(زیرِ نظر اقتباس لیوند سولوویف کی کتاب”داستان خواجہء بخارا، مُلا نصرالدین ” سے لیا گیا ہے ۔ سولوویف ۱۹۰۶ میں طرابلس میں پیدا ہوا۔ پیشے کے لحاظ سے نامہ نگار صحافی تھااور ازبک زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ جنگِ عظیم دوم کے دوران بحریہ میں رہا اور بعد میں سیاسی وجوہ کی بناء پر قید بھی ہوا۔ اسکی کتاب ”داستانِ خواجہء بُخارا” امریکا میں Beggar in the harem کے نام سے اور Disturber of the peaceکے عنوان سے باالترتیب ۱۹۴۰ اور ۱۹۵۶ میں شائع ہوئی۔ اس داستان میں مُلا نصرالدین کی سوانح کے ایک گوشے کے توسط سے بہت اعلیٰ سیاسی و معاشرتی طنز ملتا ہے جس سے آج کے دور میں بھی ہم کماحقہ، لُطف اندوز ہو سکتے ہیں)
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”2″]
ان کی توجہ دو آدمیوں کی طرف مبذول ہوئی جن میں سے ایک گنجا اور دوسرا داڑھی والا تھا۔ دونوں اپنے اپنے شامیانوں کے نیچے کھاری زمین پر لیٹے تھے ۔ دونوں کے درمیان کھونٹے پر ایک سفیدبکری بندھی تھی جو ایسی دبلی پتلی تھی کہ بس اس کی کھال پسلیاں پھاڑ کر نکلتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ وہ بڑے غمگین لہجے میں ممیا رہی تھی اور کھونٹے کو کتر رہی تھی جس کو وہ ابھی آدھا کھا چکی تھی۔
خواجہ نصرالدین فطرتاً کھوجی واقع ہوئے تھے، اس لئے وہ سوال کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ”السلام علیکم بخارا کے شریف شہریو، بتایئے آپ خانہ بدوشوں میں کب شامل ہوگئے؟”
"مسافرہماری ہنسی نہ اُڑاو”داڑھی والے نے جواب دیا ۔ "ہم خانہ بدوش نہیں ہیں بلکہ تمہاری ہی طرح نیک مسلمان ہیں”
"لیکن اگر آپ نیک مسلمان ہیں تو اپنے گھر میں کیوں نہیں رہتے؟ محل کے پھاٹک پر کیا انتظار ہے؟”
"ہم اپنے بادشاہ اور مالک امیر کے منصفانہ فیصلے کے منتظر ہیں جن کی آب و تاب آفتاب کو بھی شرماتی ہے”
"اچھا” خواجہ نصرالدین نے طنز کو چھپائے بغیر کہا "تو کیا آپ اپنے بادشاہ اور مالک ، امیر کےمنصفانہ فیصلے کے منتظرہیں،جن کی آب و تاب آفتاب کو شرماتی ہے کافی دنوں سے انتظار کررہے ہیں؟”
"مسافر ہم چھے ہفتے سے انتظار کررہے ہیں” گنجا بولا۔ "یہ داڑھی والا جھگڑیلو، اللہ اس کو مارے ، شیطان اس کو دفان کرے، یہ داڑھی والا جھگڑیلو میرا بڑا بھائی ہے ۔ ہمارے والد کا انتقال ہوا۔انہوں نے کچھ ملکیت چھوڑی ۔ ہم نے سب کچھ تقسیم کرلیا ہے سوائے اس بکری کے۔ اب امیر اس کا فیصلہ کریں گے کہ یہ کس کی ہونی چاہیئے”
"لیکن وہ بقیہ ملکیت کہاں ہے جو تم کو وراثت میں ملی ہے؟”
"ہم نے وہ سب نقد کرلیا۔درخواست لکھنے کیلئے عرضی نویس کو دینا پڑتا ہے، پھر درخواست لینے والے منشی، پہرے داروں اور بہت سے لوگوں کو”
گنجا یکایک اچک کر اٹھا اور ایک گندے، ننگے پیر درویش سے ملنے کیلئے لپکا جو مخروطی ٹوپی پہنے تھا اور اس کے پہلو سے ایک کشکول لٹک رہا تھا۔
"میرے لیئے دعا کیجئے، اے بزرگ دعا کیجئے کہ فیصلہ میرے حق میں ہو”
درویش نے پیسے لیئے اور دعا شروع کردی۔ جیسے ہی وہ اپنی دعا کے آخری الفاظ تک پہنچا، گنجے نے اس کے کشکول میں ایک اور سکہ ڈال دیا تاکہ دعا کو ازسرنو شروع کردے۔داڑھی والا بے چینی سے اُٹھا اور مجمعے میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔کافی تلاش کے بعد اس کی نظر ایک اور درویش پر پڑی جو پہلے والے سے ذیادہ گندا اور چیتھڑوں میں تھا اس لیئے ذیادہ بزرگ بھی تھا۔ اس درویش نے کافی بڑی رقم طلب کی ۔داڑھی والے نے کچھ طے توڑ کرنا چاہا لیکن درویش نے اپنی ٹوپی کے نیچے ٹٹول کر مٹھی بھر چیلر برآمد کئے۔داڑھی والا یہ دیکھ کر فوراً اسکی کرامت کا قائل ہو گیا اور اپنے چھوٹے بھائی پر فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے مطلوبہ رقم گنی۔
درویش نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زور زور سے دعا شروع کی ۔ اس کی بھاری بھرکم آواز میں پہلے درویش کی مدھم آواز دب گئی۔گنجے نے پریشان ہو کر اپنے درویش کو چند اور سکے دیئے ، داڑھی والے نے بھی یہی کیا اور دونوں درویشوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کیلئے وہ چیخم دھاڑ کی کہ غالباً فرشتوں نے آسمانوں کی کھڑکیاں بند کرلی ہوں گی۔ بکری برابر کھونٹے کو کترے اور غمگین لہجے میں ممیائے جا رہی تھی۔
گنجے بھائی نے اس کے آگے تھوڑی سی گھاس ڈال دی جس پر داڑھی والا زور سے چیخا: "اپنی گندی بدبو دار گھاس میری بکری کے پاس سے لے جاو” اس نے لات مار کر گھاس الگ ہٹا دی اور بکری کے سامنے بھوسے کی چھوٹی سی ناند لگا دی ۔ "نہیں” گنجا غصے میں چلایا۔ "میری بکری تمہارا بھوسا نہیں کھائے گی” اب ناند بھی گھاس کے پاس پہنچ گئی۔ وہ ٹوٹ گئی اور بھوسا سڑک کی مٹی میں مل گیا۔دونوں بھائی سخت غصے میں دست و گریبان ہو گئے۔وہ زمین پر لوٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کی گھونسوں اور گالیوں سے خاطر کررہے تھے۔
"دو بیوقوف آپس میں لڑ رہے ہیں ، دو دھوکے باز دعا کررہے ہیں اور بکری بیچاری بھوکوں مررہی ہے” خواجہ نصرالدین نے سر ہلاتے ہوئے کہا "ارے نیک اور محبت کرنے والے بھائیو، ادھر دیکھو، اللہ نے اس جھگڑے کا فیصلہ اپنے طور پر کردیا۔اس نے بکری کو تم سے لے لیا ہے” بھائیوں کو ہوش آیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا۔وہ اپنے خون آلود چہرے لئے بڑی دیر تک مردہ بکری کو گھورتے رہے۔آخر کار گنجے نے کہا:
"اس کی کھال تو نکال ہی لینی چاہیئے”
"یہ میں کروں گا” داڑھی والا جلدی سے بولا۔
"تم کیوں کرو گے؟” دوسرے نے پوچھا ۔اسکا گنجا سر غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
"بکری میری ہے اور اسی لئے اسکی کھال بھی”
"نہیں، میری ہے”
قبل اس کے کہ خواجہ نصرالدین کچھ بولیں، دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا پھر زمین پر لوٹ رہے تھے۔ایک لمحے کیلئے بھاری مٹھی میں سیاہ بالوں کا گچھا نظر آیا جس سے خواجہ نصرالدین نے نتیجہ اخذ کیا کہ بڑے بھائی کی داڑھی کا کافی حصہ غائب ہو چکا ہے۔
ناامیدی سے ہاتھ جھٹک کر خواجہ نصرالدین آگے بڑھ گئے۔
خواجہ نصرالدین فطرتاً کھوجی واقع ہوئے تھے، اس لئے وہ سوال کئے بغیر نہ رہ سکے۔ ”السلام علیکم بخارا کے شریف شہریو، بتایئے آپ خانہ بدوشوں میں کب شامل ہوگئے؟”
"مسافرہماری ہنسی نہ اُڑاو”داڑھی والے نے جواب دیا ۔ "ہم خانہ بدوش نہیں ہیں بلکہ تمہاری ہی طرح نیک مسلمان ہیں”
"لیکن اگر آپ نیک مسلمان ہیں تو اپنے گھر میں کیوں نہیں رہتے؟ محل کے پھاٹک پر کیا انتظار ہے؟”
"ہم اپنے بادشاہ اور مالک امیر کے منصفانہ فیصلے کے منتظر ہیں جن کی آب و تاب آفتاب کو بھی شرماتی ہے”
"اچھا” خواجہ نصرالدین نے طنز کو چھپائے بغیر کہا "تو کیا آپ اپنے بادشاہ اور مالک ، امیر کےمنصفانہ فیصلے کے منتظرہیں،جن کی آب و تاب آفتاب کو شرماتی ہے کافی دنوں سے انتظار کررہے ہیں؟”
"مسافر ہم چھے ہفتے سے انتظار کررہے ہیں” گنجا بولا۔ "یہ داڑھی والا جھگڑیلو، اللہ اس کو مارے ، شیطان اس کو دفان کرے، یہ داڑھی والا جھگڑیلو میرا بڑا بھائی ہے ۔ ہمارے والد کا انتقال ہوا۔انہوں نے کچھ ملکیت چھوڑی ۔ ہم نے سب کچھ تقسیم کرلیا ہے سوائے اس بکری کے۔ اب امیر اس کا فیصلہ کریں گے کہ یہ کس کی ہونی چاہیئے”
"لیکن وہ بقیہ ملکیت کہاں ہے جو تم کو وراثت میں ملی ہے؟”
"ہم نے وہ سب نقد کرلیا۔درخواست لکھنے کیلئے عرضی نویس کو دینا پڑتا ہے، پھر درخواست لینے والے منشی، پہرے داروں اور بہت سے لوگوں کو”
گنجا یکایک اچک کر اٹھا اور ایک گندے، ننگے پیر درویش سے ملنے کیلئے لپکا جو مخروطی ٹوپی پہنے تھا اور اس کے پہلو سے ایک کشکول لٹک رہا تھا۔
"میرے لیئے دعا کیجئے، اے بزرگ دعا کیجئے کہ فیصلہ میرے حق میں ہو”
درویش نے پیسے لیئے اور دعا شروع کردی۔ جیسے ہی وہ اپنی دعا کے آخری الفاظ تک پہنچا، گنجے نے اس کے کشکول میں ایک اور سکہ ڈال دیا تاکہ دعا کو ازسرنو شروع کردے۔داڑھی والا بے چینی سے اُٹھا اور مجمعے میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔کافی تلاش کے بعد اس کی نظر ایک اور درویش پر پڑی جو پہلے والے سے ذیادہ گندا اور چیتھڑوں میں تھا اس لیئے ذیادہ بزرگ بھی تھا۔ اس درویش نے کافی بڑی رقم طلب کی ۔داڑھی والے نے کچھ طے توڑ کرنا چاہا لیکن درویش نے اپنی ٹوپی کے نیچے ٹٹول کر مٹھی بھر چیلر برآمد کئے۔داڑھی والا یہ دیکھ کر فوراً اسکی کرامت کا قائل ہو گیا اور اپنے چھوٹے بھائی پر فاتحانہ نظر ڈالتے ہوئے مطلوبہ رقم گنی۔
درویش نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زور زور سے دعا شروع کی ۔ اس کی بھاری بھرکم آواز میں پہلے درویش کی مدھم آواز دب گئی۔گنجے نے پریشان ہو کر اپنے درویش کو چند اور سکے دیئے ، داڑھی والے نے بھی یہی کیا اور دونوں درویشوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کیلئے وہ چیخم دھاڑ کی کہ غالباً فرشتوں نے آسمانوں کی کھڑکیاں بند کرلی ہوں گی۔ بکری برابر کھونٹے کو کترے اور غمگین لہجے میں ممیائے جا رہی تھی۔
گنجے بھائی نے اس کے آگے تھوڑی سی گھاس ڈال دی جس پر داڑھی والا زور سے چیخا: "اپنی گندی بدبو دار گھاس میری بکری کے پاس سے لے جاو” اس نے لات مار کر گھاس الگ ہٹا دی اور بکری کے سامنے بھوسے کی چھوٹی سی ناند لگا دی ۔ "نہیں” گنجا غصے میں چلایا۔ "میری بکری تمہارا بھوسا نہیں کھائے گی” اب ناند بھی گھاس کے پاس پہنچ گئی۔ وہ ٹوٹ گئی اور بھوسا سڑک کی مٹی میں مل گیا۔دونوں بھائی سخت غصے میں دست و گریبان ہو گئے۔وہ زمین پر لوٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کی گھونسوں اور گالیوں سے خاطر کررہے تھے۔
"دو بیوقوف آپس میں لڑ رہے ہیں ، دو دھوکے باز دعا کررہے ہیں اور بکری بیچاری بھوکوں مررہی ہے” خواجہ نصرالدین نے سر ہلاتے ہوئے کہا "ارے نیک اور محبت کرنے والے بھائیو، ادھر دیکھو، اللہ نے اس جھگڑے کا فیصلہ اپنے طور پر کردیا۔اس نے بکری کو تم سے لے لیا ہے” بھائیوں کو ہوش آیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا۔وہ اپنے خون آلود چہرے لئے بڑی دیر تک مردہ بکری کو گھورتے رہے۔آخر کار گنجے نے کہا:
"اس کی کھال تو نکال ہی لینی چاہیئے”
"یہ میں کروں گا” داڑھی والا جلدی سے بولا۔
"تم کیوں کرو گے؟” دوسرے نے پوچھا ۔اسکا گنجا سر غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
"بکری میری ہے اور اسی لئے اسکی کھال بھی”
"نہیں، میری ہے”
قبل اس کے کہ خواجہ نصرالدین کچھ بولیں، دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا پھر زمین پر لوٹ رہے تھے۔ایک لمحے کیلئے بھاری مٹھی میں سیاہ بالوں کا گچھا نظر آیا جس سے خواجہ نصرالدین نے نتیجہ اخذ کیا کہ بڑے بھائی کی داڑھی کا کافی حصہ غائب ہو چکا ہے۔
ناامیدی سے ہاتھ جھٹک کر خواجہ نصرالدین آگے بڑھ گئے۔
___________________________________________________________________________________
قالینوں سے سجا ہوا اونچا چبوترا جہاں سے امیر اپنی وفادار رعایا پر عنائیت کی بارش کرنے والا تھا ، پہلے ہی چاروں طرف سے پہرے داروں سے گِھر چکا تھا اور نیچے سولی کے میدان میں جلاد بڑے زوروں کے ساتھ امیر کے احکام کی تعمیل کی تیاری کررہے تھے ۔وہ سلاخوں کی لچک اور ڈنڈوں کی مضبوطی کی جانچ کررہے تھے ، بہت سی زبانوں والے چمڑے کے کوڑے طشتوں میں بھگو رہے تھے ، سولیاں نصب کررہے تھے، کلہاڑیاں تیز کررہے تھے اور زمین میں تیز کونوں والے ستون گاڑ رہے تھے۔ اس کا منتظم شاہی پہرے داروں کا داروغہ ارسلان بیک تھا جس کی بربریت کا چرچا بخارا سے باہر دور دور تک پھیل چکا تھا۔ وہ لال چہرے ،بھاری جسم اور کالے بالوں والا آدمی تھا۔اسکی داڑھی سینے پر اپنا سایہ کئے ہوئے ناف تک لٹک رہی تھی اور اسکی آواز اونٹ کی بلبلاہٹ سے ملتی جُلتی تھی۔وہ بڑی فیاضی کے ساتھ گھونسوں اور لاتوں کی بارش کررہا تھا۔اچانک وہ بہت نیچے جھکا اور چاپلوسی سے کانپنے لگا۔ آہستہ آہستہ جھولتی ہوئی پالکی چبوترے تک پہنچی اور امیر نے اس کے پردے ہٹاتے ہوئے اپنے درشن رعایا کو دیئے۔
تقدس مآب ، بہرحال ایسا کچھ صورت دار نہیں تھا۔اس کا چہرہ جس کی تشبیہ اکثر درباری شاعر تابدار ماہ کامل سے دیتے تھے ، پلپلے سردے سے ذیادہ مشابہ تھا ۔ وہ اپنے وزیروں کے سہارے تخت پر جلوہ فرمانے کیلئے پالکی سے اترا۔ خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ درباری شعراء کے دعووں کے برعکس وہ سرو سہی قد ہرگز نہ تھا۔اس کا جسم موٹا اور بھاری تھا، اس کے ہاتھ چھوٹے اور پیر اتنے ٹیڑھے کہ اس کی قبا سے بھی یہ عیب نہیں چھپ رہا تھا ۔ وزراء اس کے دائیں طرف کھڑے ہو گئے ، ملاءوں اور عمائد کو بائیں طرف جگہ ملی، نیچے احکام نویس اپنے رجسٹر اور دواتیں لئے جمع تھے اور درباری شعراء نے تخت کے پیچھے اس طرح نیم حلقہ بنا لیا تھا کہ ان کی نظر اپنے آقا کی گدی پر رہے۔شاہی مورچھل بردار مورچھل جھلنے لگا۔حقے بردار نے سنہری نَے اپنے مالک کے ہونٹوں سے لگا دی۔چبوترے کو گھیرے ہوئے زبردست مجمع دم بخود کھڑا تھا۔خواجہ نصرالدین رکابوں کے اوپر اٹھے اور اپنی گردن نکال کر غور سے سننے لگے۔
امیر نے اونگھتے ہوئے سر ہلایا ۔پہرے داروں نے دو حصوں میں تقسیم ہو کر گنجے اور داڑھی والے دونوں بھائیوں کو راستہ دیا جن کی باری تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے چبوترے تک گئے اور زمین تک لٹکتے ہوئے قالین کو بوسہ دیا۔
"اُٹھو” وزیر اعظم بختیار نے کہا۔
دونوں بھائی اٹھے لیکن انکی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنی قباوں کی دھول جھاڑ دیں۔
خوف نے ان کی زبان اس طرح پکڑ لی تھی کہ وہ ہکلا رہے تھے اور ان کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔لیکن بختیار آخر بہت تجربے کار وزیر تھا ۔ وہ ایک نظر میں ساری صورت حال بھانپ گیا۔”تمہاری بکری کہاں ہے؟” اس نے بے چین ہو کر بیچ میں لقمہ دیا۔
گنجے بھائی نے جواب دیا "وزیر اعلیٰ نسب، وہ تو مر چکی ہے، اللہ نے اس کو اپنے پاس بلالیا۔لیکن اس کھال کا مالک کون ہے؟”
بختیار امیر کی طرف مڑا: "کیا حُکم ہے اے شاہِ دانش وراں”
امیر نے بالکل بے تعلقی سے جمائی لے کر آنکھیں بند کرلیں ۔بختیار نے بڑے ادب سے بھاری سفید دستار والا سر جھکایا:
"مالک، میں نے فیصلہ آپ کے چہرے سے معلوم کرلیا، سنو” وزیر نے بھائیوں کی طرف مُڑ کر کہا۔وہ گھٹنوں کے بل جھک کر امیر کی عقل، انصاف اور مہربانی کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کمربستہ ہو گئے۔بختیار نے فیصلے کا اعلان کرنا شروع کیا اور احکام نویس اپنے اپنے بڑے رجسٹروں میں اس کے الفاظ لکھنے کیلئے قلم دوڑانے لگے۔
"امیرالمومنین،آفتابِ جہاں ، عظیم امیر، خُدا ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتارہے، ان کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر بکری کو اللہ نے لے لیا ہے تو کھال انصاف کے مطابق زمین پر اللہ کے نائب یعنی خود عظیم امیر کی ملکیت ہونی چاہیئے ۔اس لئے بکری کی کھال اتار کر اسکو سُکھانا اور پکانا چاہیئے اور محل میں لا کر شاہی خزانے کے حوالے کرنا چاہیئے”
بھائیوں نے بدحواس ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مجمعے میں چپکے چپکے کھسر پھسر ہونے لگی۔بختیار نے اپنا حُکم زوردار اور صاف آواز میں جاری رکھا۔
"اس کے علاوہ مدعیان دوسو تنگے مقدمے کے اخراجات، ڈیڑھ سو تنگے محل کا محصول، پچاس تنگے احکام نویس کا خرچ ادا کریں اور مسجدوں کی آرائش کے لئے بھی چندہ دیں۔یہ تمام رقم نقدی یا کپڑوں یا کسی اور قسم کی جائداد کی صورت میں فوراً وصول کی جائے”
ابھی بختیار نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ ارسلان بیک کے اشارے پر پہرے دار دونوں بھائیوں پر ٹوٹ پڑے ، ان کے پٹکے کھول دئیے ، جیبیں باہر نکال کر جھاڑ لیں ، قبائیں تارتار کردیں اور جوتے اتار کر ان کو ننگے پیر اور نیم عریاں کرکے گردن پکڑ کر دھکیل دیا۔
یہ سارا قصہ چٹکی بجاتے میں ہو گیا فیصلے کا اعلان ہوتے ہی درباری شاعروں نے تحسین و مرحبا کے نعرے لگائے:
"داناامیر، داناوں کے دانا، دانائے روزگار”
تخت کی طرف اپنی گردنیں بڑھا بڑھا کر وہ اس طرح کی تعریفیں دیر تک کرتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا تھا کہ اس کی آواز سب سے بلند ہو کر امیر کے گوش گزار ہو سکے۔ اس دوران چبوترے کے چاروں طرف مجمع خاموش کھڑا ہمدردی اور افسوس کے ساتھ دونوں بھائیوں کو دیکھ رہا تھا۔
"پروا مت کرو” خواجہ نصرالدین نے بڑے سنجیدہ لہجے میں دونوں بھائیوں سے کہا جو ایک دوسرے سے چمٹے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ "بہرحال چوک پر چھے ہفتے انتظار کا وقت ضائع نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ منصفانہ اور رحیمانہ ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دُنیا بھر میں ہمارے امیر سے زیادہ دانش مند ، زیادہ رحیم اور کوئی نہیں ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو ۔۔۔” یہاں انہوں نے چاروں طرف اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھا اور کہا "تو پہرے داروں کو بلانے میں دیر نہ لگے گی۔اور وہ؟ ہاں، وہ شک کرنے والوں کو جلادوں کے حوالے کردیں گے جو آسانی سے انہیں بتا دیں گے کہ وہ کس طرح غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ارے بھائیو، اطمینان سے گھر جاو۔ اب کبھی تمہاری لڑائی کسی مرغی کے بارے میں ہو تو پھر امیر کی عدالت میں آنا۔لیکن ذرا پہلے اپنے مکانات، انگور کے باغ اور کھیت بیچ لینا ورنہ محصول نہیں ادا کرسکو گے اور اس سے امیر کے خزانے کو نقصان ہو گا جس کا خیال ہی وفادار رعایا کیلئے ناقابلِ برداشت ہونا چاہیئے”
"کاش ہم اپنی بکری کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے” بھائیوں نے آنسو بہاتے ہوئے کہا
"کیا تمہارے خیال میں آسمان پر بیوقوف کافی تعداد میں نہیں ہیں؟”خواجہ نصرالدین نے پوچھا "معتبر آدمیوں نے مجھے بتایا ہے کہ آج کل جنت و جہنم دونوں احمقوں سے بھرے پڑے ہیں اور اب اور نہیں لئے جارہے ۔۔۔بھائیو میں تمہارے لئے ابدیت کی پیشن گوئی کرتا ہوں۔۔۔اب یہاں سے رفوچکر ہو جاو کیونکہ پہرے دار ادھر دیکھ رہے ہیں اور تمہاری طرح میں لافانی ہونے پر بھروسہ نہیں کرسکتا”
دونوں بھائی زور زور سے سسکیاں بھرتے، اپنا چہرہ نوچتے اور سڑک کی خاک اپنے سروں پر اُڑاتے چلے گئے۔
تقدس مآب ، بہرحال ایسا کچھ صورت دار نہیں تھا۔اس کا چہرہ جس کی تشبیہ اکثر درباری شاعر تابدار ماہ کامل سے دیتے تھے ، پلپلے سردے سے ذیادہ مشابہ تھا ۔ وہ اپنے وزیروں کے سہارے تخت پر جلوہ فرمانے کیلئے پالکی سے اترا۔ خواجہ نصرالدین نے دیکھا کہ درباری شعراء کے دعووں کے برعکس وہ سرو سہی قد ہرگز نہ تھا۔اس کا جسم موٹا اور بھاری تھا، اس کے ہاتھ چھوٹے اور پیر اتنے ٹیڑھے کہ اس کی قبا سے بھی یہ عیب نہیں چھپ رہا تھا ۔ وزراء اس کے دائیں طرف کھڑے ہو گئے ، ملاءوں اور عمائد کو بائیں طرف جگہ ملی، نیچے احکام نویس اپنے رجسٹر اور دواتیں لئے جمع تھے اور درباری شعراء نے تخت کے پیچھے اس طرح نیم حلقہ بنا لیا تھا کہ ان کی نظر اپنے آقا کی گدی پر رہے۔شاہی مورچھل بردار مورچھل جھلنے لگا۔حقے بردار نے سنہری نَے اپنے مالک کے ہونٹوں سے لگا دی۔چبوترے کو گھیرے ہوئے زبردست مجمع دم بخود کھڑا تھا۔خواجہ نصرالدین رکابوں کے اوپر اٹھے اور اپنی گردن نکال کر غور سے سننے لگے۔
امیر نے اونگھتے ہوئے سر ہلایا ۔پہرے داروں نے دو حصوں میں تقسیم ہو کر گنجے اور داڑھی والے دونوں بھائیوں کو راستہ دیا جن کی باری تھی۔ وہ گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے چبوترے تک گئے اور زمین تک لٹکتے ہوئے قالین کو بوسہ دیا۔
"اُٹھو” وزیر اعظم بختیار نے کہا۔
دونوں بھائی اٹھے لیکن انکی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنی قباوں کی دھول جھاڑ دیں۔
خوف نے ان کی زبان اس طرح پکڑ لی تھی کہ وہ ہکلا رہے تھے اور ان کی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔لیکن بختیار آخر بہت تجربے کار وزیر تھا ۔ وہ ایک نظر میں ساری صورت حال بھانپ گیا۔”تمہاری بکری کہاں ہے؟” اس نے بے چین ہو کر بیچ میں لقمہ دیا۔
گنجے بھائی نے جواب دیا "وزیر اعلیٰ نسب، وہ تو مر چکی ہے، اللہ نے اس کو اپنے پاس بلالیا۔لیکن اس کھال کا مالک کون ہے؟”
بختیار امیر کی طرف مڑا: "کیا حُکم ہے اے شاہِ دانش وراں”
امیر نے بالکل بے تعلقی سے جمائی لے کر آنکھیں بند کرلیں ۔بختیار نے بڑے ادب سے بھاری سفید دستار والا سر جھکایا:
"مالک، میں نے فیصلہ آپ کے چہرے سے معلوم کرلیا، سنو” وزیر نے بھائیوں کی طرف مُڑ کر کہا۔وہ گھٹنوں کے بل جھک کر امیر کی عقل، انصاف اور مہربانی کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کمربستہ ہو گئے۔بختیار نے فیصلے کا اعلان کرنا شروع کیا اور احکام نویس اپنے اپنے بڑے رجسٹروں میں اس کے الفاظ لکھنے کیلئے قلم دوڑانے لگے۔
"امیرالمومنین،آفتابِ جہاں ، عظیم امیر، خُدا ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتارہے، ان کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر بکری کو اللہ نے لے لیا ہے تو کھال انصاف کے مطابق زمین پر اللہ کے نائب یعنی خود عظیم امیر کی ملکیت ہونی چاہیئے ۔اس لئے بکری کی کھال اتار کر اسکو سُکھانا اور پکانا چاہیئے اور محل میں لا کر شاہی خزانے کے حوالے کرنا چاہیئے”
بھائیوں نے بدحواس ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مجمعے میں چپکے چپکے کھسر پھسر ہونے لگی۔بختیار نے اپنا حُکم زوردار اور صاف آواز میں جاری رکھا۔
"اس کے علاوہ مدعیان دوسو تنگے مقدمے کے اخراجات، ڈیڑھ سو تنگے محل کا محصول، پچاس تنگے احکام نویس کا خرچ ادا کریں اور مسجدوں کی آرائش کے لئے بھی چندہ دیں۔یہ تمام رقم نقدی یا کپڑوں یا کسی اور قسم کی جائداد کی صورت میں فوراً وصول کی جائے”
ابھی بختیار نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ ارسلان بیک کے اشارے پر پہرے دار دونوں بھائیوں پر ٹوٹ پڑے ، ان کے پٹکے کھول دئیے ، جیبیں باہر نکال کر جھاڑ لیں ، قبائیں تارتار کردیں اور جوتے اتار کر ان کو ننگے پیر اور نیم عریاں کرکے گردن پکڑ کر دھکیل دیا۔
یہ سارا قصہ چٹکی بجاتے میں ہو گیا فیصلے کا اعلان ہوتے ہی درباری شاعروں نے تحسین و مرحبا کے نعرے لگائے:
"داناامیر، داناوں کے دانا، دانائے روزگار”
تخت کی طرف اپنی گردنیں بڑھا بڑھا کر وہ اس طرح کی تعریفیں دیر تک کرتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا تھا کہ اس کی آواز سب سے بلند ہو کر امیر کے گوش گزار ہو سکے۔ اس دوران چبوترے کے چاروں طرف مجمع خاموش کھڑا ہمدردی اور افسوس کے ساتھ دونوں بھائیوں کو دیکھ رہا تھا۔
"پروا مت کرو” خواجہ نصرالدین نے بڑے سنجیدہ لہجے میں دونوں بھائیوں سے کہا جو ایک دوسرے سے چمٹے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے ۔ "بہرحال چوک پر چھے ہفتے انتظار کا وقت ضائع نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ منصفانہ اور رحیمانہ ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دُنیا بھر میں ہمارے امیر سے زیادہ دانش مند ، زیادہ رحیم اور کوئی نہیں ہے اور اگر کسی کو اس میں شک ہو ۔۔۔” یہاں انہوں نے چاروں طرف اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھا اور کہا "تو پہرے داروں کو بلانے میں دیر نہ لگے گی۔اور وہ؟ ہاں، وہ شک کرنے والوں کو جلادوں کے حوالے کردیں گے جو آسانی سے انہیں بتا دیں گے کہ وہ کس طرح غلط راستے پر چل رہے ہیں۔ارے بھائیو، اطمینان سے گھر جاو۔ اب کبھی تمہاری لڑائی کسی مرغی کے بارے میں ہو تو پھر امیر کی عدالت میں آنا۔لیکن ذرا پہلے اپنے مکانات، انگور کے باغ اور کھیت بیچ لینا ورنہ محصول نہیں ادا کرسکو گے اور اس سے امیر کے خزانے کو نقصان ہو گا جس کا خیال ہی وفادار رعایا کیلئے ناقابلِ برداشت ہونا چاہیئے”
"کاش ہم اپنی بکری کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے” بھائیوں نے آنسو بہاتے ہوئے کہا
"کیا تمہارے خیال میں آسمان پر بیوقوف کافی تعداد میں نہیں ہیں؟”خواجہ نصرالدین نے پوچھا "معتبر آدمیوں نے مجھے بتایا ہے کہ آج کل جنت و جہنم دونوں احمقوں سے بھرے پڑے ہیں اور اب اور نہیں لئے جارہے ۔۔۔بھائیو میں تمہارے لئے ابدیت کی پیشن گوئی کرتا ہوں۔۔۔اب یہاں سے رفوچکر ہو جاو کیونکہ پہرے دار ادھر دیکھ رہے ہیں اور تمہاری طرح میں لافانی ہونے پر بھروسہ نہیں کرسکتا”
دونوں بھائی زور زور سے سسکیاں بھرتے، اپنا چہرہ نوچتے اور سڑک کی خاک اپنے سروں پر اُڑاتے چلے گئے۔
Leave a Reply