15 مارچ کو مسیحی عبادت گاہوں کو ایک بار پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اور لاہور میں مسیحی آبادی یوحنا آباد کے دو چرچوں پر یکے بعد دیگرے خود کش حملے ہوئے۔ ان حملوں میں سترہ افراد جان سے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد ایک اور افسوس ناک سانحہ ہوا جب ایک مشتعل ہجوم نے دو مشتبہ افراد کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعدازاں ان کے جسموں کو کھلے عام پیٹرول چھڑک کر جلا دیا گیا اور اس دوران ہجوم تصاویر کھینچتا رہا۔ سردست ان دو افراد کا کسی جرم میں ملوث ہونا رپورٹ نہیں ہوا اور دونوں کی شناخت معصوم محنت کشوں کے طور پر کی جا چکی ہے۔
یہ بہت ہی خطرناک صورتحال تھی کیوں کہ اس واقعہ کا “مشتعل ہجوم کا مشتبہ افراد پر بم دھماکے کے فوری بعد تشدد” کی بجائے “مسیحیوں کا داڑھی والے مسلمانوں پر تشدد” کا رنگ دیا گیا۔
پچھلے چند سالوں میں ہجوم کی طرف سے تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کی کئی وارداتیں ہوئی ہیں جن میں کئی جانیں گئی ہیں۔ گوجرہ، جوزف کالونی سمیت توہین رسالت کے الزام میں کوٹ رادھا کشن کے مسیحی جوڑے کو جلانے جیسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں ہجوم نے محض الزام کی بناء پر جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت کی۔ سیالکوٹ میں ہجوم کی جانب سے دو بھائیوں کو ڈکیتی کے شبے میں بہیمانہ تشدد کے بعد پولیس کے آنے سے پہلے مار دینے کا واقعہ بھی پرانا نہیں۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ روز بروز ان واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے کہا کہ کراچی میں ڈاکو پکڑ لو تو مار دو ورنہ وہ پولیس سے چھوٹ جانے کے بعد آپ کو مار دے گا۔
یہ سوچ بڑھتی جا رہی ہے کہ ریاستی قانون و انصاف فراہم کرنے والے ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ جب بھی موقعہ ملتا ہے قانون ہاتھ میں لے کر موقعہ پر ہی چوروں، ڈاکوؤں اور توہین رسالت کے ملزموں کو مار دیتے ہیں جو یقیناً ایک غیرانسانی فعل ہے۔ انصاف فراہم کرنے والے سول اداروں کی ناکامی سرکاری سطح پر بارہا تسلیم کی جاچکی ہے اور ایک کم زور نظام انصاف کے باعث ایک جمہوری ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑی ہے۔ رینجرز عرصہ دراز سے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کر رہے ہیں، بلکہ کراچی پر ان کی گرفت اتنی ہے کہ فی الوقت کراچی آپریشن میں رینجرز بمقابلہ متحدہ کا تاثر ابھر رہا ہے۔ سول اداروں کا فوجی اور نیم فوجی اداروں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ یوحنا آبادواقعہ میں دیکھیے تو پولیس کی مکمل ناکامی کے بعد رینجرز نے آ کر علاقے کا نظم و نسق سنبھالا اور کسی متوقع فساد سے بچاؤ ممکن ہوا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب سیاستدان یا حکمران پولیس کو ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات میں ملوث کریں گے اور بعد میں سب ملبہ بھی ان پر ڈال دیں گے تو ریاستی ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں اسی طرح ناکام ہوں گے جیسے یوحنا آباد واقعے میں پولیس حالات قابو میں کرنے میں ناکام رہی۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت میں ایسے ہی دیگر واقعات سے منفرد تھا کیوں کہ پہلی بار کسی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے داڑھی والے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ یقین مانیے یہ بہت ہی خطرناک صورتحال تھی کیوں کہ اس واقعہ کا “مشتعل ہجوم کا مشتبہ افراد پر بم دھماکے کے فوری بعد تشدد” کی بجائے “مسیحیوں کا داڑھی والے مسلمانوں پر تشدد” کا رنگ دیا گیا۔ جہاں ابلاغ عام کے ذرائع کبھی کھلے الفاظ میں تو کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اس تعصب کا اظہار کر رہے تھے تو وہیں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک چیخ و پکار لگی ہوئی تھی۔ “مسلمانوں آج اٹھو ورنہ ہر دھماکے کے بعد داڑھی والوں کو قتل کیا جائے گا”، ” یہ ہے پاکستانی اقلیتوں کا اصل چہرہ”،”مسلمانو اپنے بھائیوں کا بدلہ کون لے گا؟؟”، “پاکستان کے گٹر صاف کرنے والوں کی ایسی ہمت!!”،”چُوڑوں نے داڑھی والوں کو جلا کر رکھ کر ڈالا”، “بلوائیوں کی توڑ پھوڑ” جیسے جملے جلی ہوئی لاشوں کی تصاویر کے ساتھ کئی روز سوشل میڈیا پر وائرل رہے۔
میڈیا پر مشتعل ہجوم کی جب بھی خبر آئی ہجوم کو “بلوائی” کہاگیا جو فرقہ وارانہ تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ واقعہ کے ردعمل میں حکمرانوں کے بہت سخت بیانات آئے جو اس سے پہلے ایسے ہی یا اس سے بھی بھیانک واقعات کے بعد کبھی دیکھنے کو نہیں ملے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ میڈیا اور حکمران عقیدے کی بنیاد پر “مشتعل ہجوم” سے متعلق امتیازی سلوک برتنے کے قائل ہیں اور قاتل و مقتول میں بھی مذہب کی بنیاد پر فرق روا رکھا جارہا ہے۔ ملک کے مقتدر حلقوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے اگر مذہب کی بنیاد پر کہیں فوری انصاف اور دادرسی میں رکاوٹیں دیکھنے میں آئیں گی تو مذہبی اقلیتوں کا ملک کے آئیں و قانون سے مکمل اعتبار اٹھ جائے گا۔
یہ سوچ بڑھتی جا رہی ہے کہ ریاستی قانون و انصاف فراہم کرنے والے ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ جب بھی موقعہ ملتا ہے قانون ہاتھ میں لے کر موقعہ پر ہی چوروں، ڈاکوؤں اور توہین رسالت کے ملزموں کو مار دیتے ہیں جو یقیناً ایک غیرانسانی فعل ہے۔ انصاف فراہم کرنے والے سول اداروں کی ناکامی سرکاری سطح پر بارہا تسلیم کی جاچکی ہے اور ایک کم زور نظام انصاف کے باعث ایک جمہوری ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑی ہے۔ رینجرز عرصہ دراز سے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کر رہے ہیں، بلکہ کراچی پر ان کی گرفت اتنی ہے کہ فی الوقت کراچی آپریشن میں رینجرز بمقابلہ متحدہ کا تاثر ابھر رہا ہے۔ سول اداروں کا فوجی اور نیم فوجی اداروں پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔ یوحنا آبادواقعہ میں دیکھیے تو پولیس کی مکمل ناکامی کے بعد رینجرز نے آ کر علاقے کا نظم و نسق سنبھالا اور کسی متوقع فساد سے بچاؤ ممکن ہوا۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جب سیاستدان یا حکمران پولیس کو ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات میں ملوث کریں گے اور بعد میں سب ملبہ بھی ان پر ڈال دیں گے تو ریاستی ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں اسی طرح ناکام ہوں گے جیسے یوحنا آباد واقعے میں پولیس حالات قابو میں کرنے میں ناکام رہی۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت میں ایسے ہی دیگر واقعات سے منفرد تھا کیوں کہ پہلی بار کسی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے داڑھی والے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ یقین مانیے یہ بہت ہی خطرناک صورتحال تھی کیوں کہ اس واقعہ کا “مشتعل ہجوم کا مشتبہ افراد پر بم دھماکے کے فوری بعد تشدد” کی بجائے “مسیحیوں کا داڑھی والے مسلمانوں پر تشدد” کا رنگ دیا گیا۔ جہاں ابلاغ عام کے ذرائع کبھی کھلے الفاظ میں تو کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اس تعصب کا اظہار کر رہے تھے تو وہیں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک چیخ و پکار لگی ہوئی تھی۔ “مسلمانوں آج اٹھو ورنہ ہر دھماکے کے بعد داڑھی والوں کو قتل کیا جائے گا”، ” یہ ہے پاکستانی اقلیتوں کا اصل چہرہ”،”مسلمانو اپنے بھائیوں کا بدلہ کون لے گا؟؟”، “پاکستان کے گٹر صاف کرنے والوں کی ایسی ہمت!!”،”چُوڑوں نے داڑھی والوں کو جلا کر رکھ کر ڈالا”، “بلوائیوں کی توڑ پھوڑ” جیسے جملے جلی ہوئی لاشوں کی تصاویر کے ساتھ کئی روز سوشل میڈیا پر وائرل رہے۔
میڈیا پر مشتعل ہجوم کی جب بھی خبر آئی ہجوم کو “بلوائی” کہاگیا جو فرقہ وارانہ تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ واقعہ کے ردعمل میں حکمرانوں کے بہت سخت بیانات آئے جو اس سے پہلے ایسے ہی یا اس سے بھی بھیانک واقعات کے بعد کبھی دیکھنے کو نہیں ملے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ میڈیا اور حکمران عقیدے کی بنیاد پر “مشتعل ہجوم” سے متعلق امتیازی سلوک برتنے کے قائل ہیں اور قاتل و مقتول میں بھی مذہب کی بنیاد پر فرق روا رکھا جارہا ہے۔ ملک کے مقتدر حلقوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے اگر مذہب کی بنیاد پر کہیں فوری انصاف اور دادرسی میں رکاوٹیں دیکھنے میں آئیں گی تو مذہبی اقلیتوں کا ملک کے آئیں و قانون سے مکمل اعتبار اٹھ جائے گا۔
پاکستانیت کی عصبیت معاشی و سماجی ناہمواری ،مذہبی تنازعات میں متعصبانہ فیصلوں اور امتیازی پالیسیوں کی بدولت آج تک پروان نہیں چڑھی۔
پاکستان میں ریاست کے کمزور ہونے کی ایک وجہ سماجی ناکامی بھی ہے۔ ہم تقریبا ستر سال کے عرصے میں بھی تمام گروہوں اور فرقوں کو ایک لڑی میں پرونے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستانیت کی عصبیت معاشی و سماجی ناہمواری ،مذہبی تنازعات میں متعصبانہ فیصلوں اور امتیازی پالیسیوں کی بدولت آج تک پروان نہیں چڑھی۔ یوحنا آباد واقعے میں بھی ایک معاشی اور سماجی طور پر پسی ہوئی اقلیت کے چند افراد کی حرکت (جو مذہب کے نام پر بھی نہیں کی گئی تھی) کی بنیاد پر مکمل عیسائی برادری کو دشمن کی نظر سے دیکھا گیا۔ مذہبی تعصب اور امتیازی سلوک ریاست سے معاشرے تک ہر جگہ موجود ہے۔ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ یوحنا آباد سانحےکے بعد انہوں نے یہ کہہ کر ایک عیسائی موٹر سائیکل سوار کی لفٹ کی پیشکش ٹھکرادی کہ تم مجھے آگے جا کر جلا دو گے۔ میرے لیے یہ اس لیے حیران کن تھا کہ ان صاحب کو میں عرصے سے جانتا ہوں اور وہ نہایت معقول آدمی ہیں۔ اس واقعے کے بعد عمومی ردعمل سے لوگوں کے دلوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف چھپا تعصب ابھر کر باہر آگیا ہے اور بدقسمتی سے اسے مزید ہوا دی جارہی ہے؛ اگر اس رحجان کا جلد تدارک نہ کیا گیا تو کسی بڑےسانحے کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا ۔
یوحنا آباد واقعے کے بعد مسیحی برادری کے احتجاج کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو دو نتائج نکلتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ من حیث الجماعت عیسائی برادری نے ایسے حملوں کو مزید برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اوران میں مزاحمت کی ایک پر زور لہر نظر آئی۔ان کی جانب سے اس عزم اک اظہار کیا گیا کہ اب وہ کسی صورت لاشیں اٹھا کر گھروں میں صبر کے نام پر بیٹھے نہیں رہیں گے ۔ ان کاارادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر اپنا غم و غصہ ظاہر کرنے کا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ خوش آئند بات ہے کیوں کہ جب تک حکمرانوں کو جھنجوڑا نہ جائے تب تک انہیں سمجھ نہیں آتی۔ دوسرا منفی نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور وہ انصاف کے حصول کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے اور انسانی جانیں لینے تک کو تیار ہیں۔ اس ردعمل کو درست کیسے کہا جائے جب اس میں بہیمانہ طور پر جانیں لی جائیں اور سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑکی جائے۔
یہ سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت کی ناکامی بھی ہے، ہجوم کتنا ہی مشتعل کیوں نہ ہو اپنے میں سب سے معتبر اور جانے پہچانے شخص کی بات پر چلتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ہمیشہ مقامی حکومتوں کے نظام کی قربانی دی تاکہ کوئی نئی قیادت ان کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کرنے کے لیے پیدا نہ ہو جائےجس سے آج ملک میں مقامی سطح پر قیادت ک فقدان ہے۔ گاؤں کی سطح پر تو زمین دار، سردار یا جاگیردار جگہ لے لیتے ہیں لیکن شہری علاقوں میں ماجے گامے شیدے میدے اور غنڈے ایسے مواقع پر مشتعل ہجوم کو تخریب پر مائل کرتے ہیں۔ یوحنا آباد واقعے سے معاشرے کی برداشت کی حد کاختم ہوناواضح ہوچکا ہے اور سماج میں موجود معاشی، سماجی و مذہبی تقسیم کھل کر سامنے آگئی ہے؛ اور یہ دونوں ایسے اشاریے (indicators) ہیں جو نراجیت(Anarchy) اور انتشار کی ابتدائی علامات قرار دیے جاسکتے ہیں۔
یوحنا آباد واقعے کے بعد مسیحی برادری کے احتجاج کو اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو دو نتائج نکلتے ہیں؛ ایک تو یہ کہ من حیث الجماعت عیسائی برادری نے ایسے حملوں کو مزید برداشت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اوران میں مزاحمت کی ایک پر زور لہر نظر آئی۔ان کی جانب سے اس عزم اک اظہار کیا گیا کہ اب وہ کسی صورت لاشیں اٹھا کر گھروں میں صبر کے نام پر بیٹھے نہیں رہیں گے ۔ ان کاارادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر اپنا غم و غصہ ظاہر کرنے کا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ خوش آئند بات ہے کیوں کہ جب تک حکمرانوں کو جھنجوڑا نہ جائے تب تک انہیں سمجھ نہیں آتی۔ دوسرا منفی نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور وہ انصاف کے حصول کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے اور انسانی جانیں لینے تک کو تیار ہیں۔ اس ردعمل کو درست کیسے کہا جائے جب اس میں بہیمانہ طور پر جانیں لی جائیں اور سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑکی جائے۔
یہ سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت کی ناکامی بھی ہے، ہجوم کتنا ہی مشتعل کیوں نہ ہو اپنے میں سب سے معتبر اور جانے پہچانے شخص کی بات پر چلتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ہمیشہ مقامی حکومتوں کے نظام کی قربانی دی تاکہ کوئی نئی قیادت ان کے بچوں کے مستقبل کو تاریک کرنے کے لیے پیدا نہ ہو جائےجس سے آج ملک میں مقامی سطح پر قیادت ک فقدان ہے۔ گاؤں کی سطح پر تو زمین دار، سردار یا جاگیردار جگہ لے لیتے ہیں لیکن شہری علاقوں میں ماجے گامے شیدے میدے اور غنڈے ایسے مواقع پر مشتعل ہجوم کو تخریب پر مائل کرتے ہیں۔ یوحنا آباد واقعے سے معاشرے کی برداشت کی حد کاختم ہوناواضح ہوچکا ہے اور سماج میں موجود معاشی، سماجی و مذہبی تقسیم کھل کر سامنے آگئی ہے؛ اور یہ دونوں ایسے اشاریے (indicators) ہیں جو نراجیت(Anarchy) اور انتشار کی ابتدائی علامات قرار دیے جاسکتے ہیں۔
One Response
ASLAMO ALEKOM JI KESE HEIN AP MASHALLHA BOHAT HE KOOB LEKHA AP NEIN ALLHA KAREIN ZORE QALAM AUR ZEYADHA RABRAKHA JI