پاکستان کا سب سے بڑا دشمن کون؟
امریکہ!
عالم اسلام کا دشمن کون؟
امریکہ!
لیات علی خان کو کس نے شہید کروایا؟
امریکہ نے!
جو ایمبولنس قائدِ اعظم کو ہسپتال لے کر جا رہی تھی اسے خراب کس نے کروایا؟
امریکہ نے!
کشمیر کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنے والا کون ہے؟
امریکہ!
جیو ٹی وی کس کی بات مانتا ہے؟
امریکہ کی!
امریکہ!
عالم اسلام کا دشمن کون؟
امریکہ!
لیات علی خان کو کس نے شہید کروایا؟
امریکہ نے!
جو ایمبولنس قائدِ اعظم کو ہسپتال لے کر جا رہی تھی اسے خراب کس نے کروایا؟
امریکہ نے!
کشمیر کی آزادی میں رکاوٹ ڈالنے والا کون ہے؟
امریکہ!
جیو ٹی وی کس کی بات مانتا ہے؟
امریکہ کی!
امریکہ دشمنی کے باوجود سبھی امریکہ جانے کو تیار ہیں، ویزہ چاہتے ہیں، امریکی طرز زندگی چاہتے ہیں۔ امریکہ جانے والوں اور لوٹنے والے امریکہ نوازوں کے بیانات امریکہ دیکھتے ہی بدل جاتے ہیں۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے امریکی سہولیات سے کبھی انکار نہیں کرتے۔
فحاشی و عریانی کون پھیلا رہا ہے؟
امریکہ!
پاکستان میں دہشت گردی کو کو فروغ کون دے رہا ہے؟
سی آئی اے اور بلیک واٹر!
ہم پر جاگیردار، سردار، وڈیرے، چوھدری کس نے مسلط کیے ہیں؟
امریکہ نے!
پیٹرول کس کی ایما پر مہنگا کیا جاتا ہے؟
امریکہ کی
پاکستان میں زلزلے کیوں آتے ہیں؟
امریکہ کی وجہ سے!
پاکستان میں سیلاب کیوں آتے ہیں؟
امریکہ کی وجہ سے!
ایڈز کون پھیلا رہا ہے؟
امریکہ!
لیکن امریکہ دشمنی کے باوجود سبھی امریکہ جانے کو تیار ہیں، ویزہ چاہتے ہیں، امریکی طرز زندگی چاہتے ہیں۔ امریکہ جانے والوں اور لوٹنے والے امریکہ نوازوں کے بیانات امریکہ دیکھتے ہی بدل جاتے ہیں۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے امریکی سہولیات سے کبھی انکار نہیں کرتے۔
سب سے زیادہ انسانیت پسند ملک کون سا ہے؟
امریکہ!
سیاہ فام افراد کو برابر کا رتبہ کونسا ملک دیتا ہے؟
امریکہ!
خواتین خود کو سڑک پر محفوظ کہاں سمجھ سکتی ہیں؟
امریکہ میں!
دنیا کی بہترین جامعات کس ملک میں ہیں؟ امریکہ میں!
پاکستانی شناختی کارڈ زیادہ عزیز ہے یا امریکی گرین کارڈ؟
امریکہ کا گرین کارڈ!
بات یہ ہے کہ تمام دنیا میں لوگوں کو کچھ نہ کچھ چورن یا منجن چاہئے ہوتا ہے اپنے نفس و ضمیر کو بہلانے کے لئے۔ چورن تو بہت ہیں لیکن عالمی چورن صرف دو ہیں؛ قوم پرستی اور دوسرا حقوق پرستی۔
پہلا چورن روٹی، کپڑا، مکان دلا تو نہیں سکتا ہے لیکن، ان آسائشوں کی طلب کو دبا ضرور سکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے نعرہ لگایا تھا ’روکھی سوکھی کھائیں گے! ایٹم بم بنائیں گے‘ پوری قوم ان کے ساتھ ہوگئی تھی اور آخر کار ایٹم بم بنا بھی لیا، لیکن کیا اس سے بھوک و افلاس مٹ گئی؟ نہیں، نہ ہماری اور نہ ہی ان سات دیگر اقوام کا کوئی بھلا ہوا جو ایٹمی قوت بنے بیٹھے ہیں! ہم بھی دل کو بہلانے کے لیئے وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی مسئلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ اس سے اپنی عزت و وقار کو منسوب کرلیں اور اسے خود پر طاری کرلیں۔
لیکن مسئلہ اس پاپی پیٹ کا ہے، جو نہ رنگ دیکھتا ہے نہ نسل نہ وقت نہ جگہ بس روٹی مانگتا رہتا ہے مل جائے تو پر سکون ورنہ چوری تک بھی نوبت آجاتی ہے۔ یہی مسئلہ ہماری قوم کا بھی ہے، ایک طرف قوم پرستی دوسری طرف بشری خواہشات و ضروریات۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے (یار نہیں ہے، یاری اپنی چین سے ہے) ہمارے اس سے بڑے بہترین تجارتی و معاشی تعلقات ہیں، اور ہماری سیاسی و عسکری قیادت بھی امریکہ کو خطرہ نہیں سمجھتی لیکن کچھ عناصر ایسے ضرور ہیں جو ہمیں بار بار اکساتے رہتے ہیں، ہمیں اوہام میں مبتلا کرتے رہتے ہیں اور ہم جذبات کی رو میں بہہ کر عجیب و غریب نظریاتی اور امریکہ مخالف فیصلے کر بیٹھتے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں نظریات اور بہتر معیارِ زندگی میں چناو کا موقع میسر آتا ہے ہم اپنے ہی قول کی نفی کر بیٹھتے ہیں۔
انسانی حقوق کا تصور ایک عالمی تصور ہے، اس کے بر عکس قوم پرستی ہر ملک میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ نازی جرمنی اور فسطائی اٹلی میں قوم پرستی کی شدید اور غیر جمہوری صورتیں دیکھنے کو ملیں جب کہ برطانیہ اور امریکہ میں قوم پرستی جمہوری انداز میں سیاست کا حصہ بنی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم دنیا پر مسلط کرنے والے ہٹلر کے دور میں پوری قوم جنونِ برتری میں مبتلا ہوگئی تھی؛ شاندار ماضی، جاندار حال اور با وقار مستقبل۔ہٹلر اور مسولینی جیسے قوم پرستوں کے نظریات جہاں ایک عرصہ تک لوگوں کو مسحور کئے رکھتے ہیں وہیں جیسے ہی ہمیں کہیں کسی نکڑ میں اپنے بنیادی انسانی، سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق دکھائی دیتے ہیں تو ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے حقوق کی طرف چل پڑتے ہیں۔
امریکہ دشمنی اور امریکی طرز زندگی سے محبت جیسا معاشرتی تضاد جب تک موجود ہے تب تک ہم اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور قوم پرستی اور انسانی حقوق کے درمیان توازن پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ امریکہ اور ہندوستان دشمنی کی بجائے ہمیں اپنے حقیقی مسائل کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمارے حقیقی مسائل غربت، افلاس، اقربأ پروری، کرپشن، دہشت گردی، صحت و تعلیم کی سہولیات کا فقدان، بجلی کا بحران، غیر ذمہ دار انتظامیہ، ان پڑھ سیاستدان اورامن وامان کی مخدوش صورت حال ہیں ؛ ان مسائل کو ہمیں خود حل کرنا ہے۔
امریکہ!
پاکستان میں دہشت گردی کو کو فروغ کون دے رہا ہے؟
سی آئی اے اور بلیک واٹر!
ہم پر جاگیردار، سردار، وڈیرے، چوھدری کس نے مسلط کیے ہیں؟
امریکہ نے!
پیٹرول کس کی ایما پر مہنگا کیا جاتا ہے؟
امریکہ کی
پاکستان میں زلزلے کیوں آتے ہیں؟
امریکہ کی وجہ سے!
پاکستان میں سیلاب کیوں آتے ہیں؟
امریکہ کی وجہ سے!
ایڈز کون پھیلا رہا ہے؟
امریکہ!
لیکن امریکہ دشمنی کے باوجود سبھی امریکہ جانے کو تیار ہیں، ویزہ چاہتے ہیں، امریکی طرز زندگی چاہتے ہیں۔ امریکہ جانے والوں اور لوٹنے والے امریکہ نوازوں کے بیانات امریکہ دیکھتے ہی بدل جاتے ہیں۔ امریکہ مردہ باد کہنے والے امریکی سہولیات سے کبھی انکار نہیں کرتے۔
سب سے زیادہ انسانیت پسند ملک کون سا ہے؟
امریکہ!
سیاہ فام افراد کو برابر کا رتبہ کونسا ملک دیتا ہے؟
امریکہ!
خواتین خود کو سڑک پر محفوظ کہاں سمجھ سکتی ہیں؟
امریکہ میں!
دنیا کی بہترین جامعات کس ملک میں ہیں؟ امریکہ میں!
پاکستانی شناختی کارڈ زیادہ عزیز ہے یا امریکی گرین کارڈ؟
امریکہ کا گرین کارڈ!
بات یہ ہے کہ تمام دنیا میں لوگوں کو کچھ نہ کچھ چورن یا منجن چاہئے ہوتا ہے اپنے نفس و ضمیر کو بہلانے کے لئے۔ چورن تو بہت ہیں لیکن عالمی چورن صرف دو ہیں؛ قوم پرستی اور دوسرا حقوق پرستی۔
پہلا چورن روٹی، کپڑا، مکان دلا تو نہیں سکتا ہے لیکن، ان آسائشوں کی طلب کو دبا ضرور سکتا ہے۔ بھٹو صاحب نے نعرہ لگایا تھا ’روکھی سوکھی کھائیں گے! ایٹم بم بنائیں گے‘ پوری قوم ان کے ساتھ ہوگئی تھی اور آخر کار ایٹم بم بنا بھی لیا، لیکن کیا اس سے بھوک و افلاس مٹ گئی؟ نہیں، نہ ہماری اور نہ ہی ان سات دیگر اقوام کا کوئی بھلا ہوا جو ایٹمی قوت بنے بیٹھے ہیں! ہم بھی دل کو بہلانے کے لیئے وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی مسئلہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ اس سے اپنی عزت و وقار کو منسوب کرلیں اور اسے خود پر طاری کرلیں۔
لیکن مسئلہ اس پاپی پیٹ کا ہے، جو نہ رنگ دیکھتا ہے نہ نسل نہ وقت نہ جگہ بس روٹی مانگتا رہتا ہے مل جائے تو پر سکون ورنہ چوری تک بھی نوبت آجاتی ہے۔ یہی مسئلہ ہماری قوم کا بھی ہے، ایک طرف قوم پرستی دوسری طرف بشری خواہشات و ضروریات۔ المیہ یہ ہے کہ امریکہ ہمارا دوست ہے (یار نہیں ہے، یاری اپنی چین سے ہے) ہمارے اس سے بڑے بہترین تجارتی و معاشی تعلقات ہیں، اور ہماری سیاسی و عسکری قیادت بھی امریکہ کو خطرہ نہیں سمجھتی لیکن کچھ عناصر ایسے ضرور ہیں جو ہمیں بار بار اکساتے رہتے ہیں، ہمیں اوہام میں مبتلا کرتے رہتے ہیں اور ہم جذبات کی رو میں بہہ کر عجیب و غریب نظریاتی اور امریکہ مخالف فیصلے کر بیٹھتے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں نظریات اور بہتر معیارِ زندگی میں چناو کا موقع میسر آتا ہے ہم اپنے ہی قول کی نفی کر بیٹھتے ہیں۔
انسانی حقوق کا تصور ایک عالمی تصور ہے، اس کے بر عکس قوم پرستی ہر ملک میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ نازی جرمنی اور فسطائی اٹلی میں قوم پرستی کی شدید اور غیر جمہوری صورتیں دیکھنے کو ملیں جب کہ برطانیہ اور امریکہ میں قوم پرستی جمہوری انداز میں سیاست کا حصہ بنی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم دنیا پر مسلط کرنے والے ہٹلر کے دور میں پوری قوم جنونِ برتری میں مبتلا ہوگئی تھی؛ شاندار ماضی، جاندار حال اور با وقار مستقبل۔ہٹلر اور مسولینی جیسے قوم پرستوں کے نظریات جہاں ایک عرصہ تک لوگوں کو مسحور کئے رکھتے ہیں وہیں جیسے ہی ہمیں کہیں کسی نکڑ میں اپنے بنیادی انسانی، سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق دکھائی دیتے ہیں تو ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے حقوق کی طرف چل پڑتے ہیں۔
امریکہ دشمنی اور امریکی طرز زندگی سے محبت جیسا معاشرتی تضاد جب تک موجود ہے تب تک ہم اپنے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور قوم پرستی اور انسانی حقوق کے درمیان توازن پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ امریکہ اور ہندوستان دشمنی کی بجائے ہمیں اپنے حقیقی مسائل کا ادراک کرنا ہو گا۔ ہمارے حقیقی مسائل غربت، افلاس، اقربأ پروری، کرپشن، دہشت گردی، صحت و تعلیم کی سہولیات کا فقدان، بجلی کا بحران، غیر ذمہ دار انتظامیہ، ان پڑھ سیاستدان اورامن وامان کی مخدوش صورت حال ہیں ؛ ان مسائل کو ہمیں خود حل کرنا ہے۔
Leave a Reply