انسانی حقوق کا بینر(جس پر چیونٹیاں رینگ رہی ہیں)
سلمان حیدر!
تمہاری نظمیں اس دریا کے لئے ہیں
جس میں انسانوں کی بہتی لاشیں
پہچان سے عاری ہیں
تمہاری نظمیں اس دریا کے لئے ہیں
جس میں انسانوں کی بہتی لاشیں
پہچان سے عاری ہیں
تمہاری نظمیں اس درخت کے لئے ہیں
جس پر بے گناہ پھانسی لٹکائے گئے
جس پر بے گناہ پھانسی لٹکائے گئے
تمہاری نظمیں اس بندرگاہ کے لئے ہیں
جس سے ہمارے خواب اسمگل ہو کر
باہر بھیجے جاتے ہیں
جس سے ہمارے خواب اسمگل ہو کر
باہر بھیجے جاتے ہیں
تمہاری نظمیں اس پہاڑ کے لئے ہیں
جہاں کھڑے ہو کر دیکھا جا سکتا ہے
وہ جزیرہ بھی
جہاں دن رات جنگی جہاز اڑتے ہیں
جہاں کھڑے ہو کر دیکھا جا سکتا ہے
وہ جزیرہ بھی
جہاں دن رات جنگی جہاز اڑتے ہیں
تمہاری نظمیں اس لڑکی کے لئے ہیں
جس کے بدن پر
انسانی حقوق کے دن سگریٹ داغے گئے
جس کے بدن پر
انسانی حقوق کے دن سگریٹ داغے گئے
تمہاری نظمیں اس آدمی کے لئے ہیں
جو تیزی سے زیادہ فاصلہ طے کر کے
جیت کے نشان پر پہنچا
اور خاموشی سے ہار گیا
جو تیزی سے زیادہ فاصلہ طے کر کے
جیت کے نشان پر پہنچا
اور خاموشی سے ہار گیا
سلمان حیدر!
تمہاری نظمیں کسی اخبار کے لئے نہیں
جس سے شیشے صاف کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے
تمہاری نظمیں کسی اخبار کے لئے نہیں
جس سے شیشے صاف کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے
تمہاری نظمیں کسی جوکر کے لئے بھی نہیں
جو سرکس میں قہقہے بیچتا ہے
جو سرکس میں قہقہے بیچتا ہے
تمہاری نظمیں بسکٹ کے اشتہار کے لئے بھی نہیں
جس میں عریاں لڑکی ضروری ہے
جس میں عریاں لڑکی ضروری ہے
تمہاری نظمیں اس آدمی کے لئے ہیں
جو بم دھماکے میں مار دیا گیا
زندہ جلا دیا گیا
-یا-
اچانک غائب ہو گیا
جو بم دھماکے میں مار دیا گیا
زندہ جلا دیا گیا
-یا-
اچانک غائب ہو گیا