"ایک ایسے ملک میں جہاں علاقائی زبانوں کی لازمی تدریس کی اجازت نہیں وہاں غیر ملکی زبانوں کی لازمی تدریس سمجھ سے بالاتر ہے۔” ماہر تعلیم اور تاریخ کے استاد خرم علی نے سندھ حکومت کے چینی زبان کی لازمی تدریس کی یادداشت پر دستخط کرنے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ان کہنا تھا کہ غیر ملکی زبانوں کی تدریس تعلیمی نہیں سیاسی فیصلہ ہے،”سعودی اثرورسوخ اور مذہبی بنیادوں پر عربی زبان کی تدریس کی جاتی رہی ہے اب چین بھی دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے اپنی زبان کی تدریس کا خواہش مند ہے۔”
سندھ حکومت نے 2011 میں چھٹی جماعت کے طلبہ کو چینی زبان پڑھانے کا اعلان کیا تھا تاہم ا س ضمن میں چینی حکام کے ساتھ یادداشت پر 24 مارچ کو سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں دستخط کیے گئے۔ اس یادداشت پرصوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو، سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو اور چین کے صوبے سی شوان کے محکمہ تعلیم کے نائب ڈائریکٹر جنرل لیو ڈنگ شرکت کی اور یادداشت نامے پر دستخط کیے۔
یادداشت کے مطابق سندھ میں چھٹی جماعت سے میٹرک تک چینی زبان لازمی پڑھائی جائے گی اور اس فیصلے پر تین سال کے اندر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، چینی زبان کی تعلیم پرطلبہ کو اضافی نمبر، وظائف اور چین میں تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔صوبائی وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ چینی زبان سکھانے کا مقصد یہاں چینی زبان اور ثقافت کو فروغ دینا ہے ، چین کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ معاشی اور ثقافتی تعلقات ہیں۔انہوں نے بتایا کہ چینی زبان سکھانے کے لیے اساتذہ اور دیگر عملے کو خصوصی تربیت کی ضرورت ہے اور یہ تربیت ثقافتی پروگرام کے تبادلے کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔
ماہرین تعلیم کے مطابق غیر ملکی زبانوں کی تدریس کو لازمی قرار دینا طلبہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے،”بچوں پر پہلے ہی انگریزی، اردو اور عربی زبان سیکھنے کا بوجھ ہے جس سے ان کی سیکھنے کی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔”خرم علی کا کہنا تھا، ان کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی علاقائی زبانوں کے نظرانداز ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ سندھی قوم پرست طالب علم اور سندھ یونیورسٹی کے طالب لطیف جوکھیو نے اس اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا اور پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تدریس کا مطالبہ کیا،”اگرچہ سندھ میں سندھی زبان پڑھائی جارہی ہے لیکن باقی صوبوں میں علاقائی زبانوں کی تدریس کا حق ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔حکومت علاقائی زبانوں کی تدریس پر توجہ کی بجائے اقتصادی منصوبوں اور امداد کے حصول کے لیے غیر ملکی زبانیں پڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔”

Leave a Reply