Laaltain

البتراء

29 جنوری, 2018
Picture of افتخار بخاری

افتخار بخاری

کتنے سمُندر
کتنے صحرا
جنگل اور بارشیں
بے شمار آئینوں کا خالی پن
لمحے یا صدیاں
عبور کر کے
داخل ہوئی
میری تنہائی
تیری تنہائی میں

اے شہر گلِ سرخ !
اے عظیم خوب صورت پتّھر !
مجھے خزانے سے
کوئی سروکار نہیں
جہاں کھونٹے سے بندھا
لال گھوڑا
تئیس سو برس
کی بے خوابی میں
ایستادہ ہے

مجھے فقط تیری اداس رات کا
ایک کونا درکار ہے
کہ میری خاموشی
تیری خاموشی سے کلام کرے

میرے پاس افسوس کی کہانی ہے
جسے سن کر، قدیم چاند،
ریت کے آنسو بہائے گا
کہ تیرے ماتمی گلاب سیراب ہوں

اڑتے زمانوں کی دھجّیاں
گم شدہ عمروں کی رائگانی
تاریخ کی منافق الماریوں میں
لٹکتے اِستخواں
مجھے امانت دار پائیں گے

برباد دیواروں کی خراشوں سے
جھانکتا انہماک نہیں ٹوٹے گا

اے گلاب شہر !
میں بے زبان قصّہ گو
ایک شب بسری کا سوالی ہوں
تیرے سنگین دروازے پر

میں تجھے تیرے جیسا
اپنا دل ہدیّـہ کروں گا،
پتّھر کا گلاب

تجھے خاموش داستان سناؤں گا
کسی بہت قدیم زمانے کی
گناہ گار خدائوں سے دور
خالص عبادت گذار اندھیرے میں
صبحِ ابد کے آخری قہقہے سے بے نیاز

ہمارے لیے لکھیں۔