32 سالہ ولی خاں اور اس کے تین بھائیوں کی پیدائش یوں تو پاکستان میں ہوئی ہے تاہم اس کے دادا، پڑدادا کا تعلق افغانستان سے ہے جو 70 کی دہائی سے قبل پاکستان کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان آ کر آباد ہو گئے۔ولی خاں کے والد سلیم خاں نے بھٹو دور میں پاکستان کی شہریت حاصل کی اور واپس افغانستان نہ جانے کا ارادہ کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی اپنی باقی کی جمع پونجی سے ایک مکان خرید کر مستقل سکونت اختیار کی۔ہجرت کر کے آنے والے اس خاندان نے حالات کی سختی کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا اور روزگار کی تلاش میں جنوبی پنجاب کے علاقوں کا رخ کیا۔

مالی پریشانی ایک بڑا مسئلہ تھا لہذا کام کرنے کی غرض سے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور بالاآخر ساہیوال ڈویژن میں پہلے سے موجود چند افغان بھائیوں کی مدد سے یہاں پشاوری قہوہ اور چائے پتی کی فروخت کا کام کیا تاکہ مالی حالات کچھ بہتر ہو سکیں۔مقامی لوگوں کی پسند کی وجہ سے ساہیوال اور اوکاڑہ کے علاقوں میں ان کی چائے پتی کی مانگ بڑھنے لگی اور یوں ان کا کاروبار چمک اٹھا۔ منافع کی رقم سے انہوں نے جلد ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل کا آغاز کیا۔

ولی خاں اور اس کے تین بھائی اب اس ہوٹل کو چلا رہے ہیں جبکہ سلیم خاں گھٹنوں کے عارضہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی رہتے ہیں۔آج کل افغان شہریوں کے شناختی کارڈز کی تصدیق اور انہیں اپنے ملک واپس بھیجنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس میں چالیس، پچاس سال سے سکونت اختیار کیے اور پاکستانی شہریت کے حامل افغانیوں کو بھی کڑی جانچ پڑتال کا سامنا ہو گا۔

اس حوالے سے ولی خاں نے بتایا کہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا انہیں سانحہ پشاور پر بھی کرنا پڑا تھا اور شناختی کارڈ کی تصدیق کے علاوہ پوچھ گچھ کے چکروں میں کئی کئی دن تھانوں کے چکر بھی لگانا پڑے تھے۔

ولی خاں کا کہنا ہے کہ جو لوگ یہاں پاکستان بننے کے وقت سے رہ رہے ہیں انہیں بھی یہاں کا شہری نہیں سمجھا جاتا اور مقامی لوگوں سمیت حکومت انہیں غیر ملکی سمجھتی ہے حالانکہ ان کے پاس یہاں کی شہریت ہے۔

"اگر حکومت پاکستان چھوڑنے کا کہتی ہے تو ہمارا گھر، کاروبار سب یہیں ہے۔ یہ سب چھوڑ کر ہم کہاں جائیں۔”

افغانستان چھوڑ کر پاکستان آنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں دو وجوہ نے انہیں وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ ایک زراعت کے لیے پانی کی کمی اور دوسرا بد امنی۔

"وہاں زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا مگر بارشوں کی کمی اور چشموں کا پانی سوکھ جانے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ تباہ ہو گیا۔”

انہوں نے مزید بتایا کہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے دوسرا انتخاب کاروبار تھا مگر امن و امان کی بگڑتی صورتحال سے نوبت یہاں تک آپہنچی تھی کہ افغان تاجر کے شام کو گھر زندہ لوٹنے کی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی تھی۔
"ایسی صورتحال میں ہم نے پاکستان کا رخ کیا اور یہاں کی شہریت حاصل کی۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے ہم اپنے دوسرے گھر آ گئے ہوں۔”

پاکستان آنے کے سوال پر ولی خاں کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ ملنسار ہیں۔ کاروبار کے بہتر مواقع ہیں اور ان کے لوگ ورکنگ ویزہ پر اکثر و بیشتر کام کی غرض سے یہاں آتے رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اگر پاکستانی حکومت افغانوں کو واپس بھیجنے کا سوچ رہی ہے تو نا گزیر حالات کے باعث وہ کم از کم افغانستان تو نہیں جائیں گے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایران، بھارت یا کسی دوسرے ملک کا رخ کر لیں لیکن انہیں پاکستان سے نکالے جانے کا دکھ ہمیشہ رہے گا۔

"ہم جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں بھی ہمارے لیے حالات سخت ہوں گے اور ہمیں پاکستان جیسا روزگار نہیں ملے گا۔ وہاں ہمارے لیے کھیت مزدور اورراج گیری جیسے کام ہیں۔”

اک سرد آہ بھرتے ہوئے ولی خاں نے کہا کہ بگڑتے حالات کی وجہ سے اب یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ افغان باشندوں کا کوئی ملک نہیں ہے تاہم وہ سفر کرتے رہیں گے جبکہ تک ان کے کندھوں پر ان کے خاندان کی ذمہ داری ہے۔

یاد رہے کہ دنیا بھر میں اس وقت تارکین وطن اور مہاجرین کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغان باشندوں کی ایک بہت بڑی تعدادہر برس بیرون ملک مہاجرت اختیار کرتی ہے اور ان کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان میں مقیم ہے۔ پاکستان میں مقیم افغانوں کی زیاہ تر تعداد افغان جنگ کے دوران یہاں آئی تھی۔ دہشت گردی کے حالیہ حملوں کے بعد افغان باشندوں کے خلاف پاکستان میں نفرت بڑھی ہے اور حکومت کی جانب سے ان کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

Leave a Reply