Laaltain

اقلیتوں سے خوف زدہ اکثریتیں

13 جون، 2015
Picture of توصیف احمد

توصیف احمد

میرے لیے ہمیشہ سے یہ بات ایک معمہ رہی تھی کہ کیوں کر نازی جرمنی میں ایک اکثریت ایک اقلیت (یہودیوں) سے اس قدر متنفر ہو ئی کہ ان کی نسل کشی کو جائز تصور کرنے لگی۔ میرے اس سوال کا جواب تب ملا جب میں اپنے ملک کی اقلیتوں کے احوال سے واقف ہوا۔ احمدی، عیسائی، ہندو، شیعہ، بلوچ، ہم جنس پرست کون ہے جسے یہاں ریاست اور معاشرے کی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا نہیں اور کون ہے جسے یہاں قتل عام کا سامنا نہیں۔ ایک طرف جہاں یورپ میں مسلمان اسلاموفوبیا کا شکار ہیں تو وہیں مسلم ممالک میں اقلیتیں بدترین استحصال، امتیازی سلوک ، نفرت اور تشدد کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں جو سلوک احمدیوں اور بلوچوں سے روا رکھا جارہا ہے وہی برما میں روہنگیا مسلمانوں سے برتا جارہا ہے کہیں احمدی ہونا جرم ہے، کہیں مسلمان ہونا دہشت گرد ہونا ہے، کہیں عورت ہونا منع ہے اور کہیں محض انسان ہونا
پاکستان میں جو سلوک احمدیوں اور بلوچوں سے روا رکھا جارہا ہے وہی برما میں روہنگیا مسلمانوں سے برتا جارہا ہے کہیں احمدی ہونا جرم ہے، کہیں مسلمان ہونا دہشت گرد ہونا ہے، کہیں عورت ہونا منع ہے اور کہیں محض انسان ہونا ۔ مذہبی بنیادوں پر ایک اکثریت ایک معمولی اقلیت کے خلاف صف آراء ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ اور ریاست تشکیل نہیں دے سکے جس میں تمام مذاہب اور لسانی شناختوں کے افراد مل کر رہ سکیں۔ ہندوستان، پاکستان اور برما میں اکثریت اقلیت سے خوف زدہ اور متنفر ہے۔ ان سے میل جول رکھنا، شادی بیاہ کرنا، آپس میں مل بیٹھ کر کھانا پینا اور سلام دعا رکھنا تک گوار نہیں کیا جاتا۔
ہمارے ہاں احمدیوں، بلوچوں، عیسائیوں اور ہندووں کو شک، نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہی رویہ برما اور ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ہے۔ ہر جگہ اقلیتوں کو شک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ دوسری جنگ عظیم کی طرح پاکستان، ہندوستان یا برما میں ریاستی یا معاشرتی سطح پر ان اقلیتوں کے لیے ویسے سخت قوانین ترتیب نہیں دیے گئے جیسے دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے یہودیوں کے لیے بنائے تھے اور نہ ہی اس بڑے پیمانے پر نسل کشی کی جارہی ہے لیکن کیا ریاست اور معاشرہ ان اقلیتوں کو قبول کر تے ہیں؟ نہیں۔
ہم اس قدر ناسمجھ کیوں ہوگئے ہیں کہ محض چند سو، چند ہزار یاچند لاکھ احمدیوں، روہنگیا مسلمانوں یا یہودیوں کو اپنی معاشی و سیاسی بدحال کا ذمہ دار قرار دے کر ان سے انتقام لینے چڑھ دورتے ہیں
معاشرہ اور ریاست دونوں اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں کے لیے سنگدلی، مجرمانہ غفلت اور تعصب پر مبنی قانون سازی اور معاشرتی مقاطعہ کے ذریعے اقلیتوں کی زندگی مشکل بناتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے اور یہ درس دیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ میل جول نہ رکھا جائے۔ ہمارے ہاں جس طرح احمدیوں کے خلاف نفرت کا کھلا عام پرچار کیا جارہا ہے ویسا ہی تعصب روہنگیا مسلمانوں کے لیے برما میں ہے اور انہیں ریاست اور معاشرے سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک اکثریت کا ایک اقلیت سے خوف زدہ ہونا اور اسے اپنا دشمن تصور کرلینا کسی بھی طرح صحت مند رویہ نہیں اور دنیا میں ایسا کبھی ہوتا نہ دیکھا نہ سنا۔ ہم کیوں خوفزدہ ہیں کہ ہمارے ہاں بسنے والی اقلیتیں ہمیں بھٹکا سکتی ہیں، ہم کیوں شکی ہو گئے ہیں کہ ہمیں مخصوص مذہب یا لسانی شناخت کا حامل ہر فرد دشمن ملک کا جاسوس اور ایجنٹ دکھائی دیتا ہے اور ہم اس قدر ناسمجھ کیوں ہوگئے ہیں کہ محض چند سو، چند ہزار یاچند لاکھ احمدیوں، روہنگیا مسلمانوں یا یہودیوں کو اپنی معاشی و سیاسی بدحال کا ذمہ دار قرار دے کر ان سے انتقام لینے چڑھ دورتے ہیں۔
دنیا میں یقیناً ہر خطے، زبان، مذہب اور لسانی شناخت کے لوگوں میں اچھے برے لوگ موجود ہیں لیکن ان لوگوں کو وجہ بنا کر پوری کمیونٹی یا برادری کو نفرت، تعصب اور انتقام کا نشانہ بنانا یقیناً ظلم ہے اور اس ظلم کو روکنے کی ذمہ داری اقلیت کی بجائے اکثریت کی نمائندہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اقلیت کا تحفظ اکثریت کی ذمہ داری ہے۔ یہ پاکستانی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ احمدیوں، عیسائیوں اور ہندووں کی حفاظت کریں اور یہ برما کی بدھ اکثریت کا فرض ہے کہ وہ روہنگیا برادری کو ظلم سے بچائیں ۔
اگر ہم روہنگیا مسلمانوں کو ظلم سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ پاکستانی احمدیوں، عیسائیوں، ہندووں اور بلوچوں کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے سے شروع ہوگا وگرنہ ہم کسی بھی اقلیت کی حمایت کا حق کھو بیٹھیں گے
اکثریت کا اقلیت کے خلاف تعصب اور نفرت کا اظہار یقیناً جمہوری نظام اور اقدار کو پھلنے پھولنے نہ دینے کی وجہ سے ہے۔ ایسے معاشرے جو جمہوریت کو برابری اور مساوات کی بجائے اکثریت اور اقلیت کی تفریق کا نظام سمجھتے ہیں، جہاں مذہب اور ریاست یکجا ہوں، جہاں فوج سیاست میں دخیل ہو اور جہاں اشرافیہ غرباء کااستحصال کرے وہاں اکثریت اقلیت کو دشمن سمجھتی ہے ۔ یہ معاشرے اور ریاست کی ناکامی ہے کہ وہ برما، پاکستان اور ہندوستان میں جمہوریت کو سب طبقات ، مذاہب اور لسانی گروہوں کا نمائندہ نظام نہیں بنا سکے۔ ہم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینے کے باوجود ایسا نہیں کر سکے۔اگر ہم روہنگیا مسلمانوں کو ظلم سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ پاکستانی احمدیوں، عیسائیوں، ہندووں اور بلوچوں کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے سے شروع ہوگا وگرنہ ہم کسی بھی اقلیت کی حمایت کا حق کھو بیٹھیں گے۔

تبصرے

  1. یہ بات اگر راقم الحروف کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اکثریت کو اقلیت سے کیا نقصان ہو سکتا ہے تو اسے ذرا سا مطالعہ تاریخ کا کر لینا چاہیےکہ چھبیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی خلافت اسلامیہ جو کہ اسوقت دنیا کی سب سے عظیم الشان اور طاقتور ترین سلطنت تھی اس کا مطلق العنان فرمانروا محض چھبیس سو سے تین ہزار منافقین کے ہاتھوں چالیس روز تک بھوکا پیاسا محصور رہ کر بالآخر انتہائی سفاکی اور بربریت کے مظاہرے کیساتھ شہید کر دیا گیا۔ مزید آج کے حالات کو ایک اندھا بھی خوب اچھی طرح دیکھ سکتا ہے کہ دنیا کی سات ارب سے کم وبیش آبادی محض اےک سے سوا کروڑ یہودیوں کے ہاتھوں کس طرح کھلونا بنی ہوئی ہے اور وہ اپنی مکاریوں سے کیا کیا چالیں چل رہے ہیں، کیا یہ کسی کو نہیں معلوم؟ اور پاکستان میں کیا ہورہا ہےاس کے تناظر میں اگر اس مضمون کو دیکھا جائے تو پھر تو فاضل مصنف کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تبصرے

  1. یہ بات اگر راقم الحروف کی سمجھ میں نہیں آتی کہ اکثریت کو اقلیت سے کیا نقصان ہو سکتا ہے تو اسے ذرا سا مطالعہ تاریخ کا کر لینا چاہیےکہ چھبیس لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی خلافت اسلامیہ جو کہ اسوقت دنیا کی سب سے عظیم الشان اور طاقتور ترین سلطنت تھی اس کا مطلق العنان فرمانروا محض چھبیس سو سے تین ہزار منافقین کے ہاتھوں چالیس روز تک بھوکا پیاسا محصور رہ کر بالآخر انتہائی سفاکی اور بربریت کے مظاہرے کیساتھ شہید کر دیا گیا۔ مزید آج کے حالات کو ایک اندھا بھی خوب اچھی طرح دیکھ سکتا ہے کہ دنیا کی سات ارب سے کم وبیش آبادی محض اےک سے سوا کروڑ یہودیوں کے ہاتھوں کس طرح کھلونا بنی ہوئی ہے اور وہ اپنی مکاریوں سے کیا کیا چالیں چل رہے ہیں، کیا یہ کسی کو نہیں معلوم؟ اور پاکستان میں کیا ہورہا ہےاس کے تناظر میں اگر اس مضمون کو دیکھا جائے تو پھر تو فاضل مصنف کی عقل پر ماتم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *