ملک آج کل پھر سیاسی ہلچل سے دوچار ہے، کہیں انقلاب کی آمد آمد ہے تو کہیں جمہوریت کو درپیش خطرات کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔آزادی کے چھیاسٹھ سال بعد حکومت کو ایک نہیں بلکہ "دو دو مارچوں ” کا سامنا ہے اور حکومت کی برخاستگی کی نوید سنائی جارہی ہے۔ویسے تو حکومت کے خاتمے کی تاریخیں آنا پاکستان میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں، اور جب حکومت بھی میاں محمد نواز شریف کی ہوجو پہلے ہی دو بار اپنی منتخب شدہ جمہوری حکومت کا خاتمہ دیکھ چکے ہیں۔ یہ بات نہ تو پاکستان کے لئے نئی ہے اور نہ خود حکومت کے لے ۔
میاں صاحب کی تیسری حکومت جانے کی باتیں زبان زد عام ہیں اور حکومت اس شخص کی طرح بوکھلاہٹ کی شکار ہے جس کا گھر تیسری بار ٹوٹنے کو ہے اور وہ اپنے اس ٹوٹتے گھر کو بچانے کے لے پاپڑ بیل رہا ہے۔ آصف علی زرداری جن کو میاں شہباز شریف لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنا اور بھاٹی چوک میں الٹا لٹکانے کے آرزو مند تھے وہ بھی ایک ایسی حکومت کو بچانے کے لئے میدان عمل میں اتر چکے ہیں جس کی "رخصتی "کی تاریخ "مبینہ” طور پر طے کی جاچکی ہے۔ ان کی خدمات شاید اس لئے حاصل کی گئی ہیں کہ وہ ایسی حکومت چلانے کے ماہر ہیں جو نہ تو خود چلنا چاہتی ہواور نہ بیان بازسیاستدان اس کو چلتے دیکھنا چاہتے ہوں۔ لہذا آصف زرداری فون پر فون گھما کر بڑے بھائی کی حکومت کو دوام بخش رہے ہیں ۔ اور "پہلے آپ کی باری پھر ہماری باری "والے وعدے کو پوری طرح نبھا رہے ہیں حالانکہ زرداری صاحب کے وعدے "قرآن یا حدیث ہرگز نہیں ہوتے”۔
میاں صاحب کی تیسری حکومت جانے کی باتیں زبان زد عام ہیں اور حکومت اس شخص کی طرح بوکھلاہٹ کی شکار ہے جس کا گھر تیسری بار ٹوٹنے کو ہے اور وہ اپنے اس ٹوٹتے گھر کو بچانے کے لے پاپڑ بیل رہا ہے۔ آصف علی زرداری جن کو میاں شہباز شریف لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنا اور بھاٹی چوک میں الٹا لٹکانے کے آرزو مند تھے وہ بھی ایک ایسی حکومت کو بچانے کے لئے میدان عمل میں اتر چکے ہیں جس کی "رخصتی "کی تاریخ "مبینہ” طور پر طے کی جاچکی ہے۔ ان کی خدمات شاید اس لئے حاصل کی گئی ہیں کہ وہ ایسی حکومت چلانے کے ماہر ہیں جو نہ تو خود چلنا چاہتی ہواور نہ بیان بازسیاستدان اس کو چلتے دیکھنا چاہتے ہوں۔ لہذا آصف زرداری فون پر فون گھما کر بڑے بھائی کی حکومت کو دوام بخش رہے ہیں ۔ اور "پہلے آپ کی باری پھر ہماری باری "والے وعدے کو پوری طرح نبھا رہے ہیں حالانکہ زرداری صاحب کے وعدے "قرآن یا حدیث ہرگز نہیں ہوتے”۔
عمران خان شاید دھاندلی پر خاموش ہی بیٹھے رہتے اور بات محض جلسوں سے آگے نہ بڑھ پاتی ، اگر نواز شریف اپنی حکومت گرانے کی بجائے اسے چلانے پر ذرا سا بھی دھیان دیتے ، مہنگائی کم کرنے کے لئے اقدامات کرتے اور لوڈشیڈنگ ختم نہیں تو کم ہی کرتے دکھائی دیتے۔
ان کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی "درمیانی راستہ "نکالنے کے لئے کوشاں ہیں گو کہ وہ خودبھی ملک میں انقلاب برپا کرناچاہتے ہیں اور ایک انقلابی ایجنڈے کا اعلان کرنے ہی والے تھے کہ "ناگزیر وجوہات” کی بناء پر ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا گیا کہ جماعت کے رہنماؤں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا لیکن ان کی اس پریس کانفرنس کے دوران پشت پر لگے فلیکس پر لکھا گیا "عوامی ایجنڈا "چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ملک میں آتے دو انقلابوں سے نمٹنے کے لیئے "خصوصی درخواست” کے بعد ہی یہ ایجنڈا ملتوی کیا گیا، اور ایسا یقیناًبہترین "ملکی مفاد "کو مدنظر رکھ کر ہی کیا گیا جس کی جماعت اسلامی ہمیشہ سے” امین” رہی ہے۔ تب سے مختلف رہنماء سراج الحق صاحب سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں حالانکہ اسی حکومت کے وزیر عابد شیر علی چند ماہ پہلے ہی سراج الحق کو دماغی مریض قرار دے چکے ہیں۔ اور سراج الحق بھی حکومت کے بھرپور ناقد رہے ہیں ، لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ حکومت چلنی چاہیے ، چاہے اس کے اقدامات سے عوا م کا” کچومر” ہی کیوں نہ نکل جائے۔ حکومتی پریشانی صرف آصف زرداری اور سراج الحق کی حالیہ دنوں میں سرگرمیوں سے ہی عیاں نہیں ہے بلکہ اضطراب کا یہ عالم ہے کہ پاکستان بھر میں جشن آ زادی کے لیئے الٹے پاکستانی پرچم لہرا دیئے گئے۔
عمران خان یا طاہر القادری حکومت گرانے میں سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں نواز لیگ کی حکومت کی گھر جانے سے متعلق سنجیدگی پر کسی کو چنداں شک نہیں ہونا چاہیے کیوں کہمنتخب ہونے کے بعد سے اب تک نواز شریف حکومت نے کوئی ایسا موقع ہاتھ جانے ہی نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن نے حکومت میں آنے سے پہلے عوام کو”سبز باغ "دکھائے اور حکومت میں آتے ہی "سبز جھنڈی” دکھا دی، اورکچھ آسرادینے کی بجائے مزید قربانی مانگ لی۔ پہلے ہی مہینے میں لوڈشیڈنگ پر فیصل آباد میں احتجاج کرنے والوں کے گھروں میں گھس گھس کر ایسا پیٹا گیا کہ اسی روز عوام کو اندازہ ہو گیا کہ” ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور” ہیں۔ حکومت کے غیر جمہوری رویہ اور پولیس کے ذریعہ سیاسی مسائل کے حل کا عمل صرف مظاہرین پر تشدد تک ہی محدود نہیں بلکہ اب یہ نوبت ماڈل ٹاؤن میں عوام پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں تک آ پہنچی۔
عمران خان شاید دھاندلی پر خاموش ہی بیٹھے رہتے اور بات محض جلسوں سے آگے نہ بڑھ پاتی ، اگر نواز شریف اپنی حکومت گرانے کی بجائے اسے چلانے پر ذرا سا بھی دھیان دیتے ، مہنگائی کم کرنے کے لئے اقدامات کرتے اور لوڈشیڈنگ ختم نہیں تو کم ہی کرتے دکھائی دیتے۔ کشکول بھلے توڑتے نہ ہی سہی مگر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لے کر اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا برملا اعلان تو نہ کرتے ۔طالبان سے بے نتیجہ طویل مذاکرات ، فوج سے بلاوجہ کی چپقلش اور آپریشن متاثرین کی امداد میں ناکامی کے ذریعے قوت فیصلہ کے فقدان کا اعتراف کرنے سے اجتناب برتتے۔ ملکی مسائل سے نمٹنے کے لئے اخبارات میں محض اشتہار بازی سے بڑھ کر ہی کچھ کرتے۔ حکومت نے اپنی بھرپور کوششوں سے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ ہر جلسے میں اگلے جلسے کی تاریخ کا اعلان کرنے کی بجائے حکومت کے خاتمے کی تاریخ کا اعلان کریں۔
طاہر القادری اور عمران خان بھی شاید حکومت گرانے کے اعلانات پر نظر ثانی کرتے اور کسی درمیانی راستے پر آسانی سے مان جاتے اگر حکومت کی جانب سے ان کے احتجاج سے نمٹنے کے لیئے دو ہفتوں پر محیط جشن آزادی کی تقریبات ، عین لانگ مارچ کے دن اسی مقام پر فوجی پریڈ کے انعقاد اور دارلحکومت میں آئین کی دفعہ دوسوپینتالیس کے ذریعے فوج کو تعینات کرنے سے گریز کیا جاتا۔ گویا اقتدار کی کرسی پر تیسری بار براجمان میاں محمد نوازشریف حکومت چلانا نہیں سیکھ سکے مگر اپنی حکوت گرانا خوب سیکھ چکے ہیں اور ان کی کوششیں محض ایک سال بعد ہی رنگ لاتی دکھائی دے رہی ہیں ،اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی حکومت کے خاتمہ کی کوششوں کو پس پردہ خاکی وردی والوں کی تائید حاصل ہوتی ہے یا نہیں اور جمہوری قوتیں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتی ہیں۔
عمران خان یا طاہر القادری حکومت گرانے میں سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں نواز لیگ کی حکومت کی گھر جانے سے متعلق سنجیدگی پر کسی کو چنداں شک نہیں ہونا چاہیے کیوں کہمنتخب ہونے کے بعد سے اب تک نواز شریف حکومت نے کوئی ایسا موقع ہاتھ جانے ہی نہیں دیا۔ مسلم لیگ ن نے حکومت میں آنے سے پہلے عوام کو”سبز باغ "دکھائے اور حکومت میں آتے ہی "سبز جھنڈی” دکھا دی، اورکچھ آسرادینے کی بجائے مزید قربانی مانگ لی۔ پہلے ہی مہینے میں لوڈشیڈنگ پر فیصل آباد میں احتجاج کرنے والوں کے گھروں میں گھس گھس کر ایسا پیٹا گیا کہ اسی روز عوام کو اندازہ ہو گیا کہ” ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور” ہیں۔ حکومت کے غیر جمہوری رویہ اور پولیس کے ذریعہ سیاسی مسائل کے حل کا عمل صرف مظاہرین پر تشدد تک ہی محدود نہیں بلکہ اب یہ نوبت ماڈل ٹاؤن میں عوام پر پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں تک آ پہنچی۔
عمران خان شاید دھاندلی پر خاموش ہی بیٹھے رہتے اور بات محض جلسوں سے آگے نہ بڑھ پاتی ، اگر نواز شریف اپنی حکومت گرانے کی بجائے اسے چلانے پر ذرا سا بھی دھیان دیتے ، مہنگائی کم کرنے کے لئے اقدامات کرتے اور لوڈشیڈنگ ختم نہیں تو کم ہی کرتے دکھائی دیتے۔ کشکول بھلے توڑتے نہ ہی سہی مگر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لے کر اپنی ناکام معاشی پالیسیوں کا برملا اعلان تو نہ کرتے ۔طالبان سے بے نتیجہ طویل مذاکرات ، فوج سے بلاوجہ کی چپقلش اور آپریشن متاثرین کی امداد میں ناکامی کے ذریعے قوت فیصلہ کے فقدان کا اعتراف کرنے سے اجتناب برتتے۔ ملکی مسائل سے نمٹنے کے لئے اخبارات میں محض اشتہار بازی سے بڑھ کر ہی کچھ کرتے۔ حکومت نے اپنی بھرپور کوششوں سے عمران خان کو مجبور کیا کہ وہ ہر جلسے میں اگلے جلسے کی تاریخ کا اعلان کرنے کی بجائے حکومت کے خاتمے کی تاریخ کا اعلان کریں۔
طاہر القادری اور عمران خان بھی شاید حکومت گرانے کے اعلانات پر نظر ثانی کرتے اور کسی درمیانی راستے پر آسانی سے مان جاتے اگر حکومت کی جانب سے ان کے احتجاج سے نمٹنے کے لیئے دو ہفتوں پر محیط جشن آزادی کی تقریبات ، عین لانگ مارچ کے دن اسی مقام پر فوجی پریڈ کے انعقاد اور دارلحکومت میں آئین کی دفعہ دوسوپینتالیس کے ذریعے فوج کو تعینات کرنے سے گریز کیا جاتا۔ گویا اقتدار کی کرسی پر تیسری بار براجمان میاں محمد نوازشریف حکومت چلانا نہیں سیکھ سکے مگر اپنی حکوت گرانا خوب سیکھ چکے ہیں اور ان کی کوششیں محض ایک سال بعد ہی رنگ لاتی دکھائی دے رہی ہیں ،اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی حکومت کے خاتمہ کی کوششوں کو پس پردہ خاکی وردی والوں کی تائید حاصل ہوتی ہے یا نہیں اور جمہوری قوتیں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کس حد تک کامیاب ہو پاتی ہیں۔
Leave a Reply