فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث تنظیم اہلسنت و الجماعت میں اندرونی اختلافات کی اطلاعات کافی عرصہ سے موصول ہو رہی تھیں ، راقم نے مختلف خبروں اور واقعاتی ثبوتوں کے ذریعے اس حوالے سے ایک تحقیقی مضمون“اہلسنت والجماعت :دوراہے پر “ تحریر کیا تھا ۔ مضمون کی اشاعت کے تقریباً دو ہفتے بعد دسمبر کے اواخر میں متحارب گروہوں میں سے ایک کی جانب سے اس کا تحریری ثبوت سامنے آیا ہے۔’’ نفاذ خلافت راشدہ‘‘ نامی رسالے کے دسمبر 2014 کے شمارے میں ملک اسحاق کا ایک خط ’’درد دل: امیر المجاہدین ملک اسحاق کی جیل کی دنیا سے دل کی آواز‘‘ کے نام سے شائع ہواتھا جس میں تنظیم سے متعلق تمام نزاعی معاملات پر کھل کر بات کی گئی ہے۔ ملک اسحاق نے اہلسنت و الجماعت کی قیادت سے اختلافات کے حوالے سے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ان پر مختلف الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
ملک اسحاق نے اپنے خط میں اہلسنت والجماعت کے سرپرست اعلیٰ مولانا محمد احمد لدھیانوی پر تو دبے الفاظ میں تنقید کی ہے لیکن تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور خادم ڈھلوں کو ’’شیطان‘‘ قرار دیا ہے۔
ملک اسحاق نے اپنے خط میں اہلسنت والجماعت کے سرپرست اعلیٰ مولانا محمد احمد لدھیانوی پر تو دبے الفاظ میں تنقید کی ہے لیکن تنظیم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور خادم ڈھلوں کو ’’شیطان‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ ایک شیطان سادہ لوح کارکنوں کو گمراہ کر رہا ہے‘‘۔ چونکہ خادم ڈھلوں کا تعلق جہانیاں ضلع خانیوال سے ہے اور خط میں’’جہانیاں کلب کی شیطانیت ‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں ،جس سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ یہ الفاظ خادم ڈھلوں کے لیے ہی استعمال کیے گئے ہیں ۔
اس تحریر میں ملک اسحاق کے خط کے صرف ان اقتباسات کو شامل کیا گیا ہے جن کا راقم کے گزشتہ مضمون ’’اہلسنت والجماعت :دوراہے پر‘‘ کے مندرجات سے براہ راست تعلق ہے۔اہلسنت والجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمن معاویہ کے قتل کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے؛ ’’اب میں قید میں ہوں میر ی دلی خواہش تھی کہ ان دونوں قتلوں پر جلسہ عام میں اپنی بے گناہی پیش کروں مگر شیطانی پراپیگنڈہ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ تحریری طور پر اپنا درد دل پہنچانا مناسب خیال کیا‘‘۔اس کے ساتھ ساتھ ’’ سادہ لوح‘‘کارکنوں کی تسلی کیلئے یہ الفاظ تحریر کیے گئے ہیں ’’اللہ واحد کی قسم اٹھا کہ کہتا ہوں کہ ان دونوں قتلوں کے کرنے یا کرانے میں میرا، سید غلام رسول شاہ یا مولانا عالم طارق کا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں ہے ‘‘۔
جناب نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ایک عجیب اور منفرد انداز بیان اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اگر میں جھوٹا ہوں تو میری بیوی کو طلاق ، اگر میں نے قتل کرائے تو اللہ پاک مجھے قیامت کے دن ۔۔۔(ایک فرقے کا نام لیا گیا )کی صف میں کھڑا کرے ‘‘۔
شمس الرحمن معاویہ اور علامہ ناصر عباس قتل کیس میں گرفتار چوہدری عبدالروف گجر کے بارے میں ملک اسحاق اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں ’’جہاں تک بات ہے چوہدری عبدالروف کے شمس الرحمن معاویہ کے قتل میں ملوث ہونے کی تو مجھے یقین ہے کہ یہ محض خانہ پری ہے مزید عبدالروف سے ملاقات کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے عبدالروف صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بے پناہ محبت کرنے والا ایک ساتھی ہے، اس کا جرم اگر مجھے کئی بار کھانا کھلاناہے تو مولانامحمد احمد لدھیانوی نے بھی اس کے ہاں کئی مرتبہ کھانا کھایا ہے۔‘‘ خط میں اس کے علاوہ تنظیمی کرپشن اور فنڈز کی خورد برد کے حوالے سے بھی باتیں کی گئی ہیں۔ اہل سنت و الجماعت میں ملک اسحاق گروپ اور لدھیانوی گروپ کے مابین تنازعات سنگین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ ملک اسحاق، غلام رسول شاہ اور مولانا عالم طارق کو تنظیم سے نکال دیا گیا ہے لیکن ملک اسحاق گروپ اس وقت بھی تنظیم کے لیٹر پیڈز اور چند ہ وصولی کی کاپیاں استعمال کر رہا ہے، خط میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ ایک اہم انکشاف جو اس خط کے ذریعے سامنے آیا ہے وہ مشہور عالم دین مولانا عبدالحفیظ مکی کا سعودی عرب سے آکر اہلسنت و الجماعت کے دونوں متحارب دھڑوں کے درمیان تحریری معاہدہ کرانا ہے بعد ازاں جس پر عمل نہ ہوا۔
اس تحریر میں ملک اسحاق کے خط کے صرف ان اقتباسات کو شامل کیا گیا ہے جن کا راقم کے گزشتہ مضمون ’’اہلسنت والجماعت :دوراہے پر‘‘ کے مندرجات سے براہ راست تعلق ہے۔اہلسنت والجماعت پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمن معاویہ کے قتل کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے؛ ’’اب میں قید میں ہوں میر ی دلی خواہش تھی کہ ان دونوں قتلوں پر جلسہ عام میں اپنی بے گناہی پیش کروں مگر شیطانی پراپیگنڈہ اس قدر بڑھ رہا ہے کہ تحریری طور پر اپنا درد دل پہنچانا مناسب خیال کیا‘‘۔اس کے ساتھ ساتھ ’’ سادہ لوح‘‘کارکنوں کی تسلی کیلئے یہ الفاظ تحریر کیے گئے ہیں ’’اللہ واحد کی قسم اٹھا کہ کہتا ہوں کہ ان دونوں قتلوں کے کرنے یا کرانے میں میرا، سید غلام رسول شاہ یا مولانا عالم طارق کا قطعاً کوئی ہاتھ نہیں ہے ‘‘۔
جناب نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ایک عجیب اور منفرد انداز بیان اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اگر میں جھوٹا ہوں تو میری بیوی کو طلاق ، اگر میں نے قتل کرائے تو اللہ پاک مجھے قیامت کے دن ۔۔۔(ایک فرقے کا نام لیا گیا )کی صف میں کھڑا کرے ‘‘۔
شمس الرحمن معاویہ اور علامہ ناصر عباس قتل کیس میں گرفتار چوہدری عبدالروف گجر کے بارے میں ملک اسحاق اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں ’’جہاں تک بات ہے چوہدری عبدالروف کے شمس الرحمن معاویہ کے قتل میں ملوث ہونے کی تو مجھے یقین ہے کہ یہ محض خانہ پری ہے مزید عبدالروف سے ملاقات کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے عبدالروف صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بے پناہ محبت کرنے والا ایک ساتھی ہے، اس کا جرم اگر مجھے کئی بار کھانا کھلاناہے تو مولانامحمد احمد لدھیانوی نے بھی اس کے ہاں کئی مرتبہ کھانا کھایا ہے۔‘‘ خط میں اس کے علاوہ تنظیمی کرپشن اور فنڈز کی خورد برد کے حوالے سے بھی باتیں کی گئی ہیں۔ اہل سنت و الجماعت میں ملک اسحاق گروپ اور لدھیانوی گروپ کے مابین تنازعات سنگین شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اگرچہ ملک اسحاق، غلام رسول شاہ اور مولانا عالم طارق کو تنظیم سے نکال دیا گیا ہے لیکن ملک اسحاق گروپ اس وقت بھی تنظیم کے لیٹر پیڈز اور چند ہ وصولی کی کاپیاں استعمال کر رہا ہے، خط میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ ایک اہم انکشاف جو اس خط کے ذریعے سامنے آیا ہے وہ مشہور عالم دین مولانا عبدالحفیظ مکی کا سعودی عرب سے آکر اہلسنت و الجماعت کے دونوں متحارب دھڑوں کے درمیان تحریری معاہدہ کرانا ہے بعد ازاں جس پر عمل نہ ہوا۔
ملک اسحاق گروپ کا الزام ہے کہ اہلسنت و الجماعت کی موجودہ قیادت نیشنل ایکشن پلان کی گرفت سے صاف بچ کر نکل گئی ہے اور ہم’’قربانیاں‘‘ دے رہے ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد بدلتے منظر نامے میں ملک اسحاق گروپ کے افراد کافی مشکلات میں گھرے نظر آتے ہیں ۔ ملک اسحاق گروپ کا الزام ہے کہ اہلسنت و الجماعت کی موجودہ قیادت نیشنل ایکشن پلان کی گرفت سے صاف بچ کر نکل گئی ہے اور ہم’’قربانیاں‘‘ دے رہے ہیں۔ 13 جنوری کو ملتان جیل میں کالعدم لشکر جھنگوی کے رکن غلام شبیر عرف ڈاکٹر کو پھانسی دی گئی اور تلمبہ خانیوال میں اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی (یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ تلمبہ میں لاش کے ساتھ آنے والے پولیس اہلکاروں کو کھانا کھلانے کے جرم میں مقامی کونسلر کی ٹنڈ کر کے اسکا منہ کالا کیا گیا اور یہ کا م ’’نا معلوم افراد ‘‘ نے سر انجام دیا) ۔اس نماز جنازہ میں مولانا عالم طارق نے تقریر کی ، اس تقریر کے چند ہی دن بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا، اس وقت وہ ملتان جیل میں قید ہیں۔ غلام شبیر عرف ڈاکٹرکے ساتھ پھانسی چڑھنے والے احمد علی عرف شیش ناگ کی میت کو تدفین کیلئے جھنگ لایاگیا ،لاش لانے والے اس قافلے کی قیادت معاویہ اعظم طارق کر رہے تھے لیکن اس جنازے کے بعد کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ ملک اسحاق گروپ اس حوالے سے الزام عائد کرتا ہے کہ ’’تعلقات ‘‘ کی بناء پر پھانسیوں کے دوران مولانا محمد احمد لدھیانوی کو کمالیہ میں ان کے گھر میں صرف نظر بند کیا گیا۔ ملک اسحاق گروپ کا الزام ہے کہ لدھیانوی گروپ مکمل طور پر ریاستی اداروں کی گود میں کھیل رہا ہے اور حرمتِ صحابہ کے مشن ِجھنگوی سے ہٹ چکا ہے۔اسی باعث یہ لوگ آج حکومتی پروٹوکول میں آزادانہ گھوم رہے ہیں اور ملک اسحاق گروپ کے قائدین اور کارکنان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب لدھیانوی گروپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہم نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اس لیے حکومت ہمارے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔
گزشتہ تین دہائیوں میں جہادی گروہوں کے موجودہ اور سابقہ رہنماوں میں سے اکثر کی ’’تنظیمی وابستگیاں‘‘ تبدیل ہونے کے باوجود ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے ان کے ’’ذاتی تعلقات‘‘ ابھی بھی قائم و دائم ہیں۔
سیاست اور عسکریت پسندی کی اس آنکھ مچولی میں لدھیانوی گروپ کے ایک فردنے دعوی کیا ہے کہ اہلسنت والجماعت کی موجودہ قیادت ’’امن پسند اور عدم تشدد ‘‘ پر یقین رکھتی ہے۔انہوں نے اپنے موقف کو’ مثالوں ‘ سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی طالبان کے کمانڈر عصمت اللہ معاویہ کی جنگ بندی میں جہاں دیگر عوامل کارفرما تھے وہیں اس فیصلے میں مولانا لدھیانوی کی ’محنت ‘ بھی شامل تھی۔ ان کے مطابق حکم ران جماعت کے اغوا ہونے والے ننکانہ صاحب کے ایم پی اے رانا جمیل المعروف گڈ خان کی رہائی میں بھی مولانا لدھیانوی کا کردار تھا ۔ بعد ازاں حکومت پنجاب کی جانب سے جن افراد کا اعلانیہ شکریہ ادا کیا گیا ان میں مولانا سمیع الحق، گورنر خیبر پختونخوا سردارمہتاب عباسی اور مولانامحمد احمد لدھیانوی کے نام شامل تھے۔ سابقہ اور موجودہ دینی عسکری رہنماوں سے متعلق آگاہی رکھنے والے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ اسّی کی دہائی کے بعد سے اب تک عسکریت پسندی نے کئی ڈھنگ اختیار کیے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں جہادی گروہوں کے موجودہ اور سابق رہنماوں میں سے اکثر کی ’’تنظیمی وابستگیاں ‘ ‘ تبدیل ہونے کے باوجود ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے ان کے ’’ذاتی تعلقات ‘‘ ابھی بھی قائم و دائم ہیں۔ اسی لے ریاست پاکستان کی جانب سے ان تعلقات کا مختلف مواقع پر فائدہ بھی اٹھایا جاتا ہے اور بدلے میں ان رہنماوں کو’’سہولیات ‘‘دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دوران بھی اہلسنت والجماعت اپنی ’’پر امن شر ارتیں‘‘ جاری رکھے ہوئے ہے جس کی تازہ مثال اس وقت سامنے آئی جب اورنگزیب فاروقی نے تنظیم کا صدر بننے کے بعد جھنگ کا پہلا دورہ کیا جہاں معاویہ اعظم طارق نے ان کا استقبال کیا۔ دونوں گاڑیوں کی بجائے’’ سجے ہوئے گھوڑو ں‘‘ پر سوار تھے اور انہوں نے جلوس کے ہمراہ جھنگ کے بازاروں کا دورہ کیا ۔
جہاں ایک طرف ملک اسحاق اور مولانا لدھیانوں کے درمیان اختلافات وسیع ہورہے ہیں وہیں اس معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے اہل اہلسنت والجماعت کے صدر اورنگزیب فاروقی نے ابھی تک ان معاملات پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔اس حوالے سے دو ممکنہ آراء ہو سکتی ہیں یا تو کراچی میں کارکنوں پرجان لیواحملوں کی وجہ سے اورنگزیب فاروقی وہاں زیادہ’’ مصروف‘‘ ہیں یا پھر تنظیم میں اپنی گرفت مضبوط ہونے تک وہ فی الحال “بڑوں”کے ان اختلافات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔
جہاں ایک طرف ملک اسحاق اور مولانا لدھیانوں کے درمیان اختلافات وسیع ہورہے ہیں وہیں اس معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے اہل اہلسنت والجماعت کے صدر اورنگزیب فاروقی نے ابھی تک ان معاملات پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔اس حوالے سے دو ممکنہ آراء ہو سکتی ہیں یا تو کراچی میں کارکنوں پرجان لیواحملوں کی وجہ سے اورنگزیب فاروقی وہاں زیادہ’’ مصروف‘‘ ہیں یا پھر تنظیم میں اپنی گرفت مضبوط ہونے تک وہ فی الحال “بڑوں”کے ان اختلافات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کوئی واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں ۔
One Response
Nice detail.. many information in this article…