ہمیشہ سوچتا ہوں میں
یہ اک نیلی سی چھتری
جو مرے سر پر تنی ہے
اس کے پیچھے
اور کیا ہے
کبھی میں خواب کے سیارچے میں بیٹھ جاتا ہوں
عقیدت گاہ سے مانگی ہوئی عینک لگاتا ہوں
روشنی کی برق رفتاری دکھاتا ہوں
ذرا پھر غور سے دیکھوں
کہ یہ افلاک کی وسعت
ستاروں اور سیّاروں کی ٹولی
اور ہاکنگ کے سیاہ سوراخ
بھوکے اژدھے
ہر شے نگل جانے کی خواہش
مضطرب اتنے کہ بس معدوم ہوں جیسے
میں ان کے پاس جانا چاہتا ہوں
مگر پھر یہ سوچتا ہوں
ابھی تو مجھ کو اپنے پیر کے نیچے کی مٹی کا پتہ معلوم کرنا ہے
میں ساتوں آسماں کی گردشوں سے کیوں پریشاں ہوں
کہ اپنی یہ زمیں بھی تو
اسی اونچے فلک میں ہی معلق گھومتی ہے