[blockquote style=”3″]
انگریزی شاعر، ڈرامہ نویس، نقاد اور اوپیرا نگار ڈبلیو ایچ آڈن (1907-1973) نے بیسویں صدی کی انگریزی شاعری پر ایک بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے۔ برمنگھم، انگلستان میں پلے بڑھے آڈن اپنی غیر معمولی ذہانت اور حاضر دماغی کے باعث مشہور تھے۔ پہلی کتاب “پوئیمز” سنہ 1930 میں ٹی ایس ایلیٹ کی رفاقت میں شائع ہوئی۔ 1928 میں پولٹزر پرائز سے بھی نوازا گیا۔ ان کی بیشتر شاعری اخلاقی مسائل پہ کلام کرتی ہے اور یہ اپنے عہد کے ایک توانا سیاسی، سماجی اور نفسیاتی حوالے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ گوکہ ان کی اوّلین شاعری مارکس اور فرائیڈ کے خیالات سے لدی پڑی ہے لیکن بعد ازاں ان افکار کی جگہ مذہبی اور روحانی اثرات براجمان ہو گئے۔ بعض نقاد انہیں ردِ رومان پرور بھی کہتے ہیں، یعنی ایک ایسا شاعر جو ستھرا نتھرا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونے کے ناتے ایک نظم و نظام اور انسانی وجود پر ایک ہمہ دم قابلِ عمل کُلیے کی دریافت میں سرگرداں رہا۔ ان کی شاعری اپنے ہی انداز کی حامل ہے جس میں جدت طرازی کا عمل کارِ فرما رہتا ہے: اگر کہیں اشعار چھوٹی چھوٹی ضرب المثلی کیفیت میں ہیں تو کہیں کتاب بھر کی طوالت کی نظمیں ہیں۔ البتہ ان سب میں ایک گہرے اور وسیع تر سائنسی علم و شعور کی رنگا رنگیاں جا بہ جا موجود ہیں۔
[/blockquote]
[vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=””][vc_column width=”2/3″][vc_column_text]
اندھیرا ہونے کے بعد چہل قدمی
[/vc_column_text][vc_column_text]
اس طرح کی ایک چھٹے بادلوں والی صاف آسمان کی رات
روح کو آزاد اونچا اڑانے کو کافی ہوتی ہے
ایک تھکا دینے والے دن کے بعد
گھنٹہ گھر کا منظر کافی متاثر کرتا ہے
ہلکے سے بور کرنے والے
اٹھارہویں صدی جیسے احساس کی مانند
روح کو آزاد اونچا اڑانے کو کافی ہوتی ہے
ایک تھکا دینے والے دن کے بعد
گھنٹہ گھر کا منظر کافی متاثر کرتا ہے
ہلکے سے بور کرنے والے
اٹھارہویں صدی جیسے احساس کی مانند
بڑی ٹھنڈ سی پڑتی تھی احساسِ نو بلوغیت کو
کسی شرم سے تہی نظر کی ٹکٹکی سے
جو کام میں نے کیئے، نہیں ہوسکتے تھے
اتنے صدمہ دینے والے کہ جس قدر وہ لوگ مدعی ہیں
اگر وہ آج بھی یہیں موجود ہوتے
صدمے زدہ لوگوں کے مرنے کے اتنے عرصے بعد بھی
کسی شرم سے تہی نظر کی ٹکٹکی سے
جو کام میں نے کیئے، نہیں ہوسکتے تھے
اتنے صدمہ دینے والے کہ جس قدر وہ لوگ مدعی ہیں
اگر وہ آج بھی یہیں موجود ہوتے
صدمے زدہ لوگوں کے مرنے کے اتنے عرصے بعد بھی
اب، مرنے کو تیار ہوں
لیکن پہلے ہی اس مرحلے پہ ہوں
جب بندے کو نوجوانوں سے بیزاری شروع ہوجاتی ہے
میں خوش ہوں کہ آسمان میں موجود وہ نقطے
بھی گِنے جائیں گے
مخلوقاتِ عہدِ وسطٰی میں
لیکن پہلے ہی اس مرحلے پہ ہوں
جب بندے کو نوجوانوں سے بیزاری شروع ہوجاتی ہے
میں خوش ہوں کہ آسمان میں موجود وہ نقطے
بھی گِنے جائیں گے
مخلوقاتِ عہدِ وسطٰی میں
رات کے بارے سوچنا ایک نرم گرم احساس ہے
جیسا کہ سوچنا ایک اولڈ ہوم کے متعلق
نا کہ کسی رواں مشین کے شَیڈ کے بارے فکر مند ہونا
انتہائی پرانے عہد سے بھی پہلے کی سرخ روشنی
جا چُکی عظیم تر سلطنتِ روما کی طرح
یا پھر سترہ برس کی میری عمر کی طرح
جیسا کہ سوچنا ایک اولڈ ہوم کے متعلق
نا کہ کسی رواں مشین کے شَیڈ کے بارے فکر مند ہونا
انتہائی پرانے عہد سے بھی پہلے کی سرخ روشنی
جا چُکی عظیم تر سلطنتِ روما کی طرح
یا پھر سترہ برس کی میری عمر کی طرح
بھلے ہم جتنا بھی اچھا جانیں
وہ متین انداز کہ جس میں
لکھا کلاسیک لکھاریوں نے
پر پھر بھی صرف جوانوں اور امیروں
ہی میں دم ہے کہ وہ چھیڑیں سُر
حادثات و المیاتِ حیات کے
وہ متین انداز کہ جس میں
لکھا کلاسیک لکھاریوں نے
پر پھر بھی صرف جوانوں اور امیروں
ہی میں دم ہے کہ وہ چھیڑیں سُر
حادثات و المیاتِ حیات کے
وقتِ موجود بھی باہر کی جانب کِھسکتا جا رہا ہے
عین ماضی کے عمل کی طرح، یہ پھر سےایک غلط کاری ہے
اس کی سسکیوں پہ کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں
اور سچ تو چھپا کبھی رہ نہیں سکتا
کسی نے اپنے درد کو چُنا
وہی ہوا جو نا ہوتا تو اچھا ہوتا
عین ماضی کے عمل کی طرح، یہ پھر سےایک غلط کاری ہے
اس کی سسکیوں پہ کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں
اور سچ تو چھپا کبھی رہ نہیں سکتا
کسی نے اپنے درد کو چُنا
وہی ہوا جو نا ہوتا تو اچھا ہوتا
عین اس رات کو ہوتی ایک ایسی چیز سے
جو کسی جانے مانے ضابطے کی ضبط سے پرے ہے
کسی وقوعہ نے پہلے ہی دے مارا ہے
اپنا پہلا سا “نا” کا شبد سیدھا ان ضابطوں کے چہروں پر
جو ہم نے حق جانے تھے اسکول میں
بابت اپنی حیاتِ ما بعد طوفانِ نوح کے
جو کسی جانے مانے ضابطے کی ضبط سے پرے ہے
کسی وقوعہ نے پہلے ہی دے مارا ہے
اپنا پہلا سا “نا” کا شبد سیدھا ان ضابطوں کے چہروں پر
جو ہم نے حق جانے تھے اسکول میں
بابت اپنی حیاتِ ما بعد طوفانِ نوح کے
لیکن ستارے اوپر دمکتے ہیں
اپنی اخیر کو جانے اور فکر میں گِھرے بغیر
میں گھر واپس بستر کو لوٹتا ہوں
یہ پوچھتے پچھاتے، کیا فیصلے ہونے کو ہیں
میری ذات کے متعلق، میرے احباب کی بابت
اور ان ریاست ہائے متحدہ کے متعلق
اپنی اخیر کو جانے اور فکر میں گِھرے بغیر
میں گھر واپس بستر کو لوٹتا ہوں
یہ پوچھتے پچھاتے، کیا فیصلے ہونے کو ہیں
میری ذات کے متعلق، میرے احباب کی بابت
اور ان ریاست ہائے متحدہ کے متعلق
[/vc_column_text][/vc_column][vc_column width=”1/3″][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row][vc_column][vc_column_text]
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]