Laaltain

اگر یہ انسان ہے (انتخاب)

17 دسمبر، 2016

[blockquote style=”3″]

تعارف: “ہم جو بچ گئے اصل گواہ نہیں ہیں۔” یہ ہیں وہ الفاظ جواطالوی کیمیادان پریمو لیوی (م۔1987) کے مکمل ادبی ورثے کی کامل ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ 1919 میں اٹلی کے شہر ٹیورن میں پیدا ہوئے اور کیمیا کے شعبے سے منسلک رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران (1944) پچیس سال کی عمر میں وہ اطالوی فسطائیت کے خلاف تحریک کے ایک سرگرم رکن کی حیثیت سے گرفتا ر ہو کر آشوِٹز کے کیمپ میں بھیج دیئے گئے۔ ان کی اس زمانے کی یاداشتیں اور تجربات ان کی دو سوانحی کتب “اگر یہ انسان ہے” (If This is Man, 1958) اور “صلح” (The Truce, 1963) کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعدد ناول اور مضامین بھی تحریر کئے جن میں “اگراب نہیں تو کب” (If Not Now, When?) اور “التوا کی ساعتیں‘‘(Moments of Reprieve)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی انتہائی دلچسپ اور آخری تصنیف “جو غرق ہوئے اور جو محفوظ رہے” (The Drowned and the Saved, 1986) آٹھ تجزیاتی مضامین کا مجموعہ ہے جو جرمنوں کے ہاتھوں یہودیوں کے قتلِ عام، کیمپوں میں قیدیوں کی انفرادی و اجتماعی نفسیات اور ان کی سوانح کے متعلق جرمن قوم کے رد عمل کی کثیر الجہت تعبیرات پر مشتمل ہے۔ اس آخری مجموعہ کے منظر عام پر آنے کے کچھ ہی مدت بعد سیڑھیوں سے گر کران کی موت واقع ہوئی جسے کافی بحث مباحثے کے بعد خود کشی تسلیم کیا گیا۔ گمان غالب ہے کہ ان کی خود کشی کی وجہ وہ شدید احساس ندامت تھا کہ وہ آشوٹز میں ہلاکت سے بچ گئے اور موت ان سے کہیں بہتر اور قابل لوگوں کا مقدر ٹھہری۔ لہٰذا یہی وہ لوگ تھے جو لیوی کے نزدیک اس قتل عام کے اصل گواہ تھے۔

 

آج جبکہ ایک طرف تو دہشت گرد صیہونی ریاست آگ اگلتے ہتھیاروں کے ذریعے نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے بے دریغ قتلِ عام میں مصروف ہے اور دوسری طرف چاہے ڈھیلے ڈھالے طنزیہ انداز میں ہی سہی، سادہ لوح جذباتی مسلمانوں سے ہٹلر کے لئے تعریفی کلمات سننے کو ملتے ہیں، لیوی اور اس جیسے دوسرے متون کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ تاریخ کا نفسیاتی اور انسانی پہلو زندہ رکھے ہوئے ہیں، اور ہمیں یہ حقیقت فراموش کرنے سے روکتے ہیں کہ ہم انسان ہیں اور انسانی زندگی کی تقدیس و تکریم ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔

 

ذیل میں لیوی کی پہلی کتاب کے کچھ منتخب حصوں کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔خود مصنف کے دیباچے کے مطابق متن کی ساخت قاری سے ایک مخصوص مروت کا تقاضا کرتی ہے کیوں کہ اس کے مآخذعملی طور پر نہیں بلکہ تصوراتی طور پر کیمپ کی زندگی کی طرف لوٹتے ہیں۔ یہ ضرورت کہ اپنی کہانی کو دوسروں تک پہنچایا جائے آزادی کے بعد ایک فوری اور شدید فطری محرک کے طور پرمصنف کے سامنے آئی۔ لہٰذا کتاب کے ابواب کسی منطقی تسلسل کی بجائے ابلاغ کے اسی تقاضے کی پابندی کرتے ہیں۔ہم نے کوشش کی ہے کہ ابواب کی ترتیب قائم رکھتے ہوئے، ہر باب میں سے کچھ مختصر اور دلچسپ حصوں کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے مگر ظاہر ہے کہ اس مختصر مگر جامع انتخاب کی حیثیت محض ایک خاکے کی سی ہےجو مکمل کتاب کا ادنٰی سا نعم البدل بھی نہیں، لیکن امید ہے کہ قاری کو زیرِ نظر کتاب اور پریمو لیوی کی دوسری تصانیف کے مطالعے پر اکسائے گا۔

[/blockquote]

1۔ سفر
میں فسطائی ملیشیا کے ہاتھوں 13 دسمبر 1943 کو گرفتار ہوا۔ میں چوبیس سال کاایک ایسا کم عقل، غیر تجربہ کار نوجوان تھا جو پچھلے چار سال کے نسلی قوانین کے مرہون منت، جبری تنہائی کا شکا رہو کر اپنی ہی تخلیق کردہ ایک تخیلاتی دنیا میں رہنا چاہتا تھا، ایک ایسی دنیا جو مہذب کارتیزی (Cartesian) بھوتوں، اور پرخلوص مردانہ اور بے حس زنانہ دوستیوں کا مسکن تھی۔ پس میں نے ایک معتدل اور مجرد سرکشی کا احساس پال لیا۔

 

پہاڑوں میں راہِ فرار اختیار کرنا اور ایک ایسے گروہ کی تشکیل کسی بھی درجے میں سہل نہ تھی جو میری اور مجھ سے کچھ ہی زیادہ تجربہ کار دوستوں کی رائے میں “انصاف وحریت” نامی مزاحمتی تحریک کا ایک حمایتی جتھہ بننے جا رہا تھا۔ تعلقات، اسلحہ، روپیہ اور تجربہ جو ایسے کاموں کے لئے عام طور پر درکار ہوتا ہے ناپید تھا۔ ہمار ے پاس قابلیت کا فقدان تھا اور یہ ایک ایسے وطن بدر بے خانماں افراد کا سیلاب تھا جو اچھی یا بری نیت سے میدانوں کو چھوڑ کر کسی بے وجود فوج یا سیاسی تنظیم کی تلاش میں، یا پھر محض اسلحے، تحفظ، کسی پوشیدہ مقام، آگ یا جوتوں کے جوڑے کی خاطر ہم سے آن ملے تھے۔

 

camps

اس وقت تک میں اس نظریہ سے جس کی باقاعدہ تعلیم مجھے کیمپ میں عجلت میں حاصل ہوئی واقف نہ تھا: انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لانے پر مجبور ہے اوروہ انسان جو صرف ایک بار غلطی کا مرتکب ہوتا ہے، اس کی بھاری قیمت ادا کرتا ہے۔ لہٰذا میں صرف واقعات کی اس ترتیب کو با جواز مانتا ہوں: فسطائی ملیشیا کی تین کمپنیاں جو رات کو ہم سے کہیں زیادہ طاقت ور اور خطرناک جتھے کے شکار کے لئے نکلیں تھیں ایک برفانی صبح ہماری جائے پناہ میں آ دھمکیں اور مجھے ایک مشتبہ شخص کے طور پر گرفتار کر کے نیچے وادی میں لے گئیں۔

 

دوران تفتیش میں نے خود کو “یہودی النسل اطالوی شہری” تسلیم کیا۔ میں خیال کرتاتھا کہ ایسا کیے بغیر میں اتنی الگ تھلگ جگہوں پر اپنی موجودگی کا جواز کیسے پیش کروں گا اور یہ بھی کہ ( بعدمیں ثابت ہوا کہ میں غلط تھا) اپنی سیاسی جدوجہد کے اقرار کا مطلب تشدد اور یقینی موت تھی۔ ایک یہودی کی حیثیت سے مجھے موڈینا (Modena) کے قریب فوسولی (Fossoli) نامی جگہ پر واقع ایک قیدی کیمپ میں بھیج دیا گیا جو اصل میں برطانوی اور امریکی جنگی قیدیوں کے لئے قائم کیا گیا تھا مگر اب ان تمام مختلف افراد کی منزل تھی جو نو مولود فسطائی ریاست کے زیر عتاب تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

20فروری کو جرمنوں نے بہت اہتمام سے کیمپ کا معائنہ کیا اور کھانے کے انتظامات اور آگ کے لئے لکڑی کی کمی پر کھلم کھلا اطالوی منتظم کی سرزنش کی۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ عنقریب ایک شفاخانہ بھی قائم کیا جائے گا۔ لیکن اگلی صبح یعنی 21 فروری ہمیں خبر ملی کہ یہودی اگلے دن کوچ کر جائیں گے،تمام یہودی، کسی استثناء کے بغیر، یعنی بچے، بوڑھے اور بیمار، سبھی۔ ہماری منزل ؟ کسی کے علم میں نہ تھی۔ہمیں تقریباً پندرہ دن کا سفر درپیش تھا۔حکم یہ تھاکہ گنتی کے وقت غائب ہر شخص کی جگہ دس افراد کو گولی مار دی جائے گی۔

 

صرف کچھ معصوم اور خودفریبِی کے شکار نفوس پر مشتمل ایک قلیل تعداد اب بھی پُر امید تھی۔ ہم جیسے دوسرے جو پولینڈ اور کروشیا کے مہاجرین سے اکثر بات چیت کرتے رہتے تھے جانتے تھے کہ “کوچ کرنے “کے کیا معنی ہیں۔

 

نازی کیمپوں کے محسورین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو جاتی تھی۔
نازی کیمپوں کے محسورین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہو جاتی تھی۔
ان لوگوں کے لئے جنہیں موت کا مژدہ سنایا جا چکا ہوروایت ایک سادہ سی رسم تجویز کرتی ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ تمام جذبات اور غصہ ختم ہو چکا ہے اور انصاف کا عمل معاشرہ کی طرف سےمحض ایک ایسے افسردہ فرد کی نمائندگی کرتا ہے جو جلاد کو بھی اپنے شکار پر ترس کھانے پر مجبور کر دے۔لہٰذا سزا کے مستحق شخص کو تمام بیرونی پریشانیوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے، اسے تنہائی عطا کی جاتی ہے اور اگر وہ چاہے تو روحانی آسودگی بھی،مختصراًیہ کہ اس بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کو ئی نفرت یا من مانی محسوس نہ کرے بلکہ صرف احتیاج اور انصاف، اور بالآخر سزا کے ذریعے بخشش۔ مگر ہمیں یہ عطا نہ کیا گیاکیونکہ ہم کئی لحاظ سے کوتاہ تھے۔ اور اگر ایسا کیا بھی جاتا تو ہمیں کس گناہ کی توبہ مقصود تھی، ایسا کون سا جرم تھا جو معافی کا متقاضی تھا؟ اطالوی منتظم نے فیصلہ سنایا کہ آخری اعلان تک تمام انتظامات برقرار رکھیں جائیں گے: باورچی خانے کھلے رہے، بیگار کے ملازمین نے اسی طرح صفائی ستھرائی کی، یہاں تک کہ اساتذہ نے دوسرے دنوں کی طرح شام تک دروس کا سلسلہ جاری رکھا۔ مگر اس شام بچوں کو گھر کا کام نہ دیا گیا۔

 

پھر رات آ گئی اور وہ ایسی رات تھی کہ ہر کوئی جانتا تھا کہ انسانی آنکھ اس کا مشاہدے کی تاب نہیں لا سکتی۔یہ حقیقت ہر ایک نے محسوس کی: اطالوی یا جرمن کسی محافظ تک میں یہ جرأت نہ تھی کہ آئے اور دیکھے کہ جب لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ وہ مرنے والے ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں۔ ہر ایک جس طرح مناسب سمجھتا تھا زندگی سے رخصت لے رہا تھا۔ کچھ دعا میں مشغول تھے اور کچھ قصداً شراب کے نشے میں مخمور، اور کچھ آخری بار شہوت سے مست۔ مگر مائیں سفر کے لئے کھانا تیار کرنے، بچوں کو نہلانے اور سامان باندھنے میں رات گئے مصروف رہیں اور علی الصبح تاروں کی باڑھ بچوں کے سوکھتے ہوئے کپڑوں سے بھری ہوئی تھی۔ نہ ہی وہ بچوں کے پوتڑے، کھلونے اور تکیے بھولیں، اور نہ ہزاروں دوسری ایسی چھوٹی چھوٹی اشیاء جو مائیں ہی یاد رکھ سکتی ہیں اور جو بچوں کی ضرورت ہوتی ہیں۔
کیا آپ ایسا نہیں کرتے؟ اگر آپ اور آپ کا بچہ کل قتل کئے جانے والے ہوں تو کیا آپ اسے آج رات کا کھانا نہیں دیں گے؟

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس بے معنی درستگی کے ساتھ جس سے ہمیں بعد میں مانوس ہونا تھا، جرمنوں نے حاضری لی۔ آخر میں افسر نے پوچھا “کتنی تعداد؟”۔ حوالدار نے خوبصورتی سے سیلوٹ کرتے ہوئے جواب دیا کہ چھ سو پچاس “ٹکڑے” ہیں اور سب کچھ درست ہے۔ پھر ہمیں بسوں میں سوار کر کے کارپی (Carpi)کے اسٹیشن لےجایا گیا۔ یہاں ٹرین سفر کے محافظوں کے ہمراہ ہماری منتظر تھی۔ یہاں ہم نے پہلی ضربیں کھائیں اور یہ اتنا نیا اور بے معنی تھا کہ ہمیں کوئی کرب محسوس نہ ہوا، نہ جسم اور نہ ہی روح میں۔صرف ایک شدید حیرانی کا احساس: کسی انسان کو غصہ کے بغیر کس طرح مارا جا سکتا ہے؟

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

زندگی میں جلد یا بدیر ہر کوئی یہ دریافت کر لیتا ہے کہ کامل مسرت ناقابل فہم ہے مگر کچھ لوگ توقف کر کے جوابِ دعوٰی پر غور کرتے ہیں کہ کامل غم بھی اتنا ہی ناقابل حصول ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹیں ایک ہی نوعیت کی ہیں:ان کا ماخذ ہماری وہ انسانی کیفیت ہے جو ہر لامتناہی شے سے غیر موافق ہے۔ مستقبل کے متعلق ہماری دائمی لاعلمی اس سے متضاد ہے : ہم اسے ایک حوالے سے امید اور دوسرے حوالے سے آنے والے کل کے متعلق عدم یقین کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ موت پریقین اس سے متضاد ہے: کیونکہ یہ ہر مسرت کو محدود کر دیتا ہے، اور اسی طرح ہر غم کو بھی۔ ناگزیر مادی تفکرات اس سے متضاد ہیں :کیونکہ جہاں وہ ہر دائمی مسرت کو زہر آلود کر دیتے ہیں وہاں وہ اتنی ہی مستقل مزاجی سے ہمارا رخ اپنی بد نصیبیوں سے بھی پھیر دیتے ہیں اور ان کے متعلق ہمارے شعور کو غیر مسلسل،لہذا قابل ِبرداشت بنا دیتے ہیں۔

 

کیمپوں میں حالات ناسازگار تھے
کیمپوں میں حالات ناسازگار تھے
وہ ایک شدید بے آرامی یعنی ضربوں، خنکی، پیاس وغیرہ کا احساس ہی تھا جس نے ہمیں دورانِ سفر اور اس کے بعد ایک اتھاہ شکستہ دلی کے خلا سے کچھ اوپر ہی اٹھائے رکھا۔یہ نہ تو کوئی زندہ رہنے کی امنگ تھی اور نہ ہی کوئی شعوری قناعت کا جذبہ کیونکہ چند ہی انسان ایسے عزم و استقلال کے اہل ہو سکتے ہیں اور ہم تو محض انسانیت کا ایک عمومی نمونہ تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہم پیاس اور سردی کی اذیت میں مبتلا ہر پڑاؤ پر پانی یا تھوڑی سے برف ہی کے لئے دہائی دیتے رہے، مگر ہماری آواز کم ہی سنی گئی۔ جو بھی قریب آنے کی کوشش کرتا ریل گاڑی کے محافظ سپاہی اسے دور بھگا دیتے۔ دو جوان دود ھ پلاتی مائیں رات دن پانی کے لئے آہ وبکا کرتی رہیں۔ اعصابی دباؤ نے بھوک، تھکن اور نیند کی شدت کو کم کر دیا۔ مگر رات کے اوقات کسی نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھے۔

 

کیمپوں میں سردی کی شدت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا
کیمپوں میں سردی کی شدت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا
چند انسان ہی جانتے ہیں کہ اپنی موت کی جانب خودداری سے سفر کیسے ممکن ہے، اور اکثر وہ لوگ ہماری امیدوں کے برعکس ہوتے ہیں۔چند انسان ہی خاموشی کے ہنر سے واقف ہوتے ہیں اور دوسروں کے سکوت کا احترام کرنا جانتے ہیں۔ ہماری بے آرام نیند کئی بار شور و غل اور لا حاصل تنازعات، گالیوں اورمداخلت پر آمادہ ناگزیر لمس کو روکنے کے لئےلاتوں اور مکوں کی وجہ سے ٹوٹی۔ پھر کوئی موم بتی جلا دیتا اور اس کا غمگین شعلہ ایک مبہم ہیجان کو ظاہر کرتا، زمین پر پھیلا ہوا ایک انسانی انبار، منتشر اور مسلسل، جامد اور ٹیسوں سے بھرپور، اچانک ہلچل سے یہاں وہاں ابھرتا اور پھریک دم تھکن سے نڈھال ہو کر دوبارہ ڈھیر ہوتا ہوا۔

 

ریل گاڑی کی درز سے جانے پہچانے اوراجنبی آسٹریائی شہروں، سالزبرگ (Salzburg)، وی اینا (Vienna)وغیرہ کے نام نظر آتے رہے، پھر چیکو سلواکیہ اور آخر کار پولینڈ۔ چوتھے دن شام کے وقت سردی مزید شد ت پکڑ گئی۔ ریل گاڑی ناقابل ِاختتام، کالے صنوبر کے جنگلات سے گزرتی ہوئی چڑھائی پر گامزن تھی۔برف اونچی ہو رہی تھی۔ یہ شاید کوئی ذیلی لائن تھی کیوں کہ اسٹیشن چھوٹے چھوٹے اور تقریباً غیر آباد تھے۔ پڑاؤ کے دوران کسی نے باہر کی دنیا سے رابطے کی مزید کوشش نہیں کی۔ اب ہمیں خود بخود محسوس ہو رہا تھا کہ”دوسری جانب” پہنچ گئے ہیں۔ کھلے میدان میں ایک طویل پڑاؤکے بعد ریل گاڑی نہایت آہستگی سے روانہ ہوئی اور پھر قافلہ رات کے سکوت میں ایک خاموش تاریک میدان میں آخری دفعہ رک گیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک درجن ’ایس ایس‘ سپاہی کولہوں پر ہاتھ رکھے ایک لاتعلقی کے ساتھ کھڑے تھے۔کسی خاص گھڑی وہ ہمارے درمیان گشت کرنا شروع ہوئے اور پتھر صفت چہرے کے ساتھ سخت مگر سپاٹ لہجے والی ٹوٹی پھوٹی اطالوی میں ہم سے ایک ایک کر کے سوالات کرنے لگے۔ انہوں نے سب افراد کی بجائے چند ہی لوگوں سے پوچھ گچھ پر اکتفا کیا:”کیا عمر ہے؟ صحت مند یا بیمار؟” اور جواب کی بنیاد پر دو مختلف سمتوں میں اشارہ کرتے رہے۔

 

ہر چیز کسی تالاب کی طرح ساکت تھی، یا اسی طرح جیسے کچھ خوابوں کے سلسلو ں میں ہوتا ہے۔ہمیں کچھ زیادہ غارت گری کی توقع تھی اور یہ تو سادہ سے پولیس کے سپاہی لگتے تھے۔ سب کچھ بے ترتیبی کو دعوت دے رہا تھا اور شبہات کو رفع کر رہاتھا۔ کسی نے اپنے سامان کے بارے میں پوچھنے کی جرأت کی: جواب ملا “سامان بعد میں”۔ کسی نے کہا کہ وہ اور اس کی بیوی اکھٹے رہنا چاہتے ہیں : انہوں نے جوب دیا “اکٹھے بعد میں”۔ کئی مائیں اپنے بچوں سے جدا نہیں ہونا چاہتی تھیں : انہیں جواب دیا گیا “اچھا، اچھا، بچے کے ساتھ رہو”۔ مگر رینزو اپنی منگیتر فرانسیسکا کو الوداع کہنے کے لئے ایک ساعت زیادہ رکا اور ایک ہی ضرب میں انہوں نے اسے زمین چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ان کا روزمرہ کافرض تھا۔

 

دس منٹ سے بھی کم عرصے میں تمام صحت مند آدمی ایک جگہ جمع کئے جا چکے تھے۔دوسروں یعنی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے بارے میں ہمیں نہ تو اس وقت کچھ خبر ملی اور نہ ہی بعد میں، بس رات نے انہیں نگل لیا۔ تاہم آ ج ہمیں معلوم ہے کہ اس تیز رفتار اور مختصر چناؤ میں ہم میں سے ہر کسی کو نازی حکومت کے لئے مفید یا غیر مفید ہونے کی حیثیت سے جانچا جا رہا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے قافلے میں سے چھیانوے آدمی اور اور انتیس عورتیں بالترتیب مونووٹز بونا (Monowitz-Buna)اور برکیناؤ (Birkenau) کے کیمپوں میں داخل ہوئے اور دو دن کے بعد باقی بچ جانے والوں، یعنی پانچ سو سے زیادہ میں اسے ایک بھی زندہ نہ تھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ صحت مند اور غیر صحت مند کے مابین امتیاز کا یہ نازک اصول بھی ہمیشہ نہیں اپنایا گیا اور بعد میں ایک مزید سادہ طریقہ جو اکثر اپنایا گیا یہ تھاکہ محض گاڑی کے دونوں دروازے کسی انتباہ یا فرمان کے بغیر نوواردوں کے لئے کھول دئیے جائیں۔ جو کسی اتفاق کی وجہ سے ایک جانب اترے وہ کیمپ اور دوسری جانب والے گیس چیمبر میں داخل ہو گئے۔

 

یہی وہ وجہ تھی کہ تین سالہ ایمیلیا موت سے جا ملی۔ اولاد ِ یہودکے قتل کی تاریخی ناگزیری جرمنوں پر فی نفسہٖ عیاں تھی۔ ایلڈو لیوی کی بیٹی ایمیلیا ایک پُر تجسس، پُرامنگ، خوش مزاج اور ذہین بچی تھی۔ دورانِ سفر اس کے والدین اسے نیم گرم پانی سے بھرے ایک ٹب سے نہلانے میں کامیاب ہو گئے تھے جو ایک ناخلف جرمن انجینئر نے انہیں اسی انجن سے نکالنے دیا جو ہم سب کو موت کی سمت گھسیٹ کے لے جا رہا تھا۔

 

پس اسی طرح ایک ہی گھڑی میں ہماری عورتیں، والدین اور بچے غائب ہو گئے۔ ایک ساعت کے لئے وہ ہمیں پلیٹ فارم کے اُس پار ایک مبہم ہجوم کی صورت نظر آئے لیکن اس کے بعد نگاہ سے اوجھل ہو گئے۔
ان کی جگہ لیمپوں کی روشنی میں عجیب و غریب افراد کے دو گروہ ظاہر ہو گئے۔ وہ تین قطاروں پر مشتمل دو دستوں میں ایک عجیب الجھے ہوئے قدم کے ساتھ، سر آگے کو جھولتے ہوئے، ساکت بازوؤں کے ساتھ چل رہے تھے۔ ان کے سروں پر مضحکہ خیز فوجی ٹوپیاں تھیں اور وہ دھاری دار لمبے اوورکوٹوں میں ملبوس تھے، جو رات میں بھی اور کافی فاصلے پر ہونے کے باوجود غلیظ چیتھڑے معلوم پڑتے تھے۔وہ ایک بڑے دائرے میں ہمارے گرد گھومنے لگے اور خاموشی سے ہمارے سامان کے ساتھ مصروف خالی ڈبوں سے اندر باہر جاتے رہے۔

 

ہم نے کوئی بات کئے بغیر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ یہ سب کچھ ایک ناقابل فہم پاگل پن لگتا تھا، مگر ایک بات ہمیں سمجھ آ گئی۔ یہ وہ قلبِ ما ہیت تھی جو ہماری منتظر تھی۔ کل ہمیں بھی ان جیسا ہو جانا تھا۔
2۔ تہہ میں
آخر کار ایک اور دروازہ کھلا۔ ہم یہاں بند ہیں، برہنہ، منڈے سر اور کھڑے ہوئے، جبکہ ہمارے پاؤں پانی میں ہیں۔ یہ نہانے کا کمرہ ہے۔ ہم تنہا ہیں۔ آہستہ آہستہ حیرت ختم ہو گئی اور باتیں شروع ہوئیں۔ ہر کوئی سوال پوچھتا ہے اور جواب کسی کے پاس نہیں۔ اگر ہم نہانے کے کمرے میں برہنہ کھڑے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم غسل کریں گے۔ نہانے دیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی ہمیں قتل نہیں کریں گے۔مگر پھر انہوں نے ہمیں کھڑا کیوں کر رکھا ہے اور پینے کو کیوں کچھ نہیں دے رہے جبکہ کوئی بھی کچھ تفصیل نہیں بتا رہا، اور نہ ہی ہمارے پاس کپڑے یا جوتے ہیں مگر برہنہ ننگے پیر پانی میں کھڑے ہیں، ہم نے پانچ روز مسلسل سفر کیا ہے تو کیا بیٹھ بھی نہیں سکتے؟

 

اور ہماری خواتین؟

 

خواتین کے کیمپوں میں ظلم کے نت نئے ہتھکنڈے اپنائے جاتے تھے
خواتین کے کیمپوں میں ظلم کے نت نئے ہتھکنڈے اپنائے جاتے تھے
پاس کھڑا لیوی مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا میرے خیال میں ہماری خواتین بھی اس وقت اسی حال میں ہوں گی، وہ کہاں ہیں،اور کیا ہم انہیں کبھی دیکھ پائیں گے؟ میرا جواب ہاں ہے کیونکہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کی ایک بیٹی ہے، یقیناً ہم انہیں دوبارہ دیکھ سکیں گے۔ مگر اب تک مجھے یقین ہے یہ سب ہماری تضحیک اور تحقیر کے لئے رچایا گیا ایک کھیل ہے۔ ظاہر ہے وہ ہمیں قتل کر دیں گے۔ جو بھی سمجھتا ہے کہ وہ زندہ بچ جائے گا وہ دیوانہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اس نے شکاری کا چارہ نگل لیا ہے مگر میں ایسا نہیں ہوں۔میں سمجھ چکا ہوں کہ یہ سب کچھ جلد ہی ختم ہو جائے گا، شاید اسی کمرے میں، جب وہ ہمیں برہنہ، ایک پاؤں سے دوسرے پر رقصاں، ہر وقت زمین پر بیٹھنے کی کوشش میں دیکھتے دیکھتے اکتا جائیں گے۔ مگر زمین پر تو دو انچ سرد پانی ہے اور بیٹھنا ناممکن۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فراغت کے بعد ہر کوئی اپنے کونے میں پڑا رہا اور ہمیں ایک دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہاں آیئنہ تو نہیں مگر ہمارا ظاہر بیسیوں سرمئی چہروں اور اور بیسیوں خستہ حال غلیظ پُتلیوں میں منعکس ہو تا ہوا ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ہم انہیں بدروحوں کے قالب میں ڈھل چکے ہیں جن کی ایک جھلک ہم نے پچھلے روز دیکھی تھی۔

 

پھر ہم پر یہ پہلی بار آشکار ہوا کہ ہماری زبان میں اس جرم یعنی انہدامِ انسان کو بیان کرنے کی لئے الفاظ ناپید ہیں۔ ایک لمحے میں تقریباً ایک الہامی وجد ان کی طرح ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ہم تہہ میں پہنچ چکے ہیں۔ اس سے مزید نیچے ڈوبنا ناممکن ہے۔انسان کی اسے زیادہ خستہ حالی کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی اس کا تصور ممکن ہے۔ کوئی شے ہماری نہیں، وہ ہمارے کپڑے، جوتے، یہاں تک کے بال بھی سلب کر چکے ہیں۔ اگر ہم لب کھولیں گے تو وہ ہماری آواز نہیں سنیں گے اور اگر سنیں گے تو سمجھیں گے نہیں۔ وہ ہمارا نام بھی سلب کر لیں گے اور اگر ہم اس سے جڑے رہنا چاہیں تو ہمیں اپنے اندر ایسا کرنے کی قوت تلاش کرنی ہو گی کہ کسی طور اس نام کے پیچھے ہمارا کوئی حصہ اب بھی موجود ہے۔

 

ہم جانتے ہیں کہ اپنی بات سمجھانا مشکل ہوگا اور ایسا ہی ہونا چاہیئے۔ مگر غور کریں ہماری چھوٹی سے چھوٹی روزمرہ عادات میں کیا قیمت یا کیا معانی ملفوف ہیں، ان بیسیوں چیزوں میں جو ایک غریب ترین بھکاری کی ملکیت بھی ہوتی ہیں:ایک رومال، کوئی پرانا خط، کسی محبوب کی تصویر۔ یہ اشیاء ہمارا حصہ ہیں، تقریباً اسی طرح جیسے ہمارے بدن کے اعضاء۔ ہماری دنیا میں ان سے جدا کردیئے جانے کا تصور ممکن نہیں کیوں کہ اس صورت میں ہم فوراً ان کےنئےمتبادل تلاش کر لیں گے، یعنی دوسری اشیاء جو ہماری یادوں بازیاب کرتی مجسم صورتیں بن جاتی ہیں۔

 

اب ایک ایسے انسان کا تصور کریں جو ہرمانوس شخص، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر، اپنی عادات، اپنےلباس، مختصراً ہر اس چیز سے جس کا وہ مالک ہے محروم کیا جا چکا ہے:وہ ایک کھوکھلا انسان ہو گا جو عزت اور ضبطِ نفس فراموش کرنے کے بعد اپنی ضروریات اور مصائب تک محدود کیا جا چکا ہے، کیوں کہ ایسااکثر ہوتا ہے کہ سب کچھ کھو دینے والاآخر کار اپنے آپ کو بھی کھو دیتا ہے۔وہ ایک ایسا انسان ہو گا جس کی زندگی اور موت کا فیصلہ انسانی ناطےداری کے احساس کی بجائے خالص افادیت کی بنیاد پر کیا جا سکے گا۔یہ وہ طریقہ ہے جس سے “استیصالی کیمپ” (extermination camp) جیسی اصطلاح کے دوگانہ معانی سمجھے جا سکتے ہیں اور اب یہ ظاہر ہے کہ ہم “تہہ میں پڑے ہونے” کی عبارت سے کیا واضح کرنا چاہتے ہیں

 

ہیفٹلنگ! (قیدی) (1)

 

مجھے معلوم ہوا ہے کہ میں ایک” ہیفٹلنگ” ہوں۔ میرا نمبر 174517 ہے۔ ہمیں بپتسمہ دیا جا چکا ہے۔گودنے کا نشان ہمارے بائیں بازو پر تا حیات رہے گا۔ آپریشن ہلکا سا تکلیف دہ اور غیر معمولی طو رپر تیز رفتار تھا۔ انہوں نے ہمیں ایک قطار میں کھڑا کر دیا اور ایک ایک کر کے ناموں کی ابجدی ترتیب کے ساتھ ہم ایک باہنر اہلکار کے سامنے سے گزرتے رہے جس کے ہاتھ میں ایک پتلی سی سوئی والا نوک دار اوزار تھا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی اصل اورحقیقی داخلہ لائسنس ہے:صرف “اپنا نمبر دکھا کر” ہی روٹی اور شوربہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔کئی دن اور کافی تھپڑوں مکوں کے بعد ہم چستی کے اس معیار پر پورے اترے کہ روزمرہ کے ضابطے میں کسی خلل کے بغیر اپنا نمبر دکھا کر کھانا حاصل کر سکیں۔ جرمن زبان میں اس کی آواز سمجھنے کے لئے ہفتے اور مہینے درکار تھے۔اور کئی دفعہ جب ایامِ آزادی کی عادا ت مجھے کلائی کی گھڑی کی طرف نظر دوڑانے پر مجبور کرتیں، مجھے طنزاًاپنا نیا نام نظر آ جاتا، کھال کے نیچے نیلے حروف میں گوندھا ہوا اس نام کا نمبر۔ کافی دن بعد آہستہ آہستہ ہم میں سے کچھ کو آشوٹز (Auschwitz)کے نمبروں کی تعزیتی سائنس کے بارے میں کچھ کچھ پتا چلا، جو یورپی یہودیت کے انہدام کے درجات کی علامت ہے۔ کیمپ کے پرانے باسیوں کے نزدیک نمبر سب کچھ بیان کر دیتے ہیں: کیمپ میں داخلے کا عرصہ، وہ قافلہ جس کا فرد حصہ تھا، لہذا قومیت۔ ہر کوئی 30000 سے 80000 تک کے نمبروں کی عزت کرتا ہے :ان میں سے کچھ سو ہی باقی رہ گئے ہیں اور وہ پولینڈ کے یہودی باڑوں سے زندہ بچ جانے والے ہیں۔ کاروباری معاملات میں 116000یا 117000کے سلسلے سے ہوشیار رہیں:اب ان میں سے صرف چالیس ہی باقی بچے ہیں مگر وہ یونانی تسالونیکی (Greeks of Salonica) ہیں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک دیں۔ جہاں تک بڑے نمبروں کا سوال ہے تو ان سے ایک ناگزیر تمسخرانہ کیفیت مربوط ہے جیسا کہ عام زندگی میں “نوآموز” (Freshman) یا “بیگار کا سپاہی” (Conscript) جیسے القابات۔ عمومی طور پر بڑا نمبر ایک فربہ، فرمانبردار اور احمق شخص ہے: یہ باور کرواتے ہوئے کہ تمام نازک پیر والوں کو شفاخانے میں چمڑے کے جوتے دیے جا رہے ہیں،اسے اپنےشوربے کی پلیٹ “آپ کی حفاظت” میں رکھوا کراُس جانب بھاگنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ چاہیں تو آپ روٹی کے تین راشن کے بدلے اسے ایک چمچ بھی بیچ سکتے ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

تویہ ہے ہماری زندگی۔ ہر دن ایک باضابطہ تسلسل کے ساتھ، صبح کی حاضری پریڈاور شام کی حاضری پریڈ، باہر جانا اور اندر آنا، سونا اور کھانا، بیمار پڑنا، واپس صحت مند ہونا یا مر جانا۔لیکن آخر کب تک؟ پرانے قیدی اس سوال پر مسکراتے ہیں۔ وہ اس سوال سے نواردو ں کو پہچان لیتے ہیں۔ مسکرادیتے ہیں مگر کوئی جواب نہیں دیتے۔ مہینوں اور سالوں میں دور دراز مستقبل کا مسئلہ مدھم پڑ چکا ہے اور اس سے کہیں زیادہ ضروری اور ٹھوس مسائل کے سامنے اپنی شدت کھو چکا ہے:آج میں کتنا کھا سکوں گا؟ اگر آج برفباری ہوئی تو کیا کوئلے کی مال برداری ہو گی؟

 

اگر ہم منطقی ہوتے تو اپنا آپ اس دلیل کے سپرد کر چکے ہوتے کہ ہماری تقدیر انسانی علم سے ماوراء ہے،اور یہ کہ ہر مفروضہ بے طور اور مشاہداتی اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ مگر جب اپنی ہی تقدیر داؤ پر لگی ہو تو انسان کم ہی منطقی ہوتے ہیں، وہ ہر موقع پر انتہا پسندانہ نقطۂ نظر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی مخصوص طبیعتوں کے مطابق کچھ تو فوراً مان جاتے ہیں کہ سب کچھ کھو گیا ہے، انسان یہاں نہیں رہ سکتا، اور خاتمہ قریب اور یقینی ہے۔ دوسرے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حالیہ زندگی کتنی ہی کٹھن کیوں نہ ہو، نجات کا احتمال ہے اور وہ زیادہ دور نہیں ہے، اور اگر ہم میں ایمان اور قوت ہو تو ہم ایک بار پھر اپنے گھربار اور احباب کو ضرور دیکھیں گے۔ قنوطیت اور رجائیت پسندی کی ان دو اقسام کے درمیان تفریق واضح نہیں ہے، مگر اس لئے نہیں کہ بہت سے لوگ لاادرئیت پسند ہیں بلکہ اس لئے کہ کسی یاداشت یا ہم آہنگی کے بغیر اکثریت ان دونوں انتہاؤں کے درمیان وقت اور انفرادی کیفیت ِ مزاج کے زیر ِ اثر ڈولتی رہتی ہے۔

 

سو اب میں یہاں تہہ میں پڑا ہوں۔ جبر کے زیر اثر انسان جلد ہی سیکھ جاتا ہے کہ ماضی اور مستقبل کو کیسے مٹایا جائے۔ آمد کے پندرہ دن کے اندر اندرمجھ پر مجوزہ بھوک کا حملہ ہوچکا تھا، وہ شدید بھوک جس سے آزاد انسان نا آشنا ہیں، جو رات کو خواب دکھاتی ہے اور تمام انسانی اعضاء میں جڑ پکڑ لیتی ہے۔ میں پہلے ہی جان چکا ہوں کہ اپنے آپ کو لٹنے سے کس طور بچانا ہے، اور اگر مجھے کوئی چمچ گرا ملے، یا دھاگے کا ایک ٹکڑا یا ایک ایسا بٹن جسے میں سزا کے خطرے کے بغیر حاصل کر سکوں تومیں اسے جیب میں منتقل کر لوں گا اور پورے حق کے ساتھ اسے اپنی ملکیت سمجھوں گا۔ میرے پاؤں تلے وہ بے حس چھالے ہیں جو مندمل نہیں ہوں گے۔میں گاڑیاں دھکیلتا ہوں، میں کام کے لئے کدال کا استعمال کرتا ہوں،میں بارش میں گل سڑ جاتاہوں، میں ہوا میں کانپتا ہوں، میرا جسم مزید میرا نہیں ہے، میرا پیٹ سوجا ہوا ہے، میرے اعضاء لاغر ہیں، میرا چہرا صبح میں پھولا ہوااور شام میں کھوکھلا ہوتا ہے، ہم میں سے کچھ کی جلد زرد اور کچھ کی خاکستری ہے۔اگر ہم کچھ دن ایک دوسرے سے نہ ملیں تو مشکل ہی سے پہچان پاتے ہیں۔
3۔ آغاز
مجھے بہت سے سوال پوچھنے ہیں۔ میں بھوکا ہوں تو کیا یہ کل شوربہ بانٹیں گے؟ کیامیں چمچ کے بغیر اسے کھا سکوں گا؟ مجھے چمچ کہاں ملے گا؟ کل مجھے کام کے لئے کہاں بھیجا جائے گا؟ ڈی اینا مجھ سے زیادہ نہیں جانتا اور جواباً مزید سوال داغ دیتا ہے۔ مگر اوپر اور نیچے، قریب اور دور، اندھیرے کمرے کے ہر کونے سے نیند میں بھری غصیلی آوازیں مجھ پر چلا رہی ہیں: “رُوہے، رُوہے۔”(2) میں سمجھتا ہوں کہ یہ مجھے خاموش رہنے کا حکم دے رہی ہیں مگر یہ لفظ میرے لئے نیا ہے۔ چونکہ میں اس کے معنی اور مراد نہیں سمجھتا میرا شور بڑھ جاتا ہے۔

 

زبانوں کا ابہام یہاں کے رہائشی اطوار کا بنیادی عنصر ہے: انسان اپنے آپ کو مسلسل ایک بابل میں محبوس محسوس کرتا ہے جہاں ہر کوئی نامعلوم زبانوں میں احکام اور دھمکیاں اگل رہا ہے اور جو کوئی بھی معنی تک نہ پہنچ سکے وہی ملامت کا حقدار ہے۔ یہاں کسی کے پاس وقت نہیں،کوئی آپ کی نہیں سنتا، ہم نوواردان مار پیٹ کے ڈر سے فطری طور پر دیواروں کے ساتھ لگے کونوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میں کسی جھجک کے بغیر تسلیم کرتا ہوں کہ جیل کے صرف ایک ہفتے بعد ہی مجھ میں صفائی کی جبلت غائب ہو گئی۔ بے مقصد نہانے کے کمرے کے گرد گھوم رہا ہوں کہ مجھے یک لخت اسٹائن لاف مل جاتا ہے، میرا تقریباً پچاس سالہ دوست جو ننگے دھڑ اپنے گردن اور کندھوں کو پوری قوت سے رگڑتے ہوئے بغیر کسی کامیابی (اس کے پاس صابن نہیں ہے) کے صاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسٹائن لاف مجھے دیکھتا ہے اور خوش آمدید کہتا ہے۔ پھر بغیر کسی تمہید کے سختی سے پوچھتا ہے کہ میں کیوں نہیں نہاتا۔

 

مجھے کیوں نہانا چاہئے؟ کیامیں اب سے بہتر ہو جاؤں گا؟ کیا میں کسی اور کی خوشی کا باعث ہوں گا؟ کیا میں ایک دن، ایک گھنٹہ زیادہ زندہ رہ پاؤں گا؟ میں شاید کم زندہ رہوں گا کیوں کہ نہانا محنت طلب ہے، طاقت اور حدت کا ضیاع۔ کیا اسٹائن لاف نہیں جانتا کہ کوئلے کی بوریوں کی ساتھ آدھا گھنٹہ گزارنے کے بعد ہم میں ہر امتیاز مٹ جائے گا؟ میں جتنا اس بارے میں سوچتا ہوں، اپنی موجودہ حالت میں اپنا منہ دھونا ایک بےوقوفی محسوس ہوتا ہے بلکہ محض سبک سری:ایک میکانی عادت، یا اس سے بھی بدتر کسی متروک تہوار کا بے کیف تسلسل۔ ہم سب مر جائیں گے، ہم سب قریب المرگ ہیں:اگر یہ مجھے صبح کے بگل اور کام کے درمیان دس منٹ دیں تو میں انہیں کسی اور شے کے لئے وقف کروں گا، اپنے اندر جھانکنے کے لئے، غورو فکر کے لئے، یا محض آسمان کی طرف دیکھنے اور سوچنے کے لئے کہ میں اس کی طرف آخری بار دیکھ رہا ہوں، یا صرف اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے، تاکہ اپنے آپ کو ایک غیر مصروف ساعت کا تعیش عطا کر سکوں۔

 

مگر اسٹائن لاف مجھے ٹوک دیتا ہے۔ وہ نہا چکا ہے اور اب اپنے آپ کو اسی کپڑے سے پونچھ رہا ہے جو اس نے پہلے اپنی ٹانگوں پر لپیٹا ہوا تھا او رجو وہ عنقریب پہن لے گا۔بغیر اس عمل میں کسی رکاوٹ کے وہ مجھے ایک مکمل درس دیتا ہے۔

 

مجھے افسوس ہے کہ میں اس کےسادہ صاف گو الفاظ فراموش کر چکا ہوں، آسٹریائی ہنگری فوج کے سارجنٹ اسٹائن لاف کے الفاظ۔ افسوس اس لئے کہ مجھے اس کی ٹوٹی پھوٹی اطالوی اور ایک اچھے سپاہی جیسے خاموش طبع سلیقۂ گفتگو کو اپنے جیسے بے اعتقاد کی زبان میں ڈھالنا ہے۔ مگرکم و بیش لُب لباب یہ تھا:چونکہ قیدی کیمپ ایک ایسی عظیم مشین ہے جس کا مقصد ہمیں درندہ بنا دینا ہے، اس لئے ہمیں درندہ نہیں بننا۔ اور یہ کہ انسان اس جگہ پر بھی زندہ رہ سکتا ہے لہٰذا انسان کو زندہ رہنے کی خواہش رکھنی چاہئے تاکہ کہانی سنا سکے اورگواہی دے سکے۔ زندہ رہنے کے واسطے ہمیں کم از کم اس ڈھانچے، اس مچان، تمدن کی اس شکل کو بچا کے رکھنا ہے۔ ہم ہر حق سے دستبردار، ہر دشنام کے لئے حاضر، ایک یقینی موت کے معتوب کردہ غلام ہیں مگر ہم اب بھی ایک قوت کےمالک ہیں اور ہمیں پوری ہمت کے ساتھ اس کا دفاع کرنا ہے کیوں کہ یہ آخری قوت رضامندی سے انکار ہے۔ لہٰذا ہمیں یقیناً اپنے منہ صابن کے بغیر گندے پانی سے دھونے چاہئیں اور قمیصوں سے اپنے آپ کو پونچھنا چاہئے۔ ہمیں اپنے جوتوں کو پالش کرنا چاہئے، اس لئے نہیں کہ یہ ضابطہ ہے بلکہ عزت اور معقولیت کی خاطر۔ہمیں سیدھا اکڑ کر چلنا چاہئے، اس لئے نہیں کہ یہ جرمن نظم کے مطابق ہے بلکہ زندہ رہنے اور موت کی جانب سفر شروع نہ کرنے کے لئے۔

 

یہ سب کچھ جو ایک اچھی نیت والے انسان اسٹائن لاف نے مجھے بتایا میرے کانوں کے لئے اجنبی تھا اور میں اسے جزوی طور پر ہی سمجھ اور قبول کرسکا، ایک ایسےمزید سہل، سادہ، لچک دار اور معتدل نظریے نے میری خاطر یہ مخصوص نظریہ نرم کر دیا جس نے صدیوں سے کوہِ الپس کے اس پار اپنا ٹھکانہ تلاش کیا ہوا ہے۔اور چیزوں کے علاوہ اس کے مطابق دوسروں کی ملکیت اور کسی اور فلک تلے بیان کردہ نظامِ اخلاق کو ہضم کر لینے سے زیادہ خود نمائی کا مظہر اور کوئی شے نہیں۔نہیں، ہر گز نہیں، اسٹائن لاف کی نیکی اور دانائی جو اس کے لئے یقیناً بہتر ہو گی میرے لئے کافی نہیں۔ اس پیچیدہ دنیا میں دائمی عذاب کےمتعلق میرے تصورات مبہم ہیں۔ کیا ایک نظام کا بیان اور اس کے عملی مظاہر واقعی ناگزیر ہیں؟ یا پھر کیااس سے یہ بہتر نہیں کہ نظام کی غیر موجودگی کو تسلیم کر لیا جائے؟
4۔ شفاخانہ
یہ شاید گرمی ہے یا پیدل چلنے کی تھکن مگر درد دوبارہ شروع ہو گیا ہے اور ساتھ ہی زخمی پاؤں میں ایک عجیب سی نمی کا احساس۔ میں اپنا جوتا اتارتا ہوں: یہ خون سے بھرا ہوا ہے جو اب ایک سیال کی صورت مٹی اور کپڑوں کے ان چیتھڑوں میں مل رہا ہے جو مجھے ایک ماہ پہلے ملے تھے، اور جنہیں میں ایک دن دائیں اور دوسرے دن بائیں پاؤں کے نیچے رکھنے کے لئے استعمال کرتا ہوں۔

 

آج شام شوربہ کے بعد میں “کا۔بے”(3) جاؤں گا۔ یہ کرنکن باؤ یعنی کہ شفاخانے کا مخفف ہے۔ یہ آٹھ جھونپڑوں پر مشتمل ہے کیمپ کے دوسرے جھونپڑوں کی طرح مگر تاروں کی باڑ کے ذریعے علیٰحدہ۔ یہاں کیمپ کی کل آبادی کا دس فیصد حصہ مستقل رہائش پذیر ہے مگر کچھ یہاں دو ہفتے سے زیادہ رہتے ہیں اور کوئی ایسا نہیں جو یہاں دو ماہ سے اوپر رکے: انہی حدود کے اندر یاتو وہ صحت مند ہو جاتے ہیں یا انہیں مرجانا ہے۔ جن میں صحت کی علامات نمودار ہوتی ہیں ان کا علاج” کا۔بے” میں جاری رہتا ہے اور جن کی صحت رو بہ زوال ہوتی ہے وہ گیس چیمبر کی طرف بھیج دیئے جاتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ ہمارا شمار خوش قسمتی سے “معاشی طور پر مفید یہودیوں” میں ہوتا ہے۔

 

ساتھ والے تختۂ خواب پر میرے دو پڑوسی ہیں۔ وہ رات دن ایک دوسرے کے ساتھ جسم ملائے، بُرجِ حوت کی مچھلیوں کی طرح ایک دوسرے کے سر کی جانب پیر کئے لیٹے رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک والٹر بون ہے، ایک سلجھا ہوا متمدن ولندیزی۔ وہ دیکھتا ہے کہ میرے پاس ڈبل روٹی کاٹنے کے لئے کچھ نہیں تو اپنی چھری مجھے ادھار دے دیتا ہے اور پھر ڈبل روٹی کے آدھے راشن کے عوض بیچنے کی پیشکش کرتا ہے۔میں قیمت پر بحث کرتا ہوں اور پھر اس کی پیشکش مسترد کر دیتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں یہاں “کا۔بے” میں مجھے کوئی نہ کوئی ادھار دے ہی دے گا اور باہر اس کی قیمت صرف راشن کا ایک تہائی ہے۔مگر اس وجہ سے والٹر ہر گز اپنی خوش خلقی کم نہیں ہونے دیتا اور دن چڑھے اپنا شوربہ پینے کے بعد اپنے منہ سے چمچ صاف کر کے(جو کہ ادھار دینے سے قبل ایک اچھا اصول ہے تاکہ شوربے کے ذرا سے ذرات بھی ضائع نہ ہوں) ایک دم مجھے پیش کر دیتا ہے۔
“تمہیں کیا مرض ہے، والٹر؟”

 

“اعضاء کا گلنا سڑنا”

 

یعنی وہ بدترین مرض جو ناقابل علاج ہے اور”کا۔بے” (2) میں اس طرح کی تشخیص کے ساتھ داخلہ خطرناک ہے۔اگر اسےپیدل چلنے سے روکنے والی ایڑیوں کی سوجن نہ ہوتی (جو وہ مجھے دکھاتا ہے) تو وہ بیماری کے بارے میں اعلان کرنے میں احیتاط برتتا۔اس خطرے کے بارے میں میرے تصورات اب تک مبہم ہیں۔ ہر کوئی اس کے بارے میں بالواسطہ طور پر اشاروں کنایوں میں با ت کرتاہے او رجب میں کوئی سوال کرتا ہو ں تو میری طرف دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔کیاوہ سب کچھ جو چناؤ (selections)، گیس اور لاشیں جلانے کی بھٹیوں (crematorium) کے بارے میں سننے میں آتا ہے سچ ہے؟

 

لاشوں کی بھٹیاں
لاشوں کی بھٹیاں
“لاشوں کی بھٹیاں۔” دوسرا جو والٹر کا پڑوسی ہے چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے:”لاشوں کی بھٹیوں کے بارے میں کون بات کر رہا ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا کسی سوتے آدمی کو سکون سے نہیں رہنے دیا جا سکتا؟”یہ پولینڈ کا یہودی ہے، ایک جذامی جس کا لاغر خوش فطرت چہرہ اب مزید جوان نہیں رہا۔ اس کا نام شمولک ہے، یہ ایک لوہار ہے۔والٹر اس کو مختصراً بتاتا ہے۔” تو یہ ’احمق اطالوی‘ چناؤ کو حقیقت نہیں مانتا۔” شمولک جرمن بولنا چاہتا ہے مگر یہودی زبان بولتا ہے۔ میں اس کی بات مشکل سے سمجھتا ہوں کیونکہ وہ اپنی بات سمجھانا چاہتا ہے۔ وہ والٹر کو اشارے سے خاموش کراتا ہے او رمجھے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے، “مجھے اپنا نمبر دکھاؤ: تم 174517ہو۔ نمبروں کا یہ سلسلہ اٹھارہ ماہ قبل شروع ہو ا تھا اور اس کا اطلاق آشوٹز اور اس کے ماتحت کیمپوں پر ہوتا ہے۔ بونا مونووٹز (Buna-Monowitz)میں اب ہم دس ہزار ہیں، آشوٹز (Auschwitz) اور برکینو (Birkenau)میں شاید تیس ہزار۔ باقی کہاں ہیں؟”

 

“شاید دوسرے کیمپوں میں بھیج دیئے گئے ہوں”، میں ایک ممکنہ جواب پیش کرتا ہوں۔

 

شمولک اپنا سر جھٹک کر والٹر کی طرف مڑتا ہے، “یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔”

 

مگر تقدیر کا فیصلہ یہ تھا میں جلد ہی سمجھ جاؤں، اور خودشمولک ہی کے عوض۔ اسی شام جھونپڑے کا دروازہ کھلا، ایک آواز آئی “ہوشیار” اور ہر آواز کی جگہ ایک غمگین سناٹے نے لے لی۔”ایس۔ایس”کے دو سپاہی اندر داخل ہوتے ہیں (ان میں سے ایک نے وردی پر بہت سے عسکری نشان لگا رکھے ہیں، شاید وہ کوئی افسر ہے)۔ ان کے قدموں کی آواز کمرے میں اس طرح سنائی دیتی ہے جیسے وہ خالی ہو۔ وہ چیف ڈاکٹر سے بات چیت کرتے ہیں اور وہ انہیں ایک رجسٹر دکھاتا ہے اور اس میں اِدھر اُدھر اشارہ کرتا ہے۔ افسر اپنی نوٹ بک میں کچھ لکھتا ہے۔ شمولک میرے گھٹنے کو چھوتا ہے، “اپنی آنکھیں کھلی رکھو۔” افسر ڈاکٹر کی معیت میں خاموشی اور سرد مہری سے خوابی تختوں کے بیچ گھومتا ہے، اس کے ہاتھ میں ایک سوئچ ہے جسے وہ اوپر والے تختے کے کمبل کے لٹکے ہوئےسرے کی طرف کر کے دباتا ہے، مریض جلدی سے اسے ٹھیک کرتا ہے۔ ایک کا چہرہ زرد ہے۔ افسر اس کے کمبل کھینچتا ہے، وہ پیچھے ہٹتا ہے، افسر اس کا پیٹ چھوتا ہے اور کہتا ہے “اچھا، اچھا” اور آگے بڑھ جاتا ہے۔

 

اب وہ شمولک کی طرف دیکھ رہا ہے۔وہ کتاب نکالتا ہے، بستر کا نمبر دیکھتا ہے اور پھر کلائی پر گودا ہوا نمبر۔ میں اوپر سے یہ سب کچھ واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں:وہ شمولک کے نمبر کے سامنے کراس (X)کا نشان لگاتا ہے۔ پھر وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔

 

اب میں شمولک کی طرف دیکھتا ہوں۔ اس کے عقب میں والٹر کی آنکھیں نظر آرہی ہیں، لہٰذا میں کوئی سوالات نہیں پوچھتا۔

 

اگلے دن حسب دستور مریضوں کےصحت یاب گروہ کی جگہ دو مختلف گروہ باہر نکلے۔پہلا جس کا سر اور چہرہ منڈا ہوا تھا اور نہلایا گیا تھا۔دوسرا لمبے بالوں کے ساتھ بغیر نہائے جیسا کہ وہ عام حالت میں تھا۔کسی نے آخرالذکر کو الوداع نہیں کہا، کسی نے صحت مند رفیقوں کے لئے پیغامات نہیں بھجوائے۔

 

شمولک اس گروہ کا حصہ تھا۔

 

اسی محتاط اور پرسکون انداز میں کسی نمائش یا غصے کے بغیر “کا۔بے “کے جھونپڑوں میں روزانہ قتل عام ہوتا ہے۔ جب شمولک گیا تو مجھے اپنا چمچ اور چھری دے گیا۔ والٹر اور میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے ہچکچاتے رہے اور کافی دیر خاموش رہے۔پھر والٹر نے مجھ سے پوچھا کہ میں اپنا ڈبل روٹی کا راشن اتنی دیر کیسے بچا لیتا ہوں، اور مجھے بتانے لگا کہ کیسے وہ اپنی ڈبل روٹی لمبائی کے رخ کاٹتا ہے تاکہ مکھن آسانی سے لگ سکے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مگر شفاخانے کی زندگی یہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ چناؤ کی نازک ساعتیں ہیں اور نہ ہی پیٹ کی خرابی اور جوؤں کے خلاف اقدامات کے بے ڈھنگے سلسلے، نہ ہی یہ بیماریاں ہیں۔شفاخانہ قید خانہ ہے، بغیر اُس کی جسمانی صعوبتوں کے۔ لہٰذا جس کسی میں بھی شعور کے بیج موجود ہیں وہ اسے زندہ ہوتا محسوس کرتا ہے، اور طویل کھوکھلےایام میں انسان بھوک اور کام کے علاوہ دوسری چیزوں کے بارے میں بات کرتا ہے اور غور کرتا ہے کہ انہوں نے ہمیں کیا بننے پر مجبور کر دیا ہے، کتنا کچھ ہم سے چھین لیا گیا ہے، یہ زندگی کیا ہے؟ اس شفاخانے میں، جو نسبتاً ایک پرسکون ٹھکانہ ہے، ہمیں معلوم ہوا کہ ہماری شخصیت کمزور ہے،یہ بھی کہ یہ ہماری زندگی کی نسبت زیادہ خطرے میں ہے، اور بہت بہتر ہوتا اگر پرانے اربابِ عقل و دانش ہمیں یہ تنبیہ کرنے کے بجائے کہ “یاد رکھو، تمہیں ہر صورت مرنا ہے”ہمیں اس عظیم خطرے سے آگاہ کرتے جو ہمیں درپیش ہے۔ اگر قید خانے کے اندر سے کوئی پیغام باہر کے آزاد انسانوں تک پہنچایا جا سکے تو وہ یہ ہو گا:اپنے گھروں میں اس اذیت کو نہ سہو جو ہم پر یہاں مسلط ہے۔ جب انسان کام کرتا ہے تو وہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے اور سوچنے کا کوئی وقت نہیں:ہمارے گھر ایک یاد سے بھی کم ہیں۔ مگر یہاں وقت ہمارا ہے: تختۂ خواب سے تختۂ خواب تک، ممانعت کے باوجود ہم ایک دوسرے سے ملاقات اور بات چیت کرتے ہیں۔ اذیت ناک انسانیت سے ٹھنسا ہوالکڑی کا جھونپڑا الفاظ، یادوں اور کرب سے لبریز ہے۔ اس کرب کوجرمن “ہائم وے”(4) کہتے ہیں یہ ایک خوبصورت لفظ ہے جس کا مطلب ہے”اپنے گھر کی تمنا “۔

 

ہمیں معلوم ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔ باہر کی دنیا کی یادیں ہماری نیند اور جاگنے کے اوقات میں یلغار کرتی ہیں، ہمیں تحیر ہے کہ ہم نے کچھ فراموش نہیں کیا، ہر اکساتی یاداشت ہمارے سامنے کرب انگیز طور پر روشن ہوتی ہے۔

 

مگر نہ جانے ہماری منزل کیا ہے؟ کیا ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ امراض سے زندہ بچ رہیں اور چناؤ سے فرار ممکن ہو، شاید بیگار اور بھوک جو ہمیں تھکاتی ہے اس کے خلاف ڈٹ سکیں، مگر پھر اس کے بعد کیا؟ یہاں ایک ساعت کے لئے گالیوں اور مار پیٹ سے دور ہم اپنے اندر از سرِنو جھانک سکتے ہیں اور غور و فکر کر سکتے ہیں، اور پھر یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم واپس نہیں لوٹ سکیں گے۔ہم یہاں مقفل ریل گاڑیوں میں آئے تھے، ہم نے اپنی عورتوں اور بچوں کو فنا کی جانب کوچ کرتے دیکھا، ہم نے غلاموں کا روپ دھار لیا، سینکڑوں قدم آگے اور پیچھے اپنی خاموش مشقتوں کی جانب پیش قدمی کی، اپنی بے نام موت سے بہت پہلے اپنی روح کی موت دیکھی۔کسی کو یہاں سے اپنی جلد کا یہ نشان لے کر دنیا میں نہیں جانا چاہئے، انسان کے ایک مفروضے کی وعید نے آشوٹز میں انسان کو کیا بنا دیا۔
5۔ہماری راتیں
انسان کی خود کو محفوظ کرنے،اپنے اندر ایک خفیہ خول بنا لینےاوربظاہر شدید مایوس کُن حالات میں اپنے اردگرد دفاع کی ایک مہین مزاحمتی باڑھ قائم کرنے کی تخلیقی صلاحیت حیران کن اور ایک سنجیدہ مطالعے کا موضوع ہے۔اس کی بنیاد ایک بیش بہا مطابقت پذیری کا عمل ہے، جو جزوی طور پر غیر متحرک اور بےشعور اور جزوی طور پر متحرک ہے:اپنے تختۂ خواب کے اوپر جوتے لٹکانے کےلئے ایک کیل ٹھونک لینا، پڑوسیوں کے ساتھ خاموشی پر اتفاق کرتے ہوئے عدم جارحیت کے کچھ معاہدے قائم کرنا، ایک جھونپڑی یا بلاک کے قوانین اور رواجوں کو سمجھنا اور قبول کر لینا۔یوں کچھ ہفتے کے اندر انسان ایک مخصوص توازن حاصل کر لیتا ہے، کسی بھی غیر متوقع صورت سے ایک مخصوص درجے کی حفاظت، اپنے لئے ایک گھونسلے کی تخلیق، منتقلی کےصدمے کا اختتام۔

 

کیمپوں میں خود کو اپنے خول میں بند کر لینا پڑتا تھا
کیمپوں میں خود کو اپنے خول میں بند کر لینا پڑتا تھا
مگر شفاخانے سے نکلا ایک برہنہ اور تقریباً ہمیشہ ناقص طور پر صحت یاب آدمی، خود کو ایک اندھیرے اور سرد فلکی علاقہ میں چھوڑا گیا محسوس کرتا ہے۔ پتلون نیچے گرتی ہے، جوتے کاٹتے ہیں، قمیص کے بٹن ندارد۔ وہ کسی انسانی لمس کی تلاش میں ہوتا ہے اور اسے اپنی طرف پھیری ہوئی پُشتیں ہی ملتی ہیں۔ ایک نومولود بچے کی طرح لاچار اور غیر محفوظ ہوتا ہے لیکن اگلی ہی صبح اسے کام کے لئے پیش قدمی کرنی ہوتی ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں کافی انتظامی رسومات کے بعد مجھے بلاک نمبر ۴۵ میں بھیجا گیا۔ مگر اچانک ایک خیال مجھے مسرت سے بھر دیتا ہے:میں خوش قسمت ہوں، یہ البرٹو کا بلاک ہے۔

 

البرٹو میرا بہترین دوست ہے۔ اس کی عمر صرف بائیس سال ہے یعنی مجھ سے دو سال کم مگر ہم اطالویوں میں سے کسی نے بھی حالات سےمطابقت اختیار کرنے کی اتنی صلاحیت ظاہر نہیں کی۔البرٹو سر اٹھا کر قیدخانے میں داخل ہوا اور یہاں بغیر کسی اخلاقی بگاڑ اور آنچ کے رہتا ہے۔ وہ ہم سے بہت پہلے یہ سمجھ گیا کہ یہ زندگی ایک جنگ ہے، اس نے کوئی تقاضا نہیں پالا، خود سے اور دوسروں سے شکوہ و شکایت اور ہمدردی کی بجائے آغاز ہی سے لڑائی میں داخل ہو گیا۔ اس کے پاس ذہانت اور وجدان کی صلاحیتیں ہیں، اکثر وہ استدلال نہ کرنے کے باوجودحق پر ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ یک دم سمجھ لیتا ہے۔ اسے فرانسیسی کم ہی سمجھ آتی ہے کہ لیکن جوکچھ بھی جرمن اور پولش بتاتے ہیں سمجھ لیتا ہے۔ اطالوی میں اشاروں سے جواب دیتا ہے، اپنی بات سمجھا دیتا ہے اور یک دم ہمدردی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کی خاطر لڑ مرتے رہنے کے باوجود بھی ہر ایک کا دوست رہتا ہے۔ اسے “معلوم” ہے کہ کس کو گمراہ کرنا ہے، کس سے کنارہ کشی کرنی ہے، کس کے جذبات کو بھڑکانا ہے اور کس کے سامنے مزاحم ہونا ہے۔ پھر بھی (اور یہ وہ خوبی ہے جس وجہ سے اس کی یاد آج بھی میرے دل میں زندہ ہے) وہ خود اخلاقی بگاڑ کا شکار نہیں ہوا۔میں نے اس میں ہمیشہ ایک ایسے امن دوست انسان کو دیکھا اور آج بھی دیکھتا ہوں جس کے خلاف ظلمت کے ہتھیار کند ثابت ہوئے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

میں نہیں جانتا میرا پڑوسی کون ہے۔ مجھے اتنا یقین بھی نہیں کہ آیا یہ ہمیشہ ایک ہی شخص ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ میں نےعلی الصبح بگل کے شور میں چند سیکنڈ کے علاوہ کبھی اس کا چہرہ نہیں دیکھا، لہٰذا میں اس کی پشت اور پیروں کو چہرے کی نسبت بہتر طور پر پہچانتا ہوں۔ و ہ میرے بلاک میں کام نہیں کرتا اور کرفیو کے اوقات میں تختۂ خواب پر پہنچتا ہے، خود کو کمبل میں لپیٹتا ہے، اپنےہڈیوں بھرے کولہے سے مجھے ایک طرف دھکا دیتے ہوئے پشت میری جانب کرتا ہے اور ایک دم خراٹے لینا شروع کر دیتا ہے۔ پشت سے پشت ملا کر میں تنکوں کے گدے کا ایک معقول حصہ واپس حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا ہوں۔ اپنی پشت سے اس کی پشت پر ایک مسلسل دباؤ ڈالتا ہوں، پھر پیچھے کروٹ لیتا ہوں اور گھٹنوں سے زور لگاتا ہوں، اس کی ایڑیاں پکڑتے ہوئے انہیں کچھ دُور رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ اس کے پیر میرے چہر ے کی بالکل ساتھ نہ چپکیں۔ مگر یہ سب کچھ بے سود ثابت ہوتا ہے کیوں کہ وہ مجھ سے کافی بھاری ہے اور عالمِ خواب میں ایک پتھر کی مانندمحسوس ہوتا ہے۔ پس میں اپنے آپ میں اسی طرح لیٹنے کی طاقت پیدا کرتا ہوں کہ لکڑی کے کنارے پر ساکت نیم درازپڑا رہوں۔تاہم تھکن سے اتنا چور اور چکرایا ہوں کہ میں بھی یک لخت سو جاتا ہوں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ریل کی پٹڑی پر محوِ خواب ہوں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سونےوالوں کے سانسوں کی آوازاور خراٹے سنے جا سکتے ہیں، کچھ کراہتے اور باتیں کرتے ہیں۔ کئی اپنے ہونٹ چاٹتے اور جبڑے ہلاتے ہیں۔ وہ خواب میں کچھ کھا رہے ہیں، یہ ایک مشترکہ خواب ہے۔ ایک سنگ دل خواب جو طنطالوس (Tantalus)کی اساطیری کہانی کے خالق کو ضرور معلوم ہو گا۔نہ صرف آپ خوراک دیکھتے ہیں بلکہ اسے ہاتھوں میں محسوس بھی کرتے ہیں، واضح اور ٹھوس، آپ اس کی شیریں اور متاثر کن مہک سے واقف ہوتے ہیں، یہاں تک کےخواب میں کوئی اسے آپ کے ہونٹوں تک پہنچا دیتا ہے، مگرہر بار ایک مختلف حادثہ حائل ہو کر اس عمل کوانجام تک نہیں پہنچنے دیتا۔ پھر خواب اپنے عناصر میں بکھر جا تا ہے، مگر یک دم پھر متشکل ہو کر دوبارہ شروع ہو جاتاہے، اسی طور، پھر بھی مختلف اور ہم سب کے مکمل دورانِ نیند میں ہر رات بلا وقفہ۔

 

اب شاید رات گیارہ بجے سے کچھ اوپر کا وقت ہو گا کیونکہ محافظ کے پاس پڑی بالٹی کے ارد گرد حرکت کافی سرگرم ہے۔ یہ ایک بیہودہ اذیت اور ایک راسخ ندامت ہے:ہر دو سے تین گھنٹے کہ بعد ہمیں پانی کے اس عظیم ذخیرے کا اخراج کرنا ہوتا ہے جو دن میں شوربے کے نام پر بھوک مٹانے کے لئے جذب کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہی پانی جو شام کے اوقات میں ہماری ایڑیوں کی سوجن اور آنکھوں کے گرد حلقوں کا باعث ہے، جو تمام چہروں کو ایک جیسی بدنمائی دیتا ہے، جس کا اخراج ہمارے گردوں کے لیے ایک نقاہت آمیز جدوجہد ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پس یوں ہماری راتیں گھسٹتی ہیں۔ طنطالوس اور اس کہانی کا خواب آپس میں غیر ممیز عکسوں کی صورت بُنے ہوئے ہیں:دن کے مصائب یعنی بھوک، مارپیٹ، سردی، تھکن، خوف اور اختلاطِ باہمی رات کو ایسے بے شکل خوفناک خوابوں کا روپ دھار لیتے ہیں جن کا تشدد ناشنیدہ ہےاور آزاد زندگی میں وہ صرف ہذیان آمیز بخار کی صورت میں پیش آتے ہیں۔ کسی غصے سے بھرپور آوازکے ناقابل ِفہم زبان میں چلاتے ہوئے حکم کے زیرِ اثرانسان، دہشت سے منجمد، کانپتے اعضاء کے ساتھ، ہر ساعت ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتا ہے۔بالٹی کی طرف سفر کرتا جلوس اور ننگی ایڑیوں کی لکڑی کے فرش پر آواز ایک اور علامتی جلوس کو تخلیق کرتے ہیں۔یہ ہم ہیں، خاکستری اور یکساں، چیونٹیوں کی طرح ننھے، پھر بھی اتنے جسیم کہ ستاروں تک پہنچ جائیں، ایک دوسرے کے ساتھ جکڑے ہوئے،لاتعداد، تاحدِنظر زمین کو پُر کرتے ہوئے، کبھی ایک واحد مادے میں پگھلتے ہوئے، ایک الم ناک صعوبت میں مقید اوردم پُخت، تو کبھی ایک دائرے میں پیش قدمی کرتے ہوئے، بغیر کسی ابتداء یا انتہا کے، ایک نابینا کر دینے والے چکر اور متلی کے ایک سمندر میں جو چھاتی سے نرخرے کو ابھرتا ہے، یہاں تک کہ بھوک یا سردی یا مثانوں کا بھرا ہونا ہمارے خوابوں کو ان کی رسمی شکلوں میں واپس لے آتا ہے۔

 

camp-misery-laaltain

جب خوفناک خواب یا صعوبتیں ہمیں جگا ڈالیں تو اُن کے حملے کے سامنے اپنی نیند کے دفاع میں مختلف عناصر کو سلجھانے اور انہیں ایک ایک کر کے اپنی حالیہ توجہ کے دائرے سے باہر بھیجنے کی کوشش بلا سود ہے۔لیکن آنکھیں بند کرتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دماغ ہمارے قابو سے باہر نکل کر اٹھ بیٹھا ہے، یہ کھٹکھٹاتا اور بھنبھناتا ہے، انتھک آسیب اور بدترین علامات بن کر انہیں کسی سرمئی دھند کی طرح ہمارے خوابوں کے پردے پر منعکس کرتا ہے۔
6۔ کام
کام کی طرف پیش قدمی کے وقت اپنے بڑے بڑے لکڑی کے جوتوں میں منجمد برف پر لنگڑاتے ہوئے ہم نے کچھ بات چیت کی تو مجھے معلوم ہوا کہ ریسنک پولینڈ کا رہنے والا ہے۔ وہ بیس سال پیرس میں رہا مگر کافی بری فرانسیسی بولتا ہے۔ اُس کی عمر تیس سال ہے مگر ہم سب کی طرح سترہ یا پچاس کا گمان ہو سکتا ہے۔اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی تھی جسے آج میں بھول چکا ہوں مگر وہ یقینا ایک الم ناک، سنگ دل اور پرتاثر کہانی تھی کیوں کہ ہم سب کی کہانیا ں ایسی ہی ہیں، تمام ایک دوسرے سے مختلف لیکن ایک ہی جیسی دل شکن کیفیت سے بھرپور۔ ہم شام کو یہ کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ یہ ناروے، اٹلی، الجیریا، یوکرائن وغیرہ میں پیش آتی ہیں اور انجیل ِمقدس کی کہانیوں کی طرح سادہ اور ناقابل فہم ہیں۔ مگر کیا یہ خود ایک نئی انجیل ہی کی کہانیاں نہیں ہیں؟
7۔ایک اچھا دن
یہ یقین کہ زندگی کا ایک مقصد ہے انسان کے رگ و پےمیں عمیق بنیادیں رکھتا ہے۔ یہ انسان کے وجود ِ حقیقی کی ایک خصوصیت ہے۔ آزاد انسان اس مقصد کو کئی نام دیتا ہے اور کئی انسان اس کی ماہیت کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں۔ مگر ہمارے لئے سوال نسبتاً سادہ ہے۔

 

آج اس جگہ ہمارا واحد مقصدموسمِ بہار تک پہنچنا ہے۔ اس وقت ہمیں اور کسی شے کی پرواہ نہیں۔اس مقصد کے علاوہ لمحۂ موجود میں اور کوئی مقصدپیش ِنظر نہیں۔ صبح جب ہم حاضری کے میدان میں قطار بنا کرکام پر نکلنے کے لئے لامتناہی انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں، جب ہوا کا ہر جھونکا کپڑوں میں سرایت کر رہا ہوتا ہے اور ہمارے بےکس جسموں میں شدید کپکپی دوڑا دیتا ہے، ہمارے ارد گرد ہر شے خاکستری ہے اور ہم خود بھی۔ صبح جب ہر شے اندھیرے میں ڈوبی ہوتی ہے تو ہم مشرق میں آسمان کی طرف ایک نسبتاً معتدل موسم کے اولین اشارات کی تلاش میں نگاہ دوڑاتے ہیں اور روزانہ سورج کے طلوع ہونے پر بحث کی جاتی ہے: آج کل کی نسبت کچھ جلدی تھا، آج کل کی نسبت کچھ گرم تھا، دو ماہ کے اندر، ایک ماہ کے اندر سردی اپنی طرف سے جنگ بندی کر دے گی اور ہمارا ایک دشمن کم ہو جائے گا۔
آج سورج پہلی بار گرد کے افق سے روشن اور صاف طلوع ہوا۔ یہ پولینڈ کا سفیدسورج ہے جو بہت فاصلے سے صرف جلد کو حدت پہنچاتا ہے۔ جب وہ غروب ہو رہا تھا تو ہمارے بے رنگ جسموں میں ایک سنسناہٹ تھی۔ جب میں نے اس کی نرم حدت اپنے کپڑوں میں محسوس کی تو میں سمجھ گیا کہ انسان سورج کی پوجا کیونکر کر سکتا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بونا(Buna) کسی شہر جتنا بڑا ہے، مہتممین اور جرمن تکنیکی ماہرین کے علاوہ چالیس ہزار غیر ملکی یہا ں کام کرتے ہیں اور پندرہ سے بیس زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تمام غیرملکی بونا کے گرد مختلف قید خانوں میں رہائش پذیر ہیں:برطانوی جنگی قیدیوں کا قیدخانہ، یوکرائنی عورتوں کا قید خانہ، فرانسیسی رضا کاروں کا قید خانہ اور دوسرے جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔ صرف ہمارا قید خانہ دس ہزار مزدور فراہم کرتا ہے جو یورپ کی تمام اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم غلاموں کے غلام ہیں جنہیں سب حکم دے سکتے ہیں اور ہمارا نام وہ نمبر ہے جسے ہم کلائی پر گندھوائےاور قمیص پر سیے پھرتے ہیں۔

 

بونا کے درمیان سے اٹھتا ہوا کاربائیڈ کا مینار جس کی چوٹی دھند کی وجہ سے بمشکل نظر آتی ہے ہم نے بنایا تھا۔ اس کی اینٹوں کے نام زیگل، بریکیس، ٹیگولا، سیگلی، کامینی، ماتون، ٹیگلاک ہیں اور یہ نفرت کی بھٹی میں پکائی گئی ہیں، نفرت اور عدم اتفاق، جیسا کہ بابل کا مینار اورہم اسے یہی کہتے ہیں:بابل تورم، بوبل تورم۔ اور اس میں ہم اپنے آقاؤں کی شان و شوکت کے دیوانے خوابوں سے نفرت کرتے ہیں، خدا اور انسان کے لئے ان کا کینہ یعنی ہم انسانوں کے لئے۔اور آج بالکل اس قدیم حکایت کی طرح ہم سب محسوس کرتے ہیں اور جرمن خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ ایک ماورائی یا الوہی نہیں بلکہ ذاتی اور تاریخی بد دعا کے سائے اس سرکش عمارت کے اوپر منڈلا رہے ہیں جس کی بنیاد زبانوں کے ابہام پر ہے اور جو آسمانوں کے مقابلے میں اس طرح اٹھائی گئی ہے جیسے کوئی پتھر کا حلف۔

 

جیسا کہ بتایا ہی جائے گا، بونا کی فیکٹری جہاں جرمن چار سال مصروف رہے اور جہاں ہم میں سے لاتعداد نے اذیتیں برداشت کیں اور جان دی، ایک پونڈ مصنوعی ربڑ بھی نہیں بنا سکی۔مگر آج وہ دائمی جوہڑ جن میں پٹرول کا ایک قوسِ قزاح جیسا پردہ کانپتا ہے، ایک پرسکون سورج کو منعکس کرتے ہیں۔پائپ، فولادی پٹڑیاں،بوائلر، جو ابھی بھی منجمد رات کے باعث سرد ہیں،بخارات ٹپکا رہے ہیں۔ کھودی ہوئی زمین، کوئلے کے ڈھیر، کنکریٹ کے بلاک بھاپ خارج کر رہے ہیں۔

 

آج کا دن ایک اچھا دن ہے۔ ہم ایسے نابینا لوگوں کی طرح ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہیں جنہیں ان کی بینائی ابھی واپس ملی ہو اور ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہیں۔ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سورج کی روشنی میں نہیں دیکھا:کوئی مسکراتا ہے۔اگر یہ بھوک کا مسئلہ نہ ہوتا تو!

 

انسانی فطرت ایسی ہے کہ غم اور کرب چاہے وہ ایک ساتھ وارد ہوں ہمارے شعور میں جمع نہیں ہوتے، بلکہ ایک معین قانونِ تناظر کے مطابق شدت میں کم تر دوسرے کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے اور کیمپ میں ہمارے زندہ رہنے کی سبیل۔ یہی وہ سبب ہے جس کے باعث ہم آزاد زندگی میں یہ بار بار سنتے ہیں کہ انسان کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔حقیقتاً یہ انسان کی مطلق سرور کی حالت کو نہ پا سکنے کی صلاحیت کا سوال نہیں بلکہ غم کی پیچیدہ نوعیت کے متعلق ایک دائمی طور پر ناکافی علم ہے، لہٰذا مخلوط اور فوری ضرورت کے تقاضوں کے تحت پیش آنےوالے تمام اسباب کو ایک بنیادی علت کے واحد نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ جب ذہنی دباؤ کی فوری ترین علت خاتمے کے قریب پہنچتی ہے تو آپ یہ دیکھ کر ایک غمگین حیرت کا شکار ہو تے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک اور موجود ہے اور حقیقت میں ایک کے بعد ایک علل کا ایک پورا سلسلہ۔

 

لہٰذا جیسے ہی خنکی جو موسم سرما کے دوران ہماری واحد دشمن تصور کی جاتی تھی ختم ہوئی تو ہمیں اپنی بھوک کا احساس ہوا، اور وہی غلطی دہراتے ہوئے ہم اب کہتے ہیں:”اگر یہ بھوک کا مسئلہ نہ ہوتا تو!۔۔۔” مگر انسان بھوکا نہ ہونے کا تصور کیسے کر سکتا ہے؟ قید خانہ بھوک ہے: ہم خود بھوک ہیں،جیتی جاگتی بھوک!
8۔ جو غرق ہوئے اور جو محفوظ رہے
ہم نے اب تک جو کچھ کہا اور کہیں گے وہ قید خانے کی مبہم زندگی کے بارے میں ہے۔ ہمارے دور میں کئی انسان اسی ظالمانہ طور پر زندہ رہے ہیں، تہہ سے چمٹے ہوئے مگر ہر ایک، نسبتاً قلیل وقت کے لئے تاکہ شاید ہم اپنے آپ سے پوچھ سکیں کہ کیا اس غیر معمولی انسانی حالت کی یاد سینے سے لگائے رکھنا واقعی ناگزیر یا سودمند ہے۔

 

a-night-mare-laaltain

ہماری نظر میں اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اصل میں ہم اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی انسانی تجربہ بے معنی یا تجزیہ کے حق سے محروم نہیں ہےاور بنیادی اقدار چاہے وہ مثبت نہ بھی ہوں اسی مخصوص دنیا سے اخذ کی جا سکتی ہیں جو ہم بیان کر رہے ہیں۔ یہ قیاس بھی ہمارے پیش نظر ہے کہ قیدخانہ بنیادی طور پر ایک عظیم الجثہ حیاتیاتی اور سماجی تجربہ تھا۔

 

مختلف عمروں، حالات، حسب و نسب، زبان، ثقافت اور رواج سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد ایک تاروں کی باڑ کے اندر محدود ہیں:یہاں یہ ایک باقاعدہ، باضابطہ زندگی گزار رہے ہیں جو ہرایک کے لئے یکساں اور ضروریات کے لئے ناکافی ہے، کسی بھی ایسی تجربہ گاہ سے زیادہ محتاط ہے جو انسانی حیوان کی جدوجہدِ حیات کے مطالعے کے لئے قائم کی گئی ہو۔

 

ہم اس واضح اور سہل ترین استخراج پر اایمان نہیں رکھتے کہ جب ہر مہذب ادارہ منہدم کیا جا چکا ہو تو انسان اپنے عمل میں بنیادی طور پروحشی، خود غرض اور احمق بن جاتا ہے، اور یہ کہ “ہیفٹلنگ” نتیجتاً امتناعات کے بغیر ایک انسان کے سوا کچھ نہیں۔اس کے برعکس ہمار ا یہ ماننا ہے کہ یہی واحد نتیجہ اخذکیا جا سکتا ہے کہ ایک متحرک ناگزیریت اور جسمانی معذوریوں کے سامنے کئی سماجی میلانات اور جبلی تقاضے خاموش ہو جاتے ہیں۔مگر ایک اور واقعہ جو فکر کو دعوت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں کی دو مخصوص اور منفرد اقسام کی موجودگی ظاہرہوتی ہے یعنی جو محفوظ رہے اور جو غرق ہوئے۔تضادات کے دوسرے جوڑے (اچھا اور برا، عقل مند اور احمق، بزدل اور بہادر، بدقسمت اور خوش قسمت) نسبتاً کم ممیز ہیں، یہ کم ناگزیر محسوس ہوتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ متعدد اور پیچیدہ وسطی درجات کو ممکن بناتے ہیں۔

 

یہ تقسیم عام زندگی میں کہیں زیادہ مبہم ہےکیونکہ وہاں ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو کھوبیٹھے۔انسان عمومی طور پر تنہا نہیں ہوتا اور اس کی کامیابیاں اور ناکامیاں اس کے پڑوسیوں کی قسمت سے جڑی ہوتی ہیں اور کسی کے لئے بھی غیر محدود طاقت کا حصول یا ایک کامل تباہی تک پہنچانے والی ایک مسلسل شکست نہایت غیر معمولی بات ہے۔مزید برآں ہر کوئی عام طور پر ایسے روحانی، جسمانی اور بلکہ معاشی وسائل تک کا مالک ہوتا ہے کہ جہاز غرق ہونے، یعنی زندگی میں مکمل ناکامی کا احتمال نسبتاً کم ہوتا ہے۔اور انسان کو قانون اور ایسے اخلاقی احساسات جو اپنے اندر ایک خودساختہ قانون رکھتے ہیں، ایک واضح سہارا بہم پہنچاتے ہیں، کیوں کہ وہ ملک زیادہ مہذب تصور کیا جاتا ہے جہاں کے قوانین کی دانائی اوراستعداد ایک کمزور انسان کو مزید کمزور ہونے اور ایک طاقتور کو مزید طاقتور ہونے سے روکے۔

 

مگر قید خانے میں حالات مختلف ہیں۔ یہاں زندہ رہنے کی جدوجہد انتھک ہے کیوں کہ ہر کوئی بے جگراور سفاک طور پرتنہا ہے۔اگر کوئی لاغر انسان لڑکھڑاتا ہے تو وہ کسی مددگار ہاتھ کا سہارا نہیں پائے گا، بلکہ اس کے برعکس کوئی نہ کوئی اسے ٹھوکر مار کرراستے سے ہٹا دے گا کیوں کہ کسی کے مفاد میں نہیں کہ ایک اور”موسلمان” (5) (Musselman) ہر روز اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا کام پر جائے۔ پھر اگر ایک وحشی انسان، صبر اور چالاکی کے ساتھ،معجزانہ طور پر، سخت ترین بیگار سے بچنے کا کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ لے، ایک نیا فن جو اسے ایک اونس ڈبل روٹی کے حصول میں مدد دے، تو وہ اس طریقے کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرے گا اور اس لئے عزت اور توقیر کا مستحق ٹھہرے گا، اور اس سے وہ ایک امتیازی اور ذاتی مفاد اخذ کرے گا، وہ طاقتور ہو جائے گا اور اسی لئے خوف کا باعث ہو گا اور جو بھی باعثِ خوف ہو وہ فی نفسہٖ بقا کا امیدوار ہے۔

 

کیمپوں میں زندہ رہنے کی ان تھک محنت
کیمپوں میں زندہ رہنے کی ان تھک محنت
تاریخ اور زندگی دونوں میں انسان کئی بار ایک ایسے سفاک قانون کی جھلک دیکھتا ہے جس کا قاعدہ یہ ہے:”وہ جس کے پاس ہےاسے دے دیا جائے گا، وہ جس کے پاس نہیں ہے اس سے لے لیا جائے گا۔” قیدخانہ جہاں انسان تنہا ہے اور جہاں زندگی کی جدوجہد اس کی اولین ماہیت تک محدود ہے یہ بےانصاف قانون کھلم کھلا رائج ہے اور سب اسے تسلیم کرتے ہیں۔ مفاد کی امیدمیں قائدین بھی مطابقت پذیر، طاقتور اور زیرک افراد کے ساتھ دانستہ تعلق رکھتے ہیں اور کئی دفعہ دوستانہ تعلقات۔مگر”موسلمان” یعنی وہ افراد جو بربادی کا شکار ہیں، ان سے بات کرنا بھی بے فائدہ ہے کیوں کہ یہ پہلے ہی معلوم ہے کہ وہ گلے شکوے کریں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر میں کیا کھایا کرتے تھے۔اس سے بھی زیادہ بے فائدہ ان سے دوستی ہے کیونکہ کیمپ میں ان کے کوئی معزز شناسا نہیں ہیں، انہیں زیادہ راشن نہیں ملتا، وہ کسی خفیہ بلاک میں کام نہیں کرتے اور انہیں تنظیم کا کوئی خفیہ طریقہ معلوم نہیں۔اور کسی بھی حالت میں یہ معلوم ہے وہ یہاں محض ایک سفر پر ہیں اور کچھ ہی ہفتوں میں کسی نزدیک میدان میں مٹھی بھر راکھ اور ایک رجسٹر میں کٹے ہوئے نمبر کے علاوہ ان کا کچھ نہیں بچے گا۔ گو وہ ایک بھنور میں پھنسے کسی سکون کے بغیر ایک ایسےان گنت ہجوم کے ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں جو انہی جیسا ہے، وہ اذیت برداشت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک شفاف گہری تنہائی میں مقید رکھتے ہیں اور اسی تنہائی میں، کسی یادداشت میں اپنا اثر چھوڑے بغیر وہ غائب ہو جائیں گے یا ان کی موت ہو گی۔

 

فطری چناؤ کا بے رحم طریقہ
فطری چناؤ کا بے رحم طریقہ
قیدخانے کے فطری چناؤ کے اس بے رحم طریقے سے حاصل ہونے والے نتائج کا مطالعہ اس مردم شماری میں کیا جا سکتا ہے۔1944 میں آشوٹز کے پرانے یہودی قیدیوں (یہاں ہم دوسروں کا ذکر نہیں کریں گے کیوں کہ ان کی حالت مختلف تھی) کی کل تعداد 150000 تھی۔ ان میں سے جوچند سو بچے ان میں کوئی ایک بھی ایسا عام “ہیفٹلنگ” نہ تھا جو عام بلاکوں میں نشونما پائے اور روزمرہ کے راشن پر زندہ ہو۔صرف ایسے لوگ بچے جو ڈاکٹر، درزی، موچی، موسیقار، باورچی، جوان خوبصورت ہم جنس پرست، کیمپ کے کسی اہلکار کے دوست یا ہم وطن تھے، یا پھر وہ خاص طور پر بے رحم، پر جوش اور غیرانسانی افراد تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

غرق ہونا آسان ترین معاملہ ہے۔ یہی کافی ہےکہ تمام احکام بجا لائے جائیں، صرف راشن کھایا جائے، بیگار کے قواعد اور کیمپ کے قوانین کی پابندی کی جائے۔ تجربہ یہ کہتا ہے کہ صرف چند غیرمعمولی لوگ ہی اس طرح تین ماہ سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ان تمام” موسلمانوں” کی یہی کہانی ہے جن کا اختتام گیس چیمبروں میں ہوا یا مزید درست طور پربات کی جائے تو ان کی کوئی بھی کہانی نہیں ہے، وہ ان ندیوں کی طرح جو سمندر میں گرتی ہیں، ڈھلوان پر سفر کرتے ہوئےتہہ تک پہنچے۔ کیمپ میں داخلے کے ساتھ ہی اپنی ناقابلیت، بدقسمتی یا کسی معمولی واقعے کی وجہ سے وہ مغلوب ہو جاتے ہیں، پیشتر اس کے کہ وہ حالات سے مطابقت پیدا کر سکیں، وہ وقت سے مار کھا جاتے ہیں، وہ قوانین اور ممنوعات کی شیطانی گرہ کھولنے کے لئے جرمن زبان سیکھنا شروع بھی نہیں کرتے کہ ان کا جسم پہلے ہی گلنا سڑنا شروع ہو چکا ہوتا ہےاور کوئی قوت انہیں چناؤ یا ضعف کے نتیجے میں موت سے نہیں بچا سکتی۔ان کی زندگی مختصر ہے مگر ان کی تعداد لا انتہاء، یہ “موسلمان”، یہ غرق ہونے والے، کیمپ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ایک گمنام جمِ غفیر، مسلسل احیا ءپذیر اور ہمیشہ یکساں، غیر انسانی افراد پر مشتمل جو خاموشی میں ڈوبے ہوئے پیش قدمی اور مشقت کرتے ہیں، شعلہء ملکوتی ان میں مردہ ہے، پہلے ہی سےاتنے کھوکھلے کہ حقیقتاً اذیت بھی برداشت نہ کرسکیں۔ انہیں زندہ کہتے ہوئے جھجک ہوتی ہے، ان کی موت کو موت کہتے ہوئے جھجک ہوتی ہے، جس کا سامنا کرتے ہوئے انہیں کوئی خوف نہیں کیوں کہ وہ تھکن کی شدت میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں۔
وہ اپنی بے چہرہ موجودگیوں سے میری یادداشت کو بھر دیتے ہیں اور اگر میں اپنے زمانےکی تمام بدی کو ایک عکس میں مجتمع کر سکوں تو میں یہ عکس چنوں گا جو میرا جانا پہچانا ہے: ایک جھکے سر اور منحنی کندھوں والا لاغر انسان جس کے چہرے اور آنکھوں میں کسی خیال کا کوئی اثر نہیں دیکھا جا سکتا۔

 

اگر غرق ہوجانے والوں کی کوئی داستان نہیں اور بربادی کو جاتا راستہ واحد اور چوڑا ہے تو نجات کی سمت جاتی راہیں متعدد، کٹھن اور بعید ازقیاس ہیں۔
9۔ کیمیائی امتحان
پان وِٹز دراز قد، دبلا پتلا اور بھورے بالوں والا ہے، اس کی آنکھیں، بال اور ناک اسی طرح ہیں جس طرح تمام جرمنوں کے ہونے چاہئیں، وہ بھیانک طور پر ایک پیچیدہ میز کے پیچھے بیٹھا ہے۔ میں ہیفٹلنگ نمبر 174517 اس کے دفتر میں کھڑا ہوں جو کہ ایک حقیقی دفتر ہے، چمکدار، صاف و شفاف، منظم اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں جس شے کو بھی چھوؤں گا وہاں ایک غلیظ دھبہ چھوڑ دوں گا۔

 

اس نے لکھنا ختم کیا،نظریں اوپر اٹھائیں، اور میری طرف دیکھا۔
اس دن سے میں نے ڈاکٹر پان وِٹز کے بارے میں کئی بار اور کئی طور سےسوچا۔ میں نے اپنے آپ سے بار بار پوچھا ہے کہ اس نے ایک انسان کی حیثیت سے کس طرح کام کیا، کس طرح اس نے اپنا وقت پولیمرسازی اورہندآلمانی شعور سے باہر گزارا، سب سے بڑھ کر یہ دوبارہ آزاد انسان بننے پر مجھے کسی انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ انسانی روح کے بارے میں محض ایک ذاتی تجسس کی تسکین کی خاطراس سے دوبارہ ملنے کی آرزوتھی۔ کیونکہ وہ نگاہ دونوں افراد کے مابین یکساں نہیں تھی، اور اگر میں اس نگاہ کی نوعیت مکمل طور پر بیان کر نے قابل ہوتا، جو کچھ اس طرح تھی جیسے کسی پن گھر کے شیشے کے آر پار دو مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھنے والی ہستیوں کے مابین ہو، تو میں نازی جرمنی کی عظیم دیوانگی کی ماہیت بھی واضح کر سکوں گا۔
10۔ اکتوبر 1944
ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ موسم سرما کی آمد کے خلاف برسرپیکار رہے۔ گرم ساعتوں سے مضبوطی سے چمٹے رہے، ہر جھٹ پٹے کے وقت ہم سورج کو آسمان پر کچھ دیر اور روکے رکھنے کی کوشش کرتے رہے، مگر سب بیکار رہا۔ کل شام سورج ناقابل تنسیخ طور پر گدلے بادلوں، چمنیوں کے ڈھیر اور گنجلگ تاروں کے بے ترتیب انتشار کے پیچھے چھپ گیا اور آج موسم سرما کا آغاز ہے۔

 

چونکہ ہم پچھلے موسمِ سرما میں بھی یہیں تھے اس لیے ہم جانتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں، اور دوسرے بھی یہ جلد ی ہی جان لیں گے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگلے کچھ ماہ یعنی کہ اکتوبر تا اپریل ہم میں سے ہر دس میں سے سات اپنی جان کھو بیٹھیں گے۔جو نہیں مرے گا وہ ہر روز،تمام دن، لمحہ بہ لمحہ اذیت برداشت کرے گا۔ سحر پھوٹنے سے بھی پہلے سے شام شوربہ تقسیم ہونے تک ہمیں اپنے پٹھوں کو تنا ہوا رکھنا ہے، ایک پاؤں سے دوسرے پر رقص کرنا ہے، اپنے بازوؤں کو کندھوں تلے سردی کےبچاؤ میں دبائے رکھنا ہے۔ دستانوں کے حصول کی خاطر ہمیں ڈبل روٹی کو خرچ کرنا ہے، اور سلائی اکھڑنے پر ان کی مرمت کے لئے سونے کے اوقات کی قربانی دینی ہے۔ کیوں کہ کھلے آسمان تلے کھانا اب ناممکن ہو گا، ہمیں جھونپڑے میں کھڑے رہ کر کھانا کھانا ہو گا، ہر ایک کو زمین کا ہاتھ برابر حصہ مختص کر دیا جائے گا کیونکہ خوابی تختوں سے ٹیک لگانے کی ممانعت ہے۔ہر ہاتھ میں زخم کھل جا ئیں گے اور پٹی کروانے کا مطلب ہو گاہر شام گھنٹوں برف اور ہوا میں کھڑے رہ کر انتظار۔

 

بالکل اسی طرح جیسے ہماری بھوک کا معنی خوراک کی طلب کا احساس نہیں، ہمارے سرد ہونے کا احساس بھی ایک نئے لفظ کا متقاضی ہے۔ جب ہم “بھوک”، “تھکن”، “خوف”، “درد”، یا “سرما” بولتے ہیں تو یہ بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ یہ آزاد الفاظ ہیں جو اپنے گھروں کی سکون اور اذیت میں رہنے والےآزاد انسانوں کے تخلیق کردہ ہیں۔اگر یہ نازی قیدخانے زیادہ دیر رہے ہوتے تو ایک نئی، کرخت زبان وجود میں آتی اور صرف وہ زبان یہ بیان کرسکتی کہ تمام دن نقطہء انجماد سے نیچے سرد ہوا میں صرف ایک قمیص، زیرجامہ، کپڑے کی جیکٹ اور پتلون میں ملبوس مشقت کے کیا معنی ہیں، اور اس وقت جب انسان کے جسم میں کمزوری، بھوک اور قریب آتے انجام کے علم کے سوا کچھ نہ ہو۔

 

جیسے کوئی امید ٹوٹ جائے اسی طور آج صبح سردی آ گئی۔ ہمیں تب پتہ چلا جب ہم جھونپڑے سے صفائی ستھرائی کے لئے نکلے:ستارے غائب تھے، سیاہ سرد ہوا میں برف کی بُو تھی۔ علی الصبح اندھیرے میں جب بیگار پر روانہ ہونے سے پہلے ہم حاضری کے میدان میں جمع ہوئے تو سب خاموش تھے۔ جب ہماری نگاہ برف کے پہلے گالوں پر پڑی تو خیال آیا کہ اگر پچھلے سال اسی وقت اِنہوں نے ہمیں بتایا ہوتا کہ ہم اگلے سال کا موسم سرما بھی قیدخانے میں دیکھیں گے تو ہم نے جا کر برقی تاروں کی باڑ کو ہاتھ لگا لیا ہوتا، اور اگر ہم منطقی ہوتے اور وہ آخری غیر معقول ناگزیر بچی کچھی امید نہ ہوتی تو ہمیں آج بھی یہ کر گزرنا چاہئے۔

 

کیونکہ سرما کےایک اورمعنی بھی ہیں۔

 

پچھلی بہار میں جرمنوں نے قید خانے کی ایک کھلی جگہ میں دوکشادہ خیمے تعمیر کئے تھے۔ بہار کا پورا موسم یہ دونوں خیمے ایک ہزار سے زیادہ افرادکے لئے کافی تھے:اب وہ دونوں ڈھائے جا چکے ہیں اور مزید دو ہزار سے زیادہ مہمان ہمارے جھونپڑوں میں جمع ہیں۔ ہم پرانے قیدی جانتے تھے کہ جرمن بےقاعدگیاں پسند نہیں کرتے اور اس تعداد کو کم کرنے کے لئے جلد ہی کچھ نہ کچھ ہو گا۔

 

چناؤ کی آمد محسوس کی جا سکتی ہے۔ “سلیک جا” (6) ایک لاطینی اور پولینڈ کے مآخذ رکھنے والا مختلف النوع لفظ ایک دفعہ، دو دفعہ بلکہ کئی دفعہ غیر ملکی مکالموں میں سنا جا سکتا ہے۔پہلے پہل ہم اس کو شناخت نہیں کر سکتے لیکن پھریہ ہماری توجہ پر حاوی ہوتا ہے اور بالآخر ہمیں ستا کر چھوڑتا ہے۔

 

آج صبح پولینڈ والوں نے”سلیک جا” بولا۔ وہ پہلے ہیں جنہیں یہ خبر ملی اور وہ عمومی طور پر اسے نہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ دوسروں سے پہلےکچھ معلوم ہونا ہمیشہ مفید ہوتا ہے۔ جب تک ہر کسی کو اس بات کا شعور ہو کہ ایک چناؤ ہونے والا ہے، اس سے بچنے کے کچھ ممکنات تک (کسی ڈاکٹر یا اہلکار کو ڈبل روٹی یا تمباکو کے ذریعے آمادہ کرنا، جھونپڑے سے شفاخانے منتقلی یا کسی صحیح وقت پر شفاخانے سے جھونپڑے میں تبادلہ تاکہ چناؤ کمیشن سے ٹکراؤ نہ ہو) ان کی رسائی ہو گی۔

 

آنے والے کچھ دنوں میں قید خانے اور میدان کا ماحول “سلیک جا ” سے بھر چکا ہے:کسی کو قطعی طور پرکچھ نہیں معلوم مگر سب اس کے بارے میں بات کرتے ہیں، پولینڈ والے، اطالوی، فرانسیسی مزدور جنہیں ہم خفیہ طور پر میدان میں دیکھ سکتے ہیں۔پھر بھی نتیجہ دل شکستگی ہر گز نہیں ہے:ہمارا مجموعی حوصلہ اس قدر غیر برجستہ اور زمیں بوس ہے کہ غیر متوازن ہونا ناممکن ہے۔بھوک، سردی اور کام کے خلاف جنگ،سوچ کے لئے شاذ و نادر ہی کوئی جگہ چھوڑتی ہے۔ہر ایک کا رد عمل یکساں ہے مگر شاید ہی کوئی مایوس یا راضی برضا ہو۔ جوبھی کوئی بچاؤ کی راہ ااپنا سکتا ہے وہ اس کی کوشش کرتا ہے مگر ایسے لوگ اقلیت میں ہیں کیوں کہ کسی چناؤ سے بچنا نہایت مشکل ہے۔جرمن ان معاملات میں نہایت مہارت اور محتاط رویہ رکھتے ہیں۔

 

مادی طور پر جو بھی اس کی تیاری کے قابل نہیں وہ اپنا دفاع کہیں اور ڈھونڈتا ہے۔ہم لیٹرینوں، نہانے کے کمروں میں ایک دوسرے کو اپنے سینے، اپنے کولہے، اپنی رانیں دکھاتے ہیں اور ہمارے رفیق ہماری ہمت بندھاتے ہیں:”تم بالکل ٹھیک ہو، اس دفعہ یقیناً تمہاری باری نہیں آئے گی۔۔۔۔ تم” موسلمان” نہیں۔۔۔۔اب کے شاید میری باری ہو”۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنی گرہیں کھولتے ہیں اور قمیصیں اوپر کرتے ہیں۔کوئی کسی کے خلوص کونہیں ٹھکراتا۔ کسی کو اپنے بارے میں اتنا یقین نہیں کہ دوسرے کو معتوب ٹھہرا سکے۔ میں نے بڑی بے حیائی سےبوڑھے ورتھیمر سے جھوٹ بولا، میں نے اسے بتایا کہ اگر وہ اس سے پوچھ گچھ کرتے ہیں تو اسے جواب دینا چاہیے کہ اس کی عمر پینتالیس سال ہے اور چاہے اسے ڈبل روٹی کے ایک چوتھائی راشن سے ہاتھ بھی دھونے پڑتے،اسے کل شام داڑھی بنانا نہیں بھولنا چاہیے تھا، اس کے علاوہ اسے کوئی خوف نہیں ہونا چاہئے، اور پھر کسی بھی حالت میں یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ چناؤ گیس چیمبر کے لئے ہے، کیا اس نے بلاک کے قائد کو یہ کہتے نہیں سنا کہ چنے گئے افراد جاوورزنو (Jaworzono)میں افاقہ یاب لوگوں کے کیمپ میں بھیجے جائیں گے؟

 

ورتھیمر کو امید دلانا بے معنی ہے۔عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہے، نسیں پھولی ہوئی اور موٹی ہیں، اب تو وہ شاذ ہی بھوک محسوس کرتا ہے۔ مگر اپنے بستر پر غیر مضطرب اور خاموش لیٹ جاتا ہے، اور میرے جیسے کسی اور شخص کو جواب دینے لگتا ہے۔ آج کل یہ کیمپ کے احکامی الفاظ ہیں:میں کاجیم کی بتائی ہوئی تفصیلات سے قطع نظر ان کو دہراتا رہتا ہوں،کاجیم جو تین سال سے قید خانے میں ہے اور مضبوط اور صحت مند ہونے کے باعث پُر یقین ہے۔ میں اس کی بات پر یقین رکھتا ہوں۔

 

انہیں نازک بنیادوں پر میں بھی ناقابل فہم طمانیت کے ساتھ اکتوبر 1944کے چناؤ سے بچ نکلا۔ میں پر سکون تھا کیونکہ میں اپنے آپ سے کافی جھوٹ بول سکتا تھا۔ مجھے نہ چنا جانا خالصتاً اتفاق پر مبنی تھا اور اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ میرا ایمان ٹھوس بنیادوں پر قائم تھا۔

 

موسیو پینکرٹ بھی پہلے ہی سے معتوب نظر آتے ہیں:ان کی آنکھوں میں دیکھنا ہی کافی ہے۔وہ مجھے اشارے سے بلاتے ہیں اور ایک خفیہ انداز میں بتاتے ہیں کہ وہ اس خبر کا منبع تو نہیں بتا سکتے مگر انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ اس بار حقیقتاً کچھ نیا ہو گا۔ مختصراً یہ کہ وہ ذاتی طور پر مطلقاً ضمانت دیتے ہیں کہ وہ اور میں ہر خطرے سے باہر ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر معلوم ہے، ان کا تعلق وارسا میں غیر عسکری فرد کی حیثیت سے بیلجیم کے سفارت خانے سے تھا۔

 

لہٰذا اسی طرز پریہ ایامِ سوگ جن کا بیان کرنا انسانی کرب کی تمام حدود پار کرنے کے برابر ہے، دوسرے دنوں سے کچھ خاص مختلف نہ تھے۔قیدخانے اور بونا میں نظم وضبط میں کوئی کمی نہیں آئی:بیگار، سردی اور بھوک ہر فکری ساعت کو پُر کرنے کے لئے کافی ہیں۔

 

آج کا اتوار کام کا دن ہے۔ ہم دن ایک بجے تک کام کرتے ہیں، پھر نہانے، داڑھی بنانے اور جلدی بیماریوں اور جوؤں وغیرہ کے عمومی حفاظتی اقدامات کے لئے کیمپ آتے ہیں۔ احاطوں میں ہر ایک کو معلوم ہے کہ آج چناؤ کا دن ہے۔

 

ہمیشہ کی طرح یہ خبر متضاد اور مشتبہ تفصیلات کے ہالے میں گھری ہم تک پہنچی:شفاخانے میں آج صبح چناؤ ہوا، شرح پورے کیمپ کا سات فی صد تھی، مریضوں کا پینتیس فی صد۔ برکیناؤ میں شمشان بھٹی دس دن سےدھواں اگل رہی ہے۔ پوزنان کے یہودی باڑے سے آنے والے ایک ضخیم قافلے کے لئے جگہ بنانا مقصود ہے۔ جوان جوانوں سے کہتے ہیں کہ تمام عمر رسیدہ چن لئے جائیں گے۔ صحت مند صحت مندوں سے مخاطب ہیں کہ صرف بیماروں کو چنا جائے گا۔متخصصین مستثنیٰ ہوں گے۔ جرمن یہودی مستثنیٰ ہوں گے۔نمبروں کے قلیل سلسلے مستثنیٰ ہوں گے۔ تمہیں چن لیا جائے گا۔ میں مستثنیٰ ہوں گا۔

 

پورے ایک بجے احاطہ قرینے سے خالی کر لیا گیا اور دو گھنٹےنہ ختم ہونے والی خاکستری فوجی قطاریں ان دو کنٹرول اسٹیشنوں کے سامنے سے گزرتی رہیں جہاں ہر روز ہماری دو بار گنتی ہوتی ہے، اور اس فوجی بینڈ کے سامنے سے جو ہر روز بلا وقفہ بجتا رہتا ہے تاکہ ہم داخلے اور اخراج کے وقت اس سے قدم ملا سکیں۔آج بھی روز کی طرح کا معمول ہے، باورچی خانے کی چمنی سے اسی طرح دھواں نکل رہا ہے، شوربےکی تقسیم بس شروع ہونے کے قریب ہے۔مگر پھر گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور ہمیں سمجھ آتا ہےکہ ہم منزل پر پہنچ گئے ہیں۔

 

کیونکہ یہ گھنٹی جب پو پھٹنے پر سنائی دیتی ہے تو اس کے معنی ہمیشہ حاضری کے بگل کے ہوتے ہیں، مگر اگر یہ آواز دن میں سنائی دے تو اس کا مطلب جھونپڑوں میں بند رہنا ہوتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب کسی چناؤ سے کسی کو نہ بچ نکلنے دینا مقصود ہو، یا گیس کے لئے چنے گئے قیدیوں کو کوچ کے وقت پیچھے رہ جانے والوں کی نظروں سے اوجھل رکھنا مقصود ہو۔

 

ہمارے بلاک کا قائد اپنا کام جانتا ہے۔ اس نے اطمینان کیا کہ تمام لوگ داخل ہو چکے ہیں، وہ دروازہ بند کر چکا ہے، وہ ہر ایک کو اس کا کارڈ دے چکا ہے جس پر اس کا نمبر، نام، پیشہ، عمر اور قومیت درج ہے۔ اس نے ہر ایک کو جوتوں کے علاوہ مکمل برہنہ ہونے کا حکم دے دیا ہے۔ہم اسی طرح برہنہ، کارڈ اپنے ہاتھوں میں پکڑے، کمیشن کے ہمارے جھونپڑے تک پہنچنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہمارا جھونپڑا نمبر 48 ہے،مگر کوئی نہیں کہ سکتا کہ وہ نمبر ۱ سے آغاز کریں گے یا نمبر 60 سے۔کسی بھی صورت میں ہم کم از کم ایک گھنٹہ خاموشی سے آرام کر سکتے ہیں، اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم تختوں پر موجود کمبلوں میں نہ گھس جائیں اور گرم رہیں۔

 

جب احکامات، اعلانات اور ضربوں کے سیلاب کے ذریعے کمیشن کی متوقع آمد کا اعلان ہوا تو کئی لوگ پہلے ہی سے اونگھ رہے تھے۔قائد اور اس کے مددگار خواب گاہ کی ایک سمت سے شروع ہوئے اور خوف زدہ برہنہ لوگوں کے ہجوم کو ہانکتے ہوئے کوارٹر ماسٹر کے دفتر میں لے گئے۔اس کمرے کا طول و عرض بالترتیب سات اور چار گز ہے۔ ہجوم رکا تو انسانوں کا ایک گرم انبار اس طرح پھنس چکا تھا کہ لکڑی کی دیواریں چٹخ رہی تھیں۔

 

اب ہم سب اس دفتر میں ہیں اور ڈرنے کے لیے وقت نہ ہونے کے علاوہ کوئی ایسی جگہ بھی نہیں جہاں ڈرا جا سکے۔ ہر طرف گرم گوشت کا دباؤ غیر معمولی ضرور ہے مگر نا خوشگوار نہیں۔ انسان کو سانس لینے کے لئے اپنی ناک کو اوپر رکھنا پڑتا ہے، اپنے آپ کو لڑکھڑانے سے بچانا ہے مبادا کہیں کارڈ ہاتھ سے گر جائے۔

 

قائد ساتھ والا دروازہ بند اور دوسرے دوکھول چکا ہے جو خواب گاہ اور دفتر سے باہر کی طرف جاتے ہیں۔یہاں ان دو دروازوں کے درمیان ہماری قسمت کا مختارِ کل یعنی “ایس ایس” کا ایک ماتحت افسرکھڑا ہے۔ اس کے دائیں جانب بلاک کا قائد اور بائیں جانب کوارٹر ماسٹر موجود ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی جب برہنہ دفتر سے باہراکتوبر کی سرد ہوا میں آئے گا تو اسے دونوں دروازوں کے درمیان کچھ قدم بھاگنا ہے، اپنا کارڈافسر کے حوالے کرنا ہے اور خواب گاہ کے دروازے سے اندر داخل ہو جانا ہے۔”ایس ایس” کے افسر نے اس دوران سیکنڈ کے کچھ حصے میں کسی کی پشت اور سامنے کی ایک جھلک دیکھ کر اپنا فیصلہ سنا دیناہے، اور کارڈ اپنے دائیں یا بائیں پکڑا دینا ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کی زندگی یا موت ہے۔تین یا چار منٹ میں دو سو افراد کا ایک جھونپڑا “ختم” ہو جائے گا اور اس طرح ایک دوپہر میں بارہ ہزار افرادکا مکمل کیمپ۔ اسی دفتر میں اپنے اردگرد انسانی دباؤ برداشت کرتے کرتے آخر کار میری باری آ گئی۔ ہر کسی کی طرح میں بھی ایک چست اور لچک دار چال کے ساتھ، اپنا سر اوپر رکھنے، سینہ آگے رکھنے، پٹھے واضح اور تنے رکھنے کی کوشش کرتے ہوئےگزر گیا۔اپنی آنکھ کے کونے سے میں نے اپنے کندھے کے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو میرا کارڈ مجھے دائیں جانب جاتا محسوس ہوا۔

 

خواب گاہ میں آتے ہی ہمیں کپڑے پہننے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابھی کوئی حتمی طور پر اپنی قسمت کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا، سب سے پہلے تو یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ معتوب کارڈ دائیں جانب والے ہیں یا بائیں جانب والے۔اب چھوٹے چھوٹے توہماتی سہاروں کے ذریعے ایک دوسرے کی ہمت بندھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہر ایک سب سے زیادہ عمر رسیدہ، سب سے زیادہ لاغر اور سب سے زیادہ “موسلمان” کے گرد جمع ہے۔ اگر ان کے کارڈ بائیں جانب گئے تو پھر یقیناً یہی معتوب ہونے والا رخ ہے۔بلکہ چناؤ سے بھی پہلے ہر کوئی جانتا تھا کہ بائیاں رخ چناؤ کا ہے، بُرا رخ؟ قدرتاً کچھ بے قاعدگیا ں ضرور ہوں گی۔مثلاً رینی جو کہ جوان اور مضبوط ہے بائیں جانب پہنچا، شاید اس کی وجہ اس کی عینک ہو، شاید اس لئے کہ وہ کسی کمزور نظر والے کی طرح جھک کر چلتا ہے، مگر سب سے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ ایک سادہ سی غلطی تھی۔ رینی مجھ سے پہلے کمیشن کے سامنے سے گزرا اور ہمارے کارڈوں کے ساتھ کوئی گھپلا ہو سکتا تھا۔ میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں، البرٹو سے مشورہ کرتا ہوں، اور ہم اتفاق کرتے ہیں کہ یہ مفروضہ قرین قیاس ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں کل اور اس کے بعد کیا سوچوں گا،مگر آج میں کوئی واضح جذبہ نہیں رکھتا۔

 

اسی طرح کی کوئی غلطی شاید سیٹلر کے ساتھ بھی ہوئی، ایک لحیم شحیم ہنگری کا کسان جو صرف دس دن پہلے اپنے گھر میں تھا۔ سیٹلر جرمن زبان نہیں سمجھتا، جو کچھ بھی پیش آیا ہے،وہ نہیں سمجھ سکا اور ایک کونے میں کھڑا اپنی قمیص سینے میں مصروف ہے۔کیامیں اس کے پاس جاؤں اور اسے بتاؤں کہ اس کی قمیص کا مزید کوئی فائدہ نہیں؟

 

ان غلطیوں کے بارے میں کچھ حیران کن نہیں۔امتحان بہت فوری اور اجمالی تھا اور کسی بھی حالت میں قید خانے کے لئے اہم یہ نہیں کہ زیادہ غیر مفید قیدیوں کو تلف کر دیا جائے بلکہ یہ کہ کسی خاص طے شدہ تناسب کے تحت خالی جگہیں تخلیق کی جائیں۔

 

اب ہمارے جھونپڑے میں چناؤ ختم ہو چکا ہے مگر دوسروں میں جاری ہے لہٰذا ہم اب بھی مقفل ہیں۔ مگر چونکہ سُوپ کے پیالے اس دوران آ چکے ہیں لہٰذا ہمارے قائد کا فیصلہ ہے کہ تقسیم فی الفور شروع کی جائے۔چنے ہوؤں کو دوگنا راشن دیا جائے گا۔میں یہ کبھی دریافت نہیں کر سکا کہ یہ قائد کا اپنامضحکہ خیز خیراتی اقدام تھا یا” ایس ایس” کا ایک دو ٹوک ضابطہ، مگرواقعہ یہی تھا کہ چناؤ سے کُوچ کے درمیان دو یا تین دن (کئی بار اس سے بھی زیادہ) مونووٹزز آشوٹز میں موجود شکاروں کو اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کاموقع دیا جاتا تھا۔

 

زیگلر اپنا عمومی راشن حاصل کر کے پیالہ اٹھائے انتظار میں کھڑا ہے۔ “تم کیا چاہتے ہو؟” قائد پوچھتا ہے۔ اس کے مطابق زیگلر کسی ضمیمے کا حقدار نہیں ہے سو وہ اس کو دور دھکیل دیتا ہے مگر زیگلر واپس آ جاتا ہے اور عاجزی سے اصرار کرتا ہے۔ وہ بائیں جانب تھا، ہر کسی نے دیکھا ہے، قائد کو کارڈ دیکھ لینے چاہئیں، اسے دوگنے راشن کا حق ہے۔جب اسے یہ دے دیا جاتا ہے تو وہ خاموشی سے اپنے تختے کی طرف کھانے کے لئے چلا جاتا ہے۔

 

اب ہر کوئی چمچ سے اپنے پیالے کی تہہ صاف کر رہا ہے تاکہ آخری ذرات ضائع نہ ہو جائیں، ایک مبہم دھاتی کھڑکھڑاہٹ سنائی دے رہی ہےجو دن کے اختتام کی علامت ہے۔آہستہ آہستہ خاموشی چھا جاتی ہےاور پھر میں اپنے اوپر کی قطار والے تختے سے بوڑھے کوہن کو اپنی ٹوپی پہنے آگے پیچھے زور سے ہلتے ہوئے،اونچی آواز میں دعا مانگتے دیکھتا اور سنتا ہوں۔ کوہن خدا کا شکر ادا کر رہا ہے کہ وہ نہیں چنا گیا۔

 

کوہن اپنی حواس سے باہر ہے۔کیا وہ بیپو یونانی کو اپنے ساتھ والے تختے پر نہیں دیکھ سکتا، وہی بیپو جس کی عمر بیس سال ہے، جسے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ پرسوں گیس چیمبر میں جا رہا ہے، اور وہ وہاں روشنی پر آنکھیں جمائے، کچھ کہے سوچے بغیر لیٹا ہے؟ کیا کوہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگلی باری اس کی ہو گی؟ کیا کوہن نہیں سمجھتا کہ جو کچھ آج ہوا وہ ایک کراہت آمیز حقیقت ہے جسے کوئی مصالحت آمیز دعا، کوئی توبہ، کسی گناہ گار کا کفارہ، کوئی بھی انسانی طاقت کبھی بھی پاک نہیں کر سکتی؟

 

اگر میں خدا ہوتا تو کوہن کی دعا پر تھوک دیتا۔
11۔ تجربہ گاہ کے تین آدمی
لیبارٹری میں حرارت کا بہترین انتظام ہے۔ تھرمامیٹر 65 ڈگری بتا رہا ہے۔ ہم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہم سے شیشے کے آلات دھلوا سکتے ہیں، زمین پر جھاڑو لگوا سکتے ہیں، ہائیڈروجن کی صراحیاں اٹھوا سکتے ہیں، کچھ بھی ایسا جو ہمیں یہاں رہنے دے اور سردی کا مسئلہ حل کر دے۔ پھر اس کے بعد بھوک کا مسئلہ حل کرنا بھی بہت مشکل ثابت نہ ہو گا۔کیا وہ واقعی روزانہ اخراج کے وقت ہماری تلاشی لینا چاہیں گے؟ اور اگر لینا بھی چاہیں، تو کیا وہ ہمیشہ ایسا کریں گے جب بھی ہم لیٹرین جانے کی اجازت طلب کریں؟ ظاہر ہے نہیں۔ اور پھر یہاں صابن، پیٹرول اور الکحل بھی ہے۔ میں اپنی جیکٹ کے اندر ایک خفیہ جیب سی لوں گا اور اس برطانوی آدمی سے تعلق پیدا کروں گا جو مرمت کے احاطے میں کام کرتا ہے اور پیٹرول کی تجارت کرتا ہے۔ہم دیکھیں گے کہ نگرانی کتنی سخت ہے،تاہم میں اب تک قید خانے میں ایک سال گزار چکا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اگر کوئی چوری کرنا چاہے، اور سنجیدگی سے اپنا ذہن اس پر مائل کر لے، تو کوئی نگرانی یا تلاشی اس کو نہیں روک سکتی۔

 

3

لہٰذا اب یوں محسوس ہوتا ہے گویا قسمت نے ایک غیر مشتبہ راستے سے یہ انتظام کر دیا ہو کہ ہم تین،جو باقی دس ہزار معتوبین کے لئے قابل رشک ہیں، اس موسم سرما میں سردی اور بھوک کی اذیت سے بچے رہیں۔اس کا مطلب ہےیہ مضبوط احتمال، کہ ہم شدید بیمار ی، انجماد اور چناؤ سے بچے رہیں گے۔ان حالات میں قید خانے کے معاملات کے بارے میں ہم سے کم تجربہ کار لوگ بقا اور آزادی کی امید رکھیں گے۔ مگر ہم ایسے نہیں ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ یہ معاملات کس طرح پیش آتے ہیں، یہ سب کچھ قسمت کا تحفہ ہے تاکہ ایک ہی دفعہ جتنا ممکن ہو اس کا لطف اٹھایا جائے کیونکہ کل کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔میرے ہاتھ سے ٹوٹنے والاپہلا شیشہ، پیمائش کی پہلی غلطی، پہلا ایسا واقعہ جب میری توجہ بھٹک جائے، مجھے واپس برف اور ہوا کی بربادی اور باالآخر چمنی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ ویسے کہاں کون کیسے جانتا ہے کیا ہو گا جب روسی پہنچ جائیں گے؟

 

چونکہ روسی ضرور پہنچیں گے اس لیے زمین ہمارے پاؤں تلے دن رات کانپتی ہے، ان کے توپ خانے کی دبی دبی بے روح چنگھاڑ اب بُونا کی منفرد خاموشی میں بلاوقفہ چٹختی ہے۔ ہم ایک بے چین اور مضطرب فضا میں سانس لیتے ہیں، ایک پُر استقلال فضا۔پولینڈ والے مزید کام نہیں کرتے، فرانسیسی ایک بار پھر اپنا سر اٹھا کے چل رہے ہیں۔ برطانوی ہمیں آنکھیں جھپکا کر علامتی انداز میں دیکھتے ہیں، نظریں بچا کر جیت کا نشان دکھا کر سلام کرتے ہیں اور کبھی کبھی بھی نظریں نہیں چراتے۔

 

ڈھٹائی اور عمداً جہالت کی ڈھال کے اندر چھپے یہ جرمن بہرے اور اندھے ہیں۔ ایک دفعہ پھر انہوں نے مصنوعی ربڑ کی پیداوار کی شروعات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔ یکم فروری 1945۔ وہ عارضی پناہ گاہیں اور سرنگیں کھودتے ہیں، نقصان کی مرمت کرتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں، لڑتے ہیں، حکم دیتے ہیں، منظم ہوتے ہیں اور قتل کرتے ہیں۔اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ وہ جرمن ہیں۔یہ رویہ دیدہ و دانستہ اور عمداً نہیں ہے بلکہ ان کی فطرت اوراس تقدیر سے پھوٹتا ہے جو انہوں نے اپنے لئے پسندکی ہے۔وہ اس سے مختلف طور پر عمل نہیں کر سکتے۔اگر آپ کسی مرتے ہوئے انسان کے جسم پر زخم لگا دیں تو زخم اس سے قطع نظر بھرنا شروع ہو جائے گا کہ پورا جسم ایک ہی دن کے اندر مر جائے۔
12۔ آخری انسان
دستے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک اپنے لکڑی کے جوتوں کی منجمد برف پر ٹھوس کھنکھناہٹ کی آواز کے ساتھ مسلسل واپس آتے رہے۔ جب تمام یونٹ واپس پہنچ گئے تو بینڈ اچانک بند ہو گیا اور گلو گرفتہ جرمن آواز نے خاموشی کا حکم دیا۔ ایک اور جرمن آواز اس اچانک خاموشی میں اٹھی اور دیر تک سیاہ اور معاندانہ فضا میں طیش سے گونجتی رہی۔ آخر کار مجرم کو تیز روشنی کی شعاؤں میں باہر لایا گیا۔

 

نمائش اور سنگدلی سے بھرپور یہ تقریب ہمارے لئے نئی نہیں ہے۔ کیمپ میں آمد کے بعد میں اس سے پہلے تیرہ پھانسیاں دیکھ چکا ہوں، مگر دوسرے موقعوں کی وجہ عمومی جرائم تھے جیسے باورچی خانے سے چوریاں، تخریب کاری، فرار کی کوششیں۔ آج وجہ مختلف ہے۔
پچھلے ماہ برکیناؤ کی ایک شمشان بھٹی دھماکے سے اڑا دی گئی۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا (اور شاید نہ ہی کبھی کوئی جان سکے گا) کہ یہ معرکہ کیسے پیش آیا۔ ایک مخصوص دستے کی بابت چہ میگویئاں ہیں جو بھٹیوں اور گیس چییمبرو ں سے منسلک تھا، جسے باقی کیمپ سے الگ تھلگ رکھا جاتا تھا اورخود بھی وقتاً فوقتاً مٹا دیا جاتا تھا۔ مگر واقعہ یہی ہے کہ برکیناؤ میں ہم جیسے چند سو بے یارومددگار اور لاغر غلاموں جیسے آدمیوں نے اپنے اندرعمل کی قوت پائی تاکہ نفرت کے پھلوں کو پھلتا پھولتا دیکھ سکیں۔

 

یہ آدمی جوآج ہمارے سامنے اس وقت مرنے والا ہے کسی صورت اس بغاوت کا حصہ تھا۔کہا جا رہا ہے کہ اس کے تعلقات برکیناؤ کے باغیوں کےساتھ تھے اور یہ ہمارے کیمپ میں ہتھیار درآمد کر کے ویسی ہی بغاوت برپا کرنا چاہتا تھا۔اسے آج ہماری نگاہوں کی سامنے مرنا ہے۔شاید جرمن نہیں جانتے کہ یہ تنہا موت، اس انسان کی موت جو اس کے لئے مختص کر کے رکھی گئی ہے،بدنامی کی بجائے عزت و توقیر کا باعث ہو گی۔

 

جرمن کی تقریر کے اختتام پر جو کسی کو سمجھ نہیں آئی، وہی پہلے والی طیش بھری آواز پھر ابھری،”کیا تم سمجھ گئے؟” کس نے جواب دیا “جی ہاں”؟، شاید ہر ایک نے اور کسی نے بھی نہیں۔ یہ اس طرح تھا گویا ہماری ملعون تسلیم و رضا نے جسم کوقابو میں لے لیا ہو، جیسے وہ ہمارے سروں سے اوپر کوئی مجموعی آواز ہو۔ مگر ہر ایک نے بدقسمت شخص کی چیخ سنی، یہ چیخ ہمارے جمود اور اطاعت شعاری کے پرانے اور دبیز پردوں کو پھاڑتی ہوئی گزر گئی، اس نے ہمارے اندر موجود زندہ انسانی قالب پر چوٹ لگائی:”میرے رفیقو، میں آخری انسان ہوں۔”

 

میری خواہش ہے کہ میں کہہ سکتا کہ ہمارے یعنی ایک قابل حقارت ریوڑ کےبیچ سے ایک صدا اٹھی، ایک گونج، ایک توثیقی علامت۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ ہم کھڑے رہے، جھکے ہوئے، اداس، ڈھلکے ہوئے سروں کی ساتھ، اور جب تک جرمنوں نے حکم نہیں دیا ہم نے اس وقت تک اپنے سر ننگے نہیں کئے۔ تہہ خانے کا دروازہ کھلا، جسم دہشت ناک طور سے لہرایا، بینڈ ایک بار پھر بجنا شروع ہو ا اور ہم ایک بار پھر قطار بنا کر مرتے ہوئے آدمی کے کانپتے جسم کے ساتھ سے گزر گئے۔

 

gas-chamber

پھانسی گھاٹ کے دوسرے کونے پر “ایس ایس “کے اہلکار ہمیں لاتعلق نگاہوں سے گزرتے دیکھتے رہے۔ ان کا کام ختم ہو چکا ہے اور اختتام بہت خوب تھا۔روسی اب آ سکتے ہیں۔ہم میں اب کوئی بھی مضبوط آدمی نہیں، آخری انسان اب ہمارے سروں کے اوپر معلق ہے، اور جہاں تک دوسروں کا سوال ہے، کچھ پھندے ہی کافی ہیں۔روسی اب آ سکتے ہیں، وہ یہاں صرف ہمیں پائیں گے، تھکے ہارے غلام، اس غیرمسلح موت کے حق دار جو اب ہماری منتظر ہے۔

 

انسان کو تباہ کرنا کٹھن ہے، تقریباً اتنا ہی دشوار جتنا اسے تخلیق کرنا۔یہ سہل نہ تھا، نہ ہی اتنا فوری، مگر تم جرمن لوگ کامیاب رہے۔ ہم یہاں ہیں، تمہاری ٹکٹکی بندھی نگاہ تلے آمادۂ اطاعت، تمہیں ہماری طرف سے اب مزید کوئی خطرہ نہیں،نہ کوئی شدت پسند ردعمل، نہ کوئی سرکش الفاظ، یہاں تک کہ کوئی قہر بھری نگاہ بھی نہیں۔
13۔ دس دن کی داستان
وقفے وقفے سے روسی توپوں کی دوردراز گولہ باری کی آواز کو کافی ماہ گزر چکے تھے،جب 11 جنوری 1945 کو میں سرخ بخارکا شکار ہو کر ایک بار پھر شفاخانے بھیج دیا گیا۔ اس متعدی بیماری کا مطلب تھا ایک چھوٹا نسبتاً صاف کمرہ جس میں دو درجوں پر دس خوابی تختے نصب تھے، ایک توشہ خانہ، تین اسٹول اور پیشاب اور طہارت کے لئے ایک کرسی اور بالٹی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مجھے تیز بخار تھا۔ خوش قسمت تھا ایک پورا تختہ صرف میرے لئے تھا۔ یہ جانتے ہوئے سکون سے لیٹ گیا کہ میں چالیس دن کی تنہا ئی کا حقدار تھا، لہٰذا آرام کا، جب کہ میں اپنے آپ کو اس حد تک طاقتور تصور کر رہا تھا کہ نہ تو بخار اور نہ ہی چناؤ سے خوفزدہ تھا۔

 

camp-activities-laaltain

کیمپ کے اب تک کے طویل تجربات کے باعث میں اپنا تمام ذاتی سامان ساتھ لا سکا۔برقی تارکی ایک بیلٹ، چمچ اور چاقو، ایک سوئی اور تین دھاگے، پانچ بٹن، اور آخرمیں اٹھارہ سنگِ چقماق جو میں نے لیبارٹری سے چوری کئے تھے۔ان میں سے ہر ایک کو صبر سے تراشنے کے بعد تین ایسے چھوٹے پتھر بنانے ممکن ہوئے جو تقریباً ایک سگریٹ لائٹر جتنے تھے۔ ان کی قیمت چھ یا سات ڈبل روٹیوں کی راشن جتنی تھی۔

 

میں نے چار پُر امن دنوں کا لطف اٹھایا۔ باہر برف پڑ رہی تھی اور کافی سردی تھی مگر کمرہ کافی گرم تھا۔ مجھے سخت دوائیں دی گئی تھیں اور میں بمشکل کچھ کھا سکتا تھا۔ بات بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

 

سرخ بخار ہی میں مبتلا دو فرانسیسی کافی خوش گفتار تھے۔ وہ کلیسائی صوبے ووسج سے تعلق رکھتے تھے جو کچھ ہی دن قبل غیر عسکری افراد کے ایک بڑے قافلے کے ساتھ جرمنوں کی لورین سے پسپائی کے دوران خالی کئے گئے ایک کیمپ میں آئے تھے۔بڑے کا نام آرتھر تھا جو کہ ایک چھوٹے قد کا دبلا پتلا کسان تھا۔ دوسرا،اس کا بستر شریک بتیس سالہ چارلس، ایک اسکول میں استاد تھا۔ قمیص کی جگہ اسے ایک گرمیوں میں پہنی جانے والی مضحکہ خیز حد تک چھوٹی بنیان دی گئی تھی۔

 

پانچویں دن نائی آیا۔ وہ سیلونیکا کا یونانی تھا۔ صرف اپنے علاقے کی خوبصورت ہسپانوی بولتا تھا مگر کیمپ میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے کچھ نہ کچھ الفاظ سمجھ لیتا تھا۔ نام اسکینازی تھا اور کیمپ میں تقریباً تین سال سے موجودتھا۔مجھے نہیں معلوم اس نے کس طرح شفا خانے کی نائی کا عہدہ حاصل کیا، کیوں کہ نہ تو وہ جرمن اور پولش بول سکتا تھا اور نہ ہی حد سے زیادہ سنگ دل تھا۔اس کے داخل ہونے سے قبل ہی میں نے اسے راہداری میں اپے ایک ہم ملک طبیب سے پرجوش لہجے میں بات کرتے سن لیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات کچھ غیر معمولی تھے، مگر چونکہ لیونٹ کے رہنے والوں کے چہرے کے تاثرات ہم سے کافی مختلف ہوتے ہیں اس لئے میں نہیں دیکھ سکا کہ آیا وہ خوفزدہ یا خوش تھا، یا پھر محض پریشان۔ وہ مجھے جانتا تھا یا کم از کم اتنا جانتا تھا کہ میں اطالوی ہوں۔ جب میری باری آئی تو میں بڑی مشکل سے تختے سے نیچے اترا۔ میں نے اطالوی زبان میں اس سے پوچھا کہ کیا کوئی نئی خبر ہے؟ وہ داڑھی بناتے ہوئے رکا اور ذرا سنجیدہ اور خفیہ انداز میں پلکیں جھپکاتے ہوئے اپنی ٹھوڑی سے کھڑکی کی طرف اشارہ کر دیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مغرب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اطالوی زبان میں بولا،”کل، ہر کوئی جا رہا ہے۔” پھر ایک لمحے کی لئے پھیلی ہوئی آنکھوں سے میرے جانب دیکھتا رہا جیسے کسی رد عمل کا منتظر ہو اور پھر ہسپانوی زبان میں “ہر کوئی، ہر کوئی” کہتے ہوئے دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ اسے میرے چقماق کے پتھروں کی بابت علم بھی تھا۔ بس ایک مخصوص نرمی کے ساتھ داڑھی بناتا رہا۔ اس خبر نے میرے اندر کوئی فوری جذبہ پیدا نہیں کیا۔ پہلے ہی کئی ماہ سے مجھے کسی قسم کا کوئی درد، خوشی یا خوف محسوس نہ ہو رہا تھا، علاوہ اس مخصوص غیروابستہ اور مبہم طور پر جو قید خانے کا خاصہ تھا اور کئی عوامل سے مشروط تھا۔میں نے سوچا کہ اگر میں اب بھی اپنی پہلے جیسی حساسیت کا مالک ہوتا تو یہ ایک بے حد پر جوش ساعت ہوتی۔

 

میرے تصورات مکمل طور پر واضح تھے۔ کافی عرصے سے میں اور البرٹو ان خطرات کی پیش بینی کر رہے تھے جو کیمپ کے انخلا اور آزادی کے ساتھ متوقع تھے۔ جہاں تک باقیوں کا سوال ہے، ان کے لئے اسکینازی کی خبر محض ان افواہوں کی توثیق تھی جو کافی روز سے قید خانے میں گردش کر رہی تھیں :یعنی یہی کہ روسی ساٹھ میل شمال کی جانب سینسٹوچوا میں تھے، یا یہ کہ وہ ساٹھ میل جنوب کی جانب زاکوپاکسے میں تھے، یا پھر یہ کہ بونا میں جرمن پہلے ہی سے بارودی سرنگیں نصب کر رہے تھے۔

 

میں نے باری باری اپنے رفیقوں کے چہروں کی طرف نگاہ دوڑائی۔ ان سے اس معاملے پر بات چیت کرنا واضح طور پر لاحاصل تھا۔ ان کا جواب یہی ہوتا کہ “پھر؟” اور یہاں ساری بات ہی ختم ہو جاتی۔ فرانسیسی ان سےمختلف تھے، وہ ابھی بھی تازہ دم تھے۔”کیا تم نے سنا؟”، میں نے ان سے پوچھا۔ “کل وہ کیمپ خالی کر رہے ہیں۔” انہوں نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ “کس جانب؟ کیا پیدل؟۔۔۔بیمار قیدی بھی؟ وہ بھی جو پیدل نہیں چل سکتے ؟” انہیں معلوم تھا کہ میں ایک پرانا قیدی ہوں اور جرمن زبان سمجھ سکتا ہوں، جس سے انہوں نےیہ نتیجہ اخذ کیا کہ مجھے اس بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلوم ہے جتنا میں تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔میں نے انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا مگر وہ مسلسل سوال پوچھتے رہے۔کتنے احمق تھے وہ ! مگر ظاہر ہے کہ انہیں قید خانے میں آئے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا اور ابھی انہوں نے یہ نہیں سیکھا تھا کہ سوال نہیں کرنے۔

 

دوپہر میں یونانی ڈاکٹر آیا۔ اس نے بتایا کہ اُن تمام قیدیوں جو چلنے کے قابل ہیں جوتے اور کپڑے فراہم کئے جائیں گے اور اگلے دن وہ تندرست افراد کے ساتھ بارہ میل کی پیش قدمی کے لئے نکل جائیں گے۔دوسرے شفاخانے میں ہی رہیں گے اور تیمارداری کے لئے انہیں منتخب کیا جائے گا جو سب سے کم بیمار ہیں۔

 

ڈاکٹر غیر معمولی طور پر خوش تھا اور نشے میں لگتا تھا۔میں اسے جانتا تھا۔وہ ایک نفیس اور ذہین آدمی تھا، خودغرض، پیش بین اور ہوشیار۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ہر کسی کو بلا امتیاز ڈبل روٹی کا تین گنا راشن دیا جائے گیا جس پر مریضوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ہم نے اس سے پوچھا کہ ہمارا کیا ہو گا۔اس نے جواب دیا کہ شاید جرمن ہمیں ہماری تقدیر پر چھوڑ دیں گے اور وہ نہیں سمجھتا کہ وہ ہمیں قتل کر دیں گے۔اس نے یہ تاثر بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ اُس کا خیال اِس کے برعکس ہے۔اس کی مسرت ہی کسی ناگہانی آفت کی خبر دے رہی تھی۔

 

وہ پہلے ہی سے پیش قدمی کے لئے لیس تھا۔ ابھی وہ بمشکل باہر ہی نکلا تھا کہ وونوں ہنگری کے لڑکے ایک دوسرے سے پُرجوش گفتگو کرنے لگے۔ وہ کافی حد تک صحت یاب ہو چکے تھے مگر شدید لاغر تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ مریضوں کے ساتھ رہنے سے خوفزدہ تھے اور صحت مند افراد کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر رہے تھے۔یہ استدلال کا سوال نہیں تھا۔ اگر اتنا کمزور محسوس نہ کررہا ہوتا توشایدمیں بھیڑ چال میں ریوڑ کی جبلت ہی کا تعاقب کرتا، خوف بے حد متعدی ہوتا ہے، اور اس کا فوری رد عمل فرار کی کوشش ہے۔

 

camp-cvacinity-laaltain

جھونپڑے کے باہر کیمپ کی فضا غیرمعمولی طور پر سرگرم تھی۔ہنگری والوں میں سے ایک اٹھ کے باہر نکل گیا اور آدھے گھنٹے بعد چیتھڑوں سے لیس واپس لوٹا جو اس نے شاید جراثیم سے پاک ہونے کے لئے جمع کئے گئے کپڑوں کے گودام سے حاصل کئے تھے۔ وہ اور اس کے رفقاء بے چینی سے ایک کے بعد ایک چیتھڑا زیب تن کرتے رہے۔ دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ عجلت سے معاملہ ختم کرنا چاہتے تھے مبادا خوف سے جھجک جائیں۔اس لاغر پن اور خاص طور پر آخری وقت میں حاصل کئے گئے ان ٹوٹے پھوٹے جوتوں کے ساتھ برف میں محض ایک گھنٹہ پیدل چلنے کا خیال بھی دیوانگی تھی۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ جواب دئیے بغیر میری طرف دیکھتے رہے۔ان کی آنکھیں دہشت زدہ بھیڑوں کی طرح تھیں۔

 

ایک لمحے کے لئے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ شاید وہ ٹھیک ہی ہوں۔ وہ بے ڈھنگے اندازمیں کھڑکی سے چھلانگ لگا کر باہر نکل گئے، میں نے ان بے شکل گٹھڑیوں کو اندھیرے میں لڑکھڑاتے دیکھا۔ان کی واپسی نہیں ہوئی، مجھے کافی عرصے بعد معلوم ہوا کہ نہ چل سکنے کے باعث، پیش قدمی شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد”ایس ایس”نے انہیں قتل کر دیا۔

 

ظاہر ہے مجھے بھی جوتوں کے ایک جوڑے کی ضرورت تھی۔ مگر مجھے بیماری، بخار اور جمود کی کی کیفیت پر قابو پانے میں ایک گھنٹہ لگا۔ راہداری میں مجھے ایک جوڑا مل گیا۔(صحت مند قیدیوں نے مریضوں کے جمع کرائے گئے جوتوں پر ہلہ بول دیا اور ان میں سے بہترین ساتھ لے گئے، پھٹے ہوئے تلوں اور کسی جوڑے سے علیٰحدہ بچ جانے والے ہر جگہ بکھرے پڑے تھے)۔ اسی وقت میں السیشیا کے رہنے والےکوسمان سے ملا۔ ایک غیر عسکری فرد کی حیثیت سے وہ کلیرمونٹ فیرینڈ میں رائٹر کی خبر رساں ایجنسی کا نمائندہ تھا، وہ بھی پُر جوش اور بشاش تھا۔ کہنے لگا کہ”اگر تم مجھ سے پہلے واپس پہنچ جاؤ تو میٹز کے مئیر کو لکھنا کہ میں عنقریب واپس آنے ہی والا ہوں۔”

 

کوسمان اہم حلقوں میں اپنے تعلقات کی وجہ سے مشہور تھا لہٰذا اس کا پُرامید ہونا اچھی علامت تھی اور میں نے اپنے جمود کو جواز دینے کے لئے اسے استعمال کیا۔ میں نے جوتے چھپا دئیے اور واپس بستر میں گھس گیا۔

 

رات گئے یونانی ڈاکٹر کاندھوں پر ایک پشتی تھیلا لٹکائے اور ایک اونی ٹوپی پہنے واپس آیا۔ اس نے ایک فرانسیسی ناول میرے بستر پر پھینکا۔ “اسے رکھو، پڑھ لو، اطالوی۔ جب ہم دوبارہ ملیں تو تم یہ مجھے واپس لوٹا سکتے ہو۔”آج بھی ان الفاظ کی وجہ سے میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ ہماری بدقسمتی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

 

ghosts-of-past-laaltain

اور پھر آخرکا البرٹو امتناع کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہنچ گیا، تاکہ مجھے کھڑکی سے الوداع کہہ سکے۔ہم یک جان دو قالب تھے، “دو اطالویوں” کے طور پر مشہور تھے اور غیرملکی کئی بار ہمارے نام تک غلط سمجھ بیٹھتے تھے۔ چھ ماہ ہم ایک ہی خوابی تختے پر تھے اور خوراک کا ایک ایک ذرہ جو راشن سے زیادہ تھا “ذخیرہ” کرتے رہے۔ مگر اسے بچپن میں سرخ بخار ہو چکا تھا اور میں اسے یہ مرض نہ لگا سکا۔ لہٰذا وہ چلا گیا اور میں پیچھے رہ گیا۔ہم نے ایک دوسرے کو الوداع کہا، زیادہ لفظ درکار نہ تھے، ہم اپنے معاملات کے بارے میں لاتعداد بار کلام کر چکے تھے۔ خیال نہیں تھا کہ ہم بہت زیادہ وقت ایک دوسرے سے جُدا رہیں گے۔اسے اچھی خاصی حالت میں چمڑے کے جوتوں کا ایک مضبوط جوڑا مل گیا تھا۔وہ ان میں سے تھا جو فوراً ضرورت کی چیز ڈھونڈ لیتے ہیں۔

 

باقی تمام کُوچ کرنے والوں کی طرح وہ بھی پُرجوش اور پُر اعتماد تھا۔ یہ سب کچھ قابل فہم تھا:کچھ عظیم اور منفرد رونما ہونے والا تھا، بالآخر ہم اپنے ارد گرد ایک ایسی قوت کو محسوس کر رہے تھے جو جرمنی کی نہیں تھی، ہم اپنی اس نفرت آمیز دنیا کو متوقع طور پر ڈھیر ہوتے دیکھ رہے تھے۔ کسی بھی درجے میں وہ صحت مند لوگ جو اپنی ساری بھوک اور تھکن کے باوجود چلنے کے قابل تھے یہ محسوس کر سکتے تھے۔مگر ظاہر ہے کہ شدید لاغر، برہنہ اور ننگے پاؤں شخص مختلف طرز پر ہی سوچے اور محسوس کرے گا، لہٰذا یہ مفلوج کر دینے والا احساس کہ ہم قسمت کے رحم و کرم پر ہیں ہماری سوچوں پر حاوی تھا۔

 

تمام صحت مند قیدی (ماسوائے کچھ ایسے مصلحت اندیشوں کے جو آخری لمحے میں بے لباس ہو کر ہسپتال کے بستروں میں چھپ گئے) 18 جنوری 1945 کی رات کے دوران کوچ کر گئے۔ مختلف کیمپوں سے تعلق رکھنے والے یہ کم و بیش بیس ہزار افراد تو ضرور ہوں گے۔انخلاء کی پیش قدمی میں یہ تقریباً مکمل طور طور پر غائب ہو گئے۔ البرٹو ان میں ہی تھا۔شاید کسی دن کوئی ان کی داستان رقم کرے۔

 

پس ہم اپنے بستروں میں اپنی بیماری اور اپنے خوف سے زیادہ طاقتور جمود کے ساتھ اکیلے پڑے رہے۔

 

پورے شفاخانے میں ہماری تعداد لگ بھگ آٹھ سو تھی۔ ہمارے کمرے میں ہم گیارہ تھے، ہر ایک اپنے اپنے تختۂ خواب پر، سوائے چارلس اور آرتھر کے جو ایک ہی تختے پر سوتے تھے۔ قید خانے کی عظیم مشین کا آہنگ ماند پڑ چکا تھا۔ ہمارے لئے زمان و مکان سے ماوراء ان آخری دس دنوں کا آغاز ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

1۔ Haftling (Prisoner)
2۔ Ruhe (silence or peace)
3۔ Ka-Be (Krankenbau)
4۔ Heimweh
5۔ یہ لفظ موسلمان نہ جانے کیوں کیمپ کے پرانے باسیوںمیں کمزور ، لاغر و بیکار اور چناؤ کے یقینی سزاواروں کے لئے مستعمل
تھا(مصنف)۔
6 Selekcja

۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *