Laaltain

ہندوستانی ہمسائے کے نام اظہار یکجہتی کے لیے لکھا گیا خط

7 مارچ، 2016
Picture of توصیف احمد

توصیف احمد

ہندوستانی ہمسائے کے نام مزید خطوط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

 

تم ٹھیک کہتے ہو کہ مجھے قوم پرست ہوئے بغیر بھی محب وطن ہونے کا حق حاصل ہے، میں اپنے وطن میں ہونے والی ناانصافیوں پر آواز اٹھانے کے باوجود بھی اپنے وطن کا باشندہ اور شہری رہ سکتا ہوں۔
“میں محب وطن ہو قوم پرست نہیں” یقین جانو تمہارے نوجوانوں نے وہ مشکل حل کر دی جو ہمیں آزادی کے بعد سے درپیش تھی۔ کیا ضروری ہے کہ وہی دیس میں رہنے کے لائق ہے جو قومیت کی اس تعریف سے متفق بھی ہو جو چند رہنما، چند ادارے یا کوئی سرکار طے کر دے؟ کیا ضروری ہے کہ ہم اکثریت، طاقتور، حاکم اور زورآور کے تصور قومیت پر ایمان لائیں اور پھر ہی ہمیں ہمارے وطن میں رہنے کی اجازت دی جائے؟ کیا یہ طے کر دیا گیا ہے کہ ہمارے وطنوں میں رہنے والوں کو وہی سوال اٹھانے کا حق ہے جو ان کے لیے لکھ دیے گئے ہیں؟ کیا ہم اپنی سرکار، اپنے آئین اپنی فوج، اپنی قومیت پر تنقید نہیں کر سکتے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ہمیں اپنے رہنماوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے بعد ہی اس وطن کا محب وطن شہری ہونے کا حق حاصل ہے؟ نہیں تم ٹھیک کہتے ہو کہ مجھے قوم پرست ہوئے بغیر بھی محب وطن ہونے کا حق حاصل ہے، میں اپنے وطن میں ہونے والی ناانصافیوں پر آواز اٹھانے کے باوجود بھی اپنے وطن کا باشندہ اور شہری رہ سکتا ہوں۔ تمہیں کسی آر ایس ایس سے حب الوطنی کی سند کی ضرورت نہیں اور مجھے کسی جماعت اسلامی سے خود کو منظور کرانے کی حاجت نہیں، ہم اپنے اپنے دیس میں پیدا ہوئے ہیں اور اس کی فضاوں پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی ہندتوا والے کا یا اسلامی ریاست والے کا۔

 

“ہم اپنے دیس سے نہیں اپنے دیس میں رہنے کی آزادی ،مانگ رہے ہیں”۔ یقین جانو تمہارے طلبہ نے تو ہمارے منہ کی بات چھین لی اور وہی کہا جو ہم اپنے ہاں کہنے سے ڈرتے ہیں۔ تمہاری طرف بھی کچھ لوگ مذہب کے نام پر قومیت کی من پسند تعریف کر کے اسے سب پر لاگو کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے ہاں بھی بہت سے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے فلاں قومی نظریہ، یا فلاں کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نہ مانا تو تمہیں اس دھرتی پر جینے کا حق نہیں۔ جو کہتا ہے کہ جو اگائے وہی کھائے، یا جس کی زمین سے نکلا پہلا حق اس کا، یا جس کی دھرتی کا ساحل ہے اسی کے زیر انتظام ہو، میں اپنی زبان بولوں گا، اپنی مرضی کے دین دھرم پر چلوں گا، سب انسانوں کو برابر سمجھوں گا، اسے کہا جاتا ہے کہ وہ دیس سے آزادی چاہتا ہے، غدار ہے ملک کو توڑنا چاہتا ہے، لیکن بھائی تمہارے ہاں کے نوجوان ٹھیک کہتے ہیں کہ ہم اپنے دیس میں رہنے کی آزادی مانگ رہے ہیں دیس سے آزادی نہیں مانگ رہے۔ تمہارئ جنگ آزادی کی جنگ ہے اور یہ تمام دنیا کے طلبہ اور نوجوانوں کی جنگ ہے جنہیں پیدا ہوتے ہی دین، دھرم، قومیت، لسانیت، جنس اور ذات کی زنجیریں پہنا کر اڑنے سے منع کر دیا جاتا ہے۔

 

تمہاری طرف بھی کچھ لوگ مذہب کے نام پر قومیت کی من پسند تعریف کر کے اسے سب پر لاگو کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے ہاں بھی بہت سے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے فلاں قومی نظریہ، یا فلاں کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ نہ مانا تو تمہیں اس دھرتی پر جینے کا حق نہیں۔
“سرحد پر لڑنے والے نہیں، لڑانے والے مجرم ہیں” یقین جانو صحیح کہتے ہو، بے چارا جو بندوق اٹھائے کھڑا ہے، جس کے سینے پر گولی لگتی ہے وہ نہیں اصل مجرم وہ ہے جو اس لڑائی سے خواہ وہ دیس کے اندر ہو، دیس کے باہر ہو، کسی اور کے دیس میں ہو یا اپنے ہی لوگوں میں ہو، لڑنے والے کا ہاتھ نہیں یہ لڑانے والے کا ہاتھ ہے جو ہتھیار چلانے کا ذمہ دار ہے۔ آخر کیوں جب کہ ہم مل کر رہ سکتے ہیں، اگا سکتے ہیں، سب کچھ بنا سکتے ہیں، پھر ہمیں ایک دوسرے سے چھیننے کی، اور اپنا حق بچانے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے؟ ایک کسان کو اناج اگانے کے باوجود کیوں بھوکے رہنا پڑتا ہے، جس کی دھرتی سے کوئلہ نکلے اس کا چولہا کیوں ٹھنڈا رہے، جو وقردی پہن کر پہرے پر کھڑا ہو وہ کیوں کسی اور کے کیے کی سزا بھگتے؟ تم جو جنگ لڑ رہے ہو وہ جنگ میری بھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی جے این یو نہیں ہے، ہمارے نوجوانوں سے ان کی آوازیں داخلہ لینے سے پہلے ہی سرکار کے پاس جمع کرا دینے کا حلف لے لیا جاتا ہے۔ ہمارے طلبہ کو پولیس نہیں اٹھاتی، ان پر مقدمے نہیں بنتے بلکہ انہیں مسخ شدہ لاشوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی جو جنگ تم لڑ رہے ہو وہ میری بھی ہے اور ہم سب کی ہے۔ اور کبھی نہ کبھی ہم سب میں موجود کنہیا کمار جاگے گا اور اپنی آواز بلند کرے گا۔

 

“ہمیں بھوک، افلاس، ظلم، ذات پات، دھونس سے آزادی چاہیئے”
“ہم آزادی، جمہوریت، مساوات اور اشتراک کی بات کرتے ہیں”
“اقلیتوں، عورتوں، بے گھروں اور مظلوموں کے حقوق ہم اسی جدوجہد میں حاصل کریں گے۔”
“ہماری جدوجہد کسی ایک جماعت، کسی ایک رہنما، کسی ایک چینل کے خلاف نہیں”
“جو ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہہ رہے ہیں۔”
“آپ جھوٹ کو جھوٹ بنا سکتے ہیں، سچ کو جھوٹ نہیں بنا سکتے”
“دھرم کو جان لیں گے تو مانیں گے”

 

“جے این یو پر حمہ لوگوں آواز دبانے، بنیادی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے، یہ آواز اٹھانے والوں کو غدار کہنے کی کوشش ہے لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں لیکن ہم بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ لمبی لڑائی ہے، ہم اس لڑائی کو آگے بڑھائیں گے۔ “

 

ہمارے تمہارے مسئلے ایک ہیں، ہمیں اور تمہیں ایک جیسے لوگ لڑاتے ہیں، لوٹتے ہیں اور غدار قرار دیتے ہیں، ہم تمہاری جدوجہد میں تمہارے ساتھ ہیں۔ ابھی ہم کم ہیں، منتشر ہیں، کم زور ہیں مگر حق پر ہیں اور جیت ہماری ہو گی۔
سنو!
میں اور انسانیت، امن، بھائی چارے، مساوات اور آزادی پر یقین رکھنے والا ہر پاکستانی تمہارے ساتھ کھڑا ہے۔
سنو!
میں اور جمہوریت پر یقین رکھنے والا ہر پاکستانی تمہارے مطالبات کا حامی ہے۔
سنو!
ہمارے تمہارے مسئلے ایک ہیں، ہمیں اور تمہیں ایک جیسے لوگ لڑاتے ہیں، لوٹتے ہیں اور غدار قرار دیتے ہیں، ہم تمہاری جدوجہد میں تمہارے ساتھ ہیں۔ ابھی ہم کم ہیں، منتشر ہیں، کم زور ہیں مگر حق پر ہیں اور جیت ہماری ہو گی۔

 

میرا اور تمہارا مسئلہ ایک ہے، مقصد ایک ہے، ہم دونوں کو اپنے اپنے وطن سے نہیں اپنے اپنے وطن میں رہنے کی آزادی چاہیئے، اس آزادی کے لیے میرا اور تمہار نعرہ ایک ہے:

 

ہم کیا چاہتے آزادی
ذرا زور سے بولو، آزادی
سب مل کر بولو آزادی
میں بھی بولوں آزادی
تم بھی بولو آزادی
ہم لے کے رہیں گے آزادی
تم کچھ بھی کر لو آزادی
ہے حق ہمارا آزادی۔۔۔۔۔۔
ہے جان سے پیاری آزادی
میں بھی مانگوں آزادی
تم بھی مانگو آزادی

 

فقط تمہارا پاکستانی ہمسایہ
جس کے ہاں تمہارے ہاں جتنا احتجاج کرنے اور سچ بولنے کی آزادی بھی نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *