اتنی حسین جگہ میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ دیکھنا تو دور کی بات، میں نے تو کبھی اپنے خواب و خیال میں بھی ایسی جگہ نہیں سوچی تھی۔ قدموں کے نیچے ایسا مخمل جیسا سبزہ تھا کہ گمان ہوتا تھا کہ پاوں زمین پر نہیں، ہوا میں ہیں۔ ایسی دلکش وادی اور بہتے ہوئے دودھیا چشمے اور مہکی فضا کہ دل جھوم جھوم اٹھتا تھا،ہوا جیسے مُشک اور عنبر کو چھو کر آرہی تھی،موسم ایسا حسین کہ کیا بیان کیا جائے۔
اچانک خیال آیا کہ دل و دماغ کتنے پر سکوں ہیں، کسی قسم کی کوئی پریشانی تو دور کی بات، کسی دکھ کسی رنج اور کسی مصیبت کاشائبہ تک نہ تھا۔ایسا سکون، ایسا منظر، ایسی دلکشی۔
یا ﷲ یہ کوئی جنت تو نہیں۔ دنیا تو ایسی ہو نہیں سکتی۔ میں کیا واقعی جنت ؟؟؟
پر میں ؟ جنت؟ دل میں خیال آیا اگر جنت میں ہوں تو سوالوں کی بے چینی کیوں؟ جنت میں توکوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔
"تم جنت میں ہی ہو، مگر مکین نہیں ہو” آواز، وہ جادو جگاتی ہوئی آواز، میرا جواب دے گئی۔
میں نے دیکھا ایک انتہائی حسین شخص میرے سامنے موجود ہے، خوبصورت لباس، ہلکا سنہری، روشن وجود ۔
"تمہاری دعا قبول ہوئی ہے، جنت دیکھنے کی، کسی قبولیت کی گھڑی میں” ایسی سریلی آواز جیسے مدھ بھری گھنٹیاں بج رہی ہوں۔
"پہلے کسی قابل ہو تو یہاں کے مکین بنو گے” وہ بندہ نہیں کوئی فرشتہ تھا شاید، یا شاید فرشتوں جیسا۔
"کیا آپ فرشتے ہیں؟” پوچھ ہی لیا میں نے۔
"جنت میں انسان ہی آتے ہیں، فرشتوں کا کوئی امتحان نہیں ہوتا، جنت تو امتحان سے گزرنے والوں کے لیے ہوتی ہے۔ ”
"میں غلمان ہوں، خادم ہوں جنتیوں کا”
"کس کے خادم ہو، کس جنتی کے؟”
"تمہارے ہی ملک کے ہیں، بچے ہیں، ابھی چند دن ہی پہلے آئے ہیں، کچھ ان کی استانیاں ہیں، کچھ اور لوگ بھی ہیں۔جنت میں بڑا استقبال ہوا ہے ان کا، آگے پیچھے ہی آئے ہیں، کل کوئی 145 شہید ہیں ،سب کے سب رشک آور مقام والے۔”
میں چونکا، ایک سو بیالیس، شہید، آگے پیچھے، میرے ملک سے۔
"پشاور سے آئے ہیں، ہیں نا؟” میں نے پوچھا۔ "میری ملاقات کروا دو خدا کے لیے، کسی ایک سے تو کرا دو۔”
میں بے قرار ہو گیا اور اس بے قراری نے مجھے یقین دلا دیا کہ میں جنت کا مکین نہیں ہوں۔
"کون ہو تم؟” ایک اور جھنکار جیسی آواز آئی۔
میں نے مڑ کے دیکھا، ایک نوجوان، باریک سی داڑھی، روشن وجود، بے حد حسین فیروزی سا لباس، بال جیسے موتی ٹپک رہے ہوں، چہرہ ایسا روشن کہ چاند بھی شرماجائے۔اسے چھو کر آنے والی ہوا عطر سے بوجھل تھی ۔
"تم میرے ملک کے ہو، اس لیے ملنے چلا آیا۔ ہماری کوئی چاہت رد نہیں ہوتی یہاں۔”
میں ہکا بکا رہ گیا، جنت کے بعد جنتی دیکھ لیا۔ لگا میری زبان گنگ ہو گئی ہے۔
"میں شہید ہوں، پشاور سکول کا،میں کرسی کے پیچھے چھپا تھا جب قاتل نے پوچھا تھا کون کون فوجی کا بیٹا ہے؟ میں کھڑا ہو گیا، اس نے میرے سینے پہ گولی چلائی اور جس وقت میری جان نکلی، ایسی لطافت ملی مجھے نہ پوچھو۔ میں نے وہ مقام پا لیا جس کی لوگ تمنا کرتے تھے۔ معلوم ہے ہم سب یہاں موجود ہیں، میرے دوست، استاد سب۔ بس گھر والے نہیں ہیں، ماں باپ دنیا ہی میں ہیں ہمارےاور کچھ دوست بھی۔”
اور وہ جو جنت کی آرزو میں اسلام کے نام پر خون بہاتے تھے، ان میں سے کوئی ایک بھی یہاں نہیں، سنا ہے وہ سب جہنم کے کتے قرار پائے ہیں۔”
"ہمارا اتنا وسیع محل ہے، جواہر جڑے ہوئے ہیں، جو مانگو ملتا ہے۔ اتنی عیش، اتنا آرام، نہ کوئی پیاس، نہ بھوک، نہ درد نہ خوف۔” وہ بولتا گیااور میں تو جیسے اپنا آپ ہی بھول گیا تھا۔
"ہمیں کوئی فکر نہیں ہے، اور بھی معصوم لوگ ہیں یہاں جن کا دنیا میں استحصال ہوتا رہا، جنہیں دھتکارا جاتا رہا، ٹھکرائے ہوئےوہ سب لوگ جنہوں نے دنیا میں کسی کا حق نہیں مارا یہاں ہیں۔ پتہ ہے یہاں مینا بازار، پریڈ لین، ڈمہ ڈولہ، مون مارکیٹ اورہر دھماکے اور سانحے کی زد میں آنے والے بھی ہیں، وہ سب جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ کچھ کی تو لاشیں بھی نہیں مل سکی تھیں، لیکن یہاں وہ عیش میں ہیں۔”
"اور وہ جو جنت کی آرزو میں اسلام کے نام پر خون بہاتے تھے، ان میں سے کوئی ایک بھی یہاں نہیں، سنا ہے وہ سب جہنم کے کتے قرار پائے ہیں۔”میری ہوش اڑنے لگے۔ قدم کانپنے لگے۔
غلمان بولا ‘جان لینے والے جہنم میں ہیں نچلے درجوں میں اور یہ معصوم جنت میں، بہت خاص مقام ہے ان کا یہاں، لیکن تم کیا جانو۔تم تو ان معصوموں کی گفتگو برداشت نہیں کر پا رہے۔ ان کا سامنا کرنا مشکل ہے نا؟”میں سوچنے لگا کہ جب وہ سب کچھ جانتا تھاتو پوچھ کیوں رہا تھا؟ شرمندہ کیوں کر رہا تھا۔
"دیکھو، شرمندگی بری شے ہے۔ یہ لوگ تو جنت میں آگئے ہیں، نیّا پار لگ گئی ہے ان کی۔ اپنا سوچو۔ ابھی تو ان معصوموں نے گریبان نہیں پکڑا تمہارا۔ کیا حال ہو گا تمہارا اگر؟؟؟” غلمان بولا۔
میں نے ایک نظر اٹھا کر نوجوان کو دیکھنا چاہا۔ جب کمینے گولیاں مار رہے تھے تو کلمے کس منہ سے پڑھ وارہا تھے ان بچوں کو؟ لیکن میں تو قاتل نہیں ہوں، نہ مدد کی کبھی قاتلوں کی، میرا یہ حال کیوں؟ ان کا کیا حال ہوگا جنہوں نے اسلام کے نام پر گلے کاٹے، سروں سے فٹ بال کھیلی اور اعلانیہ قبول کیا، مبارکبادیں دیں اوراور کلمہ والےجھنڈے لہراتے ہوئےنہتے اور معصوم مارڈالے، کیا یہ گستاخی نہیں ہے؟ میں کیوں ملزم محسوس کر رہا ہوں اپنے آپ کو؟
"تم نے کیا کیا ہمارے لیے؟” نوجوان نے پوچھا۔
"میں ۔۔ میں۔۔ وہ میں رویا تھا، میں نے لبرٹی گول چکر پر شمع جلائی تھی، نعرے لگوائے تھے”طالبان کے حامی سب حرامی” کب آواز اٹھأو گے، جب گھر سے لاش اٹھاو گے” میں نےلوگوں کو کہا تھا کہ اب گھروں سے نکلو۔ میں نے فیس بک پر اپنی ڈی پی تبدیل کی تھی، ٹویٹر پر ٹرینڈ بنایا” ہمت جمع کر کے میں نے اپنے احسانات گنوا ہی دیے۔
ان کا کیا حال ہوگا جنہوں نے اسلام کے نام پر گلے کاٹے، سروں سے فٹ بال کھیلی اور اعلانیہ قبول کیا، مبارکبادیں دیں اوراور کلمہ والےجھنڈے لہراتے ہوئےنہتے اور معصوم مارڈالے، کیا یہ گستاخی نہیں ہے؟
"میں نے فیس بک پر بچوں کی لاشوں کی تصاویر شیئر کی تھیں اپنے دوستوں کے ساتھ، بہت لائیکس(Likes) ملے تھے انہیں۔ میں نے سب کو بتایا تھا کہ میں کس قدر افسردہ تھااس واقعے پر، کمنٹس بھی کیے تھے دوستوں نے۔” میں نے اور ہمت پکڑلی، آخر یہ بھی بہت تھا۔
"اور تم خوش ہوئے کہ اتنے لائیکس ملے تمہاری کسی پوسٹ کو، نعرے لگائے تاکہ لوگوں کو بتا سکو کہ تم ایک سوشل ایکٹیوسٹ ہو، اور جب کوئی اور نعرے مارتا تھا تو منہ بنا لیتے تھے کہ آیا بڑالیڈر، تمہاری سوچ میں خود نمائی تھی اور محنت اکارت۔” نوجوان نے مجھےلا جواب کر دیا۔ پہلے پہل تو سب کو افسوس تھا، پھر سب اپنی اپنی غرض کا شکار ہوتے گئے۔”
"ان جنتیوں کو یہ سب کیسے پتہ ہے؟” میں نے دل میں سوچا۔
اﷲ ہم تک خبر پہنچا دیتا ہے۔” میں سوچتا تھا اور جواب حاضر تھا۔
"کتنے لوگ پشاور آئے تھے ہمارے گھر والوں کو پرسہ دینے؟ کتنے لوگوں نے ہمارے قاتلوں کے وکیلوں کوگریبانوں سے پکڑا؟ کتنے لوگوں نے ان پالیسی سازوں سے باز پرس کی جنہوں نے قاتلوں کو دفتر اور وزارتوں کی پیشکش کی تھی؟ کیا ان میں سے کسی نے معذرت کی؟ تم لاہور سے ہو ناں، بادشاہی مسجد میں ہماری غائبانہ نماز جنازہ میں آدھا صحن خالی کیوں تھا، وہاں تو پورا لاہور امڈ آنا نہیں چاہیے تھا ؟ ایک آدھ ملین مارچ تو دور کی بات ہے، تم لوگ تو اگلے دن کرکٹ میچ کے مزے لے رہے تھے ۔ کیا یہ کم سانحہ تھا جو تم نے دیکھا تھا؟ کیا بے حسی ختم نہیں ہونے چایئے تھی؟ ہمارے والدین کے آنسو کتنے ہم وطنوں نے پونچھنے کی کوشش کی؟”
میں پھر سے سٹپٹا گیا۔
"لیکن سارے سیاستدان اکھٹے ہوئے، اچھے اور برے طالبان کی بک بک ختم ہو ئی، دھرنا اٹھ گیا ، عام لوگ بھی نکلے تھے گھر سے۔ میں نے خود شاپنگ پہ آئے لوگوں کو نعرے لگوائے تھے، میرے دوست نے کہا اس کو پندرہ سال بعد پتا چلا کہ قاتل قاتل ہے مجاہد نہیں۔ دیکھو ہم اتنے برے نہیں ہیں۔ ”
لیکن نوجوان کو یہ کارہائے نمایاں شاید کم لگے تھے۔ میں سوچنے لگا اور کیا کام گنواوں۔
ہاں رانی مکھر جی اور انوپم کھیر کے ٹویٹس، میڈونا بھی تو افسردہ تھی۔ ہاں ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ کتنی موم بتیاں جلی تھیں، اور اور وہ سیکیورٹی کے انتظامات، پھانسیاں، اورمذمتی بیانات۔
” دیکھو تمہارے جانے کا وقت ہو گیا ہے، میں خادم ہوں جنتیوں کا، بس ایک بات واضح کر دوں، تمہاری ملک کے یہ شہید جنت کے اعلیٰ ترین مقامات پر ہیں۔ ان کے چند سوال تو برداشت کر نہیں پائے تم۔ ان کے اور ہزاروں پاکستانی شہیدوں کے ہاتھ گریبانوں پر کیسے برداشت کریں گے تمہارے ملک کے پالیسی ساز اور قاتلوں کے وکیل جو سیاست اور صحافت میں قوم کو الجھائے رکھے ہوئے تھے؟ جواب سوچ کے رکھنا۔” غلمان بولا۔
کتنے لوگ پشاور آئے تھے ہمارے گھر والوں کو پرسہ دینے؟ کتنے لوگوں نے ہمارے قاتلوں کے وکیلوں کوگریبانوں سے پکڑا؟ کتنے لوگوں نے ان پالیسی سازوں سے باز پرس کی جنہوں نے قاتلوں کو دفتر اور وزارتوں کی پیشکش کی تھی؟
میں ساری دلکشی بھول گیا تھا جنت کی، پانی پانی ہو رہا تھا، اپنے تئیں بڑے تیر چلا بیٹھا تھا پشاور سانحے کے لئے، لیکن سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ شاید سچ کہہ رہا ہے جنتی، ہم نے کیا کیا ان کے لیے؟ پاکستانی کیا واقعی بے حس ہیں؟
اوریہ کیا ہونے لگا اچانک؟یہ دھندلاپن کیسے چھانے لگا ہے، مجھ پر۔
میں قلابازیاں سی کھانے لگا، قدم اکھڑنے لگے۔ میرا وجود لڑکھڑانے لگا۔
اچانک کسی کا ہاتھ میری ہاتھ میں آیا۔ لگا جیسےکسی کٹی پتنگ کی ڈور تھام لی کسی نے،وہ ہاتھ اسی شہید نوجوان کا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا؛
"تم جانے والے ہو جنت سے، چند ہی لمحات میں، ایک بات بتاوں؟ جب میرے سینے پہ گولی چلائی تھی ظالم نے، تومعلوم ہے میرے آخری الفاظ کیا تھے مرنے سے پہلے؟’ میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
"میں نے کہا تھا میں یہ سب جا کر اپنے ﷲ کو بتائوں گا”
‘اور میں سب کچھ بتا چکا ہوں۔ بتا دو میرے ملک کے لوگوں کوکہ اﷲ نے ہماری بات سن لی ہے۔”
ایک جھپاکا سا ہوا۔ سب غائب ہو گیا، جنت، سبزہ، موسم اور اور جنتی بھی۔میں تھا، میرا بھیگا وجود اور میرا تر بتر بستر اور اندھیرا کمرہ۔میں بھاگا، ایک پاوں میں چپل، دوسرا خالی، میرے احساس کی طرح۔ سیڑھیاں اتر کر آیا، پانی پیا، پتہ نہیں کتنے گلاس پی ڈالے۔
"خواب تھا شاید۔ رات کو بہت دیر سے سونے لگا ہوں آج کل، نیند خراب ہو تو ذہن خیالی دنیا بنا لیتا ہے۔ عجب دیوانہ پن ہے۔”یہ سوچتے سوچتے باہر گیراج میں گیا۔ اخبار میں خبر چھپی تھی ایک سیاستدان کی شادی، پٹرول کا بحران، لمبی لائنیں، ایک مذہبی جماعت کے مولانا کا حکومت سے الگ ہونے کا امکان، دھاندلی، باقی وہی آشنا کے ساتھ بھاگی ایک خاتون، ساس اور بہو کی لڑائی، دنیا کس قدرجلدمعمول پر آ چکی ہے ۔ پتہ نہیں میں بھی کیا کیا دیکھتا ریتا ہوں خواب میں۔ بیوی پہلے ہی نفسیاتی مریض سمجھتی ہے مجھے۔ توبہ ہے یار۔لیکن ایک خبر نے مجھے جکڑلیا۔
ایک جھپاکا سا ہوا۔ سب غائب ہو گیا، جنت، سبزہ، موسم اور اور جنتی بھی۔میں تھا، میرا بھیگا وجود اور میرا تر بتر بستر اور اندھیرا کمرہ۔میں بھاگا، ایک پاوں میں چپل، دوسرا خالی، میرے احساس کی طرح۔
” شہدا کے والدین کا بچوں کے چہلم پہ احتجاج، کئی واپس چلے گئے، ہمادی توہین کی گئی شہدا کے والدین کا بیان۔”
میں پھر سے پریشان ہو گیا۔”تم نے کیا کیا ہمارے لیے؟’ یہ جملہ گھیرنے لگا میری سوچ کو۔ "تم نے کیا کیا ہمارے لیے؟”
کیا وہ سچا خواب تھا؟ کیا واقعی بچوں نےاﷲکو شکایت لگا دی ہے، اور کس کس کی لگائی ہے؟میں کہیں پاگل تو نہیں ہو رہا۔
"بابا ، آپ نے یہ خوشبو کون سی لگائی ہے؟ میری آنکھ کھل گئی ہے، اتنی اچھی خوشبو، سارے گھر میں ہے، چاچی، چاچا، دادی، ماما، بھائی، پنڈی سے آئے انکل بھی خوشبو سے جاگ گئے ہیں۔” میری بیٹی مجھ سے مخاطب تھی، اس نے تو شک کی ساری دیوار گرا دی۔
خوشبو میرے ہاتھ سے آرہی تھی، یہی تو تھا جس کو تھاما تھا جنتی نے۔ میں نے سچ میں شہید طالب علم سے ملاقات کی تھی۔
"ابھی سب کو خواب سناتا ہوں، سب کتنے متاثر ہوں گے، آخر پچھلے رمضان میں قرآن ختم کیا تھا، اچھا بھلا نیک ہوں میں، سارے خاندان میں مشہوری، واہ گریٹ۔”میں موڈ بدلنے میں مہارت لیتا جا رہا ہوں۔ اب پھر سے خوش۔
میں نے ہاتھ سونگھا، یہ کیا ؟ خوشبو کہاں گئی۔ اپنے ہاتھ ٹٹولے۔ جنتی نے تھامے تھے، اور اس کے آخری الفاظ تھے۔ "اﷲنے ہماری بار سن لی ہے۔”
یہ الفاظ ڈینگیں مارنے کے لیئے نہیں تھے، اسی لیے خوشبو روٹھ گئی تھی۔ میرا موڈ پھر بدل چکا تھا، اب کی بار خوف اور صرف خوف۔ شکایت لگ گئی ہے، کہیں میرا نام نہ ہو اس میں؟
میری بیوی صحیح کہتی ہے، میں نفسیاتی مریض ہوتا جا رہا ہوں۔

Leave a Reply