Laaltain

انسان جبلتوں کے تعامل کا پیچیدہ شاہکار ہے- ہارون رشید کا فرضی کالم

30 جولائی، 2016

[blockquote style=”3″]

یہ فکاہیہ مضمون اس سے قبل ثاقب ملک کے اپنے بلاگ پر بھی شائع ہو چکا ہے، مصنف کی اجازت سے اسے لالٹین کے قارئین کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس تحریر کا مقصد محض تفریح طبع کا سامان کرنا ہے، کسی بھی فرد کی دل آزاری یا تضحیک قطعاً مقصقد نہیں۔

[/blockquote]

youth-yell

مزید فرضی کالم پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
الحذر الحذر!! بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی؟ بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے۔ اب لکھنؤ اور دہلی کی تہذیب کے وارث نو ٹنکی فنکار ہوں گے۔

 

خاکی کو اس ٹی وی کے فرعون کی کہانی معلوم ہے۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ کیسے کیسے اجلے لوگ اردو بولنے والوں کے نمائندے تھے۔ اور اب یہ چھچھوندر؟
قرائن نمایاں تھے کہ یہ بے ہودگی کا فرستادہ شخص جو مذہب کی چادر اوڑھے بازاری حرکتیں کرتا رہتا ہے ایم کیو ایم کی باگ ڈور سنبھالے گا اور الیکٹرانک میڈیا میں طوفان بد تمیزی پیدا کرے گا۔ بھاڑے کا ٹٹو جو اپنے آقا کے حکم پر بروئے کار آیا ہے۔ تف ہے ایسے شخص پر۔ خاکی کو اس ٹی وی کے فرعون کی کہانی معلوم ہے۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ کیسے کیسے اجلے لوگ اردو بولنے والوں کے نمائندے تھے۔ اور اب یہ چھچھوندر؟ مکرر عرض کے دنیا سے کوئی شخص نہیں اٹھے گا جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے۔ اس بد زبان کی لگامیں بھی اب کھنچنے کو ہیں۔ افسوس انسان سامنے کی بات پر غور نہیں کرتا اور بھول بھلیوں میں الجھا رہتا ہے۔ بے اختیار دیو مالائی کردار حکمت یار یاد آیا۔ ایسا ایثار کیش کہ دل سے صدا اٹھی پروردگار اس کی وردی کہاں ہے؟ برخوردار بلال الرشید کی کنگھی کر رہا تھا کہ سپہ سالار کا پیغام آیا کہ فوجی مستقر چلے آئیے۔ کنگھی وہیں چھوڑی اور گھوڑے کو ایڑ لگائی یہ جا وہ جا۔ پہنچا تو صابر کیانی نے میرے ہاتھ خالی دیکھے لیکن زبان سے کچھ نہ بولے۔ ماتھے پر ہاتھ دھرا کہ آج کے ٹو سگریٹ کی درجن بھر ڈبیاں لانا یاد ہی نہیں رہا۔ مگر سپہ سالار نے چوں تک نہ کی۔ ایسی بوالعجبی؟ قوم بیچ چوراہے پر سو رہی جو اس صابر انسان سے فائدہ نہ اٹھا سکی؟

 

بارہا لکھ چکا ٹی وی سے دل اچاٹ ہو چکا۔ مگر خوش شکل کامران شاہد نے پیغام بھیجا تو تیار ہوگیا۔ علم تھا یہ بے ہودہ شخص بد زبانی کرے گا۔ وہی ہوا۔ لیکن ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ زندیق کو منہ توڑ جواب ملا تو آپے سے باہر ہوکر ہذیان بکنے لگا۔ زبان سکیڑ کر جملے کسنے لگا۔ باچھوں سے جھاگ اڑنے لگا۔ کوئی جائے اور جا کے اس یاوہ گو کو بتائے کہ اس کا وقت آ گیا۔ تاریخ کا کوڑا دان منتظر یے۔ جلد اپنے انجام کو پہنچے گا۔

 

دل اداس ہوا تو عارف کے پاس جا پہنچا۔ وہی تو ہیں جہاں سکون ملتا ہے۔ تسبیح سے سر اٹھایا اور بولے انسان جبلتوں کے تعامل کا پیچیدہ شاہکار ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ایم کیو ایم ایک فسطائی تنظیم ہے۔ اس پر ایسا واویلا؟ چہ معنی دارد۔ بھاڑے کے ٹٹو جو کراچی کا امن برباد کرنا چاہتے ہیں وہ ناکام ہوں گے۔ ستر فیصد تک جہاں جرائم میں کمی آ چکی۔ کمانڈر اس بار یکسو ہے۔ چوہدری نثار ایسے سیاسی حرکیات سے آشنا شخص کا ساتھ میسر ہے۔ کیڑا؟ نالی کے کیڑے اب گریبان تک آ گئے۔ دنیا کے کیڑے؟ دل اداس ہوا تو عارف کے پاس جا پہنچا۔ وہی تو ہیں جہاں سکون ملتا ہے۔ تسبیح سے سر اٹھایا اور بولے انسان جبلتوں کے تعامل کا پیچیدہ شاہکار ہے۔ یہ فنکار ذہنی مریض یے۔ بچپن نا آسودگی میں گزرا۔ درگزر کرو۔ دل شاد ہوا۔ اسی اثناء میں کپتان کا پیغام آیا کہ بنی گالا پہنچو شیرو کے ساتھ مل کر دیسی مرغی کھاتے ہیں۔ دنوں بعد سیر ہو کر کھایا۔ کوئی ہے جو ایسے یاوہ گوہ کی زبان گدی سے کھینچ لے؟

 

الحذر الحذر!! بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی؟ بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے۔ اب لکھنؤ اور دہلی
کی تہذیب کے وارث نو ٹنکی فنکار ہوں گے۔

One Response

  1. بہت خوب۔ جی خوش کریا۔ موصوف میرے پسندیدہ کالم نگاروں میں ہیں۔ انکو پڑھنا اور جاز سننا یکساں تجربہ ہوتا ہے۔ انکی تحریر بھی جاز کی بے حد پھیلی ہوے رف کی طرح ہوتی ہے۔ اس ہفتے ڈاکٹر الحاج ؑامر لیاقت حسین نے ایک کالم لکھا ہے کیا وہ ان حضرت کے بارے میں ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

  1. بہت خوب۔ جی خوش کریا۔ موصوف میرے پسندیدہ کالم نگاروں میں ہیں۔ انکو پڑھنا اور جاز سننا یکساں تجربہ ہوتا ہے۔ انکی تحریر بھی جاز کی بے حد پھیلی ہوے رف کی طرح ہوتی ہے۔ اس ہفتے ڈاکٹر الحاج ؑامر لیاقت حسین نے ایک کالم لکھا ہے کیا وہ ان حضرت کے بارے میں ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *