بابا جی ، باقی تو تمام معاملات میں ٹھیک ہی برتاوٗ کرتے تھے ، لیکن ایک معاملہ ایسا تھا جس میں وہ ایک دم شدید لالچ کا مظاہرہ کرنے لگتے اور مجھے ان کے اس لالچ سے وحشت سی محسوس ہونے لگتی ۔ نیکیاں اور ثواب کمانے کے معاملے میں تو جیسے لالچ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ مجھے ان کی اس فطرت سے سخت چڑ تھی ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ نیکیاں کیوں کماتے ہیں ، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ ساری نیکیاں خود ہی اکٹھے کیے جاتے ہیں اور ہمارے حصے میں جھونگا بھی نہیں آتا ۔ آپ ان کی حالت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ جب گھر میں کھانے کہ لیے دستر خوان چنا جاتا تو بابا سب سے پہلے یہ سوال کرتے کہ کوئی سوکھی روٹی ہے ؟
جب گھر میں کھانے کہ لیے دستر خوان چنا جاتا تو بابا سب سے پہلے یہ سوال کرتے کہ کوئی سوکھی روٹی ہے ؟
“بابا! آپ سوکھی روٹی کیوں کھاتے ہیں ؟”
“بیٹا !سوکھی روٹی کھانے سےثواب ہوتاہے ۔”
“میں بھی کھاوٗں؟”
اس پر وہ گھور کر دیکھتے جو اس بات کو اشارہ ہوتا کہ اس حوالے سے اب مزید گفتگو کی گنجائش نہیں رہی ۔ اس پر میں خاموشی سے کھانا کھانے میں مشغول ہوجاتا ، اور دل ہی دل میں انہیں کوستا بھی جاتا ۔
“ہوں، لالچی ۔۔ سارا ثواب خود لے رہے ہیں ، ہمارا تو ذرا بھی احساس نہیں او ر میرا دل دُکھا کر جو گناہ پہ گناہ کرتے ہیں اس کا احساس ہی نہیں۔” انہی سوچوں میں کھانا تمام ہوجاتا اور پھر اگلے وقت کے کھانے پر یہی قصہ دوبارہ دہرایا جاتا ۔ جب میں تھوڈا بڑا ہوا تو کبھی کبھار آس پڑوس کے گھروں میں بھی کھانا کھا لیا کرتا کہ اس دور میں سارے گھر سانجھے ہوتے تھے ۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ صرف بابا ہی نہیں بلکہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ ہر گھر میں یہی منظر تھا اور ہر گھر کے چھوٹے اپنے بزرگوں کے اسی لالچ کا شکار تھے۔ گھر کا سربراہ ہمیشہ اپنے لیے سوکھی یا بچی ہوئی روٹی طلب کرتا اور وجہ وہی سادا سی کہ سب کو ہی نیکیاں کمانے کا جنون تھا ۔ ہر گھر کے بچے بڑوں سے اسی طور تنگ تھے کہ وہ انہیں ثواب نہیں کمانے دیتے ۔
ایک روز پڑوس کے ایک گھر میں کھانے کھاتے ہوئے میں نے ایسی ہمت کا مظاہرہ کیا جو اپنے گھر تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی کھانا چنا گیا میں نے فورا ہاتھ بڑھا کر سوکھی روٹی اٹھا لی ۔ بزرگوں نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ،”بیٹا! یہ روٹی ادھر دے دو۔ ”
“مگر باو جی آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ سوکھی روٹی کھانا ثواب ہے ۔اور میرے بابا بھی یہی کہتے ہیں ۔”
“ہاں !ثواب تو ہے ۔”
پھرآپ ہمیں کیوں ثواب نہیں کمانے دیتے ؟”
“بیٹا !سوکھی روٹی کھانے سےثواب ہوتاہے ۔”
“میں بھی کھاوٗں؟”
اس پر وہ گھور کر دیکھتے جو اس بات کو اشارہ ہوتا کہ اس حوالے سے اب مزید گفتگو کی گنجائش نہیں رہی ۔ اس پر میں خاموشی سے کھانا کھانے میں مشغول ہوجاتا ، اور دل ہی دل میں انہیں کوستا بھی جاتا ۔
“ہوں، لالچی ۔۔ سارا ثواب خود لے رہے ہیں ، ہمارا تو ذرا بھی احساس نہیں او ر میرا دل دُکھا کر جو گناہ پہ گناہ کرتے ہیں اس کا احساس ہی نہیں۔” انہی سوچوں میں کھانا تمام ہوجاتا اور پھر اگلے وقت کے کھانے پر یہی قصہ دوبارہ دہرایا جاتا ۔ جب میں تھوڈا بڑا ہوا تو کبھی کبھار آس پڑوس کے گھروں میں بھی کھانا کھا لیا کرتا کہ اس دور میں سارے گھر سانجھے ہوتے تھے ۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ صرف بابا ہی نہیں بلکہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ ہر گھر میں یہی منظر تھا اور ہر گھر کے چھوٹے اپنے بزرگوں کے اسی لالچ کا شکار تھے۔ گھر کا سربراہ ہمیشہ اپنے لیے سوکھی یا بچی ہوئی روٹی طلب کرتا اور وجہ وہی سادا سی کہ سب کو ہی نیکیاں کمانے کا جنون تھا ۔ ہر گھر کے بچے بڑوں سے اسی طور تنگ تھے کہ وہ انہیں ثواب نہیں کمانے دیتے ۔
ایک روز پڑوس کے ایک گھر میں کھانے کھاتے ہوئے میں نے ایسی ہمت کا مظاہرہ کیا جو اپنے گھر تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی کھانا چنا گیا میں نے فورا ہاتھ بڑھا کر سوکھی روٹی اٹھا لی ۔ بزرگوں نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ،”بیٹا! یہ روٹی ادھر دے دو۔ ”
“مگر باو جی آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ سوکھی روٹی کھانا ثواب ہے ۔اور میرے بابا بھی یہی کہتے ہیں ۔”
“ہاں !ثواب تو ہے ۔”
پھرآپ ہمیں کیوں ثواب نہیں کمانے دیتے ؟”
باوجی شاید بھانپ گئے کہ اب حقیقت آشکار کرنے کا وقت آچکا ہے سو انتہائی نرمی سے روٹی میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا کہ ہم سوکھی روٹی اس لیے کھاتے ہیں تاکہ آپ تازی روٹی کھا سکیں
باوجی شاید بھانپ گئے کہ اب حقیقت آشکار کرنے کا وقت آچکا ہے سو انتہائی نرمی سے روٹی میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا کہ ہم سوکھی روٹی اس لیے کھاتے ہیں تاکہ آپ تازی روٹی کھا سکیں ۔ اور ۔۔۔۔ اس روز معاملہ میری سمجھ میں ٓگیا ۔ زندگی کہ شب و روز گزرتے رہے اور سوکھی روٹیاں کھانے سے لیکر ، میلوں پیدل چلنے تک ، اضافی وقت ملازمتوں سے لیکر رات گئے ٹھیکیداروں کے آگے مزدوریاں کرنے تک ۔۔ ہمارے بڑے ہر ہر معاملے کو ثواب سمجھ کر سر انجام دیتے رہے کہ دراصل ان کے نزدیک ایک ایسی نسل کا پروان چڑھنا ہی کار ثواب تھا جو ان کے مقابلے میں اچھی زندگی بسر کر سکے ۔جنہیں اپنی زندگیوں میں وہ مسائل و مصائب نہ ہوں جن کا انہیں سامنا ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی جانیں جوکھم میں ڈالیں اور اپنی استطاعت سے کہیں بڑھ کر دکھ اٹھائے ۔ لیکن اس سارے عمل میں کہیں کسی سے کوئی چوک ضرور ہوئی کیونکہ ایسی نسل تو بلاشبہ تیار ہوگئی جو علم و دانش میں ، پرآسائش طرز زندگی میں ، آسودگی میں اپنے پیشرو سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن اب یہ نسل کسی بھی قیمت اور کسی بھی حال میں سوکھی روٹی کھانے کو تیار نہیں۔