اجمل جامی

ان دنوں جہاں بھی دو چار لوگ” چائے پانی ” کے بہانے نششت براجمان ہوں تو وہاں سب سے پہلا سوال بالخصوص ایک صحافی یا سیاستدان سے یہ ہوتا ہے۔۔۔ “جناب۔۔الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں؟” اور اگلا سوال۔۔ “کون جیتے گا؟” اور ایک اور اہم سوال یہ بھی پوچھا جاتا ہے۔۔”عمران خان کا کیا سین ہے؟ ” وغیرہ وغیرہ۔۔ پیشے کے اعتبار چونکہ ہم صحافی واقع ہوئے ہیں اسی لیے عوام اور خواص سے میل جول اکثر رہتا ہے۔۔ اب نا چیز کے پاس کوئی ” درفنتنی” چھوڑنے ۔۔یا ۔۔۔”چڑیا”۔۔ اڑانے کے لیئے تو ہے نہیں۔۔ لہذا “بقول شخصے” پر ہی اکثر و بیشتر گزارا کرنا پڑتا ہے۔۔ ویسے “شخصے صاحب یا صاحبہ” کو بچپن سے پڑھ اور سن رہاہوں۔۔ حیرت ہے ابھی تک ان کا کھرا دریافت نہیں کر پایا۔۔ لاجواب سروس اور باکمال مخلوق واقع ہونے والے “شخصے” دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔۔
چونکہ آج موضوع طوطوں ، ٹوٹوں ، ٹوٹکوں اور شخصے پر مبنی ہے لہذا تحریر میں ربط کی عدم موجودگی پر معذرت ابھی سے قبول کر لیں۔۔ شخصے ۔۔! میرا مطلب ہے کہ لکھاری شکر گزار ہو گا۔۔ العرضے۔۔۔
شخصے کو کل ایک انتہائی اہم “وزارت” کے سابق وزیر کے “نادر” خیالات جاننے کا موقع ملا۔۔وہاں کچھ نامور تاجر رہنما بھی موجود تھے۔۔ اہلیان لاہور خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ لاہور کے کرتا دھرتا تاجر سیاست کے داو پیچ اور اندر کی رام کہانی خوب جانتے ہیں۔۔ تو جیسا کی آغاز میں عرض کیا۔۔ وہی چند سوالات۔۔ لیکن جوابات خاصے دلچسپ تھے۔۔
بھٹو صاحب۔۔ مظلوم عوام۔۔ غریب کسانو! مزدورو! اور اس جیسے اور دل کو لگنے والے انداز سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔۔ محض نوجوانوں کو مخاطب کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ باقی پچاس فیصد کو نظر انداز کر رہے ہیں۔۔
پہلا سیاسی ٹوٹا ملاحظہ ہو۔۔ امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔۔ اگر آ پ کو یاد ہو تو پچھلے دو روز میں تین صوبائی دارالحکومتوں میں دس سے زائد دھماکے ہو چکے ہیں۔۔ درجن سے زائد افراد جاں بحق جبکہ ستر کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔۔ سوال یہ تھا کہ ایسی صورتحال میں الیکشن کیسے ممکن ہو پائیں گے۔۔ تو بقول شخصے۔۔ جناب یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔۔ الیکشن ہونے چاہیں۔۔ لیکن اگر پنجاب میں صورتحال بگڑی تو شاید میاں صاحب کو ئی ایسا بیان دے دیں جس سے صورتحال یکسر بدل جائے۔۔ عادت سے مجبور ہو کر دوبارہ پوچھا۔۔ میاں صاحب بیان دیں گے یا بیان دلوایا جا ئے گا؟؟ ۔ جواب میں موصوف مسکرائے اور طوطوں کو متوجہ کرتے ہوئے اندر کی رام کہانی سنانے کو کہا۔۔ تو حضور۔۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کے سوا کوئی حل نہیں۔۔ اور الیکشن ہر حال میں ہونے چاہیں۔۔ لیکن سابق موصوف کی بات میں تھوڑا بہت تو وزن ہے ہی۔۔ رام کہانی میں یہ راز کھلا کہ ٹکٹوں کے تقسیم کے سمے ن لیگ کی اعلی قیادت کے ہاں خوب نوک جھونک اور “پھڈے” ہوتے رہے۔۔ یہاں لاہور کی صوبائی اسمبلی کی ایک نششت کے لیے ایک معروف تاجر اور سیاستدان کو ن لیگ کی “اعلی”قیادت زبان دے چکی تھی۔۔ ڈیڑھ سو کے قریب سیاستدان “مودبانہ” انداز میں حصول ٹکٹ کے لیے “اعلی” قیادت کے روبرو پیش تھے۔۔ اور عام خیال یہی تھا کہ مذکورہ بالا شخصیت کو صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ آسانی سے مل جائے گی۔۔ کہ اچانک چوہدری اختر رسول آن ٹپکے۔۔ بس پھر کیا تھا۔۔ وہ پدھارے۔۔ اور ٹکٹ لے اڑے۔۔ بوجھیں تو جانیں۔۔ بقول “شخصے” چوہدری اختر رسول نے آتے ہی “اعلی” قیادت سے انتہائی “گوڈے گٹوں والا” مصافحہ کیا۔۔ اور ان کی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔ پھر انہوں نے” نچ کے یار منالیا” ۔۔ سنا ہے اس موقع پر انہوں نے اس سب کے علاوہ ایک دو “گانے ” بھی سنائے۔۔ وہ اور بات ہے کہ چوہدری صاحب کو ٹکٹ دینے کے اس “انوکھے” فیصلے پر وہاں موجود اکثریت خاصی “ناراش ” تھی۔۔ لیکن۔۔ جناب۔۔۔ “اعلی” قیادت بھی کسی چیز کا نا م ہوتی ہے۔۔ایک سیاستدان مختلف حلقوں کے ممکنہ نتائج پر پیشن گوئی کرتے ہوئے گویا ہوئے ۔۔۔ “خاتون اگر کسی سیٹ کو جپھا ڈال لے تو اس سیٹ کو توڑنا تقریبا ناممکن ہو جاتا ہے” ۔۔ استفسار پر کہنے لگے۔۔ شادی شدہ افراد سے پوچھو۔۔ “خاتون” ڈیرے ڈال لے تو کیا ہوتا ہے۔۔(نوٹ: فردوس آپا اور محترمہ ثمینہ خاور حیات کو اس کہاوت کی پرچھائی سے بھی دور رکھا جائے ۔۔شکریہ)اور اب ایک ٹوٹا کم ٹوٹکا ۔۔۔ سابق وزیر کہنے لگے کہ ۔۔ یہ عمران خان کیا ہر وقت “نوجوانو!! نوجوانو!! کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔۔ بھئی۔۔ یہ کوئی اچھا “امپریشن ” نہیں۔۔ بھٹو صاحب۔۔ مظلوم عوام۔۔ غریب کسانو! مزدورو! اور اس جیسے اور دل کو لگنے والے انداز سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔۔ محض نوجوانوں کو مخاطب کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ باقی پچاس فیصد کو نظر انداز کر رہے ہیں۔۔ ایک طوطے کی شرارت پر۔۔ محفل اس وقت “کشت زعفران” بن گئی جب۔۔ سابق وزیر نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ نوجوانو!! مجھے پتہ ہے آپ اور آپ کی مائیں میرے ساتھ ہیں۔۔ بس باپ حضرات نہیں۔۔ انہیں بھی تحریک انصاف کے لیے قائل کرو۔۔ ویسے مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ جملہ کہتے ہوئے۔۔ خان صاحب خاصے مسکرائے تھے اور ایک “نوٹ ایبل پاز” بھی لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔۔۔ مشورہ دیا کہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ باقی عوام کو بھی مخاطب کیا کریں۔۔
خیبر پختونخواہ میں مقابلہ خوب ہوگا۔۔ مولانا بھی تگڑے ہو رہے ہیں۔۔ جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔۔ اے این پی کی قربانیاں اسے ووٹ سے زیادہ دور نہیں رہنے دیں گی۔۔ ن لیگ۔ہزارہ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور کچھ دیگر علاقوں میں قد آور شخصیات کی بنا پر سیٹیں لے سکتی ہے۔۔
شاید خان صاحب کچھ تھک گئے ہیں۔۔ جبھی تو بلے پر ٹھپا لگائیں کی بجائے کہہ دیا کہ شیرپر مہر لگائیں۔۔ کسی نے آواز لگائی کہ پارٹی کے سرکردہ رہنما (ہاشمی صاحب اور قریشی صاحب) خان صاحب کے آجو باجو میں آج کل نہیں دکھ رہے۔۔ تو ایک زیرک سیاسی کارکن بولا۔۔ وہ لوگ اپنی اپنی الیکشن مہم میں مصرو ف ہیں۔۔ جی ہی جی میں خیال آیا کہ اگر قبلہ قریشی صاحب نے کوئی کارنر میٹنگ ملتان کی چبھتی گرمی میں بلا لی تو حاضرین پر کیا بیتے گی۔؟؟
کیونکہ محفل میں بیٹھے ایک دو حضرات کا تعلق ہماری پیاری دھرتی سندھ سے بھی تھا۔۔ تو وہاں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ پیپلز پاڑٹی کی ساکھ چاہے جیسی بھی ہو۔۔ “شیر” سندھ میں ابھی بھی اجنبی ہے۔۔ اور اسے “پنجابی” سمجھا جاتا ہے۔۔ گو کہ کچھ قوم پرست جماعتوں اور “پھول” کے سہارے سات یا آٹھ نشستیں نکالی جا سکتی ہیں۔۔
خیبر پختونخواہ میں مقابلہ خوب ہوگا۔۔ مولانا بھی تگڑے ہو رہے ہیں۔۔ جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی موجود ہے۔۔ اے این پی کی قربانیاں اسے ووٹ سے زیادہ دور نہیں رہنے دیں گی۔۔ ن لیگ۔ہزارہ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ اور کچھ دیگر علاقوں میں قد آور شخصیات کی بنا پر سیٹیں لے سکتی ہے۔۔ خان صاحب کے ساتھ خیبر پختونخواہ کے عوام کی جذباتی وابستگی بھی اپنے اثرات مرتب کرے گی۔۔ ووٹ بینک میں اس قدر زیادہ تقسیم کی وجہ سے پیپلز پاڑٹی بھی معنی خیز فائدہ اٹھا سکتی ہے۔۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کا جماعت اسلامی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہونا کچھ خاص حلقوں میں یقینا پی پی پی کو فائدہ دے سکتا ہے۔۔
پنجاب اور بلوچستان کا ذکر ایک تحریر میں تفصیلا ہو چکا اس لیے دوباہ پرانے تبصرے سے گریزاں ہوں۔۔
پوچھا گیا کہ کمانڈو گیارہ مئی سے پہلے راہ فرار اختیار کریں گے یا اس کے بعد۔۔۔ معلوم ہوا۔۔ کہ اس کے بعد تو خاصا مشکل ہو گا۔۔ لہذا اس سے پہلے ہی کوئی صورت نکالی جائے گی۔۔
سابق وزیر ہوں اور آس پاس بیٹھے حضرات ”ذکر کمانڈو” نہ کریں۔۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔۔ پوچھا گیا کہ کمانڈو گیارہ مئی سے پہلے راہ فرار اختیار کریں گے یا اس کے بعد۔۔۔ معلوم ہوا۔۔ کہ اس کے بعد تو خاصا مشکل ہو گا۔۔ لہذا اس سے پہلے ہی کوئی صورت نکالی جائے گی۔۔ ابھی یہ سطریں تحریر کر ہی رہا تھا تو سوچا کہ وفاق سے کوئی خبر نکالی جائے۔۔ ایک سینئر صحافی اور مہربان دوست کی رائے یہ تھی کہ اب جنرل مشرف کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہے کہ نہ صرف موجودہ حالات، جوڈیشری اور سیاستدان بلکہ اب انہیں شاید “فوج” کابھی سامنا ہے۔۔ یعنی۔۔۔
دریا کے رخ کو موڑ کے آئے تو یہ کھلا۔۔۔۔
ساحل کے رنگ اور ہیں۔۔ساحل نہیں ہے وہ۔۔۔
بہر حال۔۔ موصوف کے راہ فرار کی کوئی راہ تو کھلی ہو گی۔۔ اور اس بارے استاد نصرت جاوید بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔۔
“شخصے ” کی موجودگی میں سیاسی طوطوں ، ٹوٹوں اور ٹوٹکوں کی بہار ہی بہارتھی کی سابق وزیر سے کسی نے جناب صدر اور بڑے میاں صاحب کے مراسم بارے ایک چبھتا سوال داغ ڈالا۔۔۔ انتہائی دلچسپ اور خبریت سے بھر پور جواب امڈا ہی تھا کہ موصوف ایک صاحب کی نازیبا حرکت پر سیخ پا ہو کر کمرے سے باہر تشریف لے گئے۔۔ عام خیال یہی تھا کہ تھوڑی دیر میں واپس آجائیں گے۔۔ لیکن وہ نہ آئے۔۔ گو کہ “شخصے” نے انہیں اندر لانے کی سعی کرنے کا بارہا سوچا۔۔ لیکن جب تصدیق ہو گئی کہ “وہ” جا چکے تو منیر نیازی یاد آگئے۔۔۔
ضروری بات کہنی ہو۔۔ کوئی وعدہ نبھانا ہو۔۔۔
اسے آواز دینی ہو۔۔ اسے واپس بلانا ہو۔۔۔
ہمیشہ۔۔۔۔۔۔۔ دیر کر دیتا ہوں میں۔۔
( بشکریہ :پاک ووٹس)
Leave a Reply