Dr-Mubarik-Haider-2

لالٹین: نوجوانی میں ہی آپ ترقی پسند نظریات اور سیاست کی طرف راغب ہو گئے۔ کن عوامل اور حالات نے اس سفر کی بنیاد رکھی؟

مبارک حیدر: کالج کے دنوں میں طلبہ کی سرگرمیوں سے تعلق بنا، پوسٹ گریجوایٹس یونین کا صدر منتخب ہوا۔ انگریزی ادبیات کے مطالعہ میں یونانی ادب اور علوم سے تعلق قائم ہوا تو فکری افق کھلا۔ گارڈن کالج میں ہی بھٹو صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی جب وہ وزیر برائے قدرتی وسائل تھے۔ ۱۹۶۴ء میں حلقہ ارباب ذوق کی رکنیت ملی، اس وقت کے بڑے شاعروں اور اہل فکر سے رابطے ہوئے نوجوان لیکچرار اور شاعر کی حیثیت سے جو حلقہ احباب ملا ان میں امین مغل، مسعود اللہ خاں اور ایرک سپرین مرحوم کے ساتھ ساتھ عزیز الدین مرحوم بھی شامل تھے۔یہ بائیں بازو کی عالمی تحریکوں کا زمانہ تھا۔ سوکھی لکڑی کے ستون بھی حرکت میں تھے۔ ترقی پسند نظریات اور سیاست کی طرف راغب ہونا فطری سی بات تھی۔ ۱۹۶۶ء میں جب بھٹو صاحب ایوب خاں سے الگ ہوئے تو لاہور میں ان سے پھر ملاقاتیں ہوئیں۔ چنانچہ ۱۹۶۷ء میں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوا۔

لالٹین: بائیں بازو کے ساتھ کام یا انقلابی سیاست کا تجربہ کیسا رہا؟ اور وقت کے ساتھ آپ فکری ارتقاء کے کن مراحل سے گزرے؟

مبارک حیدر: پاکستان میں بائیں بازو کا وجود ایک سراب کی طرح رہا ہے۔  مذہب کی بنیاد پر بننے والے  اس ملک میں اسلامی جذبات کا استعمال ہمیشہ کامیاب رہا ہے۔ بڑے زمینداروں اور فوجی جرنیلوں نے اسلام کو اپنی تلوار شروع سے ہی بنا لیا تھا۔ چنانچہ علم و استدلال کی بنیاد پر مسائل کا حل پیش کرنا نہایت مشکل رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں سوشلزم یا بائیں بازو کی سیاست کا پھیلاؤ ممکن نہ تھا۔ اوپر سے ایک اور المیہ انا پرستی کا ہے جو لبرل اور ترقی پسند افراد کو پوری طرح متحد ہونے ہی نہیں دیتا۔ میرے خیال میں بائیں بازو اور ترقی پسندی یا سیکولر ازم اور استدلال انگیزی کی تحریکوں کو آج بھی اسی الجھن کا سامنا ہے۔ ان عملی الجھنوں کے علاوہ انقلابی سیاست کو فکری خامیوں کا سامنا بھی ہے۔ پاکستان کی سماجی اور معاشی سیاست کو جدید بنیادوں پر تعمیر کرنے کے لیے جس فکری نظام کی ضرورت ہے وہ کہیں موجود نہیں ۔ مارکس، لینن اور ماؤ کے افکار کی خامیوں کے سامنے آنے کے بعد عالمی ذہن ابھی ایسے نظریہ تک نہیں پہنچ سکا جو پیچیدہ عالمی معیشت اور سیاست کے مسائل کا حل پیش کرے۔ جبکہ عالم اسلام کےساتھ لٹکے ہوئے پاکستان کے مسائل تو اور بھی ٹیڑھے ہیں۔

لالٹین: آپ نے ‘تہذیبی نرگسیت’ کے اوریجنل تصور کے ذریعے بالعموم مسلمانوں اوربالخصوص پاکستانی قوم کے فکری اور سیاسی بحران کی وضاحت کی ہے۔ ہمارے نوجوان قارئین کے لیے اسے عام فہم انداز میں کیسے بیان کریں گے؟

مبارک حیدر: اسلامی طرز فکر میں فضیلت اور فخر کے جذبات حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسری قومیں بھی آگے بڑھنے کے لیے خود اعتمادی کا سہارا لیتی ہیں، فخر اس کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں فخر کی ایسی شدت ہے کہ جسے جہالت کہتے ہیں۔ فخر کے لیے ہم ماضی کا ذکر کرتے ہیں اور کسی اعلی کارکردگی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، صرف اپنے دین کی فضیلت اور اپنے اسلاف کے کارنامے بیان کر کے دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنی بے سمتی اور کوتاہی کا کبھی جائزہ نہیں لیتے۔ دوسروں کی خوبیوں کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔ خود کو حسین اور پاک سمجھنے والا شخص ارد گردکی حقیقت سے مکمل طور پر کٹ جاتا ہے۔ تنقید کرنے والے دوست بھی اسے دشمن لگتے ہیں۔ ایسا شخص آہستہ آہستہ دیوانگی اور پیرانایہ کا مریض بن جاتا ہے۔ یہی حال ہمارا ہوا ہے۔ اس مرض سے نکلنے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنی خامیوں کو کھل کر قبول کریں۔ دوسروں میں اچھائی تلاش کریں۔ اپنے ہر کام کو اس نظر سے دیکھیں کہ اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں۔

لالٹین: وہ کون سے حالات وواقعات ہیں جوہماری عوام کو تکثیریت سے یک رنگی اور پھر نرگسی رویے کی طرف لے کر آئے؟

مبارک حیدر: سچ تو یہ ہے کہ دوسرے سامی مذاہب کی طرح اسلامی معاشرہ شروع ہی سے یک رنگی کا قائل تھا۔ شروع ہی سے اسلامی علماء کا دعویٰ تھا کہ عبادت سے معاشرت تک ہر کام میں دین کا فیصلہ موجود ہے جس میں ترمیم ، تبدیلی یا تنوع کی گنجائش نہیں۔ تاہم فقہاء کے چار نظریات بن جانے سے تھوڑی بہت انفرادیت ممکن ہوئی۔ پھر مختلف قوموں کے لوگ مسلمان ہوئے تو مسلم معاشروں میں کئی رنگ دکھائی دینے لگے۔ افکار میں بھی تنوع آیا لیکن فکری تنوع اور انفرادیت کا خاتمہ امام احمد بن حنبل کے دور میں شروع ہو گیا۔ جبکہ مکمل یک رنگی کی تحریک سعودی مملکت کے مضبوط ہونے کے ساتھ دوبارہ شروع ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد متحدہ ہندکی وہ مسلم تہذیب تیزی سے ختم ہو گئی جو صدیوں تک مل جل کے رہنے سے بنی تھی۔ بھارت سے نفرت اور سعودی عرب سے محبت و عقیدت اس حد تک بڑھائی گئی کہ ہمارا معاشرہ یک رنگی کا نمونہ بن گیا۔  بظاہر یہ معاشرہ منتشر ہے جس کا ہر شخص اپنی ذات یا اپنے کنبہ کے علاوہ کسی کی پروا نہیں کرتا لیکن یہی اس کی یک رنگی بھی ہے، یعنی یہ پرندوں کا ایک غول ہے جس میں کوئی دوسروں کے لیے جیتا ہے نہ مرتا ہے لیکن سب کے حلیے ایک سے، جذبات ایک سے، اڑنے اترنے کے انداز ایک سے ہیں۔ اس انتشار اور یک رنگی کا مقصد واضح ہے۔ قومی وفاداریوں اور مقامی قوانین کا احترام ختم کر کے عربوں کی عالمی مملکت کا خواب دلوں میں بٹھانا۔ اس کام کے لیے دین اور اسلاف کا فخر پھیلایا گیا، اور اسے اس قدر دُہرایا گیا کہ اب مسلم فرد کے لیے بس اتنا فخر ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان ہے یا اس کا حلیہ اسلامی ہے۔ اس رجعت پسندانہ رجحان کا نتیجہ وہ انتشار ہے جو ہم پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔

لالٹین: آپ کی دوسری کتاب ‘مبالغے مغالطے’ کو کیا ‘تہذیبی نرگسیت’ کے تھیسز کا تسلسل سمجھا جائے یا اس میں آپ نے کسی نئے زاویے سے مسائل کا تجزیہ کیا ہے؟

مبارک حیدر: مغالطے مبالغے کو تہذیبی نرگسیت کا تسلسل اس حد تک کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب جن مغالطوں اور مبالغوں کی تردید کرتی ہے وہ ہماری نرگسیت یعنی ہمارے جھوٹے فخر کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کتاب کا ایک الگ مقصد بھی ہے۔ عالمی اسلامی خلافت کی تحریک مسلمانوں کو باقی دنیا سے ٹکرانے کے لیے اُکسا رہی ہے؛ اس تصادم کے خوفناک نتائج کا اندازہ مشکل نہیں؛ یہ کتاب اس تحریک کے جواز کو رد کرتی ہے، اسی طرح جدید دنیا کے ساتھ چلنے اور بقائے باہمی کے لیے جن سیاسی نظریات کی ضرورت ہےان کا جواز پیش کرتی ہے۔ میرے خیال میں مغالطے مبالغے کو اس اعتبار سے اہم کہا جا سکتا ہے کہ یہ اسلام کی اپنی روایت کے حوالے سے بعض دعووں کی تردید کرتی ہے۔ تاہم اس کی افادی حیثیت کا فیصلہ قارئین کا کام ہے۔

لالٹین:آپ کی رائے میں پاکستان کا موجودہ سماجی و سیاسی خلفشار کس سمت جا رہا ہے؟

مبارک حیدر: ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت سے نفرت اور مذہبی نرگسیت و منافرت پاکستانی قوم کے خمیر میں شامل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فکری پہلو اور بھی ہے، جس نے پاکستان کو موجودہ بحران تک پہنچایا، وہ ہےعسکریت پسندی۔ چونکہ مسلمانوں کو ہر خوبی سے بڑھ کر اپنی فوجی قوت پر ناز رہا ہے۔ اور حضرت خالد بن ولید سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک ہر مسلم فاتح ہمارا آئیڈیل رہا ہے، لہٰذا پاکستان بنتے ہی فوج اور جرنیل قومی زندگی اور سیاست پر چھا گئے۔ آہستہ آہستہ ان تینوں عوامل کے نتیجہ میں عدم برداشت، آمرانہ رویوں اور عسکریت کا بول بالا ہو گیا۔ سیاست اور سیاستدانوں کی تذلیل، قومی رویہ بن گیا۔ جس کے ذریعے سے جمہوریت کا احترام ختم کیا گیا اور بار بار جرنیلوں، ججوں اور مذہبی عناصر کے اتحاد سے مارشل لاء لگتے رہے۔

اگرچہ فوری طور پر ہماری قومی زندگی میں اصلاح کی کوئی امید نظر نہیں آئی۔ بظاہر ملک ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ٹوٹنا شاید اس لیے مشکل ہے کیونکہ امریکہ، روس، چین اور بھارت میں سے کوئی  بھی اسے ختم کرنے کے حق میں نہیں۔ موجودہ خلفشار کے خالق یعنی جرنیل اور اسلامی انتہا پسند موجودہ بے چینی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں لیکن بین الاقوامی طاقتوں کے مقاصد اس صورتحال سے مختلف ہیں۔ چنانچہ جمہوری عمل کو تسلسل ملے گا اور مذہبی انتہا پسندی آئندہ برسوں میں کمزور ہو گی۔ مسلم افواج کا عمل دخل بھی کم ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ بلوچستان کے الگ ملک بننے کا امکان موجود ہے۔ لیکن جمہوری عمل کے مضبوط ہونے سے اور جرنیلوں کا اثر کم ہونے سے صورتحال بدل سکتی ہے۔

لالٹین: ایسے حالات میں پاکستانی نوجوان سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں؟

مبارک حیدر: انتہا پسند مذہبیت، عدم برداشت اور عسکریت کے سائے میں پلنے والی موجودہ نسل جس نے موجودہ خلفشار کو اپنے ہاتھوںسے گھڑا ہے، اس صورتحال کی اصلاح نہیں کر سکتی، لیکن انسانی معاشروں کی ایک امتیازی صفت ہے کہ یہ ایک دو نسلوں کے عرصہ میں  یکسر بدل جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس عمل نے پچھلے تیس چالیس برسوں میں یعنی دو نسلوں کے دوران ہمارے معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے، اس کے برعکس امن سے اتنے ہی عرصہ میں ایک انسان دوست جمہوری معاشرے کی تعمیر بھی ممکن ہے۔یعنی اگر نئی نسلوں کی فکری بنیاد کی اصلاح کے لیے درست نصابِ تعلیم اور تعمیری میڈیا کو رائج کیا جائے تو عمدہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اگرچہ نظامِ تعلیم یا نصابِ تعلیم کا فیصلہ حکومتوں کے ہاتھ ہوتا ہے، تاہم فکر و نظر رکھنے والے نوجوان لوگ انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہی جمہوری طرزِ حکومت کا مثبت پہلو ہے۔

تاریخی تبدیلی کی اس بھاری ذمہ داری میں مسخ شدہ پاکستانی شناخت اور عالم اسلام اور مغرب کے مفروضہ تنازع کا سیاق و سباق کیا کردار ادا کرے گا؟

مبارک حیدر: جیسا کہ پچھلے سوال پر بات ہوئی، مسخ شدہ شناخت کو درست کیا جا سکتا ہے، تاہم یہ فوری ممکن نہیں۔ بدنصیبی یہ ہے کہ اس وقت وہ قوتیں پاکستان کے وجود پر چھائی ہوئی ہیں، جو مسلم دنیا کا تصادم مغرب کی جدید دنیا سے کرانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان جیسے منتشر معاشروں کو استعمال کرتی ہیں۔ مسلم دنیا کے اکثر معاشرے منتشر اور نرگسیت کا شکار ہیں۔ لہٰذا احمقانہ تحریکوں میں لگے ہوئے ہیں، جن کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان مسلم دنیا کا منتشر ترین معاشرہ ہے۔ اس کا تصادم بیک وقت امریکہ، بھارت، افغانستان اور خود اپنے آپ سے ہے۔ اتنے محاذوں پر بیک وقت لڑنے کی صلاحیت امریکا کے پاس بھی نہیں۔ لہٰذا ہماری  متوقع بربادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

تاہم عالمی طاقتوں کے باہمی تنازعات میں کمی آئی ہے۔ دانشور حلقوں میں اس احمقانہ آویزش پر بے چینی بڑھی ہے اور صورتحال میں بہتری کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود امن پسند انسان دوست عناصر کے لیے ضروری ہے کہ تہذیبوں کے تصادم جیسے بھیانک نظریے کی مخالفت میں شدت پیدا کریں۔

موجودہ سیاسی جماعتوں اور نظام سے آپ کی کیا امیدیں ہیں؟

مبارک حیدر: تمام تر خامیوں کے باوجود موجودہ حکمران اتحاد اور مسلم لیگ (نواز) ہی موجودہ صورتحال میں جمہوریت کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت کا تسلسل وہ واحد ضمانت ہے جو عدم برداشت اور عسکریت کے عفریت کو کمزور کر سکتی ہے۔ تمام ظاہری تضادات کے باوصف ان جماعتوں نے فوج اور مذہبی عسکریت پسندی کی حمایت نہیں کی جوکہ ایک شاندار تبدیلی ہے۔ میرے خیال میں پختگی کا یہ سفر جاری رہے گا۔ اگر ۲۰۱۸ء کے انتخابات بھی آئین کے مطابق ہو گئے  تو پاکستان دنیا میں واپس لوٹ آئے گا۔

One Response

Leave a Reply

%d bloggers like this: