Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

ایلس دل کی باتیں

test-ghori

test-ghori

14 فروری, 2015
یہ میرا ایلس دل ہے
جو تمہارے عالمِ ششدر کے آہٹ کدے میں
خرگوش حقیقتوں کے تعاقب میں
حیرت زدہ بھاگ رہا ہے
 
مگر میرا آدمی ہونا ایک عذاب بن گیا ہے
پھوہڑ سانسوں کا مسکن، یہ جسم
عالمِ عام کو دھڑکا رہا ہے
خوف جیسے اندھیروں کو زندہ کر رہا ہو
 
یہ بینائی ہوئی آنکھ نے صادر کیا ہے فیصلہ
اب کوئی ناک سے آگے نہیں دیکھے
میری آواز میں اتری ہے وہ جاہل گرج
کہ فرشتوں کی تہذیب اترتی نہیں ڈر کر
 
کل سوچ میں بھیگی ہوئی رات نچوڑ کر
الگنی پر لٹکا کر بھول گیا تھا
آج سورج منحوس سر چڑھ کر لُوٹ رہا ہے
میری سستی سوچوں کا خزانہ
 
بجلیاں حیرت انگیز اداسی سے
دیکھ رہی ہیں میرا ایٹم کا مشاہدہ
میں برقی سکوں سے مانجھ رہا ہوں
اپنی ذات کا خالی برتن
 
ہاں وہ مغربی ڈھونگ بازی ٹھیک کہتی ہے
ہمارے بیچ ایک انتھک فاصلہ ہے
ایک ایسا سفر ہے کہ جس کیلئے
پاؤں ایجاد نہیں ہوئے
 
آواز کے درمیان میں ایک غار ہے
اس میں خاموشی بیٹھ کر لفظ کا چرخہ کات رہی ہے
مگر مہران میں بیٹھے مڈل کلاس کی کلرک نسلیں
کاغذی خاموشی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں
 
اور وہ مہنگے انسان جو ہمیں بیچ دینے میں
کوئی کنجوسی نہیں دکھاتے، وہ
خاموشی خرید کر رکھ لیتے ہیں
ایک گھڑے ہوئے اطمینان کے اندر
 
شہر کی سطور میں لکھا ہوا ہے
یہاں کوڑا ڈالنا منع ہے
مگر پھر بھی لوگ بولتے رہتے ہیں
تمہارا مستعار چہرہ ایک بصری بدتمیزی ہے
 
لمس مضحکہ خیز پاگل پن اوڑھ کر
گوشت کو پوج رہا ہے
میری آزادی بپھر کر سرپٹ، مسلسل
مجھے ڈس ڈس کر بھگا رہی ہے
 
میرے پنجرے میں اب کچھ یادیں بیٹھی ہیں
میرا قلم تخلیقی اندیشوں سے گھبرا کر
سیاہی لے کر فرار ہوگیا ہے
اب تو کوئی جمالیاتی حادثہ بھی نہیں ہوتا
 
امّاں دھرتی پر فرنگی کنکریٹ قابض ہے
عمارتیں ننگ دھڑنگ اونچائی کا غلط مفروضہ بن کر
مجھے جھوٹی حقارت سے دیکھتی ہیں
لیکن میں شرمندہ نہیں ہوتا
 
کوئی بھی اب شرمندہ نہیں ہوتا
اس بازار میں سب کچھ بکتا ہے
سواۓ ایلس دل کے
ایلس دل کی سروش دھڑکن نایاب نہیں ہے
 
ایلس دل اتنا عام ہے کہ اس کا
خریدار بھی ایجاد نہیں کیا جاسکتا
یہ اس قدر بیکار ہے کہ سڑک پر
اگر گرا مل جاۓ تو بھی کوئی اٹھا کر نہیں دیکھتا
 
میرا خیال ہے کہ ہمارے ہولناک سینوں میں
یہ خوں بازی کرتا ہے، بہت ہے
آج کے موسم میں کل کی بارش
گر بھی جاۓ تو کوئی نہیں بھیگتا