ایک خبر کے مطابق انتخابی اصلاحات کے لئے تشکیل دی جانے والی 33رکنی پارلیمانی کمیٹی میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی موجود نہیں۔ انتخابی نظام میں پائے جانے والے نقائص کی نشاندہی اور اصلاحات تجویز کرنے کی کمیٹی میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی نہ ہونا ریاستی سطح پر مذہبی اقلیتوں کو طاقت اور اختیار میں مناسب شمولیت سے محروم رکھنے کی اس مجرمانہ غفلت کی غماز ہے جو آزادی کےاولین برسوں میں قراردادمقاصد کی منظوری کے بعد سے روا رکھی گئی ہے۔یہ تقسیم قانون ساز اداروں کے لئے انتخاب لڑنے، ووٹ ڈالنے اور قانون سازی میں شریک ہونے کی ہر سطح پر موجود ہے۔ انتخابی نظام میں اقلیتوں کے لئے قومی اسمبلی میں مخصوص10 نشستوں پر براہ راست انتخاب کی بجائے ان نشستوں کو سیاسی جماعتوں کی (مسلم) قیادت کی صوابدید پر چھوڑ دینے کےباعث ریاستی سطح پر شہریوں کی مذہبی تقسیم کی توثیق ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک غالب مسلم اکثریت پر مبنی معاشرہ میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز ، تحقیراور تفریق برتنے کا عمل سرکاری سرپرستی میں جاری ہے۔
پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام میں عمومی نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لئے گو مذہبی اقلیتوں پر کوئی آئینی قدغن عائد نہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے امیدواران کو شاذ ہی ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔2002 میں جداگانہ انتخاب کی جگہ احمدیوں کے سوا تمام مذاہب کے لئے مشترکہ انتخابی نظام کے قیام کے باوجودسیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران مسلم اکثریت کو اپنی جانب راغب کرنے کی خاطر غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے دوران موجودہ حکم ران جماعت مسلم لیگ اور حزب اختلاف میں موجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 272عمومی نشستوں کے لئے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا۔
آئین پاکستان کے مطابق رائے دہندگی کے بنیادی حق تک یکساں رسائی تمام شہریوں کا حق ہے لیکن انتخابی عمل میں اقلیتوں کی شمولیت ان کی آبادی کے تناسب سے بے حد کم ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتخابی مہم کے دوران اقلیتی امیدواران کے تحفظ میں ناکامی بھی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی انتخابات 2013کے بعد شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق انتخابات 2013 کے دوران سندھ اور پنجاب کے بعض حلقوں جیسے NA-229تھرپارکر میں اقلیتی مذاہب کے امیدواران اور رائے دہندگان کو انتخابی مہم کے دوران شدت پسند گروہوں کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے امیدواران کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔
2002میں جداگانہ انتخاب کی جگہ مشترکہ انتخاب کا طریقہ کار اپنانے کے بعد اقلیتی حلقوں میں مشترکہ انتخاب میں مناسب نمائندگی نہ ملنے اور مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخاب کے باعث تشویش میں اضافہ ہواہے۔اس ضمن میں سب سے تشویش ناک امر انتخابات کے دوران خود کو غیر مسلم ظاہر کرنے کے ریاستی دباو کے باعث احمدی فرقہ کی جانب سے انتخابات کا مقاطعہ ہے۔آئین پاکستان کے تحت تمام شہریوں کو انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے انتخابی دھاندلی کے سدباب کے ساتھ انتخاب کے حق تک یکساں رسائی کے لئے انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں اقلیتوں کو نمائندگی دیناضروری ہے۔ انتخابات میں شرکت اور مناسب نمائندگی کے حصول کے لئے حکومت وقت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو اقلیتوں کے لئے دوہری رائے دہندگی، مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخابات اوراقلیتی فرقوں سے لازمی نمائندگی کی تجاویزکے اطلاق کی سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی ۔
پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام میں عمومی نشستوں پر انتخاب لڑنے کے لئے گو مذہبی اقلیتوں پر کوئی آئینی قدغن عائد نہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے امیدواران کو شاذ ہی ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں ۔2002 میں جداگانہ انتخاب کی جگہ احمدیوں کے سوا تمام مذاہب کے لئے مشترکہ انتخابی نظام کے قیام کے باوجودسیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کے دوران مسلم اکثریت کو اپنی جانب راغب کرنے کی خاطر غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے دوران موجودہ حکم ران جماعت مسلم لیگ اور حزب اختلاف میں موجود پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 272عمومی نشستوں کے لئے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا۔
آئین پاکستان کے مطابق رائے دہندگی کے بنیادی حق تک یکساں رسائی تمام شہریوں کا حق ہے لیکن انتخابی عمل میں اقلیتوں کی شمولیت ان کی آبادی کے تناسب سے بے حد کم ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتخابی مہم کے دوران اقلیتی امیدواران کے تحفظ میں ناکامی بھی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی انتخابات 2013کے بعد شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق انتخابات 2013 کے دوران سندھ اور پنجاب کے بعض حلقوں جیسے NA-229تھرپارکر میں اقلیتی مذاہب کے امیدواران اور رائے دہندگان کو انتخابی مہم کے دوران شدت پسند گروہوں کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے امیدواران کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔
2002میں جداگانہ انتخاب کی جگہ مشترکہ انتخاب کا طریقہ کار اپنانے کے بعد اقلیتی حلقوں میں مشترکہ انتخاب میں مناسب نمائندگی نہ ملنے اور مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخاب کے باعث تشویش میں اضافہ ہواہے۔اس ضمن میں سب سے تشویش ناک امر انتخابات کے دوران خود کو غیر مسلم ظاہر کرنے کے ریاستی دباو کے باعث احمدی فرقہ کی جانب سے انتخابات کا مقاطعہ ہے۔آئین پاکستان کے تحت تمام شہریوں کو انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے انتخابی دھاندلی کے سدباب کے ساتھ انتخاب کے حق تک یکساں رسائی کے لئے انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں اقلیتوں کو نمائندگی دیناضروری ہے۔ انتخابات میں شرکت اور مناسب نمائندگی کے حصول کے لئے حکومت وقت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو اقلیتوں کے لئے دوہری رائے دہندگی، مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخابات اوراقلیتی فرقوں سے لازمی نمائندگی کی تجاویزکے اطلاق کی سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی ۔
Leave a Reply