوں میں اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی فہرست کے مطابق 63 میں سے سوشل سائنسز اور آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز کےشعبوں سے صرف 12اساتذہ اس انعام کے حق دار قرار پائے ہیں۔ سماجی علوم اور آرٹس میں سے صرف معاشیات، نفسیات ،انگریزی، سیاسیات اور ابلاغ عام کے اساتذہ ایوارڈ پانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
پاکستان کے تعلیمی نظام میں ہمیشہ سے سماجی اور انسانی علوم کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حکومت، اساتذہ اور طلبہ کی ترجیحات میں ہمیشہ سے ملازمت کے حصول کی بنیاد پر شعبوں کے انتخاب کو اولیت دی جاتی رہی ہے۔ بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی میں سماجی علوم کے ایک طالب علم کے مطابق والدین صرف ان شعبوں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلاتے ہیں جہاں تعلیم مکمل کر کے نوکری ملنے کی امید ہو۔
شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی کے استاد اور 2003میں بہترین استاد کا اعزاز حاصل کرنے استاد محمد جواد کا کہنا ہے کہ سماجی اور انسانی علوم کی ناقدری کی بڑی وجہ معاشی دباو اور معاشرے کی غیر فطری رفتار ہے جس کے باعث لوگ غیر منفعت بخش شعبوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
ماہرین کے مطابق سوشل سائنسز اورآرٹس اینڈ ہیومینیٹیز میں اساتذہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ حکومت اور معاشرے کی طرف سے ان علوم کو نظر انداز کیا جانا ہے۔ پاکستان میں بجٹ اور وسائل کی فراہمی، تدریسی معیار اور طلبہ کے داخلے کی شرح کے حوالے سے وہ شعبے زیادہ اہم رہے ہیں جو ڈگری کے بعد ملازمت کے بہتر مواقع رکھتے ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی میں سماجی علوم کے ایک طالب علم کے مطابق سماجی علوم کا شعبہ حکومتی سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی وظائف، تحقیقی وسائل اور تدریسی سہولیات کی فراہمی کے لئے نیچرل سائنسز ، مینیجمنٹ سائنسز، میڈیکل سائنسز اور انجینئرنگ کو ترجیح حاصل ہے۔
معروف دانشور پروفیسر پرویز ہود بھائی کے ایک آن لائن جریدے کو دئیے گئےانٹرویو کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ملکی جامعات کی سطح پر سماجی علوم کا شعبہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔پروفیسر ہود بھائی نے جامعات کی درجہ بندی کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ معاشرے ،حکومت اور اساتذہ کی عدم دلچسپی کے باعث سماجی علوم اب تک سماجی بہتری کے لئے کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکے۔معاشرتی ناقدری کے اس رویے کے باعث ہی آغا خان فاونڈیشن کی طرف سے سوشل سائنسز یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ پاکستان سے منتقل کیا جا چکا ہے۔

ایچ ای سی بہترین اساتذہ ایوارڈ:سوشل سائنسز اورآرٹس اینڈ ہیومینیٹیز کی افسوس ناک صورت حال
(مانیٹرنگ+سٹاف رپورٹر)
Leave a Reply