کفن باندھے ہوئے یہ شہر سارا جا رہا ہے کیوں؟؟
سوئے مقتل ہر اک رستہ ہمارا جا رہا ہے کیوں؟؟
جو حقوق دین اسلام نے غیر مسلموں اور ان کی عبادت گاہوں کو دیے ہیں ان کا احاطہ اقوام عالم کا کوئی اور مذہب قطعاً نہیں کرتا، لیکن مذہب کے نام پر عبادت گاہوں اور مزاروں کا جو حال کیا جا رہا ہے وہ یقیناً درندگی کے علاوہ اور کسی زمرے میں نہیں آ سکتا۔ایک زمانہ تھاجب ہمارے ہاں عبادت گاہیں محفوظ تصور کی جاتی تھیں،جبھی شہر بھر کا دھتکارا ہواشخص ان عبادتگاہوں میں پہنچ کر گھڑی بھر پناہ مانگتا تھا اور پناہ پاتا تھا، مگر اب ان سبھی عبادت گاہوںمیں بس خدا ہی کی پناہ ہے۔
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے
ایک بارود کی جیکٹ اور نعرۂ تکبیر
راستہ جنت کا آسان ہوا پھرتا ہے
شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہ جس سے
صبح وہ صاحب ایماں ہوا پھرتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلماں ہوا پھرتا ہے
عین اس وقت جب مسیحی برداری اتوار کی عبادات ایک سو تیس سالہ قدیم چرچ میں بجا لا رہی تھی، پشاور کو خون اور آگ کے دریا سے گزرنا پڑا۔۔ خودکش دھماکے میں اٹھہتر افراد جاں بحق ہوئے اور ایک سو تیس بستر پر زخموں سے چور پڑے ہیں۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک صوبے میں مجموعی طور پر ایک سو چوالیس دہشت گردی کے واقعات پیش آ چکے ہیں، صرف پشاور ایسے اٹھاون دھماکوں کا شکار ہوا۔ ان وارداتوں میں خیبر پختواہ کے باسی تیرہ سو لاشوں کو کاندھا دے چکے ہیں۔ کل صوبائی حکومت پانچ گھنٹوں تک کہیں نظر نہ آئی، نظر آئے تو وہ چند ایک جو پچھلے پانچ سالوں میں بھی ہر دھماکے کے بعد دہشت گردوں کو للکارتے رہے۔۔ غلام احمد بلور اور میاں افتحار حسین۔۔ ایک اپنا بھائی ملک پر وارنے پہ نازاں ہے اور دوسرا اپنی اکلوتی اولاد کو اس جنگ میں امن کی دیوی کی بَلی پر قربان کر چکا ہے۔ ان کی جماعت کی سیاسی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف سہی، لیکن ان کی قربانیاں اور ان کا موقف ہمیشہ سے ہی قابل فخر رہا ہے؛
اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری،
گزر جائے تو شاید بازوئے قاتل ٹھہر جائے۔۔
معلوم ہوا کہ جب زخمیوں کو صوبے کے سب سے بڑے اسپتال میں منتقل کیا جا رہا تھا تو وہاں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، لیکن زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے مطلوبہ سٹاف میسر نہیں تھا، کہہ دیا گیا کہ عملہ اتوار کے روز چھٹی پر ہے، تنقید کی تو کہا گیا کہ صوبائی حکومت کے خلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جار ہی ہے، یہ تو مان لیجیے کہ لیڈی ریڈنگ جیسے اسپتال میں ہر روز اور ہر وقت عملے کی مناسب تعداد کا ہونا لاز م ہے اور اگرایسا نہیں تھا تو یقینا یہ متعلقہ انتظامیہ کی غفلت ہے۔ اگر یہ اعتراض بھی غلط ہے تو فرما دیجیے کہ آخر زخمیوں کے ورثا پھر کس بات پر سارا دن اسپتال کے سامنے سراپا احتجاج بنے رہے؟
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ
کہا گیا کہ مذاکرات ہی واحد حل ہے۔ یہ ہمارے ہی لوگ ہیں ان سے بات چیت کی جانی چاہیے۔۔ آل پارٹیز کانفرنس میں اس بات پر اتفاق رائے قائم کیا گیا، اور پھر طالبان رہنماؤں کی رہائی بھی عمل میں آنے لگ گئی، دوسری جانب سے پہلے میجر جنرل ، لیفٹینٹ کرنل اور سپاہی کی شہادت کا تحفہ بھیجا گیا، اور اب چرچ میں چونتیس خواتین اور سات بچوں سمیت اٹھہتر افراد کو خون میں نہلا دیا گیا۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ سیاسی اتفاق رائےایک طرف، یہاں تو مذہبی حلقے بھی اس ایک نکتے پر متفق نہیں کہ خود کش حملے "حرام” ہیں، ایسے میں خودکش حملہ آوروں کی مذمت جیسے "شرعی طور پر متنازعہ امر” پر بات بھلا کون کرتا؟ کہ میں نے آج تک مولانا فضل الرحمٰن اور سید منور حسن صاحب کے منہ سے اس فعل پر لفظ ‘حرام ‘ نہیں سنا۔
وزیر اعظم برطانیہ میں ہیں اور ان کی اگلی منزل امریکہ ہے، یقیناً پشاور دھماکوں کے بعد میاں نواز شریف کو امریکہ یاترا میں کافی ‘ٹف ٹائم’ بھی دیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوگا اگر وزیر اعظم واپسی پر ایک اور آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور حتمی لائحہ عمل کا کھل کر اعلان کریں۔ کیونکہ مذاکرات کے بہلاوے پر اب قوم لاشیں اٹھانے سے عاجز ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی حکمت عملی سے پہلے تمام مکاتب فکر کے علما ئے کرام دین، قتلِ عام کے لائسنس جاری کرنے والے فتویٰ فروشوں کے بارے میں قرآن و سنت کےکسی ایک حکم پر اتفاق کر لیں، کہ شاید اب ہمارے لیے اپنی بقا کی جنگ لڑنا ضروری ہو گیا ہے۔
ارضِ وطن کی بقا کے لیے جانوں کے نذرانے قومیں ہمیشہ سے ہی پیش کرتی آئی ہیں، لیکن دن دہاڑے عبادت گاہوں میں معبود کا نام لیتے ہوئے جانوں کا ضیاع صرف قاتلوں پر نہیں، سیاست چمکاتے حکمرانوں کے بھی سر جائے گا۔
آخر میں پشاور کے مسیحی بھائیوں اور بہنوں کے نام کہ جنہیں خود ‘مسیحا’ نہ ملا۔
نیلے فلک کی وسعت نے۔۔
پاک زمیں کی چیخ سنی!
پھر خون رنگ اور کرب و آہ
پھر وہی پرزوں میں انساں
پھر وہی حشر بپا دیکھا
مسجد، مندر، گرجا گھر!
رنگ نسل ، زباں، مذہب!
وحشی درندے کیا جانیں؟
وحشی کا کیا دیں ایماں؟
امن کا دشمن خود انساں!
(شکیل بازغ)
آپ کے قارئین کی نذرکچھ بے ربط سا
تم نے ہی شور مچایا تھا
ووٹ دو بھئی ووٹ دو
حق میں تمہی سارے تھے
نظام تو اچھا ہی ہے یہ
بات چلانے والوں پر ہے
سچ کہا تھا تم سب نے
پر اک سچ کو چھپا بیٹھے
تم تو سب ہو پیٹ بھرے
موت بھی تم کو ٹھہر کر آتی
مرنا تو غریب کو ہوتا
دین بھی جن کا کوئی نہیں ہوتا
تم کو غم ہے اتنا زیادہ
تو اس غم میں مرتے کیوں نہیں
لمحے بھر کے دو بولوں کو
بول کر تم جتلاتے ہو
پھر نئی صبح کو تم
اپنے کام میں لگ جاتے ہو
یا تم بھی غم میں ایسے شامل ہو جاؤ
کبھی کسی کو نظر نہ آئے
رقصاں لبوں پر ہنسی تمہارے
دکھ کو ایسا بانٹو تم
مرنے والوں کے ساتھ مرجاؤ
کھوکھلے نعرے ‘ غم و غصہ یہ سب
اچھا نہیں لگتا بھرے پیٹ کے ساتھ
باتیں سنو ان لوگوں کی
جیسے قیامت آن ہو پہنچی
پر جیسے ہی غبار چھٹتا ہے
پھر سے مصروف یہ ہو جاتے ہیں
اپنے ہی کھیل تماشوں میں
یہ لفظ میرے جذبات سے عاری
سچ پر مبنی ‘ دیکھا ہے سب کچھ
سوچا ہے سمجھا ھو پرکھا ہے
مرتا صرف غریب ہی ہے
چاہے جو بھی ہو جہاں پر ہو
بہت عمدہ بالکل دل سے قریب مگر مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر والی بات ہی ہے اب
سہی ھے درست ھے کچھ خاص ھی نہیں