برخوردار گولی
تم اتنا چیختی کیوں ہو؟
کیا تمھیں شرم نہیں آتی کہ
تمھیں چلانے والوں کے اندر
کوئی چیخ نہیں ہے
کوئی آواز نہیں ہے
ایک سرسراہٹ ہے بس
حیوانی سانسوں کی
تم کیوں نہیں سرسراتی؟
بارود کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا
 
آج جب ١٦ دسمبر کی صبح کا سوچتا ہوں
اور ان چپکی پڑی چیخوں کا
تمہاری بوچھاڑ میں
تو لگتا ہے کہ تم بھی منافق ہے
اپنے چلانے والوں کی طرح
تمہاری چیخ بھی درندہ چیخ ہے
احساس کی طمانیت سے عاری
کاش تمھیں بھی پھانسیوں کا ڈر ہوتا
کاش تمہیں بھی کانپنا آتا
تمھارے موجد نے بھی تمھیں
انکار کے لفظ سکھاۓ ہوتے
 
اور اب تم دندناتی پھرتی ہو
جیسے کلمہ پڑھ لینے سے
تم کوئی مسلمان ہوگئی ہو
ایسا نہیں ہوتا برخوردار
تم جس لالی سے وضو کر کے آئی ہو
وہ تو گناہوں سے افضل تھی
تم نے جس سینے پر سجدہ کیا ہے
اسکا قصور تو پوچھ لیتی
کاش تمہاری بھی زبان ہوتی
جسے کوئی بھی کھینچ سکتا
 
مجھے تمہاری رفتار میں ہی ایک بزدلی
نظر آتی ہے تمھیں چلانے والوں کی
کون نہیں جانتا میرا سپاہی کہاں کہاں کھڑا ہے
جاؤ اسکے سامنے سینہ تان کر
اتنے برسوں کے اندھیر حملوں کی
منمناہٹ کی شرمندگی کی معافی مانگو
اور خدا کرے وہ تمھیں کبھی معاف نہ کرے

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: