Laaltain

انھیں معلوم کیا ہے؟

19 دسمبر، 2014
کہ برفیلے دنوں میں لاکھ پنجھی مرگئے ہوں
ساتھیوں کا جس قدر ناقابل تسخیر دکھ ہو
ایک دن پھر ایک نغمہ گونجتا ہے
زندگانی جاگ اٹھتی ہے

ندی کو برف نے مغلوب جتنا کر لیا ہو
اک توانا تیز انگڑائی سے جب بیدارہوتی ہے
تو مرگِ برف ہوتی ہے

درختوں میں اندھیرا بولتا ہو
اک شعاعِ نور سے اک روز وہ بھی جگمگا اٹھتا ہے

لہو میں برف جمتی جا رہی ہو
سانس بھی معدوم ہوتا جا رہا ہو

کہیں اک بیج پورے پیڑ کو آغوش میں لے کر
دبا ہو برف میں
برفیلی درزوں سے نمو کرتا نکلتا ہے

لہو کی سرد رو سے نیند جتنی بھی جڑی ہو
ایک برفیلی گپھا میں
ایک گابھن ریچھنی
جنتی ہے بچے
اور اس کی چھاتیوں سے
لاکھ نورانی شعاعیں پھوٹ پڑتی ہیں

گلہری پورے جنگل کو دبا کر بھول جاتی ہے
مگر اک دن خزانہ ڈھونڈ لیتی ہے

ستم کا دور آخر ختم ہوتا ہے

انہیں معلوم کیا ہے

مرنے والے تب مرا کرتے ہیں
سوچوں کو شہید اور خوشبوؤں کا قتل ہو

قاتل، بدن کی جنگ جیتیں گے
مگر سوچیں کہاں مغلوب ہوں گی
یہ دریا کب رکیں گے
درختوں پر ثمر آتا رہے گا
ندی بھی جوش تو کرتی رہے گی

پنچھیوت کے گیت بھی بہتے رہیں گے
پھول بھی کھلتے رہیں گے

سوچ کے یہ سلسلے چلتے رہیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *