(دوسری قسط)
اکیسویں صدی کی غزل کا اگر اجتماعی سطح پر بغور مطالعہ کیا جائے تو اس معاصر منظر نامے میں جو نمایاں لوگ نظر آتے ہیں ان کے ہاں معاصر زندگی کے ذاتی تجربات و انکشافات کی تخلیقی شکل مختلف اسلوبیات کے ساتھ اور مختلف تہذیبی رنگوں کی آمیزش کے ساتھ واضح ہوتی ہے۔ مابعدجدید عہد کا عطا کردہ فشار و اضطراب اور احساسِ محرومی تخلیقی عمل پر اتنی شدت سے اثر انداز ہوتا ہے کہ بعض اوقات کسی تخلیق کار کی اپنی انفرادیت بھی داؤ پر لگتی محسوس ہوتی ہے۔
مابعدجدید عہد کا عطا کردہ فشار و اضطراب اور احساسِ محرومی تخلیقی عمل پر اتنی شدت سے اثر انداز ہوتا ہے کہ بعض اوقات کسی تخلیق کار کی اپنی انفرادیت بھی داؤ پر لگتی محسوس ہوتی ہے
مقامی تہذیبی استعارے، استفہام، کرب، وجودی مسائل، تشکیک، لسانی اجتہاد، تجریدی ابہام، رومان اورسریت کے امتزاج سے طلسماتی ٖفضا بندی، مابعدالطبیعاتی انفعالیت، بے معنویت، لا یعنیت، اجنبیت، جنسی ناآسودگی، اجتماعی لاشعور میں برپا نفسیاتی کشمکش جیسے عوامل اکیسویں صدی کی غزل کے منظر نامے کی ابتدائی تصویر مرتب کرتے ہیں۔
صنعتی شہری منظر نامے کی تہذیبی، معاشرتی، ثقافتی اور انفرادی زوال خوردگی کا اظہار جہاں اکیسویں صدی کی غزل کے ایسے آہنگ کی آبیاری کرتا ہے جو اپنے ماقبل بیانیے سے کہیں بغاوت کا اظہار کرتا ہے وہیں وہ لا یعنیت کی گرد میں انسانی تخلیقی نشاط کے اپنے تخلیق کردہ رستوں کی دریافت کو ضروری سمجھتا نظر آتا ہے ۔ آج کا شاعر زندگی کو ایسے تماشائی کی نگاہ سے دیکھنے پر کبھی کبھار راغب دکھتا ہے جو خود اپنے آپ کو تماشے کا حصہ بنا لیتا ہے۔
بقول نظام صدیقی
بقول نظام صدیقی
” مابعد جدید غزلیہ شاعری نئے عالمی اور قومی تناظر میں بین الاقوامی سامراجی تہذیب اور قومی فسطائیت کے نفسیاتی، اخلاقی، عمرانی اور ثقافتی مظاہر کے آکٹو پسی گرفت میں آج کے آدمی اور زندگی کے پھڑپھڑانے کے باوجود بھی بہرِ نوع جشنِ زندگی اور جشنِ تخلیقیت کا نگارخانہ رقصاں ہے جس میں ‘دو شیزہء امکان’ کے خمیازہ کی ادائیگی کے لیے آج بھی کلاسیکیت کی ‘رقاصہء دیروز’ بے پیرہن آتی ہے”۔
اس روایت میں چند لوگ ایسے ہیں جن کے لحن اور تخلیقی اظہاریے کی مختلف جہات سے اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر نئے رجحانات برآمد ہوئے ہیں اور ان رجحانات کی گونج بعد میں آنے والی غزل کی آوازوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
معاصر غزل اور بالخصوص اکیسویں صدی کی غزل کا انفرادی منظر نامہ پیش کرنے سے پہلے عمومی روایت جو کہ سترہویں صدی سے چلی آ رہی ہے اس کا عمومی تذکرہ کرنے کی بجائے میں آج کی غزل کو بیسویں صدی کی 60 کی دہائی کے بعد کی غزل کی رویت کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ اس روایت میں چند لوگ ایسے ہیں جن کے لحن اور تخلیقی اظہاریے کی مختلف جہات سے اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر نئے رجحانات برآمد ہوئے ہیں اور ان رجحانات کی گونج بعد میں آنے والی غزل کی آوازوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ سو جب ہم موجودہ غزل کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو چند نام ایسے ہیں جن کے اثرات ہماری نئی غزل نے اپنے اندر نفوذ کیے ہیں ان میں ناصر کاظمی، شکیب جلالی، ظفر اقبال، ثروت حسین، احمد مشتاق اور عرفان صدیقی کے علاوہ چند دیگر نام قابلِ ذکر ہیں۔
(جاری ہے)
(جاری ہے)