اس کی بڑی بڑی بولتی آنکھیں خمار آلود تھیں اور ہونٹوں پر زہر بھری طنزیہ مسکراہٹ کا پہرہ تھا۔
نورالدین گلی کے نکڑ پر اسی کی لئے پہرہ دے رہا تھا:
’’ دین کی آغوش میں آجاؤ‘‘ اس نے اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ آنکھ میچتے ہوئے میزائل داغا’’ یقین کرو تمہیں بہت مزہ آئے گا!!‘‘ دوسرا تیر اس کی روح کو چھلنی کرگیا۔
’’ میرا راستہ کیوں روکتے ہو؟ تحت الثریٰ سے آنے والی آواز نسرین مسیح کی تھی۔
’’ ہاہاہا اور تلوار ٹوٹ گئی میری پسندیدہ کتاب ہے‘‘ نورالدین اس کا طواف کرنے لگا۔ "استانی جی! ضرور پڑھنا یہ کتاب اور ہاں تیرا راستہ کوئی نہیں روکے گا، بس ایک بار ‘دین’ کے راستے پر آجاؤ دل کو چین اور روح کو بہت سکون ملے گا، ہا ہا ہا”
’’ اگر دین اس راستے کا نام ہے جس پر تم چل رہے ہو تو وہ تمہیں ہی مبارک ہو‘‘ نووارد کا پارہ اس کے کاٹ دار اور ذومعنی جملے سننے کی وجہ سے خاصا چڑھا ہوا تھا۔
علماء انبیاء کے وارث ہیں میں مولانا برہان الدین کا فرزند ہوں، اس کے منبر اور مصلے کا وارث ہوں اور میرا راستہ روک کر تم عین اسلام کا ہی راستہ روک رہے ہو۔
’’ ابے تو اپنے قانون کے سبق کا رعب کسی اور پر جھاڑنا، دین کاراستہ نہ روک ورنہ پاش پاش ہوجائے گا‘‘۔
"میں دین کا نہیں، تمہارا راستہ روک رہا ہوں”
"علماء انبیاء کے وارث ہیں میں مولانا برہان الدین کا فرزند ہوں، اس کے منبر اور مصلے کا وارث ہوں اور میرا راستہ روک کر تم عین اسلام کا ہی راستہ روک رہے ہو۔”
اس نے اپنی انگلیوں سے داڑھی میں کنگھی کرتے ہوئے خطیبانہ اور جلالی انداز اختیار کرلیا تھا۔ تماش بین بھی اکھٹے ہوچکے تھے:
’’ ناصر ! تم جیسے مسلمانوں اور ان زندیق کافروں میں کوئی فرق نہیں تم انگریزی قانون کے طالب علم ہو اور ہم قرآن اور قرآنی قانون کا علم رکھنے والے اور مخلوق خدا میں فی سبیل اللہ بانٹنے والے ہیں۔”
ناصر گول گول شیشوں والی عینک اپنی آنکھوں پر سجائے ہکا بکا کھڑ اتھا:
’’ میں نے آج بھی اس گمراہ کو ’دعوت‘ دی ہے اور آئندہ بھی اس کو دعوت دیتا رہوں گا اور دعوت اسلام سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا‘‘ نورالدین گرجنے لگا تھا اور تماش بین خاموش رہ کراس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔
شہر کی اس گنجان آباد کچی بستی میں چند ہندو اور عیسائی گھرانے بھی آباد تھے،یہ بستی بھی گلوبل ویلج کے سینے پر موجود ان ان گنت بستیوں میں سے ایک ہے جہاں انسانوں اور کتوں کے جیون کے رنگ ڈھنگ میں کوئی نمایاں فرق نہیں۔ ہر دوسرا شخص جہل، بھوک، غربت اور ظلمت کا اسیرتھا۔گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پر فلاکت، مفلسی، خوف اور وحشت کے مارے ننگے اور بیمار وجود گھٹن ، حبس، ویرانی اورر یاست کے قیدی تھے۔
شہر کی اس گنجان آباد کچی بستی میں چند ہندو اور عیسائی گھرانے بھی آباد تھے،یہ بستی بھی گلوبل ویلج کے سینے پر موجود ان ان گنت بستیوں میں سے ایک ہے جہاں انسانوں اور کتوں کے جیون کے رنگ ڈھنگ میں کوئی نمایاں فرق نہیں۔
نسرین مسیح یاسیت زدہ نورالدین کے جملوں کی قید سے نکل کر سکول پہنچی تو اسٹاف اور بچوں کو اپنا منتظر پایا۔ جشن عید میلاد النبی ؐ کے سلسلے میں منعقدہ تقریب کا آغاز اس کی عدم موجودگی میں کیسے کیا جاسکتا تھا۔ ہم نصابی شعبے کی نگران کی حیثیت سے نسرین مسیح نے ہی بچوں کو نعت خوانی اور تقاریر کے مقابلوں کے لیے تیار کرایا تھا۔
’ اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کے تمام انسانوں میں حضرت محمد ؐ سب سے عظیم، اعلیٰ و بالا اور برتر ہیں۔ نہ آپ جیسا کوئی تھا،نہ آیا اور نہ آئے گااور یہی وجہ ہے کہ آپ ؐ نبی مہربان اور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہلائے‘‘۔۔
نسرین مسیح تقریب کے اختتامی کلمات ادا کررہی تھی:
"آخر میں ایک سوال آپ سب سےاس پوری محفل سے کہ ہمیں اس مہربان نبیؐ کے نام پر دوسرے انسانوں کے گلے کاٹنے اور معصوموں کو رسوا کرنے کا اتنا شوق کیوں ہے؟”
لیکن نسرین کو کہیں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نسرین مسیح بچپن سے عدم تحفظ کا شکار رہی تھی۔جنسی گھٹن کے شکار معاشروں میں بچیاں حبس اور خوف کی دلدل میں ہمہ وقت پھنسی رہتی ہیں اور آج تو نورالدین نے ہر حد پار کرلی تھی۔ اس کے ذہن کی سکرین پر اپنی ہی بستی کی پروین جمال کے چہرے کا ’’ کلو ز شاٹ‘‘ بار بار ابھر رہا تھا جسے اس کے شرابی شوہر نے توہین رسالت کے الزام میں زندہ جلا ڈالا تھا اور مولانا برہان الدین نے بغیر کسی ثبوت کے اس بہیمانہ قتل کو جائز قرار دیا تھا۔
’’ اللہ رسولؐ کی قسم! میں بے قصور ہوں یا اللہ مدد‘‘ اس کی دلدو چیخوں کی باز گشت اسے اپنے کانوں میں سنائی دی اور وہ کانپ کر رہ گئی۔
خدشات اور تصورات کی ڈوبتی ابھرتی پرچھائیوں کے ساتھ اس نے اپنی گلی کا موڑ کاٹا۔
’’ میری بچی ایسا کیوں کرے گی؟‘‘ ایاز مسیح کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔
’’ کیونکہ وہ منکر ہے قرآن کی اورکافر ہے‘‘نورالدین دھاڑ رہا تھا۔
وہ مجمع میں سے جگہ بناتی ہوئی آگے بڑھی:
’’ کیا ہوا بابا؟ آپ پریشان کیوں ہیں؟؟ اور یہ لوگ؟؟؟‘‘
"بیٹا! اس گندی نالی سے کچھ اوراق ملے ہیں اور ان سب کا کہنا ہے کہ یہ تم نے پھینکے ہیں”
’’ کک کیا کیسے اوراق؟؟؟‘‘
"مقدس اوراق، قرآنی آیات، اوراق مبارک!!!”
نورالدین نے ایک ایک لفظ ایٹم بم کی طرح گرایاپھر گواہی دینے لگا:
"میں نے خود اپنی آنکھوں سے تمہیں ان اوراق مبارک کو اس نالی میں پھینکتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت عزیز اور طارق بھی دور سے دیکھ رہے تھے”۔
’’ میرا ان اوراق سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘ اس کا اشارہ اپنے پڑوسی طارق کے ہاتھ میں اوراق مبارک کی طرف تھا۔
’’ کوئی تعلق نہیں ہے،اسی لئے تو بے دردی سے پھینک دیئے ‘‘ نورالدین، دین اسلام سے اپنا تعلق خوب نبھا رہا تھا۔
’’ مم ۔۔۔ میر امطلب۔۔۔۔‘‘ تھکی ماندی اور مضمحل نسرین مسیح کو اپنی صفائی کے لئے الفاظ نہیں مل رہے تھے اور پروین جمال کے جلتے سلگتے بدن کے سارے مناظر کٹ ٹو کٹ کی صورت میں اس کے ذہن کی سلور اسکرین پر چل رہے تھے۔
انسپکٹر محمود کلام مبارک کے مقدس اوراق کی ساری تفصیلات نورالدین کی زبانی سننے کے بعد گہری سوچ میں تھے۔
’’ معاملہ خاصا نازک ہے‘‘ نازک سی نسرین مسیح اس کے سامنے بت بنی کھڑی تھی۔
” قسم یسوع مسیح کی ،اللہ پاک کی قسم، میری بچی بے گناہ ہے!!!”
ایاز مسیح گڑ گڑا رہا تھا۔
"اس کی بے گناہی تو اب عدالت میں ہی ثابت کرسکتے ہو بڑے میاں”
’’ آپ مجھے لے چلیں، عمر قید کردیں مجھے پر میری بیٹی کو چھوڑ دیں۔”
ایاز مسیح کا سر انسپکٹر محمود کے پیروں پہ ٹکا تھا؛”آپ سرکار ہیں اور میں آپ کا غلام”
"بڑے میاں! میں مجبور ہوں۔ ویسے بھی میں کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مذہبی معاملہ ہے مجھے تفتیش کے لئے آپ کی بیٹی کو تھانے لے جانا پڑے گا‘‘۔
انسپکٹر محمود اوراق مبارک اپنے قبضے میں لے کر نسرین مسیح کو تھانے لے گیا، ’’رات بھر تفتیش‘‘ کے دوران کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔ سب انسپکٹر اور محرر نے بھی تفتیش میں معاونت کی۔ اگلی صبح ناصر اپنے استاد اور شہر کے نامور وکیل پروفیسر شمیم کے ہمراہ ضمانت کے سلسلے میں تھانے میں موجود تھا۔ پروفیسر شمیم نے جب اوراق مبارک کا جائزہ لیا تو انسپکٹر کی جہالت اور’’ایمان بالغیب‘‘ کی خوب داد دی۔ انسپکٹر کی ہوس نے اسے اچار اور مربے تیار کرنے والی پرائیویٹ کمپنی کے عربی اشتہار کو پڑھنے کی مہلت ہی نہیں دی تھی۔
نسرین مسیح کے نام کے ساتھ ’’ ملعونہ‘‘ کا سابقہ تو نہ لگ سکا، البتہ وہ اپنی زندگی کی بیش قیمت رات کا انتساب حوالات میں قانون کے نام کرچکی تھی۔
وہ جب بستی میں داخل ہوئی تو گلی کے نکڑ پر کھڑے نورالدین پر غم و غصے اور حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
اس کے ساتھیوں سے غلطی کہاں ہوئی تھی؟؟؟وہ احساس شکست کے ساتھ سوچتے ہوئے پھٹی پھٹی آنکھوں سے نسرین مسیح کو دیکھے جا رہا تھا۔
جبکہ اس کی بڑی بڑی بولتی آنکھیں خمار آلود تھیں اور اس کے ہونٹوں پر زہر بھری طنزیہ مسکراہٹ کا پہرہ تھا۔

2 Responses

  1. Mohammad Shahid Sharif

    میرا خیال ہے یہ صرف ایک کہانی ھے اور کچھ نہیں
    فرض کریں یہ سچ بھی ہے تو اس میں اسلام کا کہاں تعلق بنتا ہے؟َ
    اس طرح کے واقعات نایٹ کلب میں بھی ہوتے ھیں کبھی اُن پے بھی لکھنا
    شکریہ

    جواب دیں
    • M. Arshad Saleem

      بھائی صاحب ! یہ کہانی ہی تو ہے ۔۔۔۔ یہ پاکستان کے ہر شہر اور نگر میں کھیلی جا رہی ہے ۔۔۔۔ اسلام کا واقعی اس میں کوئی رول نہیں ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلام پسند وں اور مولویوں کا واضح ، نکھرا اور اصل عکس اس میں دکھتا ہے !!

      جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: