Laaltain

اٹھتے ہیں حجاب آخر-پہلا حصہ

26 جنوری، 2017

[blockquote style=”3″]

ادارتی نوٹ: اس تحریر کی اشاعت کا مقصد کسی بھی مسلک کے پیروکاروں کی دل آزاری یا انہیں غلط قرار دینا نہیں بلکہ مذہب اور عقیدے پر انفرادی رائے قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں میں مذہب اور عقیدے کے معاملے پر سوچ بچار، تنقید، تحقیق اور علمی جستجو کا چلن مفقود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر مسلک میں جہاد، ختم نبوت یا ناموس اہل بیت جیسے تصورات کی آڑ میں تشدد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ مذہب سے متعلق مروجہ تشریحات سے مختلف رائے قائم کرنا ہر فرد کا حق ہے اور اس تحریر کی اشاعت ایسے افراد کو اعتماد بخشنے اور ان کی حوسلہ افزائی کرنے کا باعث بنے گی۔

[/blockquote]

اس سلسلے کی مزید اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

 

زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے اور علم و فہم اور شعور کے بساط بھر حصول کے بعد اب یہ حال ہے کہ جب کسی بڑے آدمی سے ملتا ہوں یا کسی بڑی شخصیت کی تحریر پڑھتا ہوں اور کوئی نئی بات سننے اور سیکھنے کو ملتی ہے تو فکر کی تحسین کرنے کے باوجود، فوراً کوئی رد عمل دینے کے بجائے کئی دن شعوری اور لا شعوری طور پر اس پر غور و فکر کرنے میں گزرتے ہیں، کیونکہ شعور کے ساتھ، تحت الشعور اور لاشعور بھی کسی بات کی درست تفہیم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پھر ہم خیال اور غیر ہم خیال اہل علم دوستوں سے تذکرہ چلتا ہے، اور پھر اگر بات سمجھ میں آ جائے تو تسلیم کر لیتا ہوں۔ نہ سمجھ آئے تو موقوف یا مسترد کر دیتا ہوں۔ کسی بات کے تسلیم کرنے یا رد کرنے میں شخصیت کی عظمت اب شاید بالکل حائل نہیں ہوتی۔ میں نے اپنی یہ تربیت خود کی لیکن یہ میرے آسان نہ تھی۔ میں اصل میں اس سے بہت حد تک برعکس واقع ہوا تھا۔

 

ہمارے معاشرے میں فکری جبر تو بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے، سوال پر پابندی، سوالوں کو شیطانی وساوس قرار دے کر، بنا جواب دییے ان کو دبا دینا عام وتیرہ ہے۔ دینی مدرسہ ہو یا جدید تعلیم کی یونیورسٹیاں اور تحقیق کے اعلی مراکز، سب کا حال یہ ہے کہ ان میں حصول علم کے لیے داخلے اور حصول ملازمت کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی مرضی کا نظریہ اور عقیدہ نہیں رکھ سکتے۔ آپ کے لیے اپنے ادارے کا اختیار کردہ یا اس ادارے پر تسلط رکھنے والے مسلکی اور جماعتی نظریہ اور عقیدہ رکھنا بھی شرط ہے، ورنہ آپ کو داخلہ اور ملازمت، اوّل تو کوئی دے گا نہیں، اور اگر قسمت سے ایسا ہو بھی جائے تو جلد ہی نکال باہر کیا جائے گا، یا آپ سے مسلسل اچھوتوں جیسا سلوک ہوگا، امتیازی رویہ برتا جائے گا، آپ کو بار بار تنبیہ اور سرزنش کی جاتی رہے گی یہاں تک کہ آپ اپنے ضمیر کا گلہ گھونٹ کر اتھارٹی کے ہمنوا بن جائیں یا ملازمت قربان کر دیں یا ادارہ بدری قبول کر لیں۔

 

لا اکراہ فی الدین کے پرچارکوں کا یہ رویہ مسیحؑ کے وقت کے متعصب فریسیوں اور فقہیوں سے بالکل بھی مختلف نہیں، جنھوں نے اپنی علمی آمریت کی سان پر مسیحؑ کو اپنی طرف سے قربان کر دینے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔ ابھی ہمارے معاشرے سے ازمنہ مظلمہ کا دور لدا نہیں۔ ذہنی اور شعوری طور پر ابھی ہم ایک نابالغ قوم ہیں اور اس پر ہمارے یہاں شرمندگی کی بجائے جاہلانہ فخر بھی پایا جاتا ہے۔ مزید المیہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے، خواہ دینی ہوں یا جدید تعلیم کے، اس نابالغ پن کی ترویج پوری شد و مد سے کرتے ہیں، کہیں کوئی شعوری جراثیم محسوس ہو جائیں، اس طالب علم کو نکّو بنا کر رکھ دیا جاتا ہے، اسے غدار، بے دین، گستاخ، ایجنٹ اور نہ جانے کیا کچھ قرار دے دیا جاتا ہے، امتحانات میں اس سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ بلکہ ایسا طالب علم بھی اس رویے کا شکار ہوتا ہے جو اپنے استاد کی علمی اور ذہنی استعداد سے بلند سوال پوچھنے کی جرات کرے یا اس سے مختلف بات اس کے دلائل کے باوجود اپنائے رکھے۔

 

اپنے مسلک کے دائرے میں محدود رہنا، اپنے زیرِ قبضہ اداروں کو اپنے مسلک اور جماعت کے نظرے کے حصار میں رکھنا دراصل ایک بے اعتماد اور خوف زدہ نفسیات کی علامت ہے۔ ذکی کیفی نے کیا خوب کہا تھا:

 

نہ ہو کفر مقابل تو لطف ایماں کیا

 

لیکن یہاں حال یہ ہے کہ اختلاف کی ہلکی پھلکی پھونکوں سے ‘چراغ حق’ ٹمٹانے لگتے ہیں، اور ابراہیمؑ مخالف پروہتوں والی چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے کہ“اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہے تو اِس کو آگ میں جلا دو اور اپنے ‘معبودوں’ کی مدد کرو۔”

 

شخصیت پرستی ہمارا قومی وطیرہ ہے اور المیہ بھی۔ میرا علمی سفر بھی شخصیت پرستی سے ہی شروع ہوا تھا۔ میرا ہر استاد میرا ہیرو تھا، گُرو تھا، عقیدت کا مرکز تھا، جس کی زبان، حق ترجمان تھی، حرفِ آخر تھی، لیکن پھر رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے ان کی علمیت اور عظمت کے بت ان کی علمی اور اخلاقی کمزوریوں اور میرے لگاتار کے غور و فکر کی عادت کی وجہ سے ایک ایک کر کے ٹوٹتے چلے گئے۔

 

اسی زمانے میں میں نے یہ ٹوٹا پھوٹا شعر کہا تھا:
کتنے عظمت کے مینارے میرے سامنے ٹوٹ گئے
جو کبھی دکھتے تھے مجھ کو آسمانوں کی طرح

 

دین ایمان اور عمل کا معیار اور بنیاد اگر کوئی شخصیت ہو تو اس شخصیت سے بھروسہ اٹھتے ہی آدمی دین و ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

 

شخصیات کے بتوں کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی تو میں نے احمقانہ تاویلات کر کر کے خود کو کچھ عرصہ بے وقوف بنانے کی کوشش بھی کی لیکن آخر کب تک۔ آخر میں نے اپنے ایمان اور عمل کی بنیاد شخصیت کو بنانے کی بجائے دلیل کو بنا لیا اور شخصیات کو خیر باد کہ دیا۔ میں اپنے فہم کے مطابق دلیل کے ساتھ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
شخصیات کی طرح ہی موٹی موٹی اصطلاحات کو بھی میں نے بت ہی پایا جو فہم میں رکاوٹ ڈالتی ہیں، اور حقیقت کو دھندلا دیتی ہیں۔ درست استدلال اور درست فہم کے لیے مجھے بہت کچھ علم بھلانا بھی پڑا۔ وہ کہتے ہیں نا:

 

True Learning is unlearning

 

چناچہ بہت کچھ علم کو دامن سے جھاڑا، بہت سے اصولوں اور مسلمات کی بھاری بھرکم گھٹڑیاں سر سے اتاریں کہ علم و عقل کو آزادی سے سوچنے کا راستہ مل سکے۔

 

لیکن یہ سب آسان نہیں تھا۔ اس سفر میں ایسی بہت سی باتیں، ایسے بہت سے اصول اور ایسی بہت سی شخصیات تھیں جو مجھے بے حد عزیز تھے، جن کی محبت اور تاثر میں میں نے اپنی عمر کے رومانوی دور کے حسین پل بتائے تھے۔ ان سب کو چھوڑنا، ان سب میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرنا ان کی باتوں اور اقدامات کو بھی تنقید کی چھلنی سے گزارنا آسان نہیں تھا۔ بڑی تکلیف سے گزرنا پڑا۔ ایسا لگتا تھا جیسے صحرا میں اکیلا بے سہارا کھڑا رہ گیا ہوں۔ سر سے سایہ اور پاؤں سے زمین چھن گئی تھی۔ خود کو علمی اور فکری طور پر یتیم محسوس کرتا تھا۔

 

بہرحال، سہاروں کی بیساکھیاں تج دینے کے بعد، جب علم و فہم کے نئے سفر پر نکلا تو اس بار تہیہ یہ کیا کہ صرف عقل و فہم اور دلیل کا زاد راہ ساتھ رکھوں گا تاکہ اگر ٹھوکر بھی کھائی تو الزام کسی اور کو نہیں خود ہی کو دوں گا۔ ارادہ کیا کہ بات وہی تسلیم کروں گا جس کی دلیل درست معلوم ہوگی۔

 

ہم سب کے انگلی پکڑ کر چلنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ کون کب انگلی چھوڑ کر اپنے قدموں پر چلنا شروع کر دے، اس کا انحصار ہر انسان کے اپنے اوپر ہے، لیکن یہاں کوئی انگلی چھوڑتا ہے نہ کوئی چھوڑنے دیتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کی ساری عمر میں بلوغت کا یہ مرحلہ کبھی آتا ہی نہیں۔

 

1۔ بریلویت

 

میرا سفر بریلویت کے سادہ اور پرجوش ماحول سے شروع ہوا، جہاں عوام کا جذبہ ایمانی ایک پر لطف چیز ہوا کرتا تھا۔ آج بھی میرا حال یہ ہے کہ علمی طور پر بریلویت سے بہت دور ہو جانے کے بعد بھی، کسی بریلوی مسجد میں نماز پڑھوں تو سکون کی کیفیت زیادہ پاتا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں عوامی سطح پر عقیدت کے نام پر عقل و فہم کی قربانی پہلا مطالبہ ہے، اور علمی سطح پر عقائد اور بدعات کے معاملے میں منطقی داؤ پیچ اور محتمل اور کمزور روایات سے استدلال مبلغ علم ہے۔ کم علم متصوفین کی مضبوط روایت کے زیرِ اثر یہاں دین ایک تخیلاتی چیز بن کر رہ گیا ہے، ایک دیو مالا ہے، جو دلچسپ افسانون کا مجوعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو معراج سے واپس تشریف لے آئے تھے، لیکن یہ اپنے گمان اور بیان میں وہیں رہ گئے ہیں، سیرت نبوی کے بیان کا مطلب محض معجزات کا، مافوق الفطرت واقعات کا بیان ہے۔ اس مذہب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قابل تقلید نمونہ نہیں رہتے، ایک ایسی ہستی بن جاتے ہیں جن سے صرف عقیدت رکھی جا سکتی ہے، ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی جرات نہیں کی جا سکتی۔ محض ان کی محبت و عشق دنیا و آخرت کی فلاح اور نجات کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے، یعنی عشقِ رسول کے دعوی کے بعد کوئی گناہ، کوئی بد اخلاقی ایسی نہیں جو آپ کی نجات کی راہ میں حائل ہو سکے۔ شریعت، مسائل، اعمال و اخلاق کی حیثیت ثانوی ہی نہیں بلکہ محض اضافی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس خاص تصورِ عشق کی ترجمانی علما سے زیادہ کم علم خطبا اور خانقاہی سجادہ نشینوں کے ہاتھ میں ہے۔ عشقِ رسول کے زور پر اب لوگوں کے ایمان اور کفر کے فیصلے ہونے لگے ہیں، ان کے واجب القتل کے فتوے جاری ہونے لگے ہیں۔ لوگوں کی تقاریر اور تحاریر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر الفاظ نکال کر ان پر گستاخی کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ اس نازک معاملے کو گلی بازاروں اور چوک اور چوراہوں پر طے کیا جا رہا ہے۔ علما کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی ہے۔ بریلویت ان کے علما کے ہاتھوں سے مکمل طور پر نکل چکی ہے اور یہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔

 

بریلویت میں خدا کی حیثیت ثانونی ہے، اصل مرکز و محور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے، جس کے لیے یہ سارا کارخانہء عالم وجود میں لایا گیا۔ لیکن قرآن مجید دیکھیے ہوں، تو وہ اس قسم کے تخیلات اور اس سے پیدا ہونے والے مزاج سے بالکل خالی ہے۔ قرآن مجید کا مرکز و محور محض خدا ہے۔ ہر چیز اسی کے لیے ہے اور اسی کے گرد گھومتی ہے۔ خدا کے لیے اس کا دین سب سے اہم ہے، جس کی تبلیغ اور جس پر عمل کرنے میں کسی نبی اور رسول کے لیے بھی کسی قسم کی بالفرض کمی اور کوتاہی قابل تحمل نہیں، بلکہ ایسے کسی امکان پر انہیں سخت وعید اور تنبیہ سنائی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں خدا کا لب و لہجہ دیکھیے۔ مثلاً، خدا کہتا ہے کہ رسول دین کے معاملے میں اگر اپنی طرف سے کچھ کہتا تو ہم اس کی رگِ جاں کاٹ ڈالتے۔ رسول کو کہا گیا کہ اگر تم نے دین کی کوئی ایک بات بھی لوگوں تک نہ پہنچائی تو تم نے کارِ رسالت گویا ادا ہی نہیں کیا۔ درحقیقت، رسول، خدا کا بندہ ہے، جسے تبلیغِ دین کی خاص ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا ہے اور وہ اپنے کاموں کے لیے خدا کو جواب دہ ہے۔ میری دانست میں قرآن مجید کا تصور خدا اور رسول، بریلویت کے تصور خدا اور رسول سے مطابقت نہیں رکھتا، اور اسی وجہ سے اندازِ بندگی بھی وہ نہیں جو قرآن کو مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کی بجائے، دامن رسول سے وابستہ ہو کر، ان کی شفاعت کے زعم میں شریعت کی پابندیوں سے آزادی کا بہانہ تلاش لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت کی پابندی کرانے کی علما کی کوششیں بار آور ہو کر نہیں دیتیں، کیونکہ تحت الشعور میں یہ بات چل رہی ہوتی ہے کہ گناہ گار تو سارے نبی کے ذمے ہیں جن کی بخشش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے کروا کر ہی چھوڑیں گے۔ میری دانست میں قرآن تو ایسی شفاعت کے تصور سے بھی خالی ہے۔ وہ تو بتاتا ہے کہ سفارش بھی ان کی ہی کی جا سکے گی، جو سفارش کے مستحق ہوں گے، اور خدا ان کے لیے سفارش کی اجازت دے گا، یہ نہیں کہ ہر گناہ گار کی سفارش کی جا سکے گی۔ ان باتوں کا احساس، بریلویت کے سنجیدہ اہل علم کو بھی ہے، اور عوام کو باور کرانے کی اپنی سی کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن معاملہ ان کے ہاتھ سے کب کا نکل چکا ہے۔

 

بریلوی مدارس میں تمام علمِ دین کا مقصد و منتہا دیوبندییت کا رد ہے۔ یہی مقصدِ وحید ان کا جینا مرنا ہے۔ سارے مذہب، سارے علم کا مرکز و محور چند اختلافی اعتقادی مسائل ہیں۔ آپ ان کے مولوی سے جدید مسائل کے بارے میں پوچھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا جواب ملتا ہے، وہ ان مسائل سے مکمل طور لا علم ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دینی حلقوں میں پایا جانے والا یہ رویہ سیکولرازم ہی ہے۔ بلکہ ان کا سیکولرازم عام سیکولرازم سے بھی زیادہ سیکولر ہے۔ سیکولرزم تو یہ کہتا ہے کہ مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے، لیکن یہاں تو مذھب، فرد کے ذاتی معاملات سے بھی بے دخل ہے۔ دین کو مسجد، نعت، نعروں اور جلوسوں میں محدود کر دیا گیا، اس سے زیادہ دین کی مداخلت اپنے ذاتی معامالات میں کسی کو گوارا نہیں۔

 

یہاں، عوام کے اخلاق و اعمال کی اصلاح زیرِ بحث ہی نہیں، جو کہ درحقیقت، دین کا مطمح نظر تھا۔ افسوس کہ منبر رسول جیسے طاقت ور اور مؤثر فورم کو بہت پست چیزوں میں ضائع کر دیا گیا ہے۔

 

(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *