پنجاب لوک سجاگ کے تعاون سے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی طالبات کو سائیکل فراہم کرنے کے منصوبہ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی مرحلہ میں 250 طالبات کو پنجاب لوک سجاگ کے تعاون سے سائیکل اور موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دی جارہی ہے۔ اس منصوبہ کا مقصد طالبات کو درپیش سفری مسائل حل کرنا اور انہیں خودمختار کرنا ہے تاکہ آمدورفت کے ذرائع پر ان کا انحصار کم کیا جا سکے۔
تربیت کے دوران یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد نے طالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کو معاشرے میں عورت کے سماجی کردار میں تبدیلی قرار دیا۔ ڈاکٹر اقرار نے یونیورسٹی میں طالبات اور خاتون اساتذہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کو خوش آئند قرار دیا ۔ "معاشرہ ایک خود مختارعورت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔” پنجاب لوک سجاگ کے نمائندہ قیصر نے معاشرے میں خواتین کے مردوں پر انحصار کو کم کرنے کے لئے خواتین کے سائیکل اور موٹرسائیکل چلاناسکھانے کے عمل کو سراہا اور ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا۔
سائیکلیں یا موٹر سائیکلیں ملنے کے باوجود معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ گاڑی چلانے والی عورتوں کو جس قسم کے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس کے بعد موٹر سائیکل چلانے والی لڑکی کو کون معاف کرے گا۔
یونیورسٹی کی بعض طالبات نے اس پروگرام پر اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ تابندہ اشرف نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے اس پروگرام کی تعریف کی لیکن اس پر ہونے والے معاشرتی ردعمل سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا،”سائیکلیں یا موٹر سائیکلیں ملنے کے باوجود معاشرہ ہمیں قبول نہیں کرے گا۔ گاڑی چلانے والی عورتوں کو جس قسم کے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اس کے بعد موٹر سائیکل چلانے والی لڑکی کو کون معاف کرے گا۔” ایک اور طالبہ نے نام نہ بتانے کی شرط پر خاندان کی طرف سے شدید ردعمل کا اندیشہ ظاہر کیا،”گھر والے تو اکیلے کہیں نہیں جانے دیتے، موٹر سائیکل یا سائیکل چلانے کی اجازت کون دے گا۔ "تربیتی پروگرام میں شریک طالبات نے اس عمل کو خوش آئند قرار دیا اور اسے جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ "ہمیں اب اپنی مرضی سے آنے جانے کی سہولت ہو گی، آزادی کا احساس ہو رہا ہے۔ ہم بھی چاہتی ہیں کہ اپنی مرضی سے کہیں بھی جانے کا فیصلہ کر سکیں۔” ایک طالبہ نے لالٹین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
پاکستان میں طالبات اور کارکن خواتین کو آمدورفت کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ نامناسب معاشرتی رویوں کی وجہ سے اکثر خواتین محرم کے ساتھ سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ اکثر خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ یا ذاتی سواری کے استعمال کے دوران مرد مسافروں کی جانب سے ناروا سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے ۔

Leave a Reply