[blockquote style=”3″]
پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں کئی فرقہ وارانہ تنظیمیں ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار رہیں۔ اکیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ سلسلہ کچھ تھما۔ لیکن گذشتہ چند برس سے اس میں دوبارہ اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات کے ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے کے واقعات تو پورے ملک میں ہوتے رہتے ہیں، محرم کے ایام میں کشیدگی بھی اپنی جگہ ہے۔ لیکن اقلیتی فرقے کے خلاف تشدد کی جو لہر بلوچستان میں اٹھی ہے وہ خاصی خطرناک ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور سب سے پسماندہ یہ صوبہ ایران کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ اور مشرق وسطی کے حالات کے تناظر میں تشدد کی یہ لہر سرحد پار پھیلنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔
ماضی کے اور حالیہ تشدد کی سرپرستی کا الزام چند مخصوص گروہ اور افراد پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے گروہوں کو بارہا کالعدم قرار دیا گیا۔ لیکن یہ نام بدل کر پھر سے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ چند ریاستی عناصر پربھی ان گروہوں کی سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ سپاہ صحابہ پاکستان یا ایس ایس پی کہلانے والی تنظیم کا ذکر فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں اکثر سامنےآتا ہے۔ یہ تنظیم مشرف دور میں کالعدم قرار دی گئی تاہم وہی چہرے اب اہلسنت والجماعت نامی بظاہر’ سیاسی دھڑے ‘میں نظرآتے ہیں۔ اس تنظیم کے اہم افراد میں مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا اورنگزیب فاروقی اور ملک اسحاق شامل ہیں۔ ملک اسحاق قتل کے کئی مقدموں کے ملزم رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں ہی جیل سے رہا ہو کر آئے ہیں۔ مولانا اورنگزیب فاروقی کی اقلیتی فرقے کے خلاف دھمکی آمیز ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر خاصی گردش میں رہی ہے۔ حال ہی میں اس جماعت کی نئی قیادت کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جبکہ شنید ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے پر تنظیم اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے۔ ان انتخابات اور اختلافات پر ماجد نظامی کی یہ خصوصی کاوش لالٹین کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ ۔۔ ادارہ
ماضی کے اور حالیہ تشدد کی سرپرستی کا الزام چند مخصوص گروہ اور افراد پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے گروہوں کو بارہا کالعدم قرار دیا گیا۔ لیکن یہ نام بدل کر پھر سے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ چند ریاستی عناصر پربھی ان گروہوں کی سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ سپاہ صحابہ پاکستان یا ایس ایس پی کہلانے والی تنظیم کا ذکر فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں اکثر سامنےآتا ہے۔ یہ تنظیم مشرف دور میں کالعدم قرار دی گئی تاہم وہی چہرے اب اہلسنت والجماعت نامی بظاہر’ سیاسی دھڑے ‘میں نظرآتے ہیں۔ اس تنظیم کے اہم افراد میں مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا اورنگزیب فاروقی اور ملک اسحاق شامل ہیں۔ ملک اسحاق قتل کے کئی مقدموں کے ملزم رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں ہی جیل سے رہا ہو کر آئے ہیں۔ مولانا اورنگزیب فاروقی کی اقلیتی فرقے کے خلاف دھمکی آمیز ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر خاصی گردش میں رہی ہے۔ حال ہی میں اس جماعت کی نئی قیادت کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جبکہ شنید ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے پر تنظیم اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہے۔ ان انتخابات اور اختلافات پر ماجد نظامی کی یہ خصوصی کاوش لالٹین کے قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ ۔۔ ادارہ
مولانااور نگزیب فاروقی کو22 اکتوبر کو کمالیہ میں ہونے والے جنرل کونسل کے اجلاس میں اہلسنت و ا لجماعت پاکستان کا صدر منتخب کر لیا گیا جبکہ سابق صدر محمد احمد لدھیانوی سرپرست اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوں گے ۔ یہ خصوصی اجلاس سابق سرپرست اعلیٰ خلیفہ عبدالقیوم المعروف پیر جی کی وفات کے باعث منعقد ہوا جس میں یہ اہم فیصلے کئے گئے ۔یاد رہے کہ خلیفہ عبدالقیوم ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے ایم پی اے بھی رہ چکے تھے ۔ یہ خبر کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں موجودہ حالات، پیدا ہونے والے امکانات اورسوالات کی غیر جانبدارانہ نشاندہی کرنا ضروری ہے۔
انجمن سپاہ صحابہ ، سپاہ صحابہ پاکستان ، ملت اسلامیہ پاکستان اور اب اہلسنت و ا لجماعت پاکستان کے نام سے کام کرنے والی تنظیم نے زمانے کے کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا ۔80 اور 90 کی دہائی میں فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑاہے ، وہ پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم پرویز مشرف کی آمد اور نائن الیون کے بعد صورتحال بدل گئی ، ایک طرف تو کئی ایک مذہبی اور عسکری تنظیموں پر پابندی لگی جبکہ دوسری جانب متحدہ مجلس عمل کی شکل میں مذہبی اتحا د بھی سامنے آیا۔ ایم ایم اے کے سیاسی کردار سے قطع نظر مذہبی منافرت میں کمی دیکھنے میں آئی، اس کے ساتھ ساتھ حکومتی سختی کی وجہ سے صورتحال میں کافی بہتری دیکھنے کو ملی۔
انجمن سپاہ صحابہ ، سپاہ صحابہ پاکستان ، ملت اسلامیہ پاکستان اور اب اہلسنت و ا لجماعت پاکستان کے نام سے کام کرنے والی تنظیم نے زمانے کے کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا ۔80 اور 90 کی دہائی میں فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑاہے ، وہ پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم پرویز مشرف کی آمد اور نائن الیون کے بعد صورتحال بدل گئی ، ایک طرف تو کئی ایک مذہبی اور عسکری تنظیموں پر پابندی لگی جبکہ دوسری جانب متحدہ مجلس عمل کی شکل میں مذہبی اتحا د بھی سامنے آیا۔ ایم ایم اے کے سیاسی کردار سے قطع نظر مذہبی منافرت میں کمی دیکھنے میں آئی، اس کے ساتھ ساتھ حکومتی سختی کی وجہ سے صورتحال میں کافی بہتری دیکھنے کو ملی۔
جی ایچ کیو حملے میں مذاکرات میں مدد کےلئے جن چار لوگوں کےلئے رحیم یار خان، بہاولپور اور لاہور خصوصی طیارے بھجوائے ان میں مولانا محمد احمد لدھیانوی، ملک اسحاق، مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانامسعود اظہر کے بھائی عبدالرﺅف شامل تھے۔
سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی کے بعد یہ تنظیم ملت اسلامیہ پاکستان کے نام سے متعارف کروائی گئی اور سابق ایم این اے مولانا اعظم طارق کی قاتلانہ حملے میں وفات کے بعد محمد احمد لدھیانوی کو تنظیم کا نیا صدر منتخب کر لیا گیا ۔تنظیم کے اندرونی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے سیاسی طور پر مثبت شناخت دی اور کئی انتخابی حلقوں میں اپنی اہمیت کو ثابت کیا ۔ قومی معاملات میں بھی صلح پسند رہنما کے طور پر سامنے آئے اسی لئے انہیں سفیر امن بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف مخالفین کا کہنا ہے کہ سیاسی مصالحت کی آڑ میں انہوں نے پرانے پر تشدد ایجنڈے کو غیر محسوس انداز میں پروان چڑھایا ۔ 2008 میں ان کی بروقت سیاسی چال کی وجہ سے ہی لبرل سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی کے لبرل ترین گورنر سلمان تاثیر نے اہلسنت و الجماعت پنجاب کے سرپرست مولانا عبدالحمید خالد کو بھکر سے شہباز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کےلئے ہر طرح کی حمایت کی ”ہینڈسم آفر“کی لیکن تنظیم نے مسلم لیگ ن کے ساتھ ڈیل کو ترجیح دی اور کاغذات واپس لے لئے ۔ تنظیم کے اندرونی حلقوں میں دونوں طرف سے برابر اہمیت ملنے کو مولانا لدھیانوی کی کامیاب سیاسی حکمت عملی قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جی ایچ کیو حملے میں مذاکرات میں مدد کےلئے جن چار لوگوں کےلئے رحیم یار خان، بہاولپور اور لاہور خصوصی طیارے بھجوائے ان میں مولانا محمد احمد لدھیانوی، ملک اسحاق، مولانا فضل الرحمن خلیل اور مولانامسعود اظہر کے بھائی عبدالرﺅف شامل تھے۔ انہوں نے اندر موجود عسکریت پسندوں سے رابطہ کیا اور حکومتی مطالبات کے حوالے سے مدد کی۔ راولپنڈی راجہ بازار کے سانحہ میں بھی پنجاب حکومت کی درخواست پر مولانا لدھیانوی نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے حالات کو مزید خراب ہونے سے بچایا ۔ دوسری طرف ان تما م معاملات کوتنظیم میں موجود انتہا پسند افراد کی جانب سے سخت ناپسند کیا گیا۔ خصوصاً راجہ بازار راولپنڈی کے سانحے کے بعد محمد احمد لدھیانوی کو بزدلی کے طعنوں پر مبنی پیغامات بھیجے گئے۔ محمد احمد لدھیانوی کو ہومیو پیتھک امیر بھی کہا جاتا ہے، کہا یہ بھی جاتا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر ایک مشہور نعرہ لگانے سے بھی منع کرتے نظر آتے ہیں جو اندرونی طور پر کئی لوگوں کو ناگوار گزرتا ہے۔
تنظیم کی ایک اور اہم شخصیت اعظم طارق کے بڑے بیٹے مولانا محمد معاویہ اعظم طارق جو کہ مسجد حق نواز جھنگ کے نائب خطیب ہیں ، انہیں مولانا اعظم طارق کے صاحبزادے ہونے کی وجہ سے دونوں جانب سے عزت واحترام ملتا ہے اور ”شہزادہ اہلسنت “ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لئے ان کا واضح جھکاﺅ کسی جانب نظر نہیں آتا لیکن خیال یہ کیا جاتا ہے کہ وہ مولانا لدھیانوی کے زیادہ قریب دےکھائی دیتے ہیں۔ جھنگ میں انتخابی مہم کے معاملات ہوں یا پھر دوسرے شہروں کے دورے اور اہم ملاقاتیں ، مولانامعاویہ اعظم محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں وفات پانے والے سرپرست اعلیٰ خلیفہ عبدالقیوم کے آخری دنوں میں عیادت کے لئے جانے والے وفد میں وہ محمد احمد لدھیانوی کے ہمراہ تھے۔ مشرف دور میں مولانا معاویہ اعظم اکثر تقاریر میں خود اس بات کی وضاحت کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اب پہلے جیسا کام نہیں ہوتا۔ میں اعظم طارق کا بیٹا گواہی دیتا ہوں کہ ہماری تنظیم محمد احمد لدھیانوی کی قیادت میں درست راستے پر چل رہی ہے۔
تنظیم کی ایک اور اہم شخصیت اعظم طارق کے بڑے بیٹے مولانا محمد معاویہ اعظم طارق جو کہ مسجد حق نواز جھنگ کے نائب خطیب ہیں ، انہیں مولانا اعظم طارق کے صاحبزادے ہونے کی وجہ سے دونوں جانب سے عزت واحترام ملتا ہے اور ”شہزادہ اہلسنت “ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لئے ان کا واضح جھکاﺅ کسی جانب نظر نہیں آتا لیکن خیال یہ کیا جاتا ہے کہ وہ مولانا لدھیانوی کے زیادہ قریب دےکھائی دیتے ہیں۔ جھنگ میں انتخابی مہم کے معاملات ہوں یا پھر دوسرے شہروں کے دورے اور اہم ملاقاتیں ، مولانامعاویہ اعظم محمد احمد لدھیانوی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں وفات پانے والے سرپرست اعلیٰ خلیفہ عبدالقیوم کے آخری دنوں میں عیادت کے لئے جانے والے وفد میں وہ محمد احمد لدھیانوی کے ہمراہ تھے۔ مشرف دور میں مولانا معاویہ اعظم اکثر تقاریر میں خود اس بات کی وضاحت کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اب پہلے جیسا کام نہیں ہوتا۔ میں اعظم طارق کا بیٹا گواہی دیتا ہوں کہ ہماری تنظیم محمد احمد لدھیانوی کی قیادت میں درست راستے پر چل رہی ہے۔
چند ماہ پہلے اہلسنت والجماعت رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس کا سرپرست اعلیٰ مولانا عالم طارق کو بنایا گیا ۔ اس کمیٹی کو مرکزی قیادت کا کتنا اعتماد حاصل ہے اس پر سوالیہ نشان ہے۔ غیر اعلانیہ طور پر اہلسنت الجماعت میں واضح گروپنگ نظر آتی ہے۔
دوسری طرف مولانا اعظم طارق کے بھائی مولانا عالم طارق اہلسنت و الجماعت پاکستان کے شعبہ مبلغین کے سربراہ ہیں اور چیچہ وطنی میں قیام پذیر ہیں۔ شعلہ بیاں مقرر اور اعظم طارق کے بھائی ہونے کے ناطے سے ا پنا حلقہ اثر بھی رکھتے ہیں، انہیں محمد احمد لدھیانوی سے کہیں زیادہ کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ چند دن پہلے مولانا عالم طارق نے ایک وفد کے ہمراہ لشکر جھنگوی کے سابق سربراہ ریاض بسرا کی قبر پر حاضری دی اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ مولانا عالم طارق ماضی قریب میں ایک ہمسایہ ملک میں اپنے نظریاتی دوستوں کو فتح مبین کی مبارکباد دے کر آئے ہیں ۔ اس کے علاوہ 2 اکتوبر کو چیچہ وطنی کے سپورٹس سٹیڈیم میں ہونے والی مولانا اعظم طارق کانفرنس میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جبکہ محمد احمد لدھیانوی اس کانفرنس میں موجود نہیں تھے۔ کانفرنس کے تمام بینرز پر مولانا اعظم طارق اور ملک اسحاق کی تصاویر نمایاں تھیں جبکہ مولانا لدھیانوی کی تصویر یا نام کہیں نظر نہیں آیا۔ اس کانفرنس میں مولانا اعظم طارق کے بیٹے محمد علی حیدر اور ملک محمد اسحاق کے بیٹے ملک محمد حسنین کی دستار بندی بھی کی گئی ۔ واقفان حال کو اس صورتحال سے کچھ نہ کچھ ضرور پتا چلتا ہے۔ چند ماہ پہلے اہلسنت والجماعت رابطہ کمیٹی بنائی گئی جس کا سرپرست اعلیٰ مولانا عالم طارق کو بنایا گیا ۔ اس کمیٹی کو مرکزی قیادت کا کتنا اعتماد حاصل ہے اس پر سوالیہ نشان ہے۔ غیر اعلانیہ طور پر اہلسنت الجماعت میں واضح گروپنگ نظر آتی ہے۔


ان حالات میں نو منتخب صدر کی بات کی جائے تومولانا اورنگزیب فاروقی کارکنان میں بہت مقبول ہیں، انہوں نے بطور کارکن تنظیم میں اپنے کیر ئیر کاآغاز کیا اور یونٹ صدر سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے کراچی ڈویژن کے صدربنے اور پھر مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے تک پہنچے۔ انتخابی سیاست میں بھی ان کا موثر نا م ہے، لانڈھی کراچی سے ایم پی اے کا الیکشن لڑا اور ایم کیوایم سے سخت مقابلے کے بعد تقریباً دو ہزار ووٹ سے ہارے ۔ ان پر تین قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں۔ اندورن سندھ انہوں نے خاصا موثر نیٹ ورک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اورنگزیب فاروقی کے انتخاب کے حوالے سے تنظیم کے کارکنان پر جوش نظرآتے ہیں کہ انہیں اعظم طارق کے بعد اورنگزیب فاروقی کی شکل میں”جرنیل ثانی“ کی قیادت میسر آئی ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اورنگزیب فاروقی کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ کارکنان کوایک زور دار اور شعلہ بیاں مقرر بھی ملے لیکن دوسری جانب مزید انتہا پسند رائے رکھنے والوں کو بھی سائیڈ لائن کیا جا سکے لیکن سابق صدر پنجاب مولانا شمس الرحمن معاویہ قتل کیس پر اورنگزیب فاروقی کا موقف ان کی پالیسی کی وضاحت کرے گا کیو نکہ پولیس تحقیقات کے مطابق انہیں قتل کرنے والوں کا مخالف فرقہ سے تعلق نہیں تھا بلکہ گھر کے بھیدی ان کی اعتدال پسند طبیعت سے سخت نالاں تھے اور راستے کی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ لاہور پولیس کے ایک افسر کے مطابق اہلسنت والجماعت کی موجودہ قیادت جوکہ مخالف فرقہ کے خلاف تشدد کی پالیسی کے خلاف ہے، ان کو اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ مولانا اورنگزیب فاروقی جس پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے انہی کے نظریات کو مستقبل کی پالیسی کا درجہ حاصل ہو گا ۔
اس تما م صورتحال میں اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا یہ تمام صورتحال ریاستی اداروں کی نظر میں ہے؟ کیا یہ سب آنکھوں کا دھوکہ ہے یا واقعی آپس میں سرد جنگ جاری ہے اور حالات بگڑ سکتے ہیں؟ اندرون سندھ اور بلو چستان میں ان گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کسی کی ”اجازت‘ ‘ حاصل ہے یا نہیں ؟ راجہ بازار پنڈی اور سرگودھا کے حا لیہ واقعات اور کالعدم سپاہ محمد کے سربراہ علامہ غلام رضا نقوی کی 18 سال بعد رہائی کے بعد کیا 80 اور90 کی دہائی کے” نظریہ توازن“ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟


ان حالات میں نو منتخب صدر کی بات کی جائے تومولانا اورنگزیب فاروقی کارکنان میں بہت مقبول ہیں، انہوں نے بطور کارکن تنظیم میں اپنے کیر ئیر کاآغاز کیا اور یونٹ صدر سے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے کراچی ڈویژن کے صدربنے اور پھر مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے تک پہنچے۔ انتخابی سیاست میں بھی ان کا موثر نا م ہے، لانڈھی کراچی سے ایم پی اے کا الیکشن لڑا اور ایم کیوایم سے سخت مقابلے کے بعد تقریباً دو ہزار ووٹ سے ہارے ۔ ان پر تین قاتلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں۔ اندورن سندھ انہوں نے خاصا موثر نیٹ ورک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اورنگزیب فاروقی کے انتخاب کے حوالے سے تنظیم کے کارکنان پر جوش نظرآتے ہیں کہ انہیں اعظم طارق کے بعد اورنگزیب فاروقی کی شکل میں”جرنیل ثانی“ کی قیادت میسر آئی ہے۔ اس تمام صورتحال میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اورنگزیب فاروقی کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ کارکنان کوایک زور دار اور شعلہ بیاں مقرر بھی ملے لیکن دوسری جانب مزید انتہا پسند رائے رکھنے والوں کو بھی سائیڈ لائن کیا جا سکے لیکن سابق صدر پنجاب مولانا شمس الرحمن معاویہ قتل کیس پر اورنگزیب فاروقی کا موقف ان کی پالیسی کی وضاحت کرے گا کیو نکہ پولیس تحقیقات کے مطابق انہیں قتل کرنے والوں کا مخالف فرقہ سے تعلق نہیں تھا بلکہ گھر کے بھیدی ان کی اعتدال پسند طبیعت سے سخت نالاں تھے اور راستے کی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ لاہور پولیس کے ایک افسر کے مطابق اہلسنت والجماعت کی موجودہ قیادت جوکہ مخالف فرقہ کے خلاف تشدد کی پالیسی کے خلاف ہے، ان کو اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے خطرات لاحق ہیں۔ مولانا اورنگزیب فاروقی جس پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں گے انہی کے نظریات کو مستقبل کی پالیسی کا درجہ حاصل ہو گا ۔
اس تما م صورتحال میں اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا یہ تمام صورتحال ریاستی اداروں کی نظر میں ہے؟ کیا یہ سب آنکھوں کا دھوکہ ہے یا واقعی آپس میں سرد جنگ جاری ہے اور حالات بگڑ سکتے ہیں؟ اندرون سندھ اور بلو چستان میں ان گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کسی کی ”اجازت‘ ‘ حاصل ہے یا نہیں ؟ راجہ بازار پنڈی اور سرگودھا کے حا لیہ واقعات اور کالعدم سپاہ محمد کے سربراہ علامہ غلام رضا نقوی کی 18 سال بعد رہائی کے بعد کیا 80 اور90 کی دہائی کے” نظریہ توازن“ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟
[…] واقعاتی ثبوتوں کے ذریعے اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون“اہلسنت والجماعت :دوراہے پر “ تحریر کیا تھا ۔ مضمون کی اشاعت کے تقریباً دو ہفتے بعد […]